طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر میں حضرت عثمانبن حنیف سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کسی حاجت کے تحت حضرت عثمانبن عفان کے پاس آتا رہتا تھا لیکن حضرت عثمان اس کی طرف توجہ نہ دیتے تھے اور نہ ہی اس کی حاجت پوری کرتے تھے۔ چنانچہ اس شخص نے ابن حنیف سے اس امر کی شکایت کی تو جناب عثمانبن حنیف نے کہا:
وضو کی جگہ پر جا کر وضو کرو پھر مسجد میں داخل ہو کر صرف دو رکعت نماز ادا کرو اس کے بعد کہو:
اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبینا محمد نبی الرحمة یا محمد انی اتوجہ بک الیٰ ربی فتقضیٰ حاجتی۔
بعد ازاں اپنی حاجت بیان کیجئے۔
وہ شخص یہ سن کر چلا گیا اور ان کی ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ اس کے بعدحضرت عثمانبن عفان کے دروازے پر آیا تو ان کا دربان اسے ہاتھ سے پکڑ کر عثمان کے پاس لے گیا۔ انہوں نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور کہا:
تیری حاجت کیا ہے؟
اس نے اپنی حاجت بیان کی اور عثمان نے وہ حاجت پوری کر دی اور کہا:
تیری حاجت مجھے بالکل یاد نہیں رہی اور ابھی یاد آگئی ہے۔
پھر کہا:
تیری جو بھی حاجت ہو وہ بیان کرو۔ 4
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےچچا حضرت عباسسے طلب شفاعت
صحیح بخاری میں مرقوم ہے کہ جب خشک سالی ہوتی تو عمر بن خطاب حضرت عباس بن عبد المطلب کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کرتے تھے۔ وہ دعا یوں کیا کرتے تھے:
اے اللہ ہم تجھ سے ہمارے نبی (ص)کا واسطہ دے کرطلب باران کرتے تھے اور تو ہمیں بارش سے سیراب کرتا تھا۔اب ہم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباسکا واسطہ دے کر بارش طلب کرتے ہیں پس ہمیں سیراب کر دے۔
پس ان کے لئے بارش کا نزول ہوتا تھا۔۱ عباس کے ذریعے طلب باران کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔
اس قدر احادیث کی موجودگی میں انبیاء علیہم السلام خاص کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ صفات جلیلہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا شدہ فضائل سے تمام انبیاء علیہم السلام پر آپ کو برتری حاصل ہے لہذا مسلمانوں میں اس بابت کسی قسم کا اختلاف باقی نہیں رہنا چاہیے۔
اب ہم یہاں خاتم الانبیاء حضور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات میں اختلاف کے بعض عوامل کا تذکرہ کرتے ہیں۔
انبیاء و صالحینکی یاد میں محافل منعقد کرنا
الف ۔ مقام ابراہیم (ع)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہمَ مُصَلًّی۔,5
کہ مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ۔
یہاں صحیح بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ ہدیہٴ قارئین کرتے ہیں:
جب ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے تو اسماعیل(ع) نے پتھر لانا شروع کیا اور حضرت ابراہیم(ع) پتھروں سے دیوار بنا رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب عمارت بلند ہو گئی تو وہ یہ پتھر لے آئے اور اسے زمین پر رکھا۔ پھر ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر دیوار بنانے لگے جبکہ اسماعیل ان کو پتھر تھما رہے تھے۔
اس کے بعد روایت کا حصہ کچھ اس طرح ہے:
یہاں تک کہ عمارت بلند ہو گئی اور سن رسیدہ نبی حضرت ابراہیم(ع) پتھروں کو حرکت دینے سے عاجز آ گئے۔ پس وہ اس مقام (مقام ابراہیم(س) ) والے پتھر پر کھڑے ہو گئے اور اسماعیل(ع) نے پتھر تھمانا شروع کیا۔6
خدا نے واضح طور پر لوگوں کو اس بات کا حکم دیاہے کہ وہ بیت الحرام میں حضرت ابراہیم(س) کے قدموں کی جگہ کو متبرک سمجھیں اور اسے نماز کی جگہ قرار دیں تاکہ ابراہیم(س) کی یاد ہمیشہ زندہ و جاوداں رہے۔ اس میں شرک باللہ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔
ب۔ صفا اور مروہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا 7
صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کریں اس کے لئے ان دونوں کا چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں۔
بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے:
