ارشادخدا وندی ھے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی
(پالنے والے تو مجھے دکھا دے کہ مردوںکو کس طرح زندہ کرے گا)
تو اس وقت خدا وند عالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کے جواب میں فرمایا:
قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَیْک
(یعنی جناب ابراھیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ چار پرندوں کو لے کر ان کا قیمہ بنا لو ،اور اس کو آپس میں اس طرح ملالو کہ وہ ایک دوسرے سے الگ کر نے کے قابل نہ رھیں۔
ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء اً
”یعنی پھر ا س مخلوط قیمہ کو الگ الگ پھاڑوں پر رکھ دو ۔“
َ ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا
”اس کے بعد تم ان کو پکارنا ،وہ دوڑے هوئے تمھارے پاس آجائیںگے۔“
یعنی خدا وندعالم نے ان پرندوں کے اعضاء و اجزاء کو ان کے اصلی صاحب سے ملادیا جبکہ وہ مستقل طریقہ سے ایک دوسرے سے جدا جدا هوگئے ،اور جب ھر پرندہ کے سارے اجزاء اس سے مل گئے تو خدا وندعالم نے ان کو حیات عطا کر دی۔
قارئین کرام ! قرآن مجید کی یہ آیت ھمارے لئے بہترین دلیل ھے کہ موت نام ھے اجزاء و اعضاء کا متفرق هوجانا،اور موت کسی بھی صورت میں انعدام نھیں ھے جیسا کہ قیامت کے بعض منکرین کا گمان ھے۔
لہٰذاطے یہ هوا کہ اس کام (دوبارہ زندہ کرنے میں)استحالہ اور محال هونے کی کوئی بات نھیں ھے،اور عقلی طور پر شک شبہ کی ذرہ برابر بھی گنجائش نھیں ھے،جیسا کہ بعض گمان کرنے والوں کا گمان ھے۔
اور جب یہ طے هو گیا کہ معاد نام ھے انسان کو موت کے بعد حساب و کتاب کے لئے واپس پلٹانے کا،اور اسی محاکمہ کے نتیجہ میں ثواب وعقاب کیا جائے گا :
وَحَشَرَ نَا ھُمْ فَلَمْ نُغَادِرُ مِنْھُمْ اَحَدًا
”اورھم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“
یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ
”اور اس دن کو یا رکھو )جس دن ھر شخص جو اس نے (دنیا میں)نیکی کی ھے اور جو کچھ برائی کی ھے اس کو موجود پائے گا“
تو پھر ضروری ھے کہ تمام عالم اور جو کچھ اس میں موجود ھے وہ فنا هوں اور ان کی حرکت حیات کی چکی بند هو ،اور تمام زندہ چیزوں کو موت آئے۔
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَاءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُب
”جب ھم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ھے“
یَوْمَ تُبَدِّلُ الاٴَرْضُ غَیْرَ الاٴَرْضِ وَالسَّمٰوٰاتِ
”جس دن یہ زمین بدل کردوسری زمین کر دی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دئے جائیں گے“
تو کیا یہ باتیں عقل میں آتی ھیں؟اور کیا آج کا سائنس اس سلسلہ میں ھماری راہنمائی کرتا ھے تاکہ ھمارے سامنے آفاق کی مجمل باتیں واضح و روشن هو جائیں؟
(چند دانشوروں کے نظریات)
قارئین کرام ! اس سلسلے میں چند دانشوروں کے نظریات ملاحظہ فرمائیں:
پرو فیسر”فرانک لین“کہتے ھیں:
”ڈینا میکا حراری“ "Thermo Dynamics"کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ اس کائنات کی حرارت آہستہ آہستہ ختم هو جائے گی،اور ایک دن وہ آئے گا کہ تمام چیزوں کا درجہ حرارت گھٹ کر بالکل ”صفر“هوجائے گا ،اور اس وقت تمام طاقتیں ختم هو جائیں گی، اور پھر زندگی محال بن جائے گی، لہٰذاضروری ھے کہ ایک ایسی حالت پیدا هو جس میں تمام طاقتیں ختم هو جائیں کیونکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کا درجہ حرارت بالکل (صفر) هو جائےگا“
اسی طرح پرو فیسر ”اڈوارڈ لوثر کیل“کہتے ھیں :
” حرارت گرم چیزوں سے ٹھنڈی چیزوں کی طرف منتقل هوتی ھے اور کبھی اس کے بر عکس نھیں هوتا یعنی حرارت اس کے بر عکس نھیں چلتی کہ ٹھنڈی چیزوں سے گرم چیزوں کی طرف منتقل هو، اس کا مطلب یہ ھے کہ ایک دن وہ آئے گا جب اس دنیا کی حرارت تمام اجسام میں برابر هو جائے گی ،اور اس صورت میں تمام چیزوں کی طاقت ختم هو جائے گی ،اور اس وقت کیمیاوی یا طبعی عملیات ختم هو جائیں گی،اور پھر اس کائنات کی حیات ختم هوجائے گی “
نیز پرو فیسر کلوڈ۔م۔ھا ثاوی کہتے ھیں:
”اسحاق نیوٹن،،کی تحقیق یہ ھے کہ یہ نظام کائنات نابودی کی طرف بڑھ رھا ھے ،اور ایک دن وہ آئے گا جب تمام چیزوں کی حرارت برابر هو جائے گی…اور حرارت کے بارے میںتحقیق ان نظریات کی تائید کرتی ھے اور” طاقت میسور“”طاقت غیر میسور“ میں تبدیل هو جائے گی ،اور جب حرارت میں تبدیلی آئے گی تو طاقت میسور غیر میسور میں بدل جائے گی ،اور اس کے بر عکس هونے کا کوئی راستہ نھیں ھے “
اسی طرح”بولٹز مین“ نے بھی اس نظریہ کی تائید کی ھے کیونکہ وہ اپنی لا جواب تدریس اورریاضی تحقیق کو بروئے کار لایا ھے یھاں تک کہ اس نے ثابت کیا ھے کہ طاقت میسور کا ختم هو جانا جس کی طرف ڈینا میکا"Thermo Dynamics"قوانین کا قانون دوم اشارہ کرتا ھے،اور یہ ایک ایسی خاص حالت کا پیدا هونا ھے جس میں ھر طبیعی تغیر و تبدلی نظام کائنات میں نقص اور تحول ایجاد کرتی ھے، اور حرارت کی اس حالت میں طاقت میسور ،طاقت غیر میسور میں تبدیل هوکر کم اور ختم هو جائے گی ،یا بالفاظ دیگر تمام چیزیں منحل اور ختم هو جائیں گی۔“
”تمام علماء فلک اس بات پر تائید کرتے ھیں کہ سورج (دیگر سیاروں کی طرح)کی حرارت ،اس کا حجم اور اس کی شعاعیں اس حد تک خطرناک هوجاتی ھیں جن تک عقل کی رسائی ممکن نھیں ،اور جب یہ حرارت بیرونی سطح میں پھیل جائے گی تو اس کے شعلہ اور دھواں اس قدر پھیل جائے گا کہ وہ چاند تک پهونچ جائیں گے ،اور تمام نظام شمسی اپنا تو ازن ختم کردے گا ، آسمان میں ھر ستارہ کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنا ھمیشگی کار نامہ سے پھلے ایسی حالت رکھتا هو ،لیکن ھمارا یہ سورج اب تک اس مرحلہ تک نھیں پهونچا ھے۔“[79]
خداوندعالم کا ارشاد ھے:
فَاٴرْتَقِبْ یَوْمَ تَاٴتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِیْن
”تو تم اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے ظاھر بظاھر دھواں نکلے گا“
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الٴاٴِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ
”جب آنکھیں چکا چوند میں آجائیں گی اور چاند گہن میں چلا جائے گا اور سورج اور چاند اکھٹا کر دئے جائیں گے تو انسان کھے گا آج کھاں بھاگ کر جاوٴ گے“
وَحُمِلَتِ الاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتًا دَکَّةً وَاحِدَةً
”زمین اور پھاڑ اٹھا کر اکبارگی (ٹکراکر)ریزہ ریزہ کر دئے جائیں گے“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ بڑے بڑے دانشوروں کے نظریہ کے مطابق بھی یہ کائنات اور تمام عالم سب کچھ فنا کی طرف بڑھ رھا ھے تو پھر قیامت کے دن کا آنا بہت ممکن ھے ،بلکہ آج کے علمی لحاظ سے ایک یقینی اور قطعی بات ھے۔
اور اب جب کہ آج کے سائنس نے اس حقیقت کے بارے میں ھمیں مزید اطمینان عطا کردیا ھے ،لیکن بعض قدیم فلاسفہ جن کے زمانہ میں آج کا جدید علم نھیں تھا ،لہٰذاان کا نظریہ یہ تھا کہ یہ کائنات اسی صورت پر باقی رھے گی اور اس میں زوال و فنا نھیں هو گا، کیونکہ وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ چونکہ سورج میں (اتنی طولانی عمر کے بعد بھی ) کوئی کمی اور کاستی نھیں آئی ھے،لہٰذایہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے باقی رھے گا ،اور اگر اس میں فنا کی بات هوتی تو اب تک اس میں تبدیلی یا نقص پیدا هوگیا هوتا ۔
لیکن ان کا یہ نظریہ درج ذیل حقائق کی روشنی میں باطل هو جاتا ھے:
۱۔ڈینا میکا حراری "Thermo Dynamics" قانون نے یہ بات ثابت کر دی ھے کہ یہ حرارت ھمیشہ باقی رہنے والی نھیں ھے،اور ایک دن ایسا آئے گا جب یہ کائنات فنا هوجائے گی (جیسا کہ تفصیل گزر چکی ھے)
۲۔ستارہ شناس افراد نے بہت سی مرتبہ سورج پر هوئے دھماکوں کا تجربہ کیا جن کے بعد یہ پتہ چلتا ھے کہ سورج کے اس حصے میں بوسیدگی آگئی ھے۔
۳۔فلکی ماھرین کی اس بات کی تائید کرنا کہ سورج کی سطح خارجی چاند تک پهونچ جائے گی، اور پھر نظام شمسی کا تو زان ختم هو جائے گا (جیسا کہ تفصیل گزر چکی ھے)
لہٰذاان تمام باتوں کا نتیجہ یہ هوا کہ یہ کائنات ضرور بالضرور فنا هوجائے گی ،جبکہ سورج کا ھمیشہ کے لئے باقی رہنے والوں کے قول کے لئے کوئی بھی دلیل موجود نھیں ھے۔
اسی طرح جب لوگوں نے قاعدہٴ ”المادة لاتفنیٰ“(مادہ کے لئے فنا نھیں ھے)کی بنا پر قیامت کا انکار کیا ھے ،لیکن ان کا یہ قول بھی بے بنیاد اور باطل ھے ،کیونکہ ان کا یہ قول بہت قدیمی ھے اور آج کے علم نے یہ بات ثابت کی ھے کہ مادہ بھی فنا هو نے والا ھے، چاھے مادہ فنا هو یا نہ هو، اس مسئلہ کا ھماری بحث (معاد) سے کوئی رابطہ نھیں ھے،کیونکہ معاد مادہ کی صورت کا بدلنا ھے نہ کہ مادہ کا فنا هونا،جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ھے :
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ
”(مگر کب) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کردی جائے گی۔“
اور تبدل اور فنا میں زمین آسمان کا فرق ھے۔
جبکہ ھمیں یہ بھی معلوم ھے کہ” تبدل مادہ“ اور ”فنا“ میں بہت بڑا فرق ھے۔
خلاصہ بحث !
اَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
”اور قیامت یقینا آنے والی ھے اس میں کوئی شک نھیں اوربیشک جو لوگ قبروں میں ھیں ان کو خدا دوبارہ زندہ کرے گا“
اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنَ فِی السَّاعَةِ لَفِی ضَلاَلٍ بَعِیْدٍ
”جو لوگ قیامت کے بارے میں شک کرتے ھیں وہ بڑے پر لے درجے کی گمراھی میں ھیں “
یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَئِذٍ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ
”او ر جس روز قیامت بر پا هوگی اس روز اھل باطل بڑے گھا ٹے میں رھیں گے۔“
اور یہ قیامت عنقریب آئے گی جب زمین اپنی پوری آب وتاب پر پهونچ جائے گی اور انسان ترقی کی آخری منزلوں کو طے کرلے گا ، اور زمین اپنی تمام تر زینتوں کے ساتھ مزین هوجائے گی، اور انسان یہ گمان کرنے لگے گا کہ وہ ھر چیز پر قادر ھے اور اس کی حکومت تمام اشیاء پر ھے یھاں تک کہ بارش پر بھی کنٹرول کرنے لگے گا، اور پھاڑوں پر بھی زراعت کرنے لگے گا، نیزمشکل امراض کا علاج کرنے لگے گا، اور مردہ لوگوں کے دلوں اور آنکھوں کا زندہ انسان میں پیوند لگانے لگے گا، اور ستاروں کے درمیان سیر کرے گا ، اور ذرہ کو روشن کردے گا، اور پھاڑوں کو ہٹانے لگے گا، کیونکہ انھیں تمام چیزوں کے بارے میں خداوندعالم نے ڈرایا ھے، ارشاد هوتا ھے:
حَتّٰی اِذَا اَخَذَتِ الاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیِّنَتْ وَظَنَّ اٴَھْلُھَا اَنَّھُمْ قَادِرُوْنَ عَلَیْھَا اٴَتَا ھَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَھَا رًا فَجَعْلَنَاھَا حَصِیْدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِاٴلْاٴَمْسِ
”یھاں تک کہ جب زمین نے(فصل کی چیزوں سے)اپنا بناوٴ سنگار کر لیا اور ھر طرح آراستہ هوگئی اور کھیت والوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ اس پر یقینا قابو پا لیں گے (جب چاھیں گے کاٹ لیں گے) یکا یک ھمارا حکم و عذاب رات یا دن کو آپهونچا تو ھم نے اس کھیت کو ایسا صاف کٹا هو ا بنادیاجیسے کل اس میں کچھ تھا ھی نھیں“
قارئین کرام !مذکورہ آیت میں ایک بڑا لطیف اشارہ ھے کہ خدا وند عالم فرماتا ھے کہ قیامت رات میں آئے گی یا دن میں،اوراس کی تفسیر اس کے علاوہ کچھ نھیں هو سکتی کہ زمین کروی(انڈے کے شکل کی)ھے جس میں آدھی میں رات هوتی ھے اور آدھی میں دن، اور جب قیامت آئے گی تو وہ ایک لمحہ میں آئے گی:
وَمَا اٴَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اٴَوْ هو اٴَقْرَبُ
”قیامت کا واقع هونا تو ایسا ھے جیسے پلک جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر“
یعنی قیامت کے وقت آدھی زمین میں رات هوگی اور آدھی میں دن اس کے علاوہ قرآن مجید نے قیامت کی ایک دوسری نشانی بھی بیان کی ھے ،اور وہ یہ کہ جب صور پھونکا جائے گا تب قیامت آئے گی ۔
اسی طرح قیامت کے لئے قرآن مجید نے ایک اور نشانی بیان کی ھے کہ تمام لوگوں میں خون برف بن جائے گا چاند و سورج کو گہن لگے گا پھاڑ ریزہ ریزہ هو جائیں گے ،ستارے پھیکے (ماند)پڑجائیں گے دریا پھٹنے لگیں گے،زمین میں زلزلہ آجائے گا ،اور زمین و آسمان میں تمام زندہ چیزیں نابو د هو جائیںگی۔
اور سب کچھ پھلے صور پھونکنے کے نتیجہ میں هوگا۔اور دوسرے صور میں تمام کے تمام زندہ هو جائیں گے اور حساب کتاب شروع هوجائےگا۔
< وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ ہَذَا الْکِتَابِ لاَیُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاہَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَیَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا>
”نہ چھوٹے ھی گناہ هو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے(دنیامیں )کیا تھا وہ سب (لکھا هوا) موجود پائیں گے اور تمھارا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر ) بھی ظلم نھیں کرے گا“
< وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّہَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ ۔ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهو اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ>
”اور اعمال کی کتاب (لوگوں کے سامنے)رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ لاکر حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرہ برابر ) ظلم نھیں کیا جائے گا اور جس شخص نے جیسا کیا هوگا اسے اس کا پورا پورا بدلا مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ھیں وہ اس سے خوب واقف ھے“
والحمد لله رب العالمین۔