اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

تحقیق احادیث عدد ائمہ (ع)

تحقیق احادیث عدد ائمہ (ع)

ان احادیث کا مضمون 75 ء سے 83 ء تک اہل سنت کے مصادر سے نقل کیا گیاہے اور انھیں احادیث کا تذکرہ شیعہ مصادر میں بھی پایا جاتاہے۔ شیخ صدوق (ر) نے خصال میں اس مضمون کی 32 ، احادیث کا تذکرہ کیاہے جس طرح کہ مسند احمد بن حنبل میں جابر بن سمرہ سے تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں اور اس طرح اصل مضمون متفق علیہ ہے اور تفصیلات کا اختلاف غالباً سیاسی مقاصد کے تحت پیدا کیا گیاہے۔

 جہاں بعض روایات میں لفظ بعدی حذف کردیا گیاہے۔

 بعض میں لفظ کو امیر سے بدل دیا گیاہے۔

 بعض میں خلیفہ کے بجائے قیّم یا ملک کہا گیاہے۔(معجم کبیر 2 ص 196 / 1794 ،) خصال ص 471 /19۔

 بعض میں قیامت تک اسلام کے مسائل کو بارہ خلفاء سے مربوط کیا گیا ہے اور بعض میں قیامت کا ذکر نکال دیا گیاہے۔

 بعض میں مصالح امت کو خلفاء کی ولایت سے مربوط کیا گیاہے اور بعض میں اس نکتہ کو نظر انداز کردیا گیاہے۔

 بعض روایات میں اسلامی سماج کے جملہ معاملات کو ان حضرات کی ولایت سے متعلق کیا گیاہے اور بعض میں اس کے بیان سے پہلو تہی کی گئی ہے۔

 اور اسطرح مختلف سیاسی حالات نے مختلف طرح کی ترمیم کرادی ہے لیکن مجموعی طورپر دو باتوں پر اتفاق پایا جاتاہے۔

1۔ سرکار دو عالم (ع) نے ان افراد کی تعیین کردی ہے جو ایک طویل مدت تک اسلامی قیادت کی اہلیت رکھتے ہیں۔

2۔ جن ائمہ کی قیادت کو سرکار دو عالم کی تائید حاصل ہے۔ ان کی تعداد بارہ ہے، نہ کم ہے اور نہ زیادہ۔

اور اس طرح روایات شیعہ کو دیکھنے کے بعد یہ حقیقت اور واضح تر ہوجاتی ہے کہ ان حضرات نے ائمہ کے اسماء گرامی اور ان کے جملہ صفات و کمالات کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کی وضاحت کا ایک تذکرہ ص 84 سے 87 تک ہوچکاہے اور ایک تذکرہ آئندہ فصل میں کیا جائے گا۔

اس کے بعد اس نکتہ کا اضافہ بھی کیا جاسکتاہے کہ سرکار دو عالم (ع) نے یہ بات حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل 7 ص 405 / 20840)۔

اور میدان عرفات یا منیٰ میں فرمائی ہے یا دونوں جگہ تکرار فرمائی ہے۔(مسند ابن حنبل 7 ص 429 / 20991)۔

اور یہی وہ مواقع ہیں جہاں حدیث ثقلین کا بھی تذکرہ فرمایاہے جو اس بات کی علامت ہے کہ قریش سے مراد یہی ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جیسا کہ امیر المؤمنین (ع) نے اپنے خطبہ ص 144 میں فرمایاہے کہ ائمہ قریش بني ہاشم ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ یہ منصب کسی کے لئے نہیں ہے اور نہ کسی قبیلہ میں ایسے صالح حکام پیدا ہوسکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں ان خلفاء کے اوصاف و کمالات کے تذکرہ کا نظر انداز کردینا صرف سیاسی مصالح کی بنیاد پر تھا جس کی وضاحت اس نکتہ سے بھی ہوسکتی ہے کہ بارہ خلفاء ائمہٴ اہلبیت (ع) کے علاوہ اور کسی مقام پر پیدا نہیں ہوئے ہیں اور اگر اس نکتہ کو بحدّ تواتر نقل ہونے والی حدیث ثقلین سے جوڑ دیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے اور مزید ثابت ہوجاتی ہے کہ سرکار دو عالم نے مستقبل کی قیادت کے جملہ علامات اور نشانات کا تذکرہ کردیا تھا اور کسی طرح بھی مسئلہ کو مشتبہہ نہیں رہنے دیا تھا۔

اور بعض علماء محققین نے اس حقیقت کو اس طرح بھی واضح کیا ہے کہ ائمہ قریش سے مراد ” خلفاء راشدین “ کو لیا جائے تو ان کی تعداد بارہ سے کم ہے اور ان میں خلفاء بني امیہ کو جوڑ لیا جائے تو یہ عدد بارہ سے کہیں زیادہ ہوجاتاہے اور ان میں خلافت کی صلاحیت بھی نہیں تھی کہ عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ سب ظالم اور نالائق تھے اور ایسا انسان خلیفہٴ رسول نہیں ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ ان کا شمار بني ہاشم میں نہیں ہوتاہے اور بعض روایات میں بني ہاشم کی تصریح موجود ہے۔

یہی حال اس وقت ہوگا جب ان خلفاء سے مراد خلفاء بني عباس کو لے لیا جائے کہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ہے اور ان کے کردار میں بھی ظلم و ستم کی کوئی کم نہیں ہے اور انھوں نے یہ آیت مودت کی کوئی پرواہ کی ہے اور نہ حدیث کساء کی ۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ خلفاء قریش سے مراد صرف ائمہ اہلبیت (ع) ہیں جو اپنے زمانہ میں سب سے اعلم، افضل، اکمل، اورع، اتقی، اکمل و اجمل تھے، نہ نسب میں کوئی ان کا جیسا بلند اور نہ حسب میں کوئی ان سے افضل و برتر، یہ خدا کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقرب اور رسول اکرم سے سب سے زیادہ قریب تر تھے۔

اس حقیقت کی تائید حدیث ثقلین اور دیگر احادیث صحیحہ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ملاصدرا علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ خلفاء قریش کی روایات برادران اہلسنّت کے صحاح اور اصول میں موجود ہے اور ان کی سندیں بھی مذکور ہیں اور ان کے علاوہ و ہ صحاح و مسانید کی روایات بھی ہیں جن میں اس حقیقت کا ذکر کیا گیاہے کہ میرے بعد ائمہ میری عترت سے ہوں گے۔

ان کی تعداد نقباء بني اسرائیل کے برابر ہوگی اور نوحسین (ع) کے صلب سے ہوں گے، جنھیں پروردگار نے میرے علم و فہم کا وارث بنایاہے اور ان کا نواں مہدی ہوگا۔

اور پھر صحاح ستہ میں یہ روایات بھی ہیں کہ مہدی میری عترت میں اولاد فاطمہ (ع) میں ہوگا اور ہ ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور دنیا اس وقت تک فنا نہ ہوگی جب تک عرب میں میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حکومت نہ کرے جس کا نام میرا نام ہوگا۔

یا اگر عمر دنیا میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول دے گا یہاں تک کہ میری نسل سے اس شخص کو بھیج دے جس کا نام میرا نام ہوگا اور ہ ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا۔

چنانچہ شارح مشکٰوة نے بھی لکھا ہے کہ اس قسم کی روایات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت صرف قریش کا حصہ ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتی ہے اور یہ حکم رہتی دنیا تک جاری رہے گا چاہے دو ہی افراد باقی رہ جائیں۔

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی عقل میں فتور اور آنکھ میں اندھاپن نہیں ہے تو وہ اس حقیقت کا بہر حال اعتراف کرے گا کہ رسول اکرم کے بعد ان کے خلفاء یہی بارہ امام ہیں جو سب قریش سے ہیں، انھیں سے دین کا قیام اور اسلام کا استحکام ہے اور یہ عدد اور یہ اوصاف و کمالات ائمہ اثنا عشر کے علاوہ کہیں نہیں پائے جاتے ہیں لہذا یہی سرکار دو عالم کے خلفاء و اولیاء ہیں اور انھیں کا قیام دنیا تک رہنا ضروری ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی ہے۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment