اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

مکتب اہل بیت علیہم السلام ، رسول خدا کی تمام روایات کی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت رکھتا هے کیونکہ سنت رسول خدا (ص) چاهے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر ، وحی کے راستے سے صادر ہوئے هیں جیسا کہ خدا نے خود اعلان کر دیا هے کہ

          مکتب اہل بیت  علیہم السلام ، رسول خدا  کی تمام روایات کی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت رکھتا هے کیونکہ سنت رسول خدا   (ص) چاهے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر ، وحی کے راستے سے صادر ہوئے هیں جیسا کہ خدا نے خود اعلان کر دیا هے کہ : ( وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الیٰ وحی یوحیٰ ) (۲) وہ ہر گز ہوا و ہوس سے گفتگو نهیں کرتے هیں ، وہ وهی بولتے هیں جو وحی ہوتی هے ۔

          امام علی  علیہ السلام  ، پیغمبر اسلام   (ص)کے پروردہ هیں آپ هی وہ شخص هیں جو بچپنے سے پیغمبر  کی آخری سانس تک ان کے ہمراہ رهے امام علی  علیہ السلام  ان اوقات کی اس طرح توصیف فرماتے هیں :

  ” وکنت اٴتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ ، یرفع لی فی کل یوم من اخلاقہ علما ، و یامرنی بالاقتداء بہ ، ولقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولا یراہ غیری ، ولم یجتمع بیت واحد یومٴذ فی الاسلام غیر رسول اللہ  و حدیجة وانا ثالثھما ، اری نور الوحی و الرسالة ، و اشم ریح النبوة “ (۳)

          ” میں ان کے ہمراہ ایسے تھا جیسے کہ اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ہمراہ رہتا هے وہ روزآنہ میرے لئے اپنے اخلاق کی کسی نہ کسی نشانی کو برپا کرتے تھے اور مجھے اس کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتے تھے ، ہر سال غار حراء میں تنہا رہتے تھے میں انھیں دیکھتا تھا اور میرے علاوہ انھیں کوئی نهیں دیکھتا تھا اس وقت سوائے ایک گھر کے کہ جس میں خود رسول خدا  (ص) اور خدیجہ موجود تھے کسی گھر میں اسلام نهیں آیا تھا اور میں ان دونوں کا تیسرا تھا میں وحی و پیغمبری کی نورانیت کو دیکھتا تھا اور نبوت کی بو سونگھتا تھا “

          امام علی  علیہ السلام  شب و روز ، سفر و حضر میں رسول خدا  کے ہمراہ رہتے تھے کسی جنگ و غزوہ میں آپ نے رسول خدا  (ص) کو نهیں چھوڑا سوائے غزوہ تبوک کے کہ اس غزوہ میں آپ رسول خدا  (ص) کے حکم سے مدینہ میں رهے ، یہاں تک کہ رسول خدا  (ص) کی رحلت کا وقت قریب آ    گیا رسول خدا  بستر بیماری پر هیں اور تن تنہا تیمارداری کرنے والے حضرت علی  علیہ السلام  هیں زندگی کے آخری لمحوں میں آ نحضرت کا سرمبارک حضرت علی  علیہ السلام  کے سینہٴ مبارک پر تھا اور اسی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا امام علی  علیہ السلام  اس وقت کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے هیں : ” ولقد قبض رسول اللہ  وان راٴسہ لعلی صدری ولقد سالت نفسہ فی کفی فامررتھا علی وجھی ، ولقد ولیت غسلہ  و الملائکة اعوانی ، فضجت الدار و الافنیة ، ملایھبط ، وملا یعرج ، وما فارقت سمعی ھینمة منھم ، یحلون علیہ ، حتی واریناہ فی ضریحہ ، فمن اذا احق بہ منی حیا و میتاً “ (۴)

” اور رسول خدا   (ص)نے اس حالت میں جان دی کہ ان کا سر مبارک میرے سینہ پر تھا اور ان کا نفس میری ہتھیلی پر جاری ہوا میں نے ان کو اپنے منھ پر مل لیا پھر ان کو غسل دینے کا عہدہ دار ہوا فرشتے میری مدد کر رهے تھے گھر اور گھر کے اطراف کی چیزیں نالہ و شیون کر رهی تھی ، فرشتوں کا ایک دستہ نیچے آتا تو دوسرا اوپر جاتا ان کی فریاد میرے کانوں سے ٹکرا رهی تھی وہ آ  نحضرت پر درود بھیجتے تھے یہاں تک کہ میں نے انھیں سپرد لحد کر دیا ، پس ان کی نسبت مجھ سے زیادہ کون حقدار هے چاهے ان کی زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد ۔

رسول خدا (ص)  کی تجهیز و تکفین ان امتیازات میں سے هے جو صرف حضرت علی  علیہ السلام  کو حامل هے اور یہ خصوصیت کسی صحابہ کو حاصل نہ تھی ۔ اسی لئے آپ شہر علم نبی  کا در مشہور ہوئے ، آپ هی خلفاء کے دور میں علی الاطلاق لوگوں کے روحی معنوی مرجع تھے ۔

امام علی  علیہ السلام  سے سوال کیا گیا کہ : کیا وجہ هے کہ اصحاب رسول خدا   (ص)میں سب سے زیادہ آپ هی روایات نقل کرتے هیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” انی اذا کنت سالتہ انبانی ، واذا سکت ابتدانی“ (۵) میں وہ ہوں کہ جب میں رسول خدا  (ص) سے سوال کرتا تھا وہ مجھے جواب مرحمت فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوجاتا تھا تو وہ گفتگو کا آغاز کرتے تھے ( یعنی مسلسل سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا تھا )

حدیث لکھنے کا حکم :

          جناب رسول خدا (ص)ہمیشہ حضرت علی  علیہ السلام  کو حکم دیتے تھے کہ جو کچھ ان کے لئے بیان کر رہا ہوں اسے لکھ لیں ، ایک دن حضرت علی  علیہ السلام  نے حضرت رسول خدا  سے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ میرے سلسلہ میں بھول جانے کا خوف رکھتے هیں ؟ پیامبر  نے فرمایا : میں تمھارے سلسلہ میں اس جہت سے ہراساں نهیں ہوں کیونکہ خداوند متعال سے دعا کر چکا ہوں کہ آپ کے حافظہ کو قوی کر دے اور آپ پر نسیان طاری نہ ہو لیکن آپ اپنے شرکاء کے لئے لکھ لیں میں نے عرض کیا میرے شرکاء کون لوگ هیں ؟ فرمایا : تمھاری اولاد میں سے ائمہؑ ۔ (۶)

کتاب علی  علیہ السلام  :

          وہ جملہ مطالب جسے امام علی  علیہ السلام  کے واسطے رسول خدا ن (ص)ے املاء فرمائے اور حضرت علی  علیہ السلام  نے اسے تحریر کر لیا تھا ایک کتاب کی شکل میں هے جس کی لمبائی ۷۰ ہاتھ هے اور یہ وهی مکتوب هے کہ روایات میں جسے کتاب علی یا صحیفہ علی  علیہ السلام  کے نام سے شہرت حاصل هے اور یہ کتاب اہل بیت  علیہ السلام  اور ان کے پیروکاروں میں بہت معروف هے اس کتاب میں قیامت کے وہ سارے مسائل جمع هیں جن کی لوگوں کو ضرورت پیش آ تی هے ، ائمہ معصومین  علیہم السلام  نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کی هیں اور بطور شاہد پیش کیا هے اور یہ کتاب سوائے احادیث پیغمبر  کے اور کچھ نهیں هے جسے آنحضرت نے حضرت  علیہ السلام  کو املاء کرایا هے اور امام  علیہ السلام  نے بھی اسے لکھ لیا هے اور اپنے فرزندوں کے لئے یادگار چھوڑا هے تاکہ ان کے بعد وہ اس سے روایات نقل کر سکیں ۔

          اس بیان سے یہ بات آشکار ہوجاتی هے کہ : حضرت امام علی  علیہ السلام  هی پہلے احادیث نگار هیں جنھوں نے رسمی طور پر احادیث نبوی کو تدوین فرمایا هے اگر چہ اس عظیم کام میں دوسرے بزرگ صحابی بھی شریک هیں لیکن افسوس کی خلفاء کے دور میں کچھ وجہوں سے جسے وہ خود هی سمجھ سکتے هیں وہ احادیث اور کتابیں نظر آتش کر دی گئیں جس کی وجہ سے مسلمان کو بہت بڑا گھاٹا اٹھانا پڑا ایسا گھاٹا کہ جسے پورا نهیں کیا جا سکتا    اسی لئے جعل سازوں کو حدیثیں گڑھنے کا موقع مل گیا اور ان لوگوں نے جو چاہا اسرائیلیات ، مجوسیات ، اور مسیحیات کو پیغمبر  سے منسوب کر دیا لیکن خوشی کی بات یہ هے کہ امام علی  علیہ السلام  کی یہ کتاب اس قسم کی تمام مشکلات سے مبریٰ رهی اور آپ کے بعد معصوم اماموں تک منتقل ہوگئی ۔

امام علی  علیہ السلام  کی کتاب احادیث کا مجموعہ هے :

          قارئین کرام کی معلومات میں اضافہ کی غرض سے کتاب امام علی  علیہ السلام  کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کیا جا رہا هے تاکہ حقیقت حال ان کے اوپر مزید روشن ہو جائے ۔

۱۔ بکر بن کرب صیرفی کہتے هیں : میں نے امام صادق   علیہ السلام  سے سنا هے کہ : ہمارے پاس ایک ایس چیز کہ جس کے بعد ہم لوگوں کے محتاج نهیں هیں بلکہ لوگ ہمارے محتاج هیں ، ہمارے پاس ایک ایسی کتاب هے جسے رسول خدا  نے املاء فرمایا هے اور امام علی  علیہ السلام  نے تحریر فرمایا هے یہ وہ صحیفہ هے کہ جس میں تمام حلال و حرام کا بیان موجود هے ۔ (۷)

          ۲۔ فضیل بن یسار کہتے هیں : امام محمد باقر   علیہ السلام  نے فرمایا : اے فضیل ! ہمارے پاس کتاب علی علیہ السلام  موجود هے جو ستر ہاتھ لمبی هے ، روئے زمین پر لوگوں کی ضرورتوں کی کوئی ایسی چیز نهیں هے جو اس میں بیان نہ کی گئی ہو یہاں تک کہ خراش کی دیت وغیرہ بھی اس میں موجود هے ۔ (۸)

اس کے علاوہ بھی روایات موجود هیں مگر اسی مقدار پر اکتفاکی جاتی هے ۔

کتاب علی  علیہ السلام  کی حفاظت میں اہل بیت  علیہ السلام  کی خاص توجہ :

تاریخ اور روایات سے استفادہ ہوتا هے کہ : اہل بیت  علیہم السلام  نے کتاب علی  علیہ السلام  کو سنت رسول کی محافظ کے عنوان سے اس کی حفاظت میں خاص توجہ کی هے اور اس کتاب پر حلال و حرام کے نقل کرنے میں اعتماد کیا هے بعض روایات بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ۔

          ۱۔ ابو بصیر ، امام محمد باقر   علیہ السلام  سے نقل کرتے هیں : امام باقر   علیہ السلام  نے جامعہ طلب کیا اور اس میں نظر کرنے کے بعد اس حکم کو بیان کیا کہ : اگر عورت مر جائے اور اس کے شوہر کے علاوہ کوئی وارث نہ ہو تو اس کے سارے مال کا وارث اس کا شوہر هے ۔ (۹)

          ۲۔ ابو بصیر کہتے هیں : میں نے امام جعفر صادق   علیہ السلام  سے کچھ فرائض و واجبات کے بارہ میں سوال کیا تو امام  علیہ السلام  نے فرمایا : کیا میں کتاب علی  علیہ السلام  تمھارے واسطے باہر لے آؤں ۔۔۔ یہاں تک کہ فرمایا : امام اس کتاب کو لے آئے اس میں لکھا ہوا تھا ” ایک شخص مر جاتا هے اور اس کے چچا و ماموں باقی هیں تو اس کے چچا کے لئے دو سوم اور اس کے ماموں کے لئے ارث کا ایک سوم حصہ هے “ ۔ (۱۰)

          ۳۔ عبد الملک بن اعین کہتے هیں : امام باقر  علیہ السلام  نے کتاب علی  علیہ السلام  طلب کی امام صادق  علیہ السلام  اسے لے آئے اس حال میں کہ وہ انسان کی ران کے مانند لپیٹی ہوئی تھی اس میں لکھا ہوا تھا ” عورتیں اپنے شوہروں کے مر جانے کے بعد غیر منقول چیزوں میں سے ارث نهیں رکھتیں “ اس کے بعد امام باقر   علیہ السلام  نے فرمایا : خدا کی قسم یہ حضرت علی  علیہ السلام  کے ہاتھوں کی تحریر اور رسول خدا  کا املاء هے )(۱۱)

۴۔ محمد ابن مسلم ثقفی کہتے هیں : امام باقر   علیہ السلام  نے فرائض کی ایک کتاب سے جو رسول خدا  (ص) کا املاء اور حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر تھی قراٴت فرمایا اس میں یہ تھا کہ ارث کے حصوں میں عول نهیں هے ۔ (۱۲)

          ۵۔ عذافر صیرفی کہتے هیں : میں حکم ابن عتیبہ کے ساتھ امام باقر   علیہ السلام  کی خدمت میں پہنچا اس نے امام سے سوال کیا امام نے اس کا احترام کیا کسی مسئلہ میں دونوں میں اختلاف ہوا امام نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے بیٹا اٹھو اور کتاب علی  علیہ السلام  لے آؤ میں نے دیکھا کہ وہ کتاب طبقہ طبقہ اور بڑی هے اسے کھولا اس میں نظر کی یہاں تک کہ مسئلے کو پالیا اور پھر فرمایا : یہ حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر اور رسول خدا   (ص)کا املاء هے ۔ (۱۳)

          ان روایات سے پتہ چلتا هے کہ جس کتاب فرائض کا تذکرہ ہوا هے وہ مولیٰ علی  علیہ السلام  کی بڑی کتاب کا ایک حصہ هے ۔

          ۶۔ ابن بکیر کہتے هیں : زرارہ نے امام جعفر صادق   علیہ السلام  سے لومڑی اور گلہری کے روئیں سے بنی جانماز پر نماز کے سلسلے میں سوال کیا حضرت نے کتاب باہر نکالی زرارہ کا گمان هے کہ وہ رسول خدا  کا املاء تھا اس میں تحریر تھا کہ : ہر وہ جانور جس کا کھانا حرام هے اس کے اون سے بنی چیز پر نماز باطل هے ، اور اس کے روئیں ، کھال اور بال سے بنی چیزوں پر نماز قبول نهیں هے ۔ (۱۴)

          اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا هے کہ کتاب علی  علیہ السلام  حدیث کا قدیم ترین مجموعہ هے جو رسول خدا  (ص)  کا املاء اور امام علی  علیہ السلام  کی تحریر هے یہ کتاب ائمہ کے پاس موجود تھی اور یکے بعد دیگرے بطور ارث پاتے رهے اور اہل بیت علیہم السلام کے بعض اصحاب نے بھی اسے دیکھا هے اگر چہ فی الحال اس کتاب کی اصل ہمارے پاس موجود نهیں هے لیکن صاحبان جوامع نے مثلاً کلینی ، صدوق ، اور طوسی وغیرہ نے اپنی کتابوں کے مختلف ابواب میں اس سے بہت سی چیزیں نقل کی هیں ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
کربلا،عقیدہ و عمل میں توحید کی نشانیاں
عدل و مساوات
حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر ...
عید فطر احادیث کی روشنی میں
عصمت انبيائ
قرآن مجید اور روایتوں میں، وجوب، حرمت یا استحباب ...
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم تحفہ
امير المۆمنين حضرت علي (ع) شيخ مفيد کے مقتديٰ

 
user comment