تحقیق حدیث ثقلین
1۔ سند حدیث ثقلین
یہ حدیث ثقلین جس میں رسول اسلام نے اہلبیت (ع) کو قرآن مجید کا شریک اور ہم پلہ قرار دے کر امت اسلامیہ کو ان سے تمسک کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ ان متواتر احادیث میں ہے جس پر تمام رواة اور محدثین نے اتفاق کیاہے اور قطعی طور پر 23 ۔ اصحاب رسول نے اسے نقل کیا ہے جن کے اسماء گرامی بالترتیب یہ ہیں۔
ابوایوب انصاری۔ ابوذر غفاری، ابورافع غلام رسول اکرم ابوسعید الخدری ، ابوشریح الخزاعی، ابوقدامہ الانصاری ، ابولیلی انصاری ، ابو المیثم ابن التبیان ، ابوہریرہ، ام سلمہ ،ام ہانی ، انس بن مالک، البراء بن عازب ، جابر بن عبداللہ الانصاری جبیر بن مطعم، حذیفہ بن اسید الغفاری ، حذیفہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ، زید بن ارقم - زید بن ثابت ، سعد بن ابی وقاص ، سلمان الفارسی ، سہل بن سعد، ضمرہ الاسلمی ، طلحہ بن عبیداللہ التمیمی ، عامر بن لیلیٰ ، عبدالرحمان بن عوف ، عبداللہ بن حنطب ، عبداللہ بن عباس ، عدی بن حاتم ، عقبہ بن عامر ، عمربن الخطاب، عمرو بن العاص ( صحیح مسلم 4 ص1874، سنن ترمذی5 /662 / 2786 / 2788 ، سنن دارمی 2 / 889 / 3198 ، مسند ابن حنبل 4/30 / 11104 / 36 / 11131۔ 54 /11211 ، 7 ص 84 / 19332 ، 8 ص 138 / 21634 ، ص 154 / 21711 ، 118 / 11561 ، مستدرک 3 ص 118 / 4577 ، حصائص نسائی 150 / 79 ، تاریخ بغداد 8 ص 422 الطبقات الکبریٰ 2 ص 196 ، المعجم الکبیر 3 ص 65 ،67 / 2678 ، 2681 ، 2683 ، الدرالمنثور 2 ص 60 ، کنز العمال 1 ص 172 ، ینابیع المودة 1 ص 95 / 126 ، مجمع الزوائد 9 ص 257 ، اسدالغابہ 3 / 136 / 2739 ص 219 / 2907 ، الصواعق المحرقہ ص 226 ، البدایتہ والنہایہ 7 ص 349 ، جامع الاصول 9 ص 158 ، احقاق الحق 9 ص 309 ، 375 ، نفحات الازہار خلاصہ عبقات الانوار 2 ص 88 ، 227 ، الخصال 65 / 97 ، 459 / 2 ، امالی طوسی (ر) 1 ص 255 2 ص 490 ، کمال الدین 234 ، 241 ، معانی الاخبار 90/ 3 ، امالی مفید ص 46 / 6 ، امالی صدوق ص 339 ارشاد 1 /233 ، کفایتہ الاثر ص 92 ، 128 ، 137۔
اس کے علاوہ صاحب عبقات الانوار کے بیان کے مطابق 19 تابعین ہیں جنھوں نے اس حدیث شریف کو نقل کیا ہے اور تین سو سے زیادہ علماء و مشاہیر و حافظین احادیث ہیں جنھوں نے دوسری صدمی سے چودھویں صدی تک اپنی کتابوں اور اپنے بیانات میں اس کا ذکر کیاہے۔( نفحات الازہار 2 ص 90)۔
واضح رہے کہ صاحب نہایتہ نے ثقلین کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ ان کا اختیار کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا بہت سنگین کام ہے اور اس کے علاوہ ہر گرانقدر چیز کو ثقل کہا جاتاہے اور پیغمبر اکرم نے انھیں ثقلین اسی اعتبار سے قرار دیاہے۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ صاحب عبقات کے بیان کے مطابق سخاوی نے ” استجلاب ارتقاء الغرف“ میں اور سہروردی نے ” جواہر العقدین “ میں بیس اصحاب کے روایت کرنے کا اعتراف کیاہے حالانکہ در حقیقت ان کی تعداد 33 ، ہے جیسا کہ گذشتہ سطروں میں تفیصلی تذکرہ کیا جاچکاہے۔
صحابہ کرام ، تابعین ، علماء و محدثین کے علاوہ ائمہ اہلبیت (ع) نے بھی اس حدیث مبارک کا مسلسل تذرکہ فرمایاہے اور اس کی اجمالی فہرست یہ ہے۔
جناب فاطمہ (ع) سے یہ حدیث ینابیع المودة 1 ص 123 ، نفحات الازہار 2 ص 236 میں نقل کی گئی ہے۔
امام حسن (ع) سے ینابیع المودة 1 ص 74 ، کفایة الاثر ص 162 ، نفحات الازہار 2 ص67 میں نقل کی گئی ہے۔
امام حسین (ع) سے کمال الدین ص 240 64 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 / 67 میں نقل کی گئی ہے۔
امام محمد(ع) باقر سے کافی 3 ص 432 امالی طوسی (ر) ص 163 ، روضة الواعظین ص 300 میں نقل کی گئی ۔
امام جعفر صادق (ع) سے کافی 1 ص 294 ، کمال الدین 1 ص 244 ، تفسیر عیاشی 1 ص 5/9 میں نقل کی گئی ہے۔
امام علی (ع) رضا سے عیون الاخبار 2 ص 58 بحار 10 ص 369 میں نقل کی گئی ہے۔
امام علی (ع) نقی سے تحف العقول ص 458 ، الاحتجاج 2 ص 488 میں نقل کی گئی ہے۔
ب ۔ تاریخ صدور حدیث
حدیث مبارک کے صدور اور اس کی مناسبت کے بارے میں تحقیق کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ حضور نے اس کی بار بار تکرار فرمائی ہے اور اس بات پر زور دیاہے کہ امت اسلامیہ کا سماجی اور سیاسی مستقبل انھیں سے وابستہ ہے اور ان کے بغیر تباہی اور گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ذیل میں ان مقامات کی جمالی نشاندہی کی جارہی ہے ۔
1 ۔ حجة الوداع کے موقع پر روز عرفہ ( سنن ترمذی 5 / 262 / 3786)۔
2 ۔ مسجد خیف میں ۔ اس کے راوی سلیم بن قیس ہیں۔(ینابیع المودة 1 ص 109 / 31)۔
3 ۔ غدیر خم میں ۔ اس کے راوی زید بن ارقم ہیں ۔( مستدرک 3 ص 118 / 4576 / 3 ص 613 / 6272 ، خصائص نسائی ص 150 ، کمال الدین ص 234 / 45 ص 238 / 55)۔
واضح رہے کہ صاحب مستدرک نے دونوں مقامات پر اس امر کی تصریح کی ہے کہ اس حدیث کی سند بخاری اور مسلم دونوں کے اصول پر صحیح ہے مگر ان حضرات نے اسے اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے۔
4۔ مرض الموت کے دوران حجرہ کے اندر جب حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ یہ روایت جناب فاطمہ (ع) سے نقل کی گئی ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 124 ، مسند زید ص 404)
نوٹ ! صواعق محرقہ ص 150 پر ابن حجر کا بیان ہے کہ حدیث تمسک کے مختلف طرق ہیں جن میں اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ کرام سے نقل کیا گیاہے اور بعض میں یہ تذکرہ ہے کہ حضور نے اسے حجة الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں فرمایاہے۔ بعض میں مدینہ میں حجرہ کے اندر کا ذکر ہے بعض روایات میں حج سے واپسی پر غدیر خم کا حوالہ ہے اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ اس بات کا امکان بہر حال پایا جاتاہے کہ حضور نے یہ بات بار بار ارشاد فرمائی ہو کہ کتاب عزیز اور عترت طاہرہ (ع) دونوں اس قابل ہیں کہ ان کے بارے میں تاکید اور اہتمام سے کام لیا جائے۔
3 ۔ خلفاء اللہ
184 ۔ کمیل بن زیاد راوی ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) میرا ہاتھ پکڑ کر صحرا کی طرف لے گئے اور وہاں جاکر ایک آہ سرد کھینچ کر فرمایا ” بیشک زمین حجت خدا کو قائم رکھنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی ہے چاہے ظاہر بظاہر ہو یا پردہٴ غیب میں ہوتا کہ اللہ کے دلائل و بینات باطل نہ ہونے پائیں۔ مگر یہ کتنے ہیں اور کہاں ہیں ؟ خدا کی قسم عدد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہیں اگر چہ قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت عظیم ہیں۔ انھیں کے ذریعہ پروردگار اپنے حجج و بینات کا تحفظ کرتاہے یہاں تک کہ اپنے امثال کے حوالہ کردیں اور اپنے جیسے افراد کے دلوں میں ثابت کردیں۔ انھیں علم نے حقیقت بصیرت تک پہنچا دیاہے اور روح یقین ان کے اندر پیوست ہوگئی ہے۔ جسے دنیادار سخت سمجھتے ہیں وہ ان کے لئے نرم ہے اور جس سے جاہلوں کو وحشت ہوتی ہے اس سے انھیں انس حاصل ہوتاہے۔ یہ دنیا میں ان اجسام کے ساتھ زندہ رہتے ہیں جن کی روحیں عالم اعلیٰ سے وابستہ رہتی ہیں۔
یہ زمین میں ” خلفاء اللہ “ اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں ۔ ہائے مجھے کس قدر اشتیاق ہے انھیں دیکھنے کا ۔ (نہج البلاغہ حکمت ص 147)۔
خصال ص 186 / 257 کمال الدین ص 291 ، تاریخ یعقوبی 2 ص 206 ، خصائص الائمہ ص 106 ، حلیة الاولیاء 1 ص 79 ، کنز العمال 10 ص 262 / 29291 ، امالی الشجری 1 ص 66 ، مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 95)۔
185 ۔ امام زین العابدین (ع) دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں ۔ خدایا رحمت نازل فرما ان پاکیزہ کردار اہلبیت (ع) پر جنھیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم کا خزانہ بنایاہے اور اپنے دین کا محافظ قرار دیاہے اور وہ زمین میں ” تیرے خلفاء“ اور بندوں پر تیری حجت ہیں ۔ انھیں ہر رجس اور کثافت سے پاک بنایاہے اور اپنی بارگاہ کے لئے وسیلہ اور اپنی جنت کے لئے سیدھا راستہ قرار دیاہے۔( صحیفہ سجادیہ دعاء ص 47 ) ۔
186۔ امام رضا (ع) ۔ ائمہ زمین میں پروردگار کے خلفاء ہوتے ہیں ۔ کافی 1 ص 193 )۔
187 ۔ علی بن حسان ! امام رضا (ع) سے امام موسیٰ (ع) کاظم کی زیارت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا اطراف قبر میں جس مسجد میں چاہونماز ادا کرو اور زیارت کے لئے ہر مقام پر اسی قدر کافی ہے” سلام ہو اولیاء و اصفیاء پروردگار پر ۔ سلام ہو امناء و احباء الہی پر ۔ سلام ہو انصار و خلفاء اللہ پر ۔( الفقیہ 2 ص 608 ، عیو ن اخبار الرضا (ع) ص2 ص 271 ، کامل الزیارات ص 315 ، کافی 4 ص 579) ۔
واضح رہے کہ کافی کی روایت میں زیارت قبر امام حسین (ع) کا ذکر کیا گیاہے۔
188۔ امام علی نقی (ع) نے زیارت جامعہ میں ارشاد فرمایاہے ” میں گواہی دیتاہوں کہ آپ حضرات ائمہ راشدین و مہدیین ہیں۔ خدا نے اپنی روح سے آپ حضرات کی تایید کی ہے اور آپ کو زمین پر اپنا خلیفہ انتخاب فرمایاہے۔ ( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔
4۔ خلفاء النبی
189۔ رسول اکرم ! میرے خلفاء ۔ اولیاء اور میرے بعد مخلوقات پر حجت پروردگار بارہ افراد ہوں گے۔ اول میرا برادر اور آخر میرا فرزند ! سوال کیا گیا کہ یہ برادر کون ہیں ؟ فرمایا علی (ع) بن ابی طالب ! اور فرزند کون ہے؟ فرمایا وہ مہدی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیگا ۔( کمال الدین ص 280 / 27 ، فرائد السمطین 2 ص 312 / 562 از عبداللہ بن عباس)۔
190 ۔ امام علی (ع) حضرت مہدی (ع) کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ وہ حکم کی زرہ سے آراستہ ہوگا اور اس کے تمام آداب پر عامل ہوگا کہ اس کی طرف متوجہ بھی ہوگا اور اس کی معرفت بھی رکھتاہوگا اور اس کے لئے اپنے کو فارغ رکھے گا ، گویا اس کا گمشدہ ہے جس کی تلاش جاری ہے اور ایک ضرورت ہے جس کے بارے میں جستجو کررہاہے۔ وہ اس وقت غریب و مسافر ہوجائے گا جب اسلام غربت کا شکار ہوگا اور تھکے ماندہ اونٹ کی طرح سینہ زمین پر ٹیک دیا ہوگا اور دم مار رہاہوگا ۔ وہ اللہ کی باقیماندہ حجتوں کا بقیہ ہے اور اس کے انبیاء کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 182)۔
191 ۔ امیر المومنین (ع) آل محمد کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ائمہ طاہرین اور عترت معصومین ہیں ۔ یہی ذریت محترم ہیں اور یہی خلفاء راشدین ہیں ۔( مشارق انوار الیقین ص118 از طارق بن شہاب ) ۔
192۔ امام صادق (ع) ، ائمہ رسول اکرم کی منزل میں ہوتے ہیں لیکن رسول نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کے لئے وہ چیزیں حلال ہیں جو صرف پیغمبر کے لئے حلال ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہر مسئلہ میں رسول اکرم کی منزلت میں ہیں ۔( کافی 1 ص 270 از محمد بن مسلم )۔
5۔ اوصیاء نبی
193۔ رسول اکرم ! میں سید الانبیاء والمرسلین اور افضل از ملائکہ مقربین ہوں اور میرے اولیاء تمام انبیاء و مرسلین کے اوصیاء کے سردار ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 245 ، بشارة المصطفی ٰ ص 34)۔
194 ۔ رسول اکرم ! میں انبیاء کا سردار ہوں اور علی (ع) بن ابی طالب (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے اوصیاء میرے بعد کل بارہ ہوں گے جن کے اول علی (ع) بن ابی طالب ہوں گے اور آخری قائم ۔( کمال الدین ص 280 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 64 ، فرائد السمطین 2 ص 313۔
195 ۔ رسول اکرم ! ہر نبی کا ایک وصی اور وارث ہوتاہے اور علی (ع) میرا وصی اور وارث ہے(الفردوس 3 ص 336)۔
تاریخ دمشق حالات امیر المؤمنین (ع) 3 ص 5 / 1021 ، 1022 ، مناقب خوارزمی 84/ 74 ، مناقب ابن المغازلی ص 200 / 238)۔
196۔ سلمان ! میں نے رسول اکرم سے عرض کی کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتاہے تو آپ کا وصی کون ہے ؟ آپ خاموش ہوگئے، اس کے بعد جب مجھے دیکھا تو آوازی دی ، میں دوڑ کر حاضر ہوا ۔ فرمایا تمھیں معلوم ہے کہ موسی ٰ (ع) کا وصی کون ہے ؟ میں نے عرض کی یوشع بن نون ! فرمایا کیسے ؟ عرض کی کہ وہ سب سے بہتر تھے۔ فرمایا تو میرا وصی اور میرے اس امر کا مرکز اور میری تمام امت میں سب سے بہتر، میرے تمام وعدوں کو پورا کرنے والا اور میرے قرض کا ادا کرنے والا علی (ع) بن ابی طالب ہوگا۔ (المعجم الکبیر 6 ص 221 / 63 60 ، کشف الغمہ 1 ص 157)۔
197۔ رسول اکرم حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی خدایا میرے اوصیاء کون ہیں ؟ ارشاد ہوا ۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء کون ہیں؟ ارشاد ہوا۔ اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نور چمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع)۔
میں نے عرض کی خدایا یہی میرے اوصیاء ہیں؟ ارشاد ہوا ، اے محمد ! تمھارے اوصیاء وہی ہیں جن کے نام ساق عرش پر لکھے ہوئے ہیں تو میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور بارہ نورچمکتے ہوئے دیکھے اور ہر نور پر ایک سبز لکیر دیکھی جس پر میرے ایک وصی کا نام لکھا ہوا تھا جس میں پہلے علی (ع) بن ابی طالب تھے اور آخری مہدی (ع) میں نے عرض کی خدایا یہی میرے بعد میرے اوصیاء ہیں ؟ ارشاد ہوا اے محمد ! یہی میرے اولیاء ، احباء ، اصفیاء اور تمھارے بعد مخلوقات پر میری حجت ہیں اور یہی تمھارے اوصیاء خلفاء اور تمھارے بعد بہترین مخلوقات ہیں۔(علل الشرائع 6 ص 1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 264 ، کمال الدین ص 256 از عبدالسلام بن صالح الہروی از امام رضا (ع) )۔
198 ۔ رسول اکرم کا وقت آخر تھا اور جناب فاطمہ (ع) فریاد کررہی تھیں کہ آپ کے بعد میرے اور میری اولاد کے برباد ہوجانے کا خطرہ ہے، امت کے حالات آپ کی نگاہوں کے سامنے ہیں تو آپ نے فرمایا ، فاطمہ (ع) ! کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے ہم اہلبیت (ع) کے لئے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے اور تمام مخلوقات کے لئے فناکو مقدر کردیا ہے، اس نے ایک مرتبہ مخلوقات پر نگاہ انتخاب ڈالی تو تمھارے باپ کو منتخب کرکے نبی قرار دیا اور دوبارہ نگاہ ڈالی تو تمھارے شوہر کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں تمھارا عقد ان کے ساتھ کردوں اور انھیں اپنا ولی اور وزیر قرار دیدوں اور امت میں اپنا خلیفہ نامزد کردوں تو اب تمھارا باپ تمام انبیاء و مرسلین سے بہتر ہے اور تمھارا شوہر تمام اولیاء سے بہتر ہے اور تم سب سے پہلے مجھ سے ملنے والی ہو۔
اس کے بعد مالک نے تیسری نگاہ ڈالی تو تمھیں اور تمھارے دونوں فرزندوں کا انتخاب کیا، اب تم سردار نساء اہل جنت ہو اور تمھارے دونوں فرزند سرداران جوانان اہل جنّت ہیں اور تمھاری اولاد میں قیامت تک میرے اوصیاء ہوں گے جو ہادی اور مہدی ہوں گے، میرے اوصیاء میں سب سے پہلے میرے بھائی علی (ع) ہیں، اس کے بعد حسن (ع) اس کے بعد حسین (ع) اور اس کے بعد نو اولاد حسین (ع) یہ سب کے سب میرے درجہ میں ہوں گے اورجنّت میں خدا کی بارگاہ میں میرے درجہ سے اور میرے باپ ابراہیم کے درجہ سے قریب تر کوئی درجہ نہ ہوگا ۔( کمال الدین ص 263 از سلیم بن قیس الہلالی)۔
199۔ امام حسین (ع) ! پروردگار عالم نے حضرت محمد کو تمام مخلوقات میں منتخب قرار دیا ہے، انھیں نبوت سے سرفراز کیا ہے، رسالت کے لئے انتخاب کیا ہے، اس کے بعد جب انھیں واپس بلالیا، اس وقت جب وہ بندوں کو نصیحت کرچکے اور پیغام الہی کو پہنچا چکے تو ہم ان کے اہلبیت (ع) اولیاء ، اوصیاء، ورثہ اور تمام لوگوں سے زیادہ ان کی جگہ کے حقدار تھے لیکن قوم نے ہم پر زیادتی کی تو ہم خاموش ہوگئے اور ہم نے کوئی تفرقہ پسند نہیں کیا بلکہ عافیت کو ترجیح دی جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان تمام لوگوں سے زیادہ حقدار میں جنھوں نے اس جگہ پر قبضہ کرلیا تھا، ۔( تاریخ طبری 5 ص 357 از ابوعثمان نہدی، البداینة والنہایتہ 8 ص 157)۔
200 ۔ امام محمد باقر (ع) ! پروردگار کی بارگاہ میں سب سے زیادہ قریب تر ، لوگوں سے سب سے اعلم اور مہربان حضرت محمد اور ائمہ کرام ہیں لہذا جہاں یہ داخل ہوں سب داخل ہوجاؤ اور جس سے یہ الگ ہوجائیں سب الگ ہوجاؤ، حق انھیں میں ہے اور یہی اوصیاء میں اور یہی ائمہ ہیں ، جہاں انھیں دیکھو ان کا اتباع شروع کردو( کمال الدین ص 328 از ابوحمزہ الثمالی)۔
201۔ محمد بن مسلم! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ کی کچھ مخصوص مخلوق ہے جسے اس نے اپنے نور اور اپنی رحمت سے پیدا کیا ہے، رحمت سے رحمت کے لئے، یہی خدا کی نگرانی کرنے والی آنکھیں اس کے سننے والے کان، اس کی اجازت سے بولنے والی زبان اور اس کے تمام احکام و بیانات کے امانتدار ہیں، انھیں کے ذریعہ وہ برائیوں کو محو کرتاہے، ذلت کو دفع کرتاہے، رحمت کو نازل کرتاہے، مردوہ کو زندہ کرتاہے، زندہ کو مردہ بناتاہے، لوگوں کی آزمائش کرتاہے، مخلوقات میں اپنے فیصلے نافذ کرتاہے۔ تو میں نے عرض کی کہ میرے ماں باپ قربان، یہ کون حضرات ہیں، فرمایا یہ اوصیاء ہیں ۔( التوحید ص 167 ، معانی الاخبار ص 16)۔
202۔ امام ہادی (ع) نے زیارت جامعہ میں فرمایا کہ سلام ہو ان پر جو معرفت الہی کے مرکز۔ برکت الہی کے مسکن، حکمت الہی کے معدن، راز الہی کے محافظ، کتاب الہی کے حافظ ، رسول اللہ کے اوصیاء اور ان کی ذریت ہیں، انھیں پر رحمت اور انھیں پر برکات۔(تہذیب 6 ص96 / 177)۔
مولف! واضح رہے کہ ائمہ اہلبیت (ع) کے اوصیاء رسول ہونے کی روایات بہت زیادہ ہیں جن کے بارے میں ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی کا ارشاد ہے کہ قوی اسناد کے ساتھ صحیح اخبار میں اس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ رسول اکرم نے اپنے معاملات کی وصیت حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) کو فرمائی اور انھوں نے امام حسن (ع) کو … اور انھوں نے امام حسین (ع) کو … اور انھوں نے علی بن الحسین (ع) کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن موسیٰ کو … اور انھوں نے محمد بن علی (ع) کو … اور انھوں نے علی بن محمد (ع) کو … اور انھوں نے حسن (ع) بن علی (ع) کو … اور انھوں نے اپنے فرزند حجت قائم کو فرمائی کہ اگر عمر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو اس قدر طول دے گا کہ وہ منظر عام پر آکر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں، پروردگار کی صلوات و رحمت ان پر اور ان کے جملہ آباء طاہرین پر ۔ (الفقیہ 4 ص 177)۔