ایك دوسرا واقعہ
صاحب تاریخ مكہ كھتے ھیں كہ شریف محمد بن عبداللہ كے زمانہ1143ھ میں شیعوں پر ایك اور مصیبت آپڑی، جوھماری نظر میں مسلمانوں كی ان مصیبتوں میں سے ھیں جن كی وجہ سے مسلمان آگ میںجل رھے ھیں اور جس كی بناپر مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ هو رھا ھے۔
گذشتہ سال شیعہ حاجیوں كے قافلے بعض وجوھات كی بنا پر حج كے ایام كے بعد مكہ پهونچے، اورمجبورا ً اگلے سال یعنی1144ھ كے حج كے زمانہ تك وہ وھاں ركے رھے تاكہ حج كركے ھی واپس جائیں، (اس مدت میں) بعض عوام الناس نے یہ وھم كیا كہ شیعوں نے خانہ كعبہ كو گندا كیا ھے لہٰذا ان پر حملہ كردیا اور عوام الناس كے حملہ كی وجہ سے پولیس نے بھی حملہ كیا، اور سب ساتھ میں قاضی كے گھر پر پهونچے، فتنہ گروں كی بھیڑ كو دیكھ كر قاضی صاحب اپنے گھر سے فرار هوگئے كہ كھیں یہ بھیڑ مجھ پر بھی حملہ نہ كردے، اس كے بعد وھاں كے مفتی كے گھر پر پهونچے اور اس كو گھر سے باھر نكال لیا اسی طرح دوسرے علماء كو ان كے گھروں سے نكال كر وزیر كے پاس لے گئے اور اس سے درخواست كی كہ آپ فیصلہ كریں، جب كہ یہ بھی معلوم نھیں تھا كہ فیصلہ كا مد مقابل كون ھے؟مذكورہ وزیر نے یہ حكم صادر كردیا كہ مذكورہ شیعوں كو مكہ معظمہ سے باھر نكال دیا جائے، اور اس كے بعد اس بازار میں آئے، جھاں پر شیعہ مقیم تھے اور ان كو نكالنے اور ان كے گھروں كو ویران كرنے كا شور كرنے لگے، اور دوسرے روز امیر مكہ كے پاس گئے تاكہ وہ شیعوں كے بارے میں مذكورہ وزیر كے حكم كی تائید كرے، پھلے تو امیر مكہ نے اس كام سے پرھیز كیا لیكن عوام الناس كے فتنہ وفساد كے ڈر سے مذكورہ حكم كی تائید كردی۔
ان شیعوں میں سے بعض لوگ طائف اور بعض لوگ جدّہ چلے گئے تاكہ فتنہ وفساد خاموش هوجائے، ادھر فتنہ وفساد پھیلانے والے سرغنوں كو گرفتار كر لیاگیا، اورپھر شیعوں كو اجازت دی گئی كہ وہ مكہ میں لوٹ آئیں ۔
سید دحلان صاحب تاریخ رضی سے نقل كرتے ھیں كہ مذكورہ واقعہ میں جو كچھ بھی هوا وہ سب كچھ متعصب بدمعاشوں اور عثمانی تُركوں كا كام تھا اور اھل مكہ اس كام سے راضی نھیں تھے، اور عوام كی یھی نادانی ھمیشہ سے مسلمانوں كے درمیان اختلاف اور تفرقہ كا باعث بنی ھے۔
ان حادثات كی اصل وجہ
حكومت صفویہ كے آغاز سے ایران اور عثمانی حكومت كے درمیان هوئی جنگوں كی چھان بیناور تحقیق كے نتائج سے اس روش اور طریقہ كا پتہ چلتا ھے جو عثمانی علماء نے ایران كے مقابلہ میں اختیاركر ركھی تھی، كیونكہ وہ لوگ دشمنی میں ایرانیوں پر كسی بھی طرح كی تھمت لگانے سے پرھیز نھیں كرتے تھے، یھاں تك كہ ایران سے هونے والی جنگ كو جھاد كا درجہ دیتے تھے، اورایرانی شیعوں كے قتل كو مباح اور جائز جانتے تھے بلكہ غیر شیعہ ایرانیوں كے بارے میں بھی ان كا یھی نظریہ تھا اور ان كو اسیر كرنے، ان كی عورتوں اور بچوں كو فروخت كرنے كے بارے میں فتویٰ دیتے رھتے تھے۔
شاہ اسماعیل،حكومتِ صفوی كے بانی كے زمانہ میں جب عثمانیوں اور ایرانیوں كے درمیان جنگ وغیرہ هوتی رھتی تھی تو اس وقت عثمانی علماء اپنی مساجد میں دعا كے لئے جلسہ ركھتے تھے اور شاہ اسماعیل پر لعنت كرتے تھے۔
عثمانی موٴلف ”ابن طولون” شاہ اسماعیل اور سلطان سلیم عثمانی كے ھم عصر بھی ھیں، كھتے ھیں كہ923ھ میںھم 360 قاریوں كے ساتھ مسجد اموی دمشق (جو عثمانیوں كے تحت اثر تھی) میںچالیس دن تك سورہٴ انعام كی تلاوت كیاكرتے تھے، اور جب اللہ كے دو ناموں كے درمیان پهونچتے تھے تو صوفی اسماعیل (مراد شاہ اسماعیل ھے) پر لعنت كیا كرتے تھے۔
اس كے بعد قاھرہ كے آٹھ علاقوں مثلاً مقبرہ شافعی، لیث، سیدة نفیسہ، شیخ عمر بن فارض،ابو الحسن دینوری، شیخ ابو الخیر كلیباتی،مقیاس، جامع الازھر میں سلطان سلیم كی كامیابی كے لئے قرآن مجیدختم كیاكرتے تھے ۔
اور جب شاہ اسماعیل پر بدد عا كرنے اور سلطان سلیم كی كامیابی كے دعا كرنے سے كوئی نتیجہ نہ نكلا، تو اپنے مقاصد كے پیش نظر ایران كو دار الحرب هونے كا اعلان كردیا، اور اس كام سے عثمانی سپاھیوں كو صفویہ بادشاهوں سے لڑنے كا جذبہ اور لالچ بڑھ گیا، اسی زمانہ میں سلطان سلیم نے اپنے علماء سے ایك فتویٰ لیا جس میں یہ بات تحریر تھی كہ شرعی لحاظ سے شاہ اسماعیل كا قتل جائز ھے، كے علاوہ خود سلطان سلیم نے اپنے ایك خط كے میں جواس نے تبریز سے لكھا اور ایران پر حملے اور شاہ اسماعیل كو قتل كرنے كے بارے میں تھا ،لكھا كہ ھم نے مشهور فقھاء اور علماء كو دعوت دی اور ان سے شاہ اسماعیل سے جنگ كے بارے میں فتویٰ لیا، سبھی فقھاء اورعلماء نے فتویٰ دیاھے كہ جو شخص بھی اس كے سپاھیوں (یعنی شاہ اسماعیل كے سپاھیوں) كے مقابلہ میں كوشش كرے تو اس كی یہ سعی و كوشش مشكور ھے اور ان كے مقابلہ میں جھاد كرے تو اس كا یہ عمل مبرور ھے، كیونكہ علماء نے ان كے كفر، الحاد اور ارتداد كا فتویٰ صادر كیاھے۔
شاہ تھماسب صفوی اپنے تذكرہ میں اس بات كی طرف اس طرح اشارہ كرتے هوئے كھتے ھیں كہ ھم نے سیادت پناہ امیر شمس الدین كو ایلچی بنا كر استانبول بھیجا تاكہ رستم پاشا اور وھاں كے دیگر سرداروں سے گفتگو كرےں، لیكن تمام علمائے روم نے فتویٰ دیدیا كہ ایران كے تمام لوگوں
كی جان ومال حلال ھے چاھے وہ سپاہ هو، یا عوام الناس، مسلمان هو یا یهودی اور ارمنی، اور ان سے جنگ كرنا ”غزّ“ ھے۔
ھم نے كھا یہ فتویٰ تو بھت اچھا ھے !! ھم تو نماز وروزہ اور حج وزكات اور دیگر ضروریات دین كو قبول كرتے ھیں اور ان پر عمل كرتے ھیں، لیكن پھر بھی یہ لوگ ھمیں كافر كھتے ھیں، خدا یا توھی ان كے اور ھمارے درمیان فیصلہ كر۔
ہ سلسلہ نادر شاہ افشار كے زمانہ تك جاری رھا، اور اس سوال كی تحریر جو افغانیوںكے ایران پر حملے كے بعد شیخ عبد اللہ مفتی قسطنطنیہ سے1135ھ میں اسلامبولی تركی زبان میں لیا گیا تھا، اور اس كے جواب میں دیا گیا فتویٰ بھی موجود ھے۔
مذكورہ فتوے كا خلاصہ یہ ھے كہ ایران دار الحرب ھے اور وھاں رہنے والے افراد مرتد ھیں۔
ہ فتویٰ اس وقت كا ھے كہ جب ایران پر محمود افغان فرمانروائی كررھا تھا اور حالات بھت خراب تھے، عثمانی بادشاہ نے اپنے مقاصد میںكامیاب هوجانے كے لئے اس وقت كو غنیمت سمجھ كر ایران پر حملہ كے لئے ایك عظیم لشكر روانہ كیا اور اپنے لشكر كے سردار كو یہ حكم دیا كہ محمود افغان سے كچھ نہ كہنا۔
قارئین كرام توجہ كریں كہ یہ فتویٰ صرف سپاھیوں كو گمراہ كرنے كے لئے صادر كیا گیا تھا۔
ہ بات قابل توجہ ھے كہ یہ فتویٰ كتنا غیر اصولی، بے بنیاد اور دینی اور انسانی لحاظ سے كس قدر دور تھا عثمانی سپاھی اپنے علماء اور مفتیوں پر اعتقاد ركھتے تھے ،لیكن جب مقام عمل میں آئے تو پھر ان میں خود اس فتوے پر عمل كرنے كی طاقت نھیں تھی یعنی جس وقت ایرانی لوگوں اور ان كے اھل خاندان كو دیكھا تو ان میں كسی بھی ایسی چیز كو نہ پایا جس كی بنا پر اس فتوے میں اتنا شدید ردّ عمل دكھایا گیا تھا، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ انھوں نے ان ایرانیوں كو مرتد اور دین سے خارج شمار نھیں كیا۔
مندرجہ ذیل عثمانی مولف كے واقعہ سے ھماری بات كی تائید هوتی ھے :
”عثمانی سپاھیوں نے راستہ میں ایك اصفھانی كاروان پر حملہ كردیااور شیخ الاسلام كے فتوے كے مطابق ان كے مردوں كو قتل كردیا اور ان كی علوی سادات سے اور شریف خاندانوں سے تعلق ركھنے والی عورتوں كو اسیر كرلیا، لیكن مذكورہ فتوے كے برخلاف ان عورتوں كو بھت پاك او ردیندار پایا یھاں تك كہ وہ اپنی حفاظت كے سلسلہ میں نامحرم پر نظر كرنے سے بھی سخت پرھیز كرتی تھیں، ان میں نجابت او رشرافت كی تمام نشانیاں واضح او رآشكار تھیں، ان تمام چیزوں كو دیكھنے كے بعد وہ شش وپنچ میں پڑگئے كہ ایسی عورتوں كو كیسے اسیر كریں اور ان كو غلامی میں كیسے لے لیں، آخر كار ان كو بڑے احترام كے ساتھ كرمانشاہ میں پهونچادیا، اور وھاں كی ایك عظیم ہستی میرزا عبد الرحیم كے حوالے كردیا۔
اس طرح كے فتووں كا اثر عثمانی حدود سے باھر تك پهونچا اور ماوراء النھر (تاجكستان اور ازبكستان) تك پهونچ گیا، یھاں تك كہ قاچاریہ بادشاهوں كے زمانہ تك اس كا اثر باقی رھااور ماوراء النھر كے لوگوں نے بادشاہ عثمانی سے جس كو خلیفة الخلفاء كھا جاتا تھا یہ سوال كیا كہ كیا شیعہ لوگوں كو اسیر كركے ان كی خرید وفروخت كرنا جائز ھے ؟
اس بات میں كوئی شك نھیں كہ اگر عثمانی اور ازبك سپاہ اور عوام الناس ایران كے لوگوں كو قریب سے دیكھتے تو اس كے برخلاف پاتے جو غلط پروپیگنڈے كی وجہ سے ان كے ذہنوں میں نقش تھا۔
ایرانیوں كو حج سے روكنا
عثمانی بادشاهوں نے گذشتہ فتوے كے علاوہ بھی ایران كی دشمنی میںدوسرے كارنامے انجام دئے ھیں منجملہ یہ كہ1042ھ میں عثمانی بادشاہ نے ایرانیوں كو حج سے روكنے كا حكم صادر كردیا۔
اس حكم كو جاری كرنے كے لئے مكہ كے بازاروں میں یہ اعلان كرادیا گیا كہ اس سال آئے هوئے ایرانی حجاج واپسی كے وقت اپنے برادران كو یہ اطلاع دیدیں كہ وہ آئندہ سال حج كے لئے سفر نہ كریں۔
صاحب تاریخ مكہ اس واقعہ كو نقل كرنے كے بعد كھتے ھیں، كہ مجھے ایرانیوں كو حج سے روكنے كی وجہ معلوم نہ هوسكی مگر وہ تاریخی واقعات جو اس زمانہ میں رونما هورھے تھے، ایرانیوں نے 1033ھ میں بغداد كو عثمانی قبضہ سے آزاد كرالیا تھا اور ان كو شھر سے باھر نكال دیا تھا، یھاں تك كہ1042ھ میں سلطان مراد عثمانی نے پھر دوبارہ قبضہ كرلیا۔
شاید اس كی وجہ عثمانی بادشاہ اور ایرانیوں كے درمیان شدید اختلافات هوں اور اسی وجہ سے ایرانی حجاج كو حج سے روكا گیا هو۔
نادر شاہ اور شریف مكہ
1157ھ میں جس وقت ایران كے بادشاہ نادر شاہ افشارنے عثمانی سپاہ پر غلبہ پانے كے بعد عراق كو اپنے قبضہ میں لے لیا،تواس نے ایك عظیم الشان عالم دین كو اپنا خط دے كر امیر مسعود ،شریف مكہ كے پاس بھیجا، خط كا مضمون یہ تھا كہ عثمانی خلیفہ نے اس بات كی موافقت كردی ھے كہ مكہ (مسجد الحرام) كے منبر سے ھمارے لئے دعا كی جائے اور وھاں پر ھمارے رسمی مذھب”جعفری“ كو مكہ میں آشكاركیا جائے، (یعنی تقیہ وغیرہ نہ كرنا پڑے) اور ھمارے امام جماعت مذاھب اربعہ كے برابر كھڑے هوں۔ نادر شاہ نے اس خط میں شریف مكہ كو ڈرایا اوردھمكایا بھی تھا، شریف كو یہ بات بری لگی اور مكہ كے حالات خراب هوگئے۔
جدّہ میں (عثمانیوں كی طرف سے) تُرك گورنر نے شریف مسعود سے درخواست كی كہ نادر شاہ كے نامہ بر كو اس كے پاس بھیج دے تاكہ اس كو قتل كردیا جائے، لیكن شریف نے یہ كام نھیں كیا، اور كھا كہ میں اس كو اپنے پاس ركھوں گا اور واقعہ كی تفصیل دار الخلافہ (اسلامبول) لكھوں گا، اور جیسا وہ حكم دیں گے ویسا ھی عمل كروں گا۔
شریف كے اس كام سے والی جدّہ راضی نھیں تھا اور اس كا گمان یہ تھا كہ شاید شریف شیعہ مذھب كی طرف رغبت ركھتا ھے، اور جیسے ھی شریف مسعود ،والی كے اس گمان سے باخبر هوئے توالزامدور كرنے كے لئے حكم صادر كردیا كہ مسجد الحرام كے منبرسے شیعوں پر لعنت كی جائے۔
نجف میں نادر شاہ كے حكم سے مسلمانوں میں اتحاد كے لئے ایك عہد نامہ
تاریخ مكہ سے جو باتیں نقل هوئیں ھیں ان كو مكمل كرنے كے لئے اور موقع كے لحاظ سے یھی مناسب ھے كہ سنی شیعہ اتحاد كے لئے نادر شاہ كے اس عہد نامہ كو بیان كیا جائے جو مذكورہ مقصد كے تحت نجف اشرف میں لكھا گیا اور سنی شیعہ علماء نے اس پر دستخط كئے، ھم نے اس مطلب كو ”یادگار“ نامی مجلہ شمارہ 6 سال چھارم سے نقل كیا ھے:
نادر شاہ چونكہ صفویہ سلسلہ سے كینہ ركھتا تھا یا اس وجہ سے كہ ایرانی لوگ سنی مذھب قبول كرلیں، لہٰذا ایرانیوں،تركیوں، افغانیوں میں مذھبی اتحاد قائم كرنا چاھتا تھا، چنانچہ اس نے ایرانیوں كو اھل سنت والجماعت سے قریب كرنے كی بھت كوشش كی، لہٰذا اس نے ماہ اسفند1148ھ ش، میں ایك جلسہ طلب كیا اور خود ھی اس كا صدر بھی بن گیا، اس جلسہ میں تمام ممالك سے آئے هوئے نمائندوں كو خطاب كرتے هوئے كھتا ھے:
” پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے زمانہ سے چاروں خلیفہ ،خلافت كرتے رھے، اور ہند وروم (عثمانی) اور تركستان سب ان كی خلافت كے قائل ھیں، اور جس وقت اھل ایران آرام وآسائش كی خاطر ھماری سلطنت كی طرف رغبت كریں تو ان كو اھل سنت والجماعت كا مذھب قبول كرنا هوگا “۔
اس جلسہ میں موجود تمام نمائندوں نے خوف كی وجہ سے اس حكم كو قبول كرلیا، اور اس مسئلہ كے بارے میں ایك عہد نامہ پر سب لوگوں نے دستخط كر دئے، اور یہ عہد نامہ نادری خزانہ كے سپرد كردیا گیا۔
نادر شاہ نے اس عہد نامے كو اپنے سفیر كے ذریعہ سلطان عثمانی كے پاس بھیجا، اور اس كو پانچ پیش كش كیں، كہ اگر اس نے قبول كرلیا تواس سے صلح هوجائے گی:
1۔ قضاة، علماء اور دربار ی حضرات، حضرت امام جعفر صادق ں كی تقلید كو پانچویں مذھب میں شمار كریں (یعنی شیعہ مذھب كو بھی مذاھب اربعہ كے ساتھ شامل كریں اور مذاھب خمسہ كھیں)
2۔ مسجد الحرام میں اركان اربعہ، مذاھب اربعہ كے اماموں سے مخصوص ھیں، شیعہ مذھب كو بھی كسی ایك ركن میں شریك كیا جائے اور اس مذھب كا امام بھی وھاں نماز پڑھائے۔
3۔ ھر سال ایران كی طرف سے امیر حج معین هو جو مصر اور شام كے طریقہ سے ایرانی حجاج كو مكہ پهونچائے اور عثمانی حكومت، ایرانی امیر حاج كے ساتھ مصر او رشام كے امیر حاج جیسا سلوك كرے۔
4۔ دونوں حكومتوں كے اسیر مكمل طریقہ سے آزاد كئے جائےں اور ان كی خرید وفروخت ممنوع قرار دی جائے۔
5۔ دونوں حكومتوں كا ایك ایك نمائندہ ایك دوسرے كے پائے تخت میں هونا چاہئے تاكہ دونوں مملكت كے مسائل مصلحت كے تحت انجام پائےں۔
عبد الباقی خان زنگنہ كے ذریعہ یہ پیش كش ربیع الاول1149ھ استامبول پهونچی عثمانی درباریوں نے جعفری مذھب كو پانچواں مذھب ماننے اور خانہ كعبہ كے اركان اربعہ میں ان كے امام كو نماز پڑھانے كی اجازت دینے سے انكار كردیا، تو نادر شاہ نے یہ فیصلہ كیا كہ وہ خود زبردستی ان كو قبول كروائے گا، اور عثمانی حكومت پر حملہ كی غرض سے اپنے توپ خانہ كو كرمانشاہ كے لئے روانہ كردیا۔
اسی زمانہ میں احمد پاشا، والی بغداد (عثمانیوں كی طرف سے) نے اطاعت كا اظھار كیا اسی بناپر نادر شاہ نے نجف، كربلا او رحلہ پر قبضہ كرنے كے لئے اپنے لشكر كو روانہ كیا جس نے آسانی سے ان شھروں پر قبضہ كرلیا، اسی طرح كركوك اور موصل شھروں كو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، یہ دیكھ كر عثمانی حكومت كو بھی صلح كے لئے تیار هونا پڑا، اور طے یہ هوا كہ مذھبی مسائل اور ان كے اختلافات كو دور كرنے كے لئے دوبارہ گفتگو كی جائے، اس كے بعد نادر شاہ شوال 1156ھ میں عتبات عالیہ كی زیارت كرنے كے لئے آمادہ هوا اور نجف ،كربلا اور كاظمین كی زیارت كی اور بغداد میں ابوحنیفہ كی قبر كی بھی زیارت كی، اس كے بعد كربلا، نجف، حلّہ، بغداد اور كاظمین كے شیعہ سنی علماء كو نجف میں بلایا، تاكہ اپنے ساتھ لائے هوئے ایران، بلخ، بخارا اور افغانستان كے علماء كے ساتھ بحث وگفتگو اور اختلافی مسائل كو حل كریں۔
ہ گفتگو 24 شوال1156ھ كو تمام هوئی، اور ایك عہد نامہ لكھا گیا جس كو میرزا مہدی خان منشی الممالك نادر (موٴلف درہٴ نادرہ، اور جھان گشائے نادری)نے لكھا اور اس پر دونوں فریقین كے علماء نے دستخط كیا۔
اس عہد نامے كی ترتیب اور تصدیق اس طرح تھی كہ پھلے علمائے ایران نے اس تحریر پر مھر لگائی اس كے بعد عتبات عالیہ كے (شیعہ سنی) علمائے نے مھر لگائی، اس كے بعد علمائے ماوراء النھر اور اس كے بعد علمائے افغان نے مھر لگائی اور سب سے آخر میں بغداد كے مفتی نے ایرانیوں كے اسلام كی تصدیق كی۔
عہد نامہ كی پوری تحریر ”جھان گشائے نادری “میں موجود ھے، لیكن اس عہد نامہ كی تفصیل عبد اللہ بن حسین سویدی بغدادی جو خود مذكورہ شیعہ سنی مناظرہ میں شریك تھے اور اس عہد نامہ پر دستخط بھی كئے تھے، انھوں نے اپنی دو كتابوں میں اس عہد نامے كی تفصیل بیان كی ھے، پھلی كتاب ”النفحہ المسكیة فی الرحلة المكیہ“ او ردوسری كتاب ”الحجج القطعیة لا تفاق الفرق الاسلامیہ“ یہ دونوں كتابیں مصرمیں چھپ چكی ھیں۔
اس عہد نامہ كی ایك كاپی حضرت امیر المومنین ں كی ضریح میں ركھ دی گئی، اور اس كی دوسری كاپیاں اسلامی ممالك بھیج دی گئیں، لیكن اس وقت كے چاپ شدہ نسخوں اور اس كتاب (جھان گشائے نادری) كے قلمی نسخے كے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے اور ھم (مدیر مجلہ یادگار اور صاحب مقالہ مرحوم عباس اقبال) نے ان دونوں نسخوں میں فرق پایا ھے یعنی چاپ شدہ مقالہ میں بھت سی چیزیں كم ھیں، مثلاً ایران، عراق، عرب، افغانستان اور تركستان علماء كے نام اس كتاب (جھان گشائے نادری) میں نھیں ھے، دوسرے یہ كہ علمائے عراق كی تصدیق اصل عہد نامے سے مخلوط هوگئی ھے، تیسرے یہ كہ افغانی علماء كی تصدیق اس میں نھیں ھے اسی طرح احمد پاشا ،والی بغداد كی تصدیق اور مفتی بغداد آفندی یاسین كی مھر اور دستخط بھی اس میں موجود نھیں ھے۔
ھمارے (عباس اقبال) فاضل دوست آقای حاج” محمد آقا نَخْجَوانی“ جن كو طلب علم كا بھت شوق تھا انھوں نے اس عہد نامہ كو مكمل طور پر نقل كیا اور نشر كے لئے ھمارے مجلہ یادگار كو دے دیا۔
مذكورہ عہدنامہ كا مكمل نسخہ، حاج محمد آقا نخجوانی كے نسخہ سے ان علماء كے نام ،عہدہ ومنصب اور مھر كے ساتھ ھمارے مجلہ یادگار میں تقریباً 8 صفحات پر مشتمل چھپ چكا ھے، علماء كے نام اس طرح لكھے گئے ھیں، جائے مھر میرزا بھاء الدین محمد، كرمان كے شیخ الاسلام، یا جائے مھر سید حسینی، پیشنماز كاشان، جائے مھر میرزا ابوالفضل ،شیخ الاسلام قم، جائے مھر دخیل علی، قاضی كربلا، جائے مھر ملا حمزہ، شیخ الاسلام افغانستان، جائے مھر محمد باقر، عالمِ بخارا…تاآخر۔
قارئین كرام!آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ اكثر علماء كا عہدہ شیخ الاسلام ھے اور بھت ھی كم ایسے علماء ھیں جو پیشنماز یا قاضی رھیں۔
لیكن عثمانی مولفین نے اس واقعہ كی تفصیل دوسرے طریقہ سے بیان كی ھے، چنانچہ شیخ رسول كركوكلی كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے ”دشت مغان“ میں ایك بھت بڑی انجمن تشكیل دی، جس میںشیعوں كی حمایت كی اور اپنے كو شیعوں كا مدافع (دفاع كرنے والا) كھا، لیكن كرد، داغستان، ساكنان كوہستان (كوہستان سے كیا مراد ھے یہ معلوم نھیں هوسكا) اور افغانستان كے سبھی لوگ اس سے ناراض تھے، جس كے نتیجہ میں اس سے جنگ كرنے كا فیصلہ كرلیا، اور اس گھمسان كی لڑائی میں جو نادر شاہ سے هوئی نادر شاہ كے سپاھیوں كو شكست هوئی اور بھت نقصان هوا، نادر شاہ نے فریقین كا دل ركھنے كے لئے مرقد ابوحنیفہ، علی مرتضی (ں) امام حسین (ں) امام موسیٰ كاظم (ں) كے لئے بڑے قیمتی ہدایا اور تحائف بھیجے، اور یہ بھی اعلان كیا كہ اذان پانچ مرتبہ كھی جائے، اور جملہ ”حی علی خیر العمل“اذان سے نكال دیا جائے،ایساكُردیوںاور افغانیوں كا دل ركھنے كے لئے كیا، اور اس نے عثمانی سلطان كے لئے بھت سے ہد ایا اور تحائف بھی بھیجے۔
اس كے بعد كر كوكلی صاحب كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے جنگ كے بعد ایك بار پھر دشت دمغان میں علماء كو جمع كیا تاكہ ان میں موجود اختلافات كو حل كیا جاسكے، جس كے نتیجے میں بادشاہ كی حقیقی طور پر بیعت اور اس كی حمایت هوئی۔
اس كے بعد نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ كیا اور سلطان محمد (تیموری خاندان كا حاكم) پر غلبہ حاصل كیا اور اس سے خراج لینا طے كیا، اس كے بعد تركستان، افغانستان، بلخ اور بخارے پر قبضہ كیا، اور ان لوگوں نے عثمانی سلطان سے جو عہد وپیمان كیا تھا اس كو توڑوا ڈالا، اور یہ ظاھر كیا كہ روم (یعنی حكومت عثمانی) پر بغداد كی طرف سے حملہ كرنے والا ھے چند افراد كو احمد پاشا والی بغداد كے پاس بھیجا، تاكہ اس كو اطلاع دے، اور احمد پاشا نے اس لحاظ سے كہ وہ اس كا مھمان ھے اس كے گذرنے اور وھاں توقف كرنے كی اجازت دیدی، اس وقت نادر شاہ نے كئی ہزار سپاھیوں كو كھانے پینے كا سامان لانے كے لئے بھیجا، اور اس طرح بغداد كا محاصرہ كرلیا، خلاصہ یہ كہ اس نے متعدد حملوں كے بعد پورے عراق پر قبضہ كرلیا، اور اس كے بعد عتبات عالیہ كی زیارت كرنے كے لئے گیا اور حضرت علی كے روضہ كی مرمت اور گنبد پر سونے كے پانی سے زینت كرنے كا حكم دے دیا اور اس كے بعد كربلائے معلی پهونچا اور یہ ظاھر كیا كہ میں تو اھل سنت سے تعلق ركھتا هوں، اور احمد پاشا كو خط لكھا كہ كسی اھل سنت عالم دین كو بھیج تاكہ شیعہ علماء سے مناظرہ كرے، اور دونوں فرقوں كے درمیان موجود اختلافات ختم هوجائیں، لہٰذا احمد پاشا نے عبد اللہ سویدی جو ان مسائل میں مھارت ركھتے تھے اور اس كے مورد اعتماد بھی تھے اس كام كے لئے انتخاب كیا۔
سویدی صاحب نے اپنے سفر كی تفصیل كتاب ” النفحة المكیہ والرحلة الملكیہ“ میں لكھی ھے ،او ركركوكلی نے اسی كتاب سے نقل كیا ھے، منجملہ یہ كہ جس وقت میں نجف میں نادر شاہ كے حضور پهونچا تو اس نے مجھے خوش آمدید كھا، مجھے اس كی عمر 80سال كی لگی، اور پروگرام كے مطابق یہ اجتماع حضرت علیں كے روضہ میں هو، اس كے بعد كركوكلی نے سویدی سے ذكر هوئے ناموں كو اس طرح لكھا كہ ایرانی علماء میںسے علی اكبر ملا باشی ،وغیرہ وغیرہ تھے۔
افغانستان كے علماء میں سے شیخ فاضل ملا حمزہ قلی جائی، جوافغانستان میں حنفی مفتی تھے، اور وھاں كے دیگر علماء كے نام اور ان كے عہدے بھی لكھے ھیں۔
اس كے بعد علمائے ماوارء النھر كے نام ھیں جن كی تعداد سات تھی اور یہ لوگ سویدی كے داھنی طرف بیٹھے تھے اور اس كے بائیں طرف 15 شیعہ علماء تشریف فرما تھے۔
اس وقت ملا باشی نے ایك تقریر كی اور سویدی كی طرف اشارہ كرتے هوئے كھا: یہ علمائے اھل سنت كے فاضل علماء میں سے ھیں، اور نادر شاہ نے احمد پاشا سے یہ چاھا كہ انھیںھمارے درمیان فیصلہ كرنے كے لئے بھیجے اور شاہ كی طرف سے وكیل بنا یا گیا كہ جو بھی اس اجتماع میں طے پائے اس پر عمل كیا جائے، كركوكلی صاحب نے سویدی سے نقل كرتے هوئے علماء كے درمیان هونے والی گفتگو كی تفصیل بھی بیان كی ھے، چنانچہ اس گفتگو كا نتیجہ اس طرح بیان كرتے ھیں كہ اھل سنت علماء نے اس بات كی تصدیق كی كہ شیعہ لوگ، مسلمان ھیں، اور ان كا نفع ونقصان ھمارا نفع ونقصان ھے، یہ طے كرنے كے بعد سب لوگ اپنی جگہ پر كھڑے هوگئے اور ایك دوسرے سے مصافحہ كرنے لگے اور یہ كھتے جاتے تھے: ”اھلاً باخی“(میرے بھائی خوش آمدید)۔
اس كے دوسرے دن بھی مذكورہ جگہ پر جمع هوئے اور ایك جریدہ تیار كیا گیاجس كی لمبائی 7 بالشت سے زیادہ تھی اور اس كے دو حصوں پر عہد نامہ لكھا گیا، ملا باشی نے آقا حسن مفتی سے كھا كہ كوئیایسا شخص اس كو پڑھے جو فارسی زبان جانتا هو۔
كركوكلی صاحب نے اس عہد نامے كو عربی زبان میں لكھا ھے اور سویدی كے بعض اعتراض بھی لكھے ھیں، نیز اس كے قول كو نقل كرتے ھیں كہ ان لوگوں كے نام اس میں لكھے ھیں جنھوں نے اس پر اپنی مھر لگائی ھے، او راس كے بعد سونے كے ظروف میں جو جواھرات سے مزین تھے، مٹھائی لائی گئی، اس كے بعد مجھے شاہ كے پاس لے گئے (سویدی نے اپنی كتاب میں ان باتوں كو ذكر كیا ھے جو اس كے اور شاہ كے درمیان هوئی ھیں)اور اس نے احوال پرسی، كے بعد كھا:
”كل جمعہ ھے اور میں یہ چاھتا هوں كہ نماز جمعہ كو مسجد كوفہ میں پڑھوں، اور میں نے فرمان دیدیا ھے كہ صحابہ كے نام بڑے ادب واحترام كے ساتھ اسی ترتیب سے ذكر كئے جائیں جس طرح كہ طے هوا ھے، اور میں نے یہ حكم بھی دیا ھے كہ بھائی سلطان آل عثمان كے لئے دعا كی جائے او راس كے بعد مختصر طور پر ھمارے لئے بھی دعا كی جائے، او رگویا یہ سلطان عثمانی كے احترام كی وجہ سے ھے كیونكہ وہ سلطان بن سلطان ھے، جبكہ میرے باپ دادا میں كوئی سلطان نھیں تھا،قارئین كرام!ھم نے جو كچھ كركوكلی كی باتوں كو خلاصہ كے طور پر نقل كیا ھے اگرچہ بعض تاریخی چیزیں غلط اور اشتباہ ھیں لیكن پھر بھی بھت سے اھم تاریخی نكات اس بیان میں موجود ھیں، خصوصاً اگر ان تمام باتوں كی تحقیق كی جائے۔