اسماء ائمہ اہلبیت (ع)
88۔جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ میں جناب فاطمہ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے ایک تختی رکھی تھی جس میں آپ کی اولاد کے اولیاء کے نام درج تھے چنانچہ میں نے کل بارہ نام دیکھے جن میں سے ایک قائم تھا اور تین محمد تھے اور چار علی (ع) ۔( الفقیہ 4 ص 180 / 5408 ، کافی 1 ص 532 /9 ، کمال الدین 269/ 13 ، ارشاد 2 /346 ، فرائد السمطین 2 / 139 ) ان تمام روایات کے راوی ابوالجارود ہیں جنھوں نے امام باقر (ع) سے نقل کیا ہے اور کافی میں چار علی (ع) کے بجائے تین کا ذکر ہے اور یہ اشتباہ ہے یا اس سے مراد اولاد فاطمہ کے علی ہیں کہ وہ بہر حال تین ہی ہیں اگرچہ اس طرح اولاد فاطمہ (ع) کے اولیاء کے اولیاء بارہ نہیں ہیں بلکہ گیارہ ہی ہیں اور ایک مولائے کائنات ہیں واللہ اعلم ۔ جوادی۔
89۔ جابر بن یزید الجعفی کا بیان ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری کی زبان سے سناہے کہ جب آیت اولی الامر نازل ہوئی تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم نے خدا و رسول کو پہچان بھی لیا اور ان کی اطاعت بھی کی تو یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساتھ ملادیا گیاہے؟ تو فرمایا کہ جابر ! یہ سب میرے خلفاء اور میرے بعد مسلمانوں کے ائمہ ہیں جن میں سے اول علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہیں، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) جن کا نام توریت میں باقر (ع) ہے اور اے جابر عنقریب تم ان سے ملاقات کروگے اور جب ملاقات ہوجائے تو میرا سلام کہہ دینا۔ اس کے بعد جعفر (ع) بن محمد (ع) ۔ پھر موسی بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسی ٰ (ع) ، پھر محمد (ع) بن علی (ع) پھر علی (ع) بن محمد ، پھر حسن (ع) پھر میرا ہمنام و ہم کنیت جو زمین میں خدا کی حجت اور بندگان خدا میں بقیة الله ہوگا یعنی فرزند حسن (ع)بن علی (ع) ، یہی دو ہوگا جسے پروردگار مشرق و مغرب پر فتح عنایت کرے گا اور اپنے شیعوں سے اس طرح غائب رہے گا کہ اس غیبت میں ایمان پر صرف وہی افراد قائم رہ جائیں گے جن کے دل کا پروردگار نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہوگا۔(کمال الدین 253 /3، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص282 ، کفایة الاثر ص53)۔
90۔ جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ جندل بن جنادہ بن جبیر الیہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک طویل گفتگو کے دوران عرض کی کہ خدا کے رسول ذرا اپنے اوصیاء کے بارے میں باخبر کریں تا کہ میں ان سے متمسک رہ سکوں۔ تو فرمایا کہ میرے اوصیاء بارہ ہوں گے۔ جندل نے عرض کی کہ یہی تو میں نے توریت میں پڑھاہے لیکن ذرا ان کے نام تو ارشاد فرمائیں؟
فرمایا اول سید الاوصیاء ابوالائمہ علی (ع) اس کے بعد ان کے دو فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ، دیکھو ان سب متمسک رہنا اور خبردار تمھیں جاہلوں کا جہل دھوکہ میں نہ مبتلا کردے۔ اس کے بعد جب علی بن الحسین (ع) کی ولادت ہوگی تو تمھاری زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمھاری آخری غذا دودھ ہوگی۔
جندل نے کہا کہ حضور میں نے توریت میں ایلیا۔ شبر،شبیر پڑھا ہے، یہ تو علی (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) ہوگئے تو ان کے بعد والوں کے اسماء ہیں؟ فرمایا حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب زین العابدین (ع) ہوگا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب باقر (ع) ہوگا۔ اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب تقی (ع) و زکی ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند علی (ع) جن کا لقب نقی (ع) اور ہادی (ع) ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) جن کا لقب عسکری (ع) ہوگا، اس کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) جن کا لقب مہدی (عج) ، قائم (عج) ہوگا، جو پہلے غائب ہوں گے پھر ظہور کریں گے اور ظہور کے بعد ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، خوشا بحال ان کا جو ان کی غیبت میں صبر کرسکیں اور ان کی محبت پر قائم رہ سکیں یہی وہ افراد ہیں جن کے بارے میں پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ حزب اللہ میں اور حزب اللہ کامیاب ہونے والا ہے اور یہی وہ متقین ہیں جو غیبت پر ایمان رکھنے والے ہیں( ینابیع المودة 2 ص 283 /2)۔
91۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک یہودی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے نعثل کہا جاتا تھا اور اس نے کہا کہ یا محمد میرے دل میں کچھ شبہات ہیں، ان کے بارے میں سوال کرنا چاہتاہوں… ذرا یہ فرمائیے کہ آپ کا وصی کون ہوگا ، اس لئے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتاہے جس طرح ہمارے پیغمبر موسیٰ بن عمران نے یوشع بن نون کو اپنا وصی نامزد کیا تھا۔؟ فرمایا کہ میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہوگا اور ان کے بعد میرے دونوا سے حسن (ع) و حسین (ع) ہوں گے، اس کے بعد صلب حسین (ع) سے نو ائمہ ابرار ہوں گے۔
اس نے کہایا محمد! ذرا ان کے نام بھی ارشاد فرمائیں ؟ فرمایا کہ حسین (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند محمد(ع) ، ان کے بعد ان کے فرزند جعفر (ع)… جعفر (ع) کے بعد ان کے فرزند موسیٰ (ع)… موسیٰ (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند محمد (ع) ، محمد (ع) کے بعد ان کے فرزند علی (ع) ، علی (ع) کے بعد ان کے فرزند حسن (ع) ، اس کے بعد حجت بن الحسن (ع) یہ کل بارہ امام ہیں جن کا عدد بنياسرائیل کے نقیبوں کے برابر ہے۔
اس نے دریافت کیا کہ ان سب کی جنت میں کیا جگہ ہوگی ؟ فرمایا میرے ساتھ میرے درجہ ہیں۔( فرائد السمطین 2 ص 133 ، 134 / 430)۔
92۔ نضر بن سوید نے عمرو بن ابی المقدام سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (ع) کو میدان عرفات میں دیکھا کہ لوگوں کو بآواز بلند پکاررہے ہیں اور فرمارہے ہیں ایہا الناس ! رسول اکرم قوم کے قائد تھے ، ان کے بعد علی (ع) بن ابی طالب (ع) تھے، اس کے بعد حسن (ع) پھر حسین (ع) پھر علی (ع) بن الحسین (ع) پھر محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر میں ہوں اور یہ باتیں چاروں طرف رخ کرکے تین مرتبہ دہرائی۔ ( کافی 1 ص 286 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 40 ، الفقیہ 4 ، ص 180 / 5408 ، کمال الدین 1 ص 250 ، 285 ، الغیبتہ النعمانی ص 57، مناقب ابن المغازلی ص 304 ، احقاق الحق 4 ص 83 ، 13 ص 49 ، کفایة الاثر ص 149 ، 150 ، 177 ، 264 300 ، 306۔
معرفت اہلبیت (ع)
قیمت معرفت اہلبیت (ع)
۔ رسول اکرم ۔ جس شخص کو پرورگار نے میرے اہلبیت (ع) کی معرفت اور محبت کی توفیق دید گویا اس کے لئے تمام خیر جمع کردیا۔(امالی صدوق (ر) 383 /9 ، بشارة المصطفیٰ ص 186)۔
94۔ رسول اکرم۔ معرفت آل محمد جہنم سے نجات کا وسیلہ ہے اور حب آل محمد صراط سے گذرنے کا ذریعہ ہے اور ولایت آل محمد عذاب الہی سے امان ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 78 /16 ، فرائد السمطین 2 ص257 ، احقاق الحق 18 / 496 ۔ 9/494)۔
95۔ سلمان فارسی میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ پروردگار نے ہر نبی اور رسول کے لئے بارہ نقیب معین فرمائے ہیں تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان۔ ان بارہ کی معرفت کا فائدہ کیاہے؟ فرمایا سلمان ! جس نے ان کی مکمل معرفت حاصل کرلی اور اقتدا کرلی کہ ان کے دوست سے محبت کی اور دشمن سے بیزاری اختیار کی وہ خدا کی قسم ہم سے ہوگا اور وہیں وارد ہوگا جہاں ہم وارد ہوں گے اور وہیں رہے گا جہاں ہم رہیں گے۔(بحار الانوار53/142۔162 ، 25 ص6 ،9)۔
96۔ امیر المومنین (ع) ، خوش بخت ترین انسان وہ ہے جس نے ہمارے فضل کو پہچان لیا اور ہمارے ذریعہ خدا کا قرب اختیار کیا اور ہماری محبت میں اخلاص پیدا کیا اور ہماری دعوت پر عمل کیا اور ہمارے روکنے سے رک گیا ، یہی شخص ہم سے ہے اور جن میں ہمارے ساتھ ہوگا۔( غرر الحکم ص 3297)۔
97 ۔ امام (ع) صادق کا بیان ہے کہ امام حسین (ع) اپنے اصحاب کے مجمع میں آئے اور فرمایا کہ پرودرگار نے بندوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ اسے پہچانیں اس کے بعد جب پہچان لیں گے تو عبادت بھی کریں گے اور جب اس کی عبادت کریں گے تو اغیار کی عبادت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔
ایک شخص نے عرض کی کہ معرفت خدا کا مفہوم اور وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا ہر زمانہ کا انسان اس دور کے اس امام کی معرفت حاصل کرے جس کی اطاعت واجب کی گئی ہے( اور اس کے ذریعہ پروردگار کی معرفت حاصل کرے) ( علل الشرائع 9/ 1ز سلمہ بن عطاء ، کنز الفوائد 1 ص 328 ، احقاق الحق 11/594)۔
98۔ امام باقر (ع) ! خدا کو وہی شخص پہچان سکتاہے اور اس کی عبادت کرسکتاہے جو ہم اہلبیت (ع) میں سے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل کرلے۔ (کافی 1/181 از جابر)۔
99۔ زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ ذرا معرفت امام کے بارے میں فرمائیں کہ کیا یہ تمام مخلوقات پر واجب ہے ؟ فرمایا کہ پروردگار نے حضرت محمد کو تمام عالم انسانیت کے لئے رسول اور تمام مخلوقات کے لئے اپنی حجت بناکر بھیجا ہے لہذا جو شخص بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق اور ان کا اتباع کرے اس پر امام اہلبیت (ع) کی معرفت بہر حال واجب ہے۔( کافی 1 ص 180 / 3)۔
100۔ سالم ! میں نے امام محمد باقر (ع) سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا ” ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنے منتخب بندوں کو قرار دیا ہے جن میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، بعض درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں اور بعض نیکیوں کے ساتھ سبقت کرنے والے ہیں ” کہ ان سب سے مراد کون لوگ ہیں “؟
فرمایا سبقت کرنے والا امام ہوتاہے، درمیانی راہ پر چلنے والا اس کا عارف ہوتاہے اور ظالم اس کی معرفت سے محروم شخص ہوتاہے۔(کافی 1 ص 214/1)۔
101۔ زرعہ ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کی کہ معرفت کے بعد سب سے عظیم عمل کونسا ہے؟ فرمایا معرفت کے بعد نماز کے ہم پلہ کوئی عمل نہیں ہے اور معرفت و نماز کے بعد زکٰوة کے برابر کوئی کام نہیں ہے اور ان تینوں کے بعد روزہ جیسا کوئی عمل نہیں ہے اور روزہ کے بعد حج جیسا کوئی عمل نہیں ہے لیکن یہ یاد رکھنا کہ ان سب اعمال کا آغاز و انجام ہم اہلبیت (ع) کی معرفت ہے اور اس کے بغیر کسی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ( امالی طوسی (ر) 694 / 1478)۔
102۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ہم وہ ہیں جن کی اطاعت پروردگار نے واجب قرار دی ہے اور کسی شخص کو ہماری معرفت سے آزاد نہیں رکھا گیا ہے اور نہ اس جہالت میں معذور قرار دیا گیا ہے۔… اگر کوئی شخص ہماری معرفت حاصل نہ کرے اور ہمارا انکار بھی نہ کرے تو بھی گمراہ رہے گا جب تک راہ راست پر واپس نہ آجائے اور ہماری اطاعت ہیں داخل نہ ہوجائے ورنہ اگر اسی ضلالت پر مرگیا تو پروردگار جو چاہے گا برتاؤ کرے گا ۔( کافی 1 ص 187 / 11)۔
103۔ اما م صادق (ع) نے آیت کریمہ ” جسے حکمت دیدی گئی اسے خیر کثیر دیدیا گیا“ کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ حکمت سے مراد امام کی اطاعت اور اس کی معرفت ہے۔(کافی 1 ص185 /11 ۔ از ابوبصیر)۔
104۔ اما م صادق (ع) نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم کرائی ، خدایا مجھے اپنے معرفت عطا فرماکہ اگر میں تجھے نہ پہچان سکا تو تیرے نبی کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرمای کہ اگر انھیں نہ پہچان سکا تو تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کہ اگر اس سے محروم رہ گیا تو دین سے گمراہ ہوجاؤ گا ۔( کافی 1 ص 337 / 5 از زرارہ)۔
105۔ اما م رضا (ع) ائمہ معصومین کی قبروں کی زیارت کے ذیل میں فرمایا کرتے تھے کہ سلام ہو ان پر جو معرفت خدا کا مرکز تھے… جس نے ان کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا اور جو ان کی معرفت سے جاہل رہ گیا وہ خدا سے بے خبر رہ گیا ۔( کافی 4 ص 578 / 2 ، کامل الزیارات ص 315 از علی بن حسّان)۔