صفات شیعہ
537۔ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو راہ محبت میں ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے، ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمارے دین کو زندہ رکھنے کیلئے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے والے ہوتے ہیں، ان کی شان یہ ہے کہ غصہ آجائے تو کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں اور خوش حال ہوتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے ہیں، اپنے ہمسایہ کے لئے برکت اور اپنے ساتھیوں کے لئے مجسمہ سلامتی ہوتے ہیں۔( کافی 2 ص 236 / 24 روایت ابوالمقدام عن الباقر (ع) ، خصال ص 397 /154 ، صفات الشیعہ 91 / 23 ، تحف العقول ص 200 ، مشکٰوة الانوار ص 6 ، التمحیص 69 / 68 / 168 ، شرح الاخبار 3 ص 504 / 1449)۔
538۔ امام علی (ع) ! ہمارے شیعہ اللہ کی معرفت رکھنے والے، اس کے حکم پر عمل کرنے والے، صاحبان فضائل سچ بولنے والے ہوتے ہیں، ان کا کھانا بقدر ضرورت، ان کا لباس درمیانی اور ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے، دیکھنے میں مریض اور مدہوش نظر آتے ہیں حالانکہ ایسے ہوتے نہیں ہیں، انھیں عظمت پروردگار اور جلال سلطنت الہیہ ایسا بنادیتی کہ دل بے قرار ہوجاتے ہیں اور ہوش و حواس اڑجاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش آتاہے تو نیک اعمال کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، مختصر اعمال سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور زیادہ اعمال کو کثیر نہیں سمجھتے ہیں۔(مطالب السئول ص 54 روایت نوف البکائی)۔
539۔ نوف بن عبداللہ البکالی ! مجھ سے ایک دن امام علی (ع) نے فرمایا کہ نوف ! ہم ایک پاکیزہ طینت سے پیدا ہوئے ہیں لہذا جب قیامت کا دن ہوگا تو ہمارے ساتھ ملادیئے جائیں گے۔
میں نے عرض کی حضور ذرا اپنے شیعوں کے اوصاف تو بیان فرمائیں ؟ تو حضرت رونے لگے، اور پھر فرمایا، نوف ! ہمارے شیعہ صاحبان عقل ، خدا اور دین خدا کے عارف ، اطاعت و امر الہی کے عامل، محبت الہی سے ہدایت یافتہ، عبادت گذار، زاہد مزاج، شب بیدای سے زرد چہرہ ، گریہ سے دھنسی ہوئی آنکھیں، ذکر خدا سے خشک ہونٹ، فاقوں سے دھنسے ہوئے پیٹ ، خداشناسی ان کے چہروں سے نمودار اور خوف خدا ان کے بشرہ سے نمایاں، تاریکیوں کے چراغ اور بدترین ماحول کے لئے گل و گلزار ہوتے ہیں…۔
ان کی کمزوریاں پوشیدہ اور ان کے دل رنجیدہ ، ان کے نفس عفیف اور ان کے ضروریات خفیف، ان کا نفس ہمیشہ رنج و تعب میں اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ راحت و آرام میں، صاحبان عقل و خرد، خالص شریف، اپنے دین کو بچاکر نکل جانے والے ہوتے ہیں، محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں تو کوئی انھیں پہچانتا نہیں ہے اور غالب ہوجاتے ہیں تو کوئی تلاش نہیں کرتاہے، یہی ہمارے پاکیزہ کردار شیعہ، ہمارے محترم برادر ہیں، ہائے میں ان کا کس قدر مشتاق ہوں ۔( امالی طوسی (ر) 176 /1189)۔
540۔ محمد بن الحنفیہ ! امیر المومنین (ع) جنگ جمل کے بعد بصرہ واپس آئے تو احنف بن قیس نے آپ کو دعوت میں بلایا اور کھانا تیار کیا اور اصحاب کو بھی مدعو کیا ، آپ تشریف لے آئے تو فرمایا، احنف ! میرے اصحاب کو بلاؤ ؟ احنف نے دیکھا کہ آپ کے ساتھ ایک جماعت ہے جیسے:
احنف نے عرض کی حضور ! انھیں کیا ہوگیاہے؟ انھیں کھانا نہیں ملاہے یا جنگ کے خوف نے ایسا بنادیاہے۔
فرمایا احنف ! ایسا کچھ نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتاہے جو دار دنیا میں اس طرح عبادت کرتے ہیں جیسے انھوں نے روز قیامت کے ہول کو دیکھ لیا ہے اور اپنے نفس کو اس کی زحمتوں پر آمادہ کرلیاہے۔( صفات الشیعہ 118/63)۔
541۔امام صادق (ع) ! ہمارے شیعوں کو تین طرح آزماؤ! اوقات نماز کی پابندی کس قدر کرتے ہیں، ہمارے اسرار کو دشمنوں سے کس طرح محفوظ رکھتے ہیں اور اپنے اموال میں دوسرے بھائیوں سے کس قدر ہمدردی کرتے ہیں۔( خصال 103/62 ، روضة الواعظین ص 321 ، مشکوة الانوار ص 78، قرب الاسناد 78 /253)۔
542۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جعفر (ع) بن محمد (ع) کے شیعہ بس وہ ہیں جن کا شکم اور جنسی جذبہ عفیف ہو، محنت زیادہ کرتے ہوں، پروردگار کے لئے عمل کرتے ہوں اور اس کے ثواب کے امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہوں، اگر ایسے افراد نظر آجائیں تو سمجھ لینا کہ یہی ہمارے شیعہ میں ( صفات الشیعہ89/21 ، کافی 2 ص233 /9 ، خصال 296 /63 روایت مفضل بن عمر)۔
543۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ وہ ہیں جو اچھا کام کرتے ہوں، برے کاموں سے رک جاتے ہوں، ان کی نیکیاں ظاہر ہوں، مالک کی رحمت کے حصول کے لئے عمل خیر کی طرف سبقت کرتے ہوں، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ان کی بازگشت ہمارے طرف ہے اور ان کی جگہ ہماری منزل ہے ہم جہاں بھی رہیں۔( صفات الشیعہ 95/32 روایت مسعدہ بن صدقہ)۔
544۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ صاحبان تقویٰ و اجتہاد ہوتے ہیں، اہل وفا و امانتدار ہوتے ہیں، اہل زہد و عبادت ہوتے ہیں ، دن رات میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے(17 رکعت فریضہ 34 ۔ رکعت نوافل) را توں کو قیام کرنے والے، دن میں روزہ رکھنے والے، اپنے اموال کی زکواة ادا کرنے والے حج بیت اللہ انجام دینے والے اور ہر حرام سے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔( صفات الشیعہ 81/1 روایت ابوبصیر)۔
545۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ مختلف خصلتوں سے پہچانے جاتے ہیں، سخاوت، برادران ایمان پر مال صرف کرنا، دن رات مین 51 رکعت نماز۔( تحف العقول ص 303)۔
546۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ تین طرح کے ہیں 1) واقعی محبت کرنے والے، یہ ہم سے ہیں 2) ہمارے ذریعہ اپنی زینت کا انظام کرنے والے، ان کے لئے ہم بہر حال باعث زینت ہیں 3) ہمارے ذریعہ مال دنیا کمانے والے، ایسے افراد ہمیشہ فقیر رہیں گے۔( خصال 103 /61 اعلام الدین ص 130 روایت معاویہ بن وہب، روضة الواعظین ص 321، مشکوة الانوار 78)۔
547۔امام صادق (ع) ! لوگ ہمارے سلسلہ میں تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں، ایک جماعت ہم سے محبت کرتی ہے اور ہمارے قائم کا انتظار کرتی ہے تا کہ ہمارے ذریعہ دنیا حاصل کرے، یہ لوگ ہمارے کلام کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہمارے اعمال میں کوتاہی کرتے ہیں، عنقریب خدا انھیں واصل جہنم کردے گا۔
دوسری جماعت ہم سے محبت کرتی ہے، ہماری بات سنتی ہے اور عمل میں بھی کوتاہی نہیں کرتی ہے لیکن مقصد مال دنیا ہی کا حصول ہے تو خدا ان کے پیٹ کو آتش جہنم سے بھر دے گا اور ان پر بھوک پیاس کو مسلط کردے گا۔
تیسری جماعت سے ہم سے محبت کرتی ہے، ہمارے اقوال کو محفوظ رکھتی ہے، ہمارے امر کی اطاعت کرتی ہے اور ہمارے اعمال کے خلاف نہیں کرتی ہے، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ا ور ہم ان سے ہیں( تحف العقول 514 روایت مفضل)۔
548۔ امام صادق (ع) ! ایک شخص نے محبت اہلبیت (ع) کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے کیسے دوستوں میں ہو، وہ شخص خاموش ہوگیا تو سدیر نے کہا مولا، آپ کے دوستوں کی کتنی قسمیں ہیں ؟ فرمایا ہمارے دوستوں کے تین طبقات ہیں۔
1۔ وہ طبقہ جو ہم سے بظاہر محبت کرتاہے لیکن اندر سے محبت نہیں کرتاہے، 2) وہ طبقہ جو اندر سے محبت کرتاہے باہر سے اظہار نہیں کرتاہے 3) وہ طبقہ جو ہر حال میں ہم سے محبت کرتاہے، یہی تیسرا طبقہ قسم اعلیٰ ہے او دوسرا طبقہ جو بظاہر محبت کرتاہے بادشاہوں کی سیرت پر عملکرتاہے کہ زبان ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور تلوار ہمارے خلاف اٹھتی ہے، یہ پست ترین طبقہ ہے اور تیسری قسم جہاں اندر سے محبت ہوتی ہے اگر چہ اس کا اظہار نہیں ہوتاہے یہ درمیانی طبقہ کے چاہنے والے ہیں … میری جان کی قسم اگر یہ لوگ اندر سے ہمارے چاہنے و الے ہیں اور صرف باہر سے اظہار نہیں کرتے ہیں تو یہ دن میں روزہ رکھنے والے، راتوں کو نماز پڑھنے والے ہوں ، ترک دنیاداری کا اثرات کے چہرہ سے ظاہر ہوگا اور مکمل طور پر تسلیم و اختیار والے ہوں گے۔
اس شخص نے عرض کی کہ میں تو ظاہر و باطن ہر اعتبار سے آپ کا چاہنے والاہوں… فرمایا ہمارے ایسے چاہنے والوں کی علامتیں معین ہیں، اس نے عرض کی وہ علامتیں کیا ہیں ؟ فرمایا… سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ توحید پروردگار کی مکمل معرفت رکھتے ہیں اور اس کے نشانات کو محکم رکھتے ہیں۔( تحف العقول ص 325)۔