اردو
Wednesday 4th of December 2024
1
نفر 0

حضرت على (ع) كى زندگى كے حالات

7

پہلا سبق:

 

حضرت على (ع) كى زندگى كے حالات

 

(پہلا حصہ)

 

9

ائمہ طاہرين اور ان كى تعداد

پيغمبر اكرم(ص) كى رحلت كے بعد ، آپ(ص) كے جانشينوں اور لوگوں كے دين و دنيا كے پيشواؤں كى تعداد بارہ ہے اور اس سلسلہ ميں عامہ اور خاصہ دونوں ہى نے پيغمبر اكرم (ص) سے بہت سى روايتيں نقل كى ہيں يہاں تك كہ ان ميں سے بہت سى روايتوں ميں ائمہ معصومين (ع) كے ناموں كى صراحت بھى موجود ہے(1)_

ان حضرات كى تعداد اور ناموں پر رسول اكرم (ص) كى نص كے علاوہ ہر امام (ع) نے خدا كے حكم سے اپنے بعد والے امام (ع) كا تعارف بھى كراياہے_ جيسا كہ پہلے امام حضرت امير المؤمنين نے شہادت كے وقت اپنے بيٹے امام حسن (ع) كے نام كى تصريح فرمادى تھى اور امام حسن (ع) نے بھى اپنى وفات كے وقت اپنے بھائي امام حسين(ع) كے عہدہ امامت كا اعلان كرديا تھا نيزيہى عمل تمام ائمہ معصومين (ع) نے انجام ديا_

ائمہ معصومين كے نام:

1 _ حضرت امير المؤمنين على بن ابيطالب (ع)

2 _ حضرت امام حسن مجتبى (ع)

3 _ حضرت امام حسين (ع)

4 _ حضرت امام سجاد (ع)

 

10

5 _ حضرت امام محمد باقر (ع)

6 _ حضرت امام جعفر صادق (ع)

7 _ حضرت امام موسى كاظم (ع)

8 _ حضرت اما م رضا (ع)

9_ حضرت امام محمد تقى (ع)

10_ (ع) حضرت امام على النقى (ع)

11 _ حضرت امام حسن العسكرى (ع)

12 _ حضرت امام مہدى (حجة بن الحسن) (ع)

ائمہ معصومين كى سيرت

ہمارے بارہ امام پيغمبر(ص) اكرم كى تعليم و تربيت كا كامل نمونہ تھے، ان حضرات كى سيرت ، رسول(ص) خدا كى سيرت تھى _

البتہ دو سو پچاس سال كى مدت (يعنى 11 ھ ق سے ليكر 260 ھ ق ) تك جب يہ معصومين(ع) حضرات لوگوں كے درميان موجود تھے اس زمانہ ميں مختلف حالات پيش آتے رہے كہ جن ميں ائمہ معصومين (ع) كى زندگى مختلف شكلوں ميں جلوہ گر ہوتى رہى ليكن پھر بھى انہوں نے پيغمبر (ص) اكرم كے اصلى مقصد يعنى اسلام كى نشر و اشاعت اور اصول و فروع كو تغيير و تبديلى اور تحريف سے محفوظ ركھنے نيز ممكنہ حد تك لوگوں كى تعليم و تربيت تا سلسلہ ميںكسى قسم كا دريغ نہيں كيا_

پيغمبر اكرم(ص) اپنے 23 سالہ تبليغى دور ميں زندگى كے تين مرحلوں سے گزرے ہيں ، چنانچہ بعثت كے شروع كے تين سال آپ نے پوشيدہ طور پرتبليغ كرنے ميں گزارے، اس كے بعد دس سال تك مسلسل مكہ ميں على الاعلان لوگوں كو دعوت اسلام ديتے رہے جس ميں آپ(ص) اور آپ(ص) كے

 

11

پيروكار دونوں ہى دشمنان اسلام كى طرف سے ڈھائے جانے والے سخت مظالم اور آزار كا شكار رہے ، اس دور ميں آپ (ص) كودين اسلام كى تبليغ كے لئے كسى طرح كى آزادى حاصل نہيں تھى _ پھر آخر كے دس سال اس حالت ميں گزرے كہ حكومت اسلامى كى بنياد ركھى گئي اور اسلام نے اپنى فاتحانہ ترقى اور پيش قدمى كو جارى ركھا اور ہر لحظہ مسلمانوں پر كمال و دانش كے دروازے كھلتے رہے_

ائمہ معصومين گوناگوں حالات سے دوچار تھے_ ان كے زمانے كى صورت حال، پيغمبراكرم (ص) كے ہجرت كے پہلے والے زمانہ كے ساتھ بہت زيادہ مشابہت ركھتى تھى كبھى توبعثت كے پہلے تين سالوں كى طرح ، كسى صورت سے بھى اظہار حق ممكن نہ تھا اسى وجہ سے يہ حضرات بھى نہايت احتياط كے ساتھ اپنے فرائض پر عمل كرتے رہے ہيں جيسا كہ چوتھے امام حضرت زين العابدين (ع) نے يہى كيا_

اور كبھى ہجرت سے دس سال پہلے كى طرح صرف نشر احكام اور معارف دين كى تعليم ديتے اور افراد كى تربيت كرتے تھے ادھر حكاّم بھى ايذا رسانى سے باز نہيں آتے تھے اور ہر روز ايك نئي مشكل پيدا كرديتے تھے_

پيغمبراكرم (ص) كى ہجرت كے بعد كے حالات سے كسى حد تك حضرت امام على (ع) كے پانچ سالہ دور حكومت كے حالات اور حضرت امام حسن (ع) كى زندگى كے تھوڑے دنوں كے حالات كے مشابہ تھے_ نيز اسى طرح كى صورت حال حضرت امام حسين (ع) كى زندگى ميں بھى پيش آئي،جس ميں حق مكمل طور پر جلوہ گر ہوا اور اس نے شفاف آئينہ كى طرح پيغمبر اكرم (ص) كے زمانہ كے عمومى حالات كو پيش كيا_

اس زمانہ كے علاوہ كہ جس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور كسى بھى زمانہ ميں ائمہ معصومين نے آشكارہ طور پروقت كے حكمرانوںكى مخالفت نہيں كى اور نہ ہى ان سے كھلم كھلا برسر پيكار ہوسكے اسى وجہ سے ان كے لئے قول و عمل ميں تقيہ ناگزير تھا _ اس كے باوجود بھى ان كے دشمن، ان كى شمع حيات كو گل كرنے اور ان كے آثار كو مٹانے كى كوششوں ميں لگے رہے_

 

12

اختلاف كى اصل وجہ

پيغمبر اكرم (ص) كے بعد اسلامى معاشرہ ميں مختلف حكومتيں بنيں اور انہوں نے اپنے آپ كو حكومت اسلامى كا نام ديا_ بنيادى طور پر يہ تمام حكومتيں اہل بيت كى مخالف تھيں_

نيز يہ مخالفت اور دشمنى ناقابل آشتى ،بنيادى اور اعتقادى تھي_ يہ صحيح ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اپنى احاديث ميں اپنے اہل بيت (ع) كے فضائل و مناقب بيان فرمائے ہيں كہ جن ميں سے ايك اہم ترين سمجھى جانے والى بات يہ ہے كہ اہل بيت (ع) ،احكام دين ،معارف قرآن اور خدا كى حلال و حرام كردہ چيزوں سے مكمل طور پر آگاہ تھے اور وہ انھيں لوگوں كے لئے بيان فرماتے تھے نتيجہ ميں ان كى تعظيم اور احترام تمام امت پرلازم تھا، ليكن امت نے پيغمبراكرم (ص) كى اس وصيت كاحق ادا نہيںكيا_

مختلف مقامات خصوصاً غدير خم ميں پيغمبراكرم (ص) (ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين معين فرماديا تھا، ليكن اس كے برخلاف كچھ مسلمانوں نے پيغمبراكرم (ص) كى رحلت كے بعد دوسروں كو پيغمبر(ص) كا جانشين چن ليا اوراہل بيت(ع) كوان كے مسلّم حق سے محروم كرديا_ نتيجہ ميں حكومت وقت ،اہل بيت كوہميشہ اپناخطرناك رقيب شمار كرتى رہى اور مختلف طريقوں سے انہيںختم كردينے يا گوشہ نشين بنادينے كى كوشش ميں لگى رہى _ائمہ معصومين پيغمبر(ص) اعظم كى سيرت كوامت اسلامى كے سامنے پيش كرتے تھے، حكومت اسلامى كے فرائض كى رعايت اور اسلام كے تمام احكام كے اجراء كو ضرورى سمجھتے تھے_ ليكن پيغمبر(ص) كے بعد تشكيل پانے والى حكومت ، احكام اسلامى كى مكمل رعايت اور سيرت پيغمبر(ص) كى متابعت كى پابندى نہيں كرتى تھى بلكہ ہميشہ اپنى نفسانى اور سياسى خواہشوں كے مطابق احكام اور قوانين كى تفسير كرتى رہى ، اميرالمؤمنين _ان كے بارے ميں فرماتے ہيںكہ :

'' بيشك يہ دين اشرار كے ہاتھوں ميںاسير، نيز ہوا وہوس اور دنيا طلبى كا ذريعہ ہوگياہے'' (2)

ابن ابى الحديد شرح نہج البلاغہ ميں حضرت على (ع) كى خصوصيات كوبيان كرنے ہوئے فرماتے

 

13

ہيں:

''حضرت على _شريعت كے پابند تھے اور جو كچھ دين كے خلاف تھا اس كو يكسر نظر انداز كر ديتے تھے اور اس پر عمل نہيں كرتے تھے_''

اسى طرح حضرت على (ع) خود فرماتے ہيں كہ :

'' اگر دين و تقوى مانع نہ ہوتا توميںعرب كا زيرك ترين شخص ہوتا_''

ليكن دوسرے خلفاء نے جو خود بہتر سمجھا اور جوان كى رائے كے مطابق تھا اسى پر عمل كيا، چاہے وہ شرع كے مطابق ہو يا نہ ہو _(3)

خداوند عالم نے چند آيات ميں امت اسلامى كوحتى كہ پيغمبر اكرم (ص) كو احكام اسلامى ميں تبديلى كرنے سے منع كيا ہے_ پيغمبر(ص) اسلام نے بھى ان ناقابل تغيير احكام اور قوانين كى روشنى ميں لوگوںكے درميان ايسى روش اختيار كى كہ جس سے قوانين الہى كے اجراء ميں زمان ، مكان اوراشخاص كے اعتبار سے كوئي فرق نہ رہ جاتا_

پيغمبر اكرم (ص) كى سيرت طيبہ كا مقصد صرف يہ تھا كہ احكام آسمانى ،لوگوں كے درميان عادلانہ اور مساوى طور پر جارى ہوسكيں اوراسلام كے قوانين ميں كوئي تبديلى اور تحريف واقع نہ ہو اسى روش كے ذريعہ آپ(ص) نے لوگوں كے درميان ہر طرح كے امتياز كو ختم كرديا حتى كہ آپ(ص) ،خدا كے حكم سے واجب الاطاعت حاكم اور فرمانروا قرار پائے _پيغمبراكرم (ص) كے لئے ان كى زندگى ميں بجز اس امتياز كے كہ جو دستور خداوندى كے وجہ سے تھا ذرہ برابر بھى لوگوں كى بہ نسبت كوئي امتياز نہ تھا _

ليكن ائمہ معصومين كے زمانہ ميں برسر اقتدار حكومتوں نے ظاہرى لحاظ سے بھى اپنى سيرت كو پيغمبر اكرم(ص) كى سيرت سے منطبق نہيںكيا اور اپنى راہ و روش كو يكسر بدل ڈالا_

1_ رسول(ص) خدا كى رحلت كے بعد اسلامى معاشرہ ميں شديدترين اختلافات رونما ہوئے اور امت اسلامي، طاقتور اور كمزور دو دستوں ميں تقسيم ہوگئي _(4) اور ايك گروہ كى عزت و آبرو اور جان ومال دوسرے گروہ كى ہوا وہوس كا بازيچہ بن گئي _

 

14

2_ نام نہاد اسلامى حكومتيں تدريجاً قوانين اسلامى كو بدلنے لگيں اوركبھى اسلامى معاشرہ كى مصلحت كو بالائے طاق ركھتے ہوئے اپنى حكومت اور اقتدار كے تحفظ كى خاطر احكام الہى پر عمل كرنے سے كتراتى تھيں اور اسلامى دستور و قوانين كى مخالفت كرتى تھيں_

يہ روش روز بروز وسعت پاتى گئي اورنوبت يہاں تك پہونچى كہ زمامداران حكومت اور كام كرنے والوں ميں ذرّہ برابر احكام اسلامى اور دينى حدود كى پابندى كا پاس و لحاظ نہ رہا_

ليكن ائمہ معصومين ، قرآن كے حكم كے مطابق احكام اسلام اور سيرت پيغمبر(ص) كے اجراء كو ہميشہ اور تمام لوگوں كے لئے لازم جانتے تھے، اسى اختلاف اور تضاد كى بناپر اس وقت كى حكومتيں اپنى طاقت كا فائدہ اٹھاتے ہوئے ائمہ معصومين كى حيثيت كوكمزور بنانے اور ان كومعاشرے اور لوگوں سے دور كرنے كى كوششيں كرتى رہيں اور ہر ممكن طريقہ سے ان كے نور كوگل كرنے ميں لگى رہيں_ (5)

اہل بيت شديد مشكلات سے دوچاررہے اور سخت ترين كينہ توز دشمنوں ميں رہنے كے باوجود بھى حقائق دين كى تبليغ كرتے رہے اور صالح افراد كى تربيت سے دست بردار نہ ہوئے_

ان كى مسلسل تعليم و تربيت ہى كا اثر تھا كہ حق كے پيرو كاروں كى تعداد، رحلت پيغمبر(ص) (ص) كے وقت مختصر ہونے كے باوجود اواخر عصر ائمہ (ع) ميں كثير ہوگئي_

على ابن ابيطالب _

مذكورہ بالا مقدمہ ميں ہم نے ائمہ معصومين (ع) كى عمومى سيرت اورانكى معاصرحكومتوںكا اجمالى ذكر كيا ہے نيز ان كے درميان اختلاف كے اسباب كى تحقيق پيش كر دى ہے ،اور اب ہم ائمہ معصومين (ع) كى سوانح عمرى كے بارے ميں بقدر گنجائشے دروس بيان كريںگے يہ توواضح ہے كہ تمام معصوم پيشواؤں كى مكمل علمى ، سياسى اور اجتماعى زندگى كو چند گھنٹوں ميں بيان نہيںكيا جاسكتا_ لہذا

 

15

مختصر وقت كے پيش نظر، رہبران الہى كى زندگى كا سرسرى جائزہ ہى پيش كيا جارہا ہے_

ابتدا پہلے امام حضرت اميرالمؤمنين (ع) كى زندگى سے كى جارہى ہے_ آپ(ع) كى زندگى كو پانچ حصوں ميںتقسيم كيا جاسكتا ہے_

الف_ ولادت سے بعثت پيغمبر(ص) تك

ب_ بعثت سے ہجرت پيغمبر(ص) تك

ج_ ہجرت سے رحلت پيغمبر (ص) تك

د_ رحلت پيغمبر(ص) سے خلافت تك

ہ_ خلافت سے شہادت تك

اب ہم ان پانچوں حصوں ميں سے ہر حصہ كے بارے ميں بحث كا نچوڑ پيش كريں گے_

ولادت سے بعثت پيغمبر(ص) تك

حضرت على بن ابى طالب _جمعہ كے دن 13 رجب 30 ھ ق عام الفيل (بعثت سے دس سال پہلے) خانہ خدا ميںپيدا ہوئے_(6) ان كے پدر عاليقدر '' عمران''(7) ابن عبدالمطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف تھے اور ان كى والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں_

حضرت على _نے چھ سال كى عمر تك اپنے والدين كے پاس زندگى گزارى اس كے بعد حضرت محمد ابن عبداللہ كى درخواست پر اُن كے پاس چلے آئے اور آپ(ص) كے دامن تربيت ميں رہے_(8)

حضرت على (ع) اپنے اس زمانہ كے بارے ميں يوں فرماتے ہيں:

وَضَعنى فى حجْرہ وَ اَنا وَلَدٌ يَضُمُنى الى صَدْرہ وَ يَكْنُفنُى فى فَراشہ وَ يُمسُّنّى جَسَدَہ وَ يُشمَنّى عَرْفَہُ

 

16

و كانَ يَمْضَغْ الشيء ثمَّ يُلقمنيہ ...وَ لَقَد كُنتُ أتَّبعُہُ أتَّبعُہُ إتّباع الفَضيل أثر اُمّہ، يَرفَعُ لى فى كُلّ يوم: من اخلاقہ علماً و يا مُرنى بالاقتداء بہ، وَ لَقَدْ كان يُجاور فى كل سُنَة: بحراء فاراہ و لا يراہ غيري ...(9)

'' بچپن ميں پيغمبر (ص) مجھے اپنى آغوش ميں ليتے اپنے سينہ سے لگاتے اور اپنى مخصوص آرامگاہ پر جگہ ديتے اپنا جسم اقدس ميرے جسم سے مس كرتے اور اپنى خوشبو سے ميرے مشام جاں كو معطر فرماتے غذا چبا كر ميرے منہ ميں ركھتے _''

ميں رسول(ص) خدا كى اس طرح پيروى كرتا تھا كہ جيسے ( اونٹ كا ) شير خوار بچہ اپنى ماں كے پيچھے پيچھے چلتا ہے_ آنحضرت (ص) ہر روز ميرے لئے اپنے اخلاق كا عَلَم بلند كرتے تھے اورمجھے حكم ديتے تھے كہ ميں ان كے كردار كى پيروى كروں_ آپ(ص) ہر سال ''غارحرا'' ميں تشريف لے جاتے تھے اور اس وقت ميرے علاوہ آپ(ص) كو،كوئي ديكھ نہيں پاتا تھا_''

خورشيد رسالت كا اعلى كردار، حسن رفتار ، عدالت پسندى ، انسان دوستى اور خدا پرستى حضرت علي(ع) كى انفرادى اور اجتماعى زندگى كے خطوط معين كرنے كے لئے بہترين نمونہ اور سرمشق عمل ہے_

بعثت سے پيغمبر(ص) كى ہجرت تك

حضرت على _ ابھى نوجوان تھے اور آپ(ع) كا سن دس سال سے زيادہ نہيں ہوا تھا ليكن پھر بھى آپ(ع) كى فكراور آگاہى اتنى تھى كہ جب حضرت محمد مصطفى صلى اللہ على و آلہ و سلم نے اپنى پيغمبرى كا اعلان فرمايا تو آپ (ع) نے سب سے پہلے ايمان كا اعلان فرمايا (10) اس سلسلہ ميںآپ(ع) فرماتے ہيں :

لم يجمع بيتٌ واحدٌ يومئذ: فى الاسلام غير رسول و خديجہ و انا ثالثہما ارى نور الوحى و الرسالة و اشمّ

 

17

ريح النبوة_'' (11)

اس زمانہ ميں جب اسلام كسى گھر ميں نہيں پہونچا تھا _ فقط پيغمبراكرم(ص) اور ان كى بيوى خديجہ مسلمان تھيں اور تيسرا ميں مسلمان تھا_ ميںنور وحى كو ديكھتا اور نبوت كى خوشبو سونگھتا تھا_''

جب آيہ '' و انذر عشيرتك الاقربين'' (12) نازل ہوئي تو حضرت علي(ع) نے پيغمبر اكرم(ص) كے فرمان كے مطابق اپنے رشتہ داروں ميں سے چاليس افراد كو منجملہ اپنے چچا ابولہب ، عباس اور حمزہ و غيرہ كو مہمان بلايا_ رسول اكرم(ص) نے كھانے پينے كے بعد فرمايا:

'' اے فرزندان عبدالمطلب ميں جو چيز تمہارے لئے لايا ہوں مجھے نہيں معلوم كہ عرب كے جوانوں ميں سے كوئي بھى اس سے بہتر چيز تمہارے لئے لايا ہو_ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت كى بھلائي نيز خير و سعادت كا تحفہ لايا ہوں_ خدا نے حكم ديا ہے كہ ميں تم كو اس كى طرف بلاؤں تم ميں سے كون ہے جو اس راستہ ميںميرى مدد كرے تا كہ وہى ميرا بھائي ،ميرا وصى اور ميرا جانشين قرار پائے؟''

رسول خدا(ص) نے تين بار يہ بات دہرائي اور ہر بار تنہا حضرت على (ع) ہى كھڑے ہوئے اور انہوں نے اسى امر ميں اپنى آمادگى كا اعلان فرمايا_

پھر آنحضرت (ص) نے فرمايا:

'' يہ (على (ع) ) ہى ميرے بھائي ، ميرے وصى اور ميرے جانشين ہيں ان كى باتوں كو سنو اور ان كى اطاعت كرو_(13)''

حضرت عليہ _نے مكہ كى پورى تيرہ سالہ زندگى رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں گزارى اور وحى الہى كو مكتوب فرماتے رہے_

على (ع) ، بستر رسول(ص) پر

اظہار اسلام كى بناپر قريش كے سر برآوردہ افراد نے اپنى تسلّط طلب خواہشوں كى راہ ميں

 

18

وجود پيغمبراكرم(ص) كو خطرناك تصور كيا_ اسى وجہ سے '' دارالندوہ'' ميں جمع ہوئے اور رسول(ص) خدا سے برسر پيكارہونے كے لئے آپس ميں مشورہ كرنے لگے_ آخر ميں يہ طے پايا كہ ہر قبيلہ سے ايك ايك آدمى چنا جائے تا كہ رات كو پيغمبراكرم(ص) كے گھر پر حملہ كيا جائے اور سب مل كر ان كو قتل كرديں _ پيغمبراكرم ، (ص) وحى الہى كے ذريعہ كى ان سازشوں سے آگاہ ہوگئے اور يہ حكم ملا كہ راتوں رات مكہ كى طرف ہجرت كرجائيں_ (14) آپ(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا: كہ '' آپ(ع) ميرے بستر پر اس طرح سوجاؤ كہ كسى كو يہ معلوم نہ ہونے پائے كہ پيغمبراكرم (ص) كى جگہ كون سورہا ہے_''

حضرت على (ع) كى يہ فدا كارى اتنى اہميت اور قدر و منزلت كى حامل تھى كہ مختلف روايات(15) كى بناپر خدا نے يہاں پر يہ آيت نازل كى :

'' و من الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد''(16)

لوگوں ميں سے كچھ ايسے ہيں جو رضائے خدا كى راہ ميں اپنا نفس بيچ ديتے ہيں اور خدا، اپنے بندوں پر مہربان ہے_

ہجرت سے رحلت پيغمبر(ص) تك

الف_ على (ع) ، پيغمبر (ص) كے امين

پيغمبر اكرم(ص) كو جب ہجرت كا حكم ملا تو آپ(ص) نے اپنے خاندان كے افراد اور قبيلہ كے درميان حضرت على (ع) سے زيادہ كسى كو امانت دار نہيں پايا_ اسى وجہ سے آپ(ص) نے ان كو اپنا جانشين بناياتا كہ وہ لوگوں كى امانتيں ان تك پہنچاديں، آپ(ص) كا قرض ادا كريں اور آپ(ص) كى دختر حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور دوسرى عورتوں كو مدينہ پہنچاديں_

حضرت على _، پيغمبراكرم (ص) كے حكم پر عمل كرنے كے بعد، اپنى والدہ گرامى جناب فاطمہ بنت

 

19

اسد ، بنت رسول (ص) حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا ،زبير كى بيٹى فاطمہ اور كچھ دوسرے لوگوں كے ساتھ مدينہ روانہ ہوئے اور مقام '' قبا'' (17) ميں پيغمبر (ص) اكرم سے جاملے_ (18)

ب_ على (ع) اور راہ خدا ميں جہاد

رسول(ص) خدا كے مدينہ ہجرت كرنے كے بعد راہ حق ميں اپنى جان كى بازى لگانے والوں اور جان كى پروا، نہ كرنے والوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے اصحاب كے درميان حضرت على (ع) بے نظير تھے _ آپ(ع) غزوہ تبوك كے علاوہ _ كہ جس ميںآپ(ع) ، پيغمبراكرم (ص) كے حكم سے مدينہ ميں رك گئے تھے_ تمام غزوات ميں موجود رہے_ اور زيادہ تر آپ(ع) كى فداكارى وايثار كے سبب ،لشكر اسلام نے لشكر كفر و شرك پر غلبہ حاصل كيا_ آپ(ع) نے ہميشہ اپنے دشمن و مد مقابل كو شكست دى اور كبھى بھى دشمن كو پيٹھ نہيں دكھائي اور فرمايا كہ اگر تمام عرب ايك كے پيچھے ايك مجھ سے لڑيں تو ميں اس جنگ ميں پيٹھ پھير نے والا نہيں ہوں_(19)

بلاخوف و ترديد يہ بات كہى جاسكتى ہے كہ اگر اس جانباز اسلام كى جانبازياں اور فداكارياں نہ ہوتيں تو بعيد نہيں تھا كہ بدر ،احد ، خندق اورخيبر ... يا كسى بھى جنگ ميں كفار و مشركين، چراغ رسالت كوبا آسانى گل كر كے پرچم حق كو سرنگوں كرديتے_

اس مقام پرمولا على (ع) كى جنگ خندق و خيبر كے دو ميدانوں كى فداكاريوں كو بيان كرتے ہوئے اب ہم آگے بڑھيں گے_

1_ اسلام دشمن مختلف گروہوں نے ايك دوسرے سے ہاتھ ملاليا تا كہ يك بيك مدينہ پر حملہ كركے اسلام كوختم كرديں پيغمبر(ص) اسلام نے جناب سلمان فارسى كى پيشكش پر حكم ديا كہ مدينہ كى ان اطراف ميں خندق كھود دى جائے كہ جہاں سے دشمن كے داخل ہونے كا خطرہ ہے_

خندق كے دونوں طرف دونوں لشكر ٹھہرے ہوئے تھے ، كہ عرب كا نامى گرامى جنگجو '' عمروبن عبدود'' دشمن كے لشكر سے خندق كو پاركر كے رجز پڑھتااور مبارزہ طلبى كرتا ہوا آيا_حضرت علي(ع) نے

 

20

قدم آگے بڑھائے دونوں ميں گفتگو كے بعد ''عمرو'' گھوڑے سے اتر پڑا اور اس نے گھوڑے كو پے كرديا ، تلوار لے كر حضرت على (ع) پر حملہ آور ہواتو امام(ع) نے دشمن كے وار كو اپنى ڈھال پر روكا اور اس كے بعد آپ(ع) نے ايك ضرب سے اس كو زمين پرگراديا پھر قتل كرڈالا_ ''عمرو'' كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ ميدان سے بھاگ كھڑے ہوئے اور جورہ گئے وہ امام كى تلوار ذوالفقار كے لقمہ بن گئے (20) _ جب امام _فاتحانہ واپس آئے تو پيغمبراكرم (ص) نے ان سے فرمايا: '' اگر تمہارى آج كى جنگ كو امت اسلام كے تمام پسنديدہ اعمال سے تو لاجائے تو تمہارا يہ عمل سب سے برتر ہے _(21) ''

2_ پيغمبر (ص) اكرم نے يہوديوں كے مركز، خيبر كا محاصرہ كيا اس غزوہ ميں آنكھوں كے درد كے سبب حضرت علي(ع) جنگ ميں شامل نہ تھے_ رسول اكرم(ص) نے دو مسلمانوں كو پرچم ديا اور وہ دونوں ہى كاميابى حاصل كرنے سے پہلے ہى واپس آگئے ، پيغمبر(ص) نے فرمايا: '' پرچم ان كاحق نہيں تھا على (ع) كو بلاؤ '' لوگوں نے عرض كياكہ '' ان كى آنكھوں ميں درد ہے'' آپ(ص) نے فرمايا: '' ان كو بلا لاؤ وہ، وہ ہيں جن كو خدا اور اس كا رسول(ص) دوست ركھتا ہے اور وہ بھى خدا اور اس كے رسول(ص) كو دوست ركھتے ہيں ...

جب حضرت على _تشريف لائے تو پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا: '' علي(ع) كيا تكليف ہے؟'' تو حضرت على (ع) نے كہا: '' آنكھوں ميں تكليف ہے_''

اس وقت رسول(ص) خدا نے ان كے لئے دعا فرمائي اور ان كى آنكھوں پر اپنا لعاب دہن لگايا_ كہ جس سے حضرت على (ع) كى آنكھوں كا درد ختم ہوگيا،جب حضرت علي(ع) نے سفيد پرچم لہرايا_تو پيغمبراكرم(ص) نے ان سے فرمايا: '' جبرئيل تمہارے ساتھ ہيں اوركاميابى تمہارے آگے آگے ہے ، خدا نے ان لوگوںكے دلوں ميں خوف وہراس ڈال ديا ہے ...''

حضرت على (ع) ميدان ميں گئے توسب سے پہلے مرحب سے سامنا ہوا كچھ باتيں ہوئيں اور آخر كار اس كوزمين پرگراديا _يہودى قلعہ كے اندر چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا_ امام _دروازہ

 

21

كے پيچھے آئے اور جس دروازہ كو بيس آدمى بند كرتے تھے اس كو اكيلے كھولا اور اس كو اپنى جگہ سے اكھاڑ اور يہوديوں كى خندق پرڈال ديا يہاں تك كہ مسلمان اس كے اوپر سے گزر كر كامياب ہوئے_(22)

ج_ علي(ع) اور پيغمبر(ص) كى جانشيني

پيغمبراكرم(ص) نے اپنے بعد ،مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور ولايت كے مسئلہ ميں صرف اپنى پوشيدہ دعوت اور اعلان پرہى اكتفا نہيںكياتھا بلكہ جس طرح كہ ہم ذكر كرچكے ہيں كہ آپ(ص) نے دعوت اورتبليغ كے پہلے ہى دن سے مسئلہ ولايت كو توحيد و نبوت كے ساتھ صريحاً بيان فرمادياتھا_ اور پھر خصوصيات و فضائل كے مجموعہ حضرت على _كے لئے آپ(ص) كے پاس، خدا كا يہ فرمان موجود تھا كہ دين و دنيا كے امور ميں علي(ع) كى ولايت و سرپرستى اور اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلان فرماديں_

رسول اكرم(ص) نے اس كام كو مختلف مواقع پر منجملہ ''غديرخم'' ميں انجام ديا_ آنحضرت(ص) نے 10ھ فريضہ حج كى انجام دہى كے لئے مكہ كا قصد فرمايا، مورخين نے اس سفر ميں پيغمبراكرم (ص) كے ساتھيوں كى تعداد ايك لاكھ چو بيس ہزار لكھى ہے _(23) حج سے واپسى پر 18ذى الحجہ كو صحراء جحفہ كى ''غدير خم '' نامى جگہ پر پہنچے_ منادى نے پيغمبراكرم(ص) كے حكم كے مطابق اعلان كيا '' الصلوة جامعة'' سب لوگ رسول(ص) خدا كے گرد جمع ہوگئے_ اونٹوں كے پالانوں سے ايك بلند جگہ منبربنايا گيا اور پيغمبراكرم(ص) اس پر تشريف لے گئے، حمد خدا اور مفصل خطبہ كے بعد آپ(ص) نے فرمايا: اے لوگو مؤمنين پر ولايت و سرپرستى كا زيادہ حق كون ركھتا ہے؟ تو لوگوں نے كہا: خدا اوراس كا پيغمبر(ص) زيادہ بہتر جانتے ہيں تو آپ(ص) نے فرمايا :ميرا ولى خدا ہے اور ميں مومنين پر خود ان كے نفسوں سے زيادہ حق ركھتا ہوں اور پھر فرمايا ''من كنت مولاہ فہذا عليٌ مولا'' (24) جس كا ميں سرپرست و ولى ہوں يہ علي(ع) بھى اس كے سرپرست وولى ہيں خدايا ان كے دوستوں كو دوست ركھ اور ان كے

 

22

دشمنوں كودشمن قرار دے_ ابھى لوگ پراكندہ نہيںہوئے تھے كہ يہ آيت نازل ہوئي :

'' اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا_ '' (25)

'' آج تمہارے دين كوميں نے كامل كرديا اور اپنى نعمتيں تم پر تمام كرديں، اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كرليا_

 

23

سوالات

1_ ائمہ معصومين (ع) كى عمومى سيرت كياتھى اور كيا ائمہ معصومين (ع) اور پيغمبراكرم (ص) كى سيرت ميں كوئي فرق تھا ؟ اور اگرتھا تو وہ كيسا فرق تھا؟

2_ ائمہ معصومين(ع) اور ان كى معاصر حكومتوںكے درميان ،اختلاف كى اصل وجہ كياتھي؟

3_ اميرالمؤمنين كا بچپن كيسے گزرا اورخود آپ (ع) نے اس بارے ميں كيا فرماياہے؟

4_ پيغمبراكرم(ص) نے جب پہلى بار اپنے بعد اميرالمؤمنين كى جانشينى كے مسئلہ كى تصريح كى تو وہ كون سا وقت اور كونسا موقع تھا؟

5_ جنگوں ميں اميرالمؤمنين كى فداكارى كا ايك نمونہ بيان فرمائيں؟

 

24

حوالہ جات

1 تفصيل كے لئے '' كتاب كفاية الاشرفى فى النص على الائمة الاثنى عشر'' اور كتاب '' الفقيہ للنعماني'' ص 57 ، ص 110_ '' بحار الانوار '' جلد 36، ص 226، ص 372، '' غيبت شيخ'' ص 99 ، 87 _ اور '' غيبت مفيد '' كا مطالعہ فرمائيں اور كے علاوہ ولايت اور اس كى شرائط كے موضوع پر قرآن مجيد كا مطالعہ ہم كو بارہ اماموں پر انحصار كرنے كى ہدايت كرتا ہے_

2 ''فانّ ہذا الدين قد كان اسيراً فى ايدى الاشرار يعمل فيہ بالہوى و تطلب بہ الدنيا''(نہج البلاغہ فيض الاسلام خط 53 ص 1010 مالك اشتر كے نام خط )

3 شرح نہج البلاغہ جلد 1 ص 28_

4 مزيد معلومات كے لئے'' تاريخ اسلام امامت حضرت كے زمانہ ميں'' سبق 4 كى طرف رجوع فرمائيں_

5 جو بيان اس مقدمہ ميںكلى طور پر آيا ہے اور جس بات كا دعوى كياگيا ہے آيندہ دروس ميں ائمہ معصومين كے بارے ميں خلفاء كے موقف اورمعصوم رہبروں كے اقدامات كے نمونوں كے ساتھ پيش كيا جائے گا_

6 ارشاد مفيد /9 مطبوعہ بيروت _ بحار جلد 35/5 منقول از تہذيب، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1/59 خانہ كعبہ ميں آپ (ع) كى ولادت كے موضوع كو اہل سنّت كے بہت سے مورخين و محدثين نے لكھا ہے _ مزيد تفصيل كے لئے مروج الذہب جلد 2/249_ شرح الشفا جلد 1/151_ مستدرك حاكم جلد 3/283 شرح قصيدہ عبدالباقى آفندى از آلوسى /5 ملاحظہ ہو_

7 عمران كے چار بيٹے، طالب، عقيل ، جعفر اور على (ع) تھے _ آپ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ ليكن ابن ابى الحديد نے جلد 1 ص 11 پر حضرت علي(ع) كے والد كا نام عبدمناف لكھا ہے_

8 سيرة ابن ہشام جلد 1/262، كامل ابن اثير جلد 2/58 ، كشف الغمہ جلد 79، تاريخ طبرى 2/312_

9 نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ سے چند جملے از صبحى صالح حديث 192 ص 300 اور دو سطريں ص 812 سے _

10 تاريخ طبرى جلد 2 ص 310 كامل ابن اثير جلد 2 ص 50_ ابن ہشام جلد 1 ص 262، كشف الغمہ جلد 1 ص 86

11 نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ 23 ص 811 ، ص 812 _

12 سورہ شعراء آيت214_

13 تاريخ طبرى جلد 2/320_ مجمع البيان جلد 7_8/206 _ الغدير جلد 2/ 379_ كامل ابن اثير جلد 2/62_ 63

 

25

إن ہذا أخى و وصى و خليفتى فيكم فاسمعوا لہ و اطعوا'' _

14 سيرة ابن ہشام جلد 2/124_ كامل ابن اثير جلد 2/101 _ 103_ الصحيح من سيرة النبى جلد 2/238_

15 تفسير الميزان جلد 2/99_ (دس جلدوالي) تفسير برہان جلد 1/206 ملاحظہ ہو_

16 سورہ بقرہ /207_

17 مدينہ سے دو فرسخ دور قبا قبيلہ بنى عمروبن عوف كے سكونت كى جگہ تھي_ معجم البلدان جلد 4/301_

18 مناقب ابن شہر آشوب جلد 2/58، الصحيح من سيرة النبى جلد 2/295_

19 ''واللہ لو تَظَاہَرت الرحب على قتالى لما ولّيت عنہا'' شرح نہج البلاغہ فيض الاسلام ص ، 971_

20 ارشاد مفيد /52،53_

21 بحار جلد 2/205 ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمد لرجع عملك بعملہم ...''_

22 ارشاد مفيد /65،67_

23 الغدير جلد 1/9_

24 سورہ مائدہ /3_

25- الغدير جلد 1/9_11_

1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
میثاقِ مدینہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
حق کیا هے اور کس طرح حق کی پیروی کی جا سکتی هے؟
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے ...
بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ ...
بعثت پیغمبراسلام(ص)
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
چھٹاسبق

 
user comment

syed safdar huissain shah syed gillani
aeasi cheazain parhnay ko milni chahiye kamal hay kia bat hay subhan Allah
پاسخ
1     0
29 فروردين 1392 ساعت 7:42 بعد از ظهر