جب حضرت ابراہیم نے حاجرہکو اسماعیل کے ساتھ مکہ میں چھوڑ دیا اور پانی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے وہ پیاسی ہو گئیں اور ان کا بیٹا بھی پیاس کی وجہ سے پیچ و تاب کھانے لگا تو وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہ دیکھ سکیں اس لئے کوہ صفا کی طرف تشریف لے گئیں اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر دیکھا کہ آیا کوئی نظر آتا ہے یا نہیں، لیکن انہیں کوئی نظر نہیں آیا۔ پس وہ کوہ سے نیچے تشریف لے آئیں۔ جب وادی میں پہنچیں تو ایک تھکے ماندے انسان کی طرح دوڑیں یہاں تک کہ وہ وادی کو عبور کر گئیں پھر مروہ (کی پہاڑی) پر چلی گئیں اور اس پر کھڑی ہو گئیں اور دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ لیکن انہیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ یوں وہ سات مرتبہ اس کے اوپر چڑھیں اور نیچے اتریں۔
ابن عباسکہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لوگوں کے ان دونوں (صفاو مروہ) کے پہاڑوں کے درمیان دوڑنے کی وجہ یہی ہے۔,8
اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو حج کی رسومات میں داخل کیا تاکہ ان دونوں کے درمیان حاجرہکی دوڑ کی یاد تازہ اور زندہ رہے۔ جس وادی کے درمیان جناب حاجرہایک مجبور انسان کی طرح تیز تیز چلی تھیں اس وادی میں (حاجیوں کے لئے) تیز قدموں کے ساتھ چلنے کا استحباب دراصل جناب حاجرہکی دوڑ کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے ہے۔لہذا ان سب احکام کا شمار شعائر اللہ میں ہوتا ہے۔
ج ۔ رمی جمرات
احمد بن حنبل اور محدث طیالسی نے اپنی اپنی مسندوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:
جبرائیل حضرت ابراہیمعلیہ السلام کو لے کر جمرہ عقبہ کے پاس گئے۔ وہاں ان کا شیطان سے سامنا ہوا۔ جناب ابراہیم نے شیطان کو سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر جمرہ وسطیٰ کے پاس تشریف لے آئے تو شیطان آڑے آیا۔ پس آپ نے شیطان پر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دوبارہ دھنس گیا۔ اس کے بعد آخری جمرہ کے پاس آئے تو شیطان پھر آڑے آیا۔ آپنے پھر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دھنس گیا۔,9
یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم(س) کی سے طرف شیطان کو کنکریاں مارنے کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اجتماعی محفل برپا کرنے کو حج کے مناسک میں داخل کیا ہے۔
د۔ قربانی
اللہ تعالیٰ اپنے نبی جناب ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کے واقعہ کے بارے میں فرماتا ہے:
فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ o فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ط قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ سَتَجِدُنِیٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ O فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَ تَلَّہلِلْجَبِیْنِ O وَ نَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرٰہِیْمُ O قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْ یَا ج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ O اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓوٴُا الْمُبِیْنُ O وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ O 10
چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ ان
کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا تو کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے دبح کر رہا ہوں، پس دیکھ لو، تمہاری کیا رائے ہے، اس نے کہا: اسے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، پس جب دونوں نے (حکم خدا کو ) تسلیم کیا اور اسے ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں، یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔
یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمعلیہ السلام کے ہاتھوں جناب اسماعیلعلیہ السلام کی قربانی اور اللہ کی طرف سے اسماعیل کے بدلے بہشتی دنبے کی ترسیل کی یاد زندہ رکھنے اور اس سلسلے میں عوامی اجتماع برپا کرنے کو مراسم حج کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حاجیوں کو سنت ابراہیمی پر چلتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں حضرت ابراہیم کے کردار کی یاد مناتے ہوئے منیٰ میں قربانی دینے اور محفل بپا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
مقام ابراہیم میں ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کی برکت آپ کی قدم گاہ میں سرایت کر گئی۔ لہذا خدا نے بیت الحرام کے اندر اسے نماز کی جگہ قرار دینے کا حکم دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کو ان کی یاد زندہ رکھنے کا وسیلہ قرار دیاہے۔
source : http://www.ahlulbaytportal.ir