اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

عرفاء اللہ

13 ۔ عرفاء اللہ

247۔ رسول اکرم نے امام علی (ع) سے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں جن کے بارے میں قسم کھاتاہوں کہ یہ برحق ہیں، تم اور تمھارے بعد کے اوصیاء سب وہ عرفاء ہیں جن کے بغیر خدا کی معرفت ممکن نہیں ہے اور وہ عرفا ء میں جن کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جو انھیں پہچانتا ہوگا اور جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور یہی وہ عرفاء ہیں کہ جو ان کا انکار کردے یا وہ اس کا انکار کردیں اس کا انجام جہنم ہے۔( خصال 150 / 183 از نصر العطار)۔

248۔رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) ! تم اور تمھاری اولاد کے اوصیاء جنّت و جہنم کے درمیان اعراف کا درجہ رکھتے ہیں کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جو تمھیں پہچانے اور تم اسے پہچانوا ور جہنم میں وہی داخل ہوگا تو تمھارا انکار کردے اور تم اسے پہچاننے سے انکار کردو ( دعائم الاسلام 1 ص 725 ، ارشاد القلوب ص 298 ، از سلیم بن قیس، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 233 ، تفسیر عیاشی 2 ص 18 / 44 اس روایت میں اولاد کے بجائے تمھارے بعد کے اوصیاء کا لفظ ہے، ینابیع المودہ 1 ص 304 / 3 از سلمان فارسی)۔

249۔ امام علی (ع) ، ائمہ پروردگار کی طرف سے مخلوقات کے نگراں اور بندوں کیلئے عرفاء ہیں کہ جنت میں صرف وہی داخل ہوگا جو انھیں پہچانے اور وہ اس کو پہچانیں اور جہنم میں صرف وہی جائے گا جو ان کا انکار کردے اور وہ اس کا انکار کردیں۔( نہج البلاغہ خطبہ ص 152 ، غرر الحکم ص 3911)۔

250۔ امام علی (ع) قیامت کے حالات کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اوصیاء اصحاب صراط میں جو صراط پر کھڑے رہیں گے اور جنت میں اسی کو داخل کریں گے جو انھیں پہچانے گا اور وہ اسے پہچانیں گے اور جہنم میں وہی جائے گا جو ان کا انکار کرے گا اور وہ اس کا انکار کریں گے ۔ یہی عرفاء اللہ ہیں جنھیں خدا نے بندوں سے عہد لیتے وقت پیش کیا تھا اور انھیں کے بارے میں فرمایاہے کہ اعراف پر کچھ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے“۔

یہی تما م اولیاء کے گواہ ہوں گے اور رسول اکرم ان کے گواہ ہوں گے۔(بصائر الدرجات ص 498 / 9 از زربن حبیش ، مختصر بصائر الدرجات ص 53)۔

251۔ ہلقام ! میں نے امام باقر (ع) سے ” علی الاعراف رجال “ کے بارے میں دریافت کیا کہ اس سے مراد کیا ہے؟ فرمایا کہ جس طرح قبائل میں عرفاء ہوتے ہیں جو ہر شخص کو پہچانتے ہیں اس طرح ہم عرفاء اللہ میں اور تمام لوگوں کو ان کے علامات سے پہچان لیتے ہیں ( تفسیر عیاشی 2 ص 18 / 43)۔

252۔ ابان بن عمر ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ سفیان بن مصعب العبدی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میری جان قربان،آیتہ ” علی الاعراف رجال“ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا یہ آل محمد کے بارہ اوصیاء ہیں کہ جن کی معرفت کے بغیر خدا کا پہچاننا ناممکن ہے۔

عرض کی یہ اعراف کیا ہے ؟ فرمایا یہ مشک کے ٹیلے ہوں گے جن پر رسول اکرم اور ان کے اوصیاء ہوں گے اور یہ تمام لوگوں کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے۔(بحار الانوار 24 / 253 / 13 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 233)۔

 

14۔ ارکان زمین

253۔ امام باقر (ع) ، رسول اکرم وہ دروازہ رحمت میں جس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں ہے ، وہ راہ ہدایت ہیں کہ جو اس پر چلا وہ خدا تک پہنچ گیا یہی کیفیت امیر المومنین (ع) اور ان کے بعد کے جملہ ائمہ کی ہے، پروردگار نے انھیں زمین کا رکن بنایاہے تا کہ اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے اور راہ ہدایت کا محافظ بنایاہے، کوئی راہنما ان کے بغیر ہدایت نہیں پاسکتاہے اور کوئی شخص اس وقت تک گمراہ نہیں ہوتاہے جبتک ان کے حق میں کوتاہی نہ کرے ، یہ خدا کی طرف سے نازل ہونے والے جملہ علوم ،بشارتیں، انذار سب کے امانتدار ہیں اور اہل زمین پر اس کی حجت ہیں ، ان کے آخرکے لئے خدا کی طرف سے وہی ہے جو اول کے لئے ہے اور اس مرحلہ تک کوئی شخص امداد الہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتاہے۔( کافی 1 ص 198 / 3 ، اختصاص ص 21 ، بصائر الدرجات 199/1)۔

254۔ امام باقر (ع) نے امیر المومنین (ع) کی زیارت میں فرمایا آپ اہلبیت (ع) رحمت ، ستون دین ، ارکان زمین اور شجرہ طیبہ ہیں ۔( تہذیب 6 ص 28 ، 53 از موسیٰ بن ظبیان ، الفقیہ 2 ص 591 ، 3197 ، 3197 ، کامل الزیارات ص 45)۔

255۔ امام باقر (ع) ، ہم زمین کی بنیادیں ہیں اور ہمارے شیعہ اسلام کے حاصل کرنے کے وسائل ہی۔(تفسیر عیاشی 2 ص 243 / 18 ، از ابوبصیر)۔

 

15۔ ارکان عالم

256۔ رسول اکرم اولاد علی (ع) کے ائمہ کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ سب میرے خلفاء ۔ اوصیاء میری اولاد اور میری عترت ہیں انھیں کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے اور انھیں کے ذریعہ زمین اپنے باشندوں سمیت مرکز سے ہٹنے سے محفوظ ہے۔

(کمال الدین 258 / 3 ، احتجاج 1 ص 168 / 34 ، کفایتة الاثر ص 145 ، از علی بن ابی حمزہ از امام صادق (ع) )۔

257 ۔ امام زین العابدین (ع) ! ہم مسلمانوں کے امام اور عالمین پر اللہ کی حجت ہیں، مومنین کے سردار اور روشن پیشانی لشکر کے قائد ہیں، ہمیں مومنین کے مولا ہیں اور ہمیں اہل زمین کے لئے باعث امان ہیں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں ہمیں وہ ہیں جن کے ذریعہ پروردگار آسمانوں کو زمین پر گرنے اور زمین کو اس کے باشندوں سمیت مرکزسے کھسک جنے سے روکتاہے ، ہمارے ہی ذریعہ باران رحمت کا نزول ہوتاہے اور ہمارے ہی وسیلہ سے رحمت نشر کی جاتی ہے اور زمین کے برکات باہر آتے ہیں، اگر زمین کے برکات کا وسیلہ ہم نے ہوتے تو یہ اہل زمین سمیت دھنس جاتی ۔(امالی صدوق (ر) 156 / 15 ، کمال الدین 207 ، 22 ، ینابیع المودة 1ص 75 /11 فرائد السمطین 1 ص 6/45 / 11 روایت اعمش از امام صادق (ع) روضة الواعظین ص 220 روایت عمرو بن دینار)۔

258۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں ارشاد فرماتے ہیں، ہمارے آقاؤ ! ہم نے تمھاری مدح و ثناکااحصاء کرسکتے ہیں اور نہ تمھاری تعریف کی گہرائیوں تک پہنچ سکتے ہین اور نہ تمھاری توصیف کی حدوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، تم نیک کرداروں کے لئے نمونہ، نیک انسانوں کے لئے رہنما، اور پروردگار کی طرف سے حجت ہو، تمھارے ہی ذریعہ آغاز ہوتاہے اور تمھیں پر خاتمہ ہے، تمھارے ہی ذریعہ رحمت کا نزول ہوتاہے اور تمھارے ہی ذریعہ پروردگار آسمان کو زمین پر گرنے سے روکے ہوئے ہے۔( تہذیب 6 ص 99)۔

 

16۔ امان اہل ارض

259۔ رسول اکرم ! ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں کہ وہ ختم ہوجائیں تو اہل آسمان کا خاتمہ ہوجائے اور اسی طرح ہمارے اہلبیت (ع) اہل زمین کیلئے امان ہیں کہ ان کا سلسلہ ختم ہوجائے تو سارے اہل زمین فنا ہوجائیں گے، ( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2ص 671 / 1145 ، الفردوس 4 ص 311 / 6913 ، ینابیع المودة 1 ص 17 / 1 بروایت امام علی (ع) ، امالی طوسی (ر) 379 /812، جامع الاحادیث قمی ص 259 ، بروایت ابن عباس، اس روایت میں اہل زمین کے بجائے امت کا لفظ ہے)۔

260۔ رسول اکرم ، ستارے اہل آسمان کے لئے امان ہیں ! اور میرے اہلبیت (ع) اہل زمین کے لئے امان ہیں ، اگر اہلبیت (ع) کا سلسلہ ختم ہوجائے تو وہ عذاب نازل ہوجائے جس کی وعید وارد ہوئی ہے۔( ینابیع المودة 1 ص 71 / 2 بروایت انس، مستدرک 2 ص 486 / 3676 ، مناقب کوفی ص 142 ، 623 ، علل الشرائع ص 123 / 2)۔

261۔ امام علی (ع) ! ہم نبوت کے گھرانے والے اور حکمت کے معدن ہیں ، اہل زمین کے لئے باعث امان اور طلبگار نجات کے لئے وجہ نجات ہیں ۔( نثر الدر 1 ص 310)۔

 

17۔ معدن رسالت

262۔ رسول اکرم ! ہم شجرہٴ نبوت کے اہلبیت (ع) اور رسالت کے معدن ہیں، ہمارے اہلبیت (ع) سے افضل ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہے۔( امالی الشجری 1 ص 154 روایت امام علی (ع) ، احقاق الحق 9 ص 378 نقل از مناقب ابن المغازلی)۔

263 ۔ امام حسین (ع) نے عتبہ بن ابی سفیان سے فرمایا، ہم اہلبیت (ع) کرامت ، معدن رسالت اواعلام حق ہیں جن کے دلوں میں حق کو امانت رکھا گیاہے اور وہ ہماری زبان سے بولتاہے۔( امالی صدوق 130 / 1 روایت عبداللہ بن منصور از امام صادق (ع))۔

264 ۔ امام حسین (ع) نے والی مدینہ ولید سے فرمایا، اے حاکم ، ہم لوگ نبوت کے اہلبیت (ع) ہیں اور رسالت کے معدن ، ملائکہ کی آمد و رفت ہمارے گھر رہتی ہے اور رحمت کا نزول ہمارے یہاں ہوتاہے۔ ہمارے ہی ذریعہ پروردگار نے شروع کیاہے اور ہمیں پر ہر امر کا خاتمہ ہے۔( مقتل خوارزمی 1 ص 184 الملہوف ص 98)۔

265۔امام رضا (ع) (ع)! ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے کتاب میں خود اپنی تعریف کی ہے اور رحمت خدا حضرت محمد پر ہے جو خاتم الانبیاء اور بہترین خلائق ہیں اور پھر ان کی آل پر جو آل رحمت ، شجرہٴ نبوت، معدن رسالت اور مرکز رفت و آمد ملائکہ ہیں۔( کافی 5 ص 373 /7 ، عوالی للئالی 2ص 297 / 77 بروایت معاویہ بن حکمی)۔

266۔ ابن عباس ” فاسئلوا اہل الذکر“ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ حضرت محمد و علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) ہیں کہ یہی اہل ذکر و علم و عقل و بیان ہیں یہی نبوت کے اہلبیت (ع) ، رسالت کے معدن اور مرکز نزول ملائکہ ہیں ۔( احقاق الحق 3 ص 482 ، ا لطرائف 94 / 131 ، نہج الحق 210 بروایت حافظ محمد بن موسی الشیرازی از علماء اہلسنت)۔

267۔ ابن عباس ! روز وفات پیغمبر ملک الموت نے دروازہ فاطمہ (ع) پر کھڑے ہوکر کہا کہ سلام ہو تم پر اے اہلبیت (ع) نبوت ، معدن رسالت، مرکز نزول ملائکہ اور اس کے بعد اجازت طلب کی جس پر جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ بابا ملاقات نہیں کرسکتے ہیں، اور ملک الموت نے تین مرتبہ اجازت لی اور رسول اکرم نے التفات کرکے فرمایا کہ یہ ملک الموت ہیں۔( احقاق الحق 9 ص 402از روضة الاحباب)۔

268۔ امام علی نقی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں سلام ہو تم پر اے اہل بیتِ نبوت، معدن رسالت ، مرکز نزول ملائکہ ، منزل وحی الہی اور مصدر رحمت پروردگار ۔( تہذیب 6 ص 96 / 177)۔

 

18۔ ستون حق

269۔ رسول اکرم ! یہ سب ائمہ ابرار ہیں، یہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے۔( کفایة الاثر ص 177 ، روایت عطاء از امام حسین (ع) ) ۔

270 ۔ امام علی (ع) ! آگاہ ہوجاؤ کہ پروردگار نے انھیں خیر کا اہل ، حق کا ستون اور اطاعت کے لئے تحفظ قرار دیا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 214)۔

271۔ امام علی (ع) ! ہم حق کے داعی ، خلق کے امام اور صداقت کی زبان ہیں، جس نے ہماری اطاعت کی سب کچھ حاصل کرلیا اور جس نے ہماری مخالفت کی وہ ہلاک ہوگیا۔( غرر الحکم 10001)۔

272 ۔ امام علی (ع) ! ہم نے ستون حق کو قائم کیا اور لشکر باطل کو شکست دی ہے۔( غرر الحکم 9969)۔

273۔ امام علی (ع) ! ہم خدا کے بندوں پر اس کے امین اور اس کے شہروں میں حق کے قائم کرنے والے ہیں، ہمارے ہی ذریعہ دوستوں کو نجات ملتی ہے اور دشمن ہلاک ہوتے ہیں ۔(غرر الحکم 10004)۔

274۔ امام علی (ع) ! خبردار حق سے الگ نہ ہوجانا کہ جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کا بدل تلاش کرے گا وہ ہلاک ہوجائے گا او ردنیا و آخرت دونوں سے محروم ہوجائے گا۔( غرر الحکم 10413 ، خصال 626 / 10 ، بروایت ابوبصیر و محمد بن مسلم )۔

275۔ امام حسین (ع) ! ہم رسول اللہ کے اہلبیت (ع) ہیں، حق ہمارے اندر رکھا گیا ہے اور ہماری زبانیں ہمیشہ حق کے ساتھ کلام کرتی ہیں۔( الفتوح 5 ص 17، مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 185)۔

276۔ امام ہادی (ع)! اے ائمہ کرام ! حق آپ کے ساتھ آپ کے اندر آپ سے اور آپ کی طرف ہے اور آپ ہی اس کے اہل اور معدن ہیں۔( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔

 

19 ۔ امراء الکلام

277۔ امام علی (ع) ! ہم کلام کے امراء ہیں، ہمارے ہی اندر اس کی جڑیں پیوست ہیں اور ہمارے ہی سر پر اس کی شاخیں سایہ افگن ہیں۔( نہج البلاغہ خطبہ 233 ، غرر الحکم ص 2774 ، اس روایت میں عروق و غصون کے بجائے فروغ و اغصان کا لفظ وارد ہوا ہے)۔

278 ۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے ائمہ طاہرین (ع) کو مخلوقات کی زندگی تاریکی کا چراغ اور کلام کی کلید قرار دیاہے۔( کافی 1 ص 204 / 2 روایت اسحاق بن غالب )۔

 

20۔ صلح و جنگ پیغمبر

279۔ زید بن ارقم ! رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) سے خطاب کرکے فرمایا کہ جس سے تمھاری جنگ ہے اس سے میری جنگ ہے اور جس سے تمھاری صلح ہے اس سے میری صلح ہے۔( سنن ترمذی 5 ص 699 / 3870 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 52 / 145 ، مستدرک 3 ص 161 / 4714 ، المعجم الکبیر 3 ص 40 / 2619 ، مناقب کوفی 2 ص 156 / 634 ، بشارة المصطفیٰ ص 61 ص 64 ، کشف الغمہ 2 ص 154۔

280۔زید بن ارقم ! رسول اکرم نے اپنے مرض الموت میں علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کی طرف جھک کر فرمایا کہ تم سے جنگ کرنے والے کی جنگ مجھ سے ہے اور تم سے صلح رکھنے والے کی صلح مجھ سے ہے۔( تہذیب تاریخ دمشق ص 319 ، امالی طوسی ص 336 / 680)۔

281۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے علی (ع) و حسن (ع) ، حسین (ع) و فاطمہ (ع) کو دیکھ کر فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے اور جو تم سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے۔( مسند ابن حنبل 3 ص 446 / 9704 ، مستدرک 31 ص 161 / 4713 ، تاریخ بغداد ، ص 137 ، المعجم الکبیر 3 ص 40 / 2621 ، البدایة والنہایة 8 ص 36 ، العمدہ 51 /45 ، روضة الواعظین ص 175 ، الغدیر 2 ص 154)۔

282۔ زید بن ارقم ! ہم رسول اکرم کی خدمت میں تھے، آپ حجرہ کے اندر تھے اور وحی کا نزول ہورہاتھا اور ہم باہر انتظار کررہے تھے، یہانتک کہ گرمی شدید ہوگئی اور علی (ع) و فاطمہ و حسن (ع) و حسین (ع) بھی آگئے اور سایہ دیوار میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ، اس کے بعد جب رسول اکرم برآمد ہوئے تو ان حضرات کے پاس گئے اور سب کو ایک چادر اوڑھاکر جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا علی (ع) کے ہاتھ میں، ہمارے پاس آئے اور دعا کی خدایا میں انھیں دوست رکھتاہوں تو بھی ان سے محبت فرمانا۔

میں ان سے صلح کرنے والے کا ساتھی ہوں اور ان سے جنگ کرنے والے کا ، دشمن ہوں… اور یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔(اشرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی 3 ص 207)۔

283۔ رسول اکرم نے مسلمانوں سے خطاب کرکے ارشاد فرمایا ، مسلمانوا! جو اہل خیمہ کے ساتھ صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے، میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، ان کا دوست صرف خوش نصیب اور حلال زادہ ہوتا ہے اور ان سے دشمنی صرف بدقسمت اور پست نسب انسان کرتاہے۔( مناقب خوارزمی ص 297 / 291 ، روایت زید بن یثیع از ابی بکر)۔

واضح رہے کہ اس وقت خیمہ میں صرف علی (ع) و فاطمہ (ع) حسن(ع) و حسین (ع) تھے اور بس۔

284۔ امام زین العابدین (ع) ! ایک اور رسول اکرم تشریف فرماتھے اور ان کے پاس حضرت علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر بناکر بھیجا ہے کہ روئے زمین پر خدا کی نگاہ میں ہم سب سے زیادہ محبوب اور محترم کوئی نہیں ہے ، پروردگار نے میرا نام اپنے نام سے نکالاہے کہ وہ محمود ہے اورمیں محمد ہوں اور یا علی (ع) تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ علی اعلیٰ ہے اور تم علی (ع) ہو اور اے حسن (ع) ہو اور اے حسین (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے نکالا ہے کہ وہ ذو الاحسان ہے اور تم حسین (ع) ہو اور اے فاطمہ (ع) ! تمھارا نام بھی اپنے نام سے مشتق کیا ہے کہ وہ فاطر ہے اورتم فاطمہ (ع) ہو،

اس کے بعد فرمایا کہ خدایا میں تجھے گواہ کر کے کہتاہوں کہ جو ان سے صلح رکھے اس سے میری صلح ہے اور جو ان سے جنگ کرے اس سے میری جنگ ہے میں ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن ہوں۔ ان سے بغض رکھنے والے سے مجھے بغض ہے اور ان سے محبت کرنے والے سے میری محبت ہے۔ یہ سب مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔( معانی الاخبار 55/3 روایت عبداللہ بن الفضل الہاشمی)۔

 

21 ۔ آغاز و انجام دین

285۔رسول اکرم ! اللہ نے دین کا آغاز و انجام ہمیں کو قرار دیا ہے اور وہ ہمارے ہی ذریعہ بغض و عداوت کے بعد دلوں میں الفت پیدا کرتاہے،(امالی مفید 251 / 4 ، امالی طوسی 21 /24 روایت عمر بن علی (ع) )۔

286 ۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے اپنے بعد کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے مہدی کے بارے میں فرمایا تو میں نے عرض کی کہ وہ ہم میں سے ہوگا یا غیروں میں سے ؟ فرمایا ، ہمیں میں سے ہوگا ، پروردگار نے ہمارے ہی ذریعہ دین کا آغاز کیا ہے، اور ہمیں پر تمام کرے گا، ہمارے ہی ذریعہ شرک کے بعد دلوں میں الفت پیدا کی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ فتنہ کے بعد الفت پیدا کرے گا ! تو میں نے عرض کی خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ فضل و شرف عنایت فرمایاہے۔( امالی طوسی (ر) 66 / 96 ، امالی مفید (ر) 9 ص 290 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 9 ص 206)۔

287۔ عمر بن علی (ع) نے امام علی (ع) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے رسول اکرم سے پوچھا کہ مہدی ہم میں ہوگا یا ہمارے غیر میں سے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں میں سے ہوگا اللہ ہمارے ہی ذریعہ دین کو مکمل کرے گا جس طرح ہمارے ہی ذریعہ آغاز کیا ہے اور لوگوں کو شرک سے نکالا ہے، اب فتنوں سے نکال کر دلوں میں الفت پیدا کرے گا جس طرح شرک کی عداوت کے بعد الفت پیدا کی ہے۔

میں نے عرض کی کہ یہ لوگ مومن ہوں گے یا کافر ؟ فرمایا کہ فتنہ میں مبتلا اور کافر ( المعجم الاوسط 1 ص 57 / 157 ، الحادی الفتاوی 2 ص 217)۔

288 ۔ امام علی (ع) ، رسول اکرم نے فرمایا کہ یا علی (ع) اس امر کا آغاز بھی تمھیں سے ہے اور اختتام بھی تمھیں پر ہوگا، صبر کرنا تمھارا فرض ہے کہ انجام کار بہر حال صاحبان تقویٰ کے ہاتھوں میں ہے۔( امالی مفید 110 / 9 روایت محمد بن عبداللہ از امام رضا (ع))۔

289 ۔ امام علی (ع) ! اللہ نے ہمیں سے اسلام کا افتتاح کیا ہے اور ہمیں پر اس کااختتام کرے گا ۔( احتجاج 1 ص 544 / 131 روایت اصنبع بن نباتہ)۔

290۔ امام علی (ع) ، ہمیں سے اللہ افتتاح کرتاہے اور ہمیں پر کام کا اختتام ہوتاہے۔( خصال 626 / 10 روایت ابو بصیر و محمد بن مسلم )۔

291 ۔ امام علی (ع) ! ایھا النّاس ! ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن سے خدا نے جھوٹ کو دور رکھاہے اور ہمارے ہی ذریعہ زمانہ کے شر سے نجات دیتاہے، ہمارے ہی واسطہ سے تمھاری گردنوں سے ذلت کے پھندے کو جدا کرتاہے اور ہمیں سے آغاز و اختتام ہوتاہے۔( کتاب سُلَیم بن قیس 2 ص 717 / 17 )۔

292 ۔ امام باقر (ع) ! ایھا النّاس ! تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھین کدھر لیجایا جارہاہے؟ اللہ نے ہمارے ذریعہ تمھارے اول کو ہدایت دی ہے اور ہمارے ہی ذریعہ آخر میں اختتام کرے گا۔( کافی ص 271 / 5 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 189 ، 190 روایت ابوبکر الخصرمی)۔

293 ۔ امام رضا (ع) ! ہمارے ہی ذریعہ خدا نے دین کا آغاز کیاہے اور ہمارے ہی ذریعہ ختم کرے گا۔( تفسیر قمی 2 ص 104 از عبداللہ بن جندب)۔

294 ۔ امام ہادی (ع) ! زیارت جامعہ … آپ ہی حضرات کے ذریعہ خدا شروع کرتاہے اور آپ ہی پر خاتمہ کرتاہے۔( تہذیب 6 ص 99 / 177 ، کامل الزیارات ص 199 ، بحار الانوار 23 ص 218 / 19 / 26 ، 248 / 18 ، احقاق الحق 13 ص 128 ، مجمع الزوائد ص 616 / 12409 ، کنز العمال 4 ص 598 / 39682)۔

 

22 ۔ان کا قیاس ممکن نہیں ہے

295۔ رسول اکرم ، ہم اہل بیت وہ ہیں جن پر کسی کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے ۔( الفردوس 4 ص 283 ، 6838 ، فرائد السمطین 1 ص45 ، ذخائر العقب ص 17 ، روایت انس ، ینابیع المودہ 2 ص 114/322 روایت ابن عباس)۔

296 ۔ رسول اکرم ! ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کا مقابلہ کسی شخص سے نہیں کیا جاسکتاہے، جو ہمارا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے۔( ارشاد القلوب ص 404)۔

297 ۔ امام علی (ع) ! آل محمد پر اس امت میں سے کسی شخص کا قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے اور ان کے برابر اسے نہیں قرار دیا جاسکتاہے جس پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ رہاہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 2، غرر الحکم 10902)۔

298۔امام علی (ع)، ہم اہلبیت (ع) ہیں، ہم پر کسی آدمی کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے۔ہمارے گھر میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہمارے یہاں رسالت کا معدن ہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 66 / 297 ، کشف الغمہ 1 ص 40)۔

299۔امام علی (ع) ! ہم نجیب افراد ہیں، ہماری اولاد انبیاء کی اولاد ہیں اور ہمارا گروہ اللہ کا گروہ ہے ، ہمارا باغی گروہ شیطانی گروہ ہے اور جوہمارے اور دشمن کے درمیان مساوات قائم کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 279 / 1160 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 144 / 1189 ، امالی طوسی (ر) 270 / 502 ، بشارة المصطفیٰ ص 128 روایت حبہ عرنی ، مناقب امیر المؤمنین (ع) کوفی 2 ص 107۔

300۔ حارث ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) کا قیاس لوگوں پر نہیں کیا جاسکتاہے… تو ایک شخص نے ابن عباس سے دریافت کیا ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ انھوں نے کہا بیشک ! جس طرح پیغمبر کا قیاس نہیں کیا جاسکتاہے اور علی (ع) کے بارے میں تو صاف اعلان قدرت ہے“ جن لوگوں نے ایمان اور عمل صالح اختیار کیا وہ بہترین مخلوقات ہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 68 نقل از کتاب ” ما نزل من القرآن فی علی (ع) “ ابونعیم اصفہانی )۔

301۔عباد بن صہیب ! میں نے امام صادق سے دریافت کیا کہ ابوذر افضل ہیں یا آپ اہلبیت (ع)! فرمایا ابن صہی ! سال کے کتنے مہینے ہوتے ہیں ؟

میں نے عرض کی بارہ … فرمایا محترم کتنے ہیں ؟

میں نے عرض کی چار

فرمایا کیا ماہ رمضان ان میں ہے؟ میں نے عرض کی نہیں

فرمایا پھر ماہ رمضان افضل ہے یا یہ چار؟

میں نے عرض کی ماہ رمضان

فرمایا اسی طرح ہم اہلبیت (ع) ہیں کہ ہمارا قیاس کسی پر نہیں کیا جاسکتاہے اور یاد رکھو کہ خود ابوذر اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جب اصحاب میں افضلِ اصحاب کے بارے میں بحث ہورہی تھی تو ابوذر نے کہا کہ افضلِ اصحاب علی (ع) بن ابی طالب ہیں ، کہ وہی قسیم جنت و نار ہیں اور وہی صدیق و فاروق امت ہیں اور وہی قوم پر پروردگار کی حجت ہیں… جس پر ہر شخص نے منہ پھیر لیا اور ان کی تکذیب کرنے لگا ، یہاں تک کہ ابوامامہ باہلی نے رسول اکرم کو واقعہ کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایسے شخص پر آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے اس کا بوجھ نہیں اٹھایا جو ابوذر سے زیادہ صادق القول ہو۔( علل الشرائع 3 / 177)۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment