بعثت کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے اس وقت ندائے توحید بلند کی جب دنیا کا گوشہ گوشہ کفر و ظلم، فساد و فحشاء اور اسی طرح کی دیگر مشکلات سے دوچار تھا۔ آپ (ص)کی یہ عظیم تحریک آپ (ص) کی زندگی کے تیرہ برسوں میں حیرت انگیز ترقیاتی مراحل طے کرتی رہی اور ان تیرہ برسوں کے بعد شہر مدینہ میں اسلامی امت کی بنیاد ڈالی گئی۔ مستحکم ایمان، ہمہ گیر تعلیم و تربیت، عزم راسخ اور سعی مستقل کی بنیاد پر یہ اسلامی امت اپنی ابتدائی حیثیت سے گزرتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جس کا مشاہدہ ہم چوتھی، پانچویں صدی ہجری میں کرتے ہیں۔ یہ وہ اوصاف تھے جنہوں نے ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مدینہ کی صرف چند ہزار کی تعداد پر مشتمل اسلامی امت کو چوتھی، پانچویں صدی ہجری تک ایک باعظمت اور طاقتور، عزت دار اور سربلند قوم میں تبدیل کردیا اور اسے علم و حکمت کے بے مثال مرکز و منبع کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے۔ اس کے بعد اسی اسلامی امت نے اپنے مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے دوران جب جا بجا ان تعلیمات سے غفلت برتی تو شکست و پسماندگی سے روبرو ہوئی۔ جب اس امت نے علم، اخلاق، اجتماعی روابط، معنوی اقتدار، عزت و اتحاد اور سب سے بڑھ کر عدل و انصاف سے چشم پوشی کی تو اس کی ترقی رک گئی اور پھر ایسی تنزلی آئی کہ جارح، تسلط پسند اور لالچی طاقتیں اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کو آپس میں دست بگریباں کرنے، ان پرمسلط ہونے اور ان کے سرمایوں کو چھین لینے میں کامیاب ہوگئیں۔
source : tebyan