اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

کیفیت علوم اہلبیت (ع)

کیفیت علوم اہلبیت (ع)

 

1۔ اذا شاؤ اعلموا

520۔ امام صادق (ع) !امام جب جس چیز کو جاننا چاہتاہے جان لیتاہے( کافی 1 ص 258 /1 ، بصائر الدرجات 315 /3 روایات ابوالربیع و روایت دوم از یزید بنفرقد النہدی)۔ 521۔ عمار الساباطی ! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ کیا امام کے پاس غیب کا علم ہوتاہے؟ فرمایا جب وہ کسی شے کو جاننا چاہتاہے تو پروردگار اسے علم عطا کردیتاہے۔( کافی 1 ص 217 /4 ، بصائر الدرجات 315 /4 ، اختصاص 286)۔

522۔ امام ہادی (ع) ! پروردگار نے کسی شخص کو اپنے غیب پر مطلع نہیں کیا مگر جس رسول کو اس نے پسند فرمالیا، تو جو کچھ رسول اکرم کے پاس تھا وہ بھی عالم ( امام) کے پاس ہے اور جس پر پروردگار نے اسے مطلع کیا اس کی اطلاع بھی ان کے اوصیاء کے پاس ہے تا کہ زمین حجّت خدا سے خالی نہ رہے جس کا علم اس کے یہاں کی صداقت اور اس کی عدالت کے جواز کی دلیل ہے۔( کشف الغمہ 3 ص 177 روایت فتح بن یزید الجرجانی)۔

 

2۔ بست و کشاد

523۔ امام صادق (ع) ۔ ہمارے علم و عدم علم کی بنیاد خدائی بست و کشاد پر ہے وہ جب چاہتاہے ہم جان لیتے ہیں اور وہ نہ چاہے تو نہیں جان سکتے ہیں امام دوسرے افراد کی طرح پیدا بھی ہوتاہے، صحتمند اور بیمار بھی ہوتاہے۔کھاتا پیتا بھی ہے، اس کے یہاں بول و براز بھی ہوتاہے، وہ خوش اور رنجیدہ بھی ہوتاہے، وہ ہنستا اور روتا بھی ہے، وہ مرتا اور دفن بھی ہوتاہے اور اس کے علم میں اضافہ بھی ہوتاہے لیکن اس کا امتیاز دو چیزوں میں ہے، ایک علم اور ایک قبولیت دعا، امام تمام حوادث کی ان کے وقوع سے پہلے اطلاع دے سکتاہے کہ اس کے پاس رسول اکرم کا عہد ہوتاہے جو اسے وراثت میں ملتاہے۔( خصال 528 /3)۔

524۔ معمر بن خلاد ! ایک مرد فارس نے امام ابوالحسن (ع) سے دریافت کیا کہ کیا آپ حضرات غیب بھی جانتے ہیں ؟ فرمایا خدا ہمارے لئے علم کو کشادہ کردیتاہے تو سب کچھ جان لیتے ہیں لیکن وہ روک دے تو کچھ نہیں جان سکتے ہیں، یہ ایک راز خدا ہے جو اس نے جبریل کے حوالہ کیا اور جبریل نے پیغمبر اسلام تک پہنچا دیا اور انھوں نے جس کے چاہا حوالہ کردیا۔( کافی 1 ص 256 /1)۔

 

3۔ اضافہٴ علم

525۔ زرارہ ! میں نے امام محمد (ع) باقر کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر پروردگار ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ کرتا رہتا تو وہ بھی ختم ہوجاتا۔ میں نے عرض کی تو کیا آپ حضرات کو رسول اکرم سے بھی زیادہ دیدیا جاتاہے؟ فرمایا خدا جب بھی دینا چاہتاہے تو پہلے رسول اکرم پر پیش کرتاہے اس کے بعد ائمہ کو ملتاہے اور اسی طرح ہم تک پہنچا ہے۔( کافی 1 ص 255 /3 ، اختصاص ص 312 ، بصائر الدرجات 394/8)۔

526۔ ابوبصیر! میں نے امام صادق (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر ہمارے علم میں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو اب تک خرچ ہوچکاہوتا۔

میں نے عرض کی کہ کیا اس شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا کہ جب خدا کو دینا تھا تو پہلے رسول اکرم کو باخبر کیا ، اس کے بعد حضرت علی (ع) اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کو ، یہاں تک کہ معاملہ صاحب الامر تک پہنچ گیا۔( امالی طوسی 409 /920 ، اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 392 /2 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

527۔عبداللہ بن بکیر! میں نے امام صادق (ع) سے دریافت کیا کہ میں نے ابوبصیر کو آپ کی طرف سے بیان کرتے سنا ہے کہ اگر خدا مسلسل ہمارے علم میں اضافہ نہ کرتا تو وہ بھی ختم ہوجاتا ۔ فرمایا بیشک۔

میں نے عرض کی تو کیا کسی ایسی شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پاس نہ تھی؟ فرمایا ہرگز نہیں ، رسول اکرم کو علم وحی کے ذریعہ دیا جاتاہے اور ہمارے پاس بذریعہ حدیث آتاہے۔( امالی الطوسی (ر) 409/ 919)۔

528۔ امام صادق (ع) ! خدا کی بارگاہ سے جو چیز بھی نکلتی ہے پہلے رسول اکرم کے پاس آتی ہے، اس کے بعد امیر المومنین (ع) کے پاس ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس تا کہ ہمارا آخر اول سے اعلم نہ ہونے پائے، (کافی 1 ص 255 /4 ، اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 392 /2 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

529۔ سلیمان الدیلمی ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ میں نے یہ فقرہ بار بار آپ سے سناہے کہ اگر ہمارے یہاں مسلسل اضافہ نہ ہوتا تو سب خرچ ہوگیا ہوتا تو سارا حلال و حرام تو رسول اکرم پر نازل ہوچکاہے، اب اضافہ کس شے میں ہوتاہے؟ فرمایا حلال و حرام کے علاوہ ہر شے میں۔

میں نے عرض کی تو کیا ایسی شے کا اضافہ ہوتاہے جو رسول اکرم کے پسا نہ رہی ہو؟ فرمایا ہرگز نہیں ، علم جب بھی خدا کے پاس سے نکلتاہے تو پہلے ملک رسول اکرم کے پاس آتاہے اور کہتاہے کہ اے محمد ! آپ کے پروردگار کا ایسا ایسا ارشاد ہے ! اب آپ ہی اسے علی (ع) کے حوالہ کردیں، پھر علی (ع) سے کہا جاتاہے کہ حسن (ع) کے حوالہ کردیں اور اسی طرح یکے بعد دیگرے ائمہ کے پاس آتاہے اور یہ ناممکن ہے کہ کسی امام کے پاس کوئی ایسا علم ہو جو رسول اکرم یا سابق کے امام کے پاس نہ رہاہو۔( اختصاص ص 313 ، بصائر الدرجات 393 /5 ، کافی 1 ص 254، بحار الانوار 26 ص 86 باب نمبر 3)۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment