پہلا سبق:
حضرت على (ع) كى زندگى كے حالات
(پہلا حصہ) |
پيروكار دونوں ہى دشمنان اسلام كى طرف سے ڈھائے جانے والے سخت مظالم اور آزار كا شكار رہے ، اس دور ميں آپ (ص) كودين اسلام كى تبليغ كے لئے كسى طرح كى آزادى حاصل نہيں تھى _ پھر آخر كے دس سال اس حالت ميں گزرے كہ حكومت اسلامى كى بنياد ركھى گئي اور اسلام نے اپنى فاتحانہ ترقى اور پيش قدمى كو جارى ركھا اور ہر لحظہ مسلمانوں پر كمال و دانش كے دروازے كھلتے رہے_ ائمہ معصومين گوناگوں حالات سے دوچار تھے_ ان كے زمانے كى صورت حال، پيغمبراكرم (ص) كے ہجرت كے پہلے والے زمانہ كے ساتھ بہت زيادہ مشابہت ركھتى تھى كبھى توبعثت كے پہلے تين سالوں كى طرح ، كسى صورت سے بھى اظہار حق ممكن نہ تھا اسى وجہ سے يہ حضرات بھى نہايت احتياط كے ساتھ اپنے فرائض پر عمل كرتے رہے ہيں جيسا كہ چوتھے امام حضرت زين العابدين (ع) نے يہى كيا_ اور كبھى ہجرت سے دس سال پہلے كى طرح صرف نشر احكام اور معارف دين كى تعليم ديتے اور افراد كى تربيت كرتے تھے ادھر حكاّم بھى ايذا رسانى سے باز نہيں آتے تھے اور ہر روز ايك نئي مشكل پيدا كرديتے تھے_ پيغمبراكرم (ص) كى ہجرت كے بعد كے حالات سے كسى حد تك حضرت امام على (ع) كے پانچ سالہ دور حكومت كے حالات اور حضرت امام حسن (ع) كى زندگى كے تھوڑے دنوں كے حالات كے مشابہ تھے_ نيز اسى طرح كى صورت حال حضرت امام حسين (ع) كى زندگى ميں بھى پيش آئي،جس ميں حق مكمل طور پر جلوہ گر ہوا اور اس نے شفاف آئينہ كى طرح پيغمبر اكرم (ص) كے زمانہ كے عمومى حالات كو پيش كيا_ اس زمانہ كے علاوہ كہ جس كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور كسى بھى زمانہ ميں ائمہ معصومين نے آشكارہ طور پروقت كے حكمرانوںكى مخالفت نہيں كى اور نہ ہى ان سے كھلم كھلا برسر پيكار ہوسكے اسى وجہ سے ان كے لئے قول و عمل ميں تقيہ ناگزير تھا _ اس كے باوجود بھى ان كے دشمن، ان كى شمع حيات كو گل كرنے اور ان كے آثار كو مٹانے كى كوششوں ميں لگے رہے_ |
اختلاف كى اصل وجہپيغمبر اكرم (ص) كے بعد اسلامى معاشرہ ميں مختلف حكومتيں بنيں اور انہوں نے اپنے آپ كو حكومت اسلامى كا نام ديا_ بنيادى طور پر يہ تمام حكومتيں اہل بيت كى مخالف تھيں_ نيز يہ مخالفت اور دشمنى ناقابل آشتى ،بنيادى اور اعتقادى تھي_ يہ صحيح ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے اپنى احاديث ميں اپنے اہل بيت (ع) كے فضائل و مناقب بيان فرمائے ہيں كہ جن ميں سے ايك اہم ترين سمجھى جانے والى بات يہ ہے كہ اہل بيت (ع) ،احكام دين ،معارف قرآن اور خدا كى حلال و حرام كردہ چيزوں سے مكمل طور پر آگاہ تھے اور وہ انھيں لوگوں كے لئے بيان فرماتے تھے نتيجہ ميں ان كى تعظيم اور احترام تمام امت پرلازم تھا، ليكن امت نے پيغمبراكرم (ص) كى اس وصيت كاحق ادا نہيںكيا_ مختلف مقامات خصوصاً غدير خم ميں پيغمبراكرم (ص) (ص) نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين معين فرماديا تھا، ليكن اس كے برخلاف كچھ مسلمانوں نے پيغمبراكرم (ص) كى رحلت كے بعد دوسروں كو پيغمبر(ص) كا جانشين چن ليا اوراہل بيت(ع) كوان كے مسلّم حق سے محروم كرديا_ نتيجہ ميں حكومت وقت ،اہل بيت كوہميشہ اپناخطرناك رقيب شمار كرتى رہى اور مختلف طريقوں سے انہيںختم كردينے يا گوشہ نشين بنادينے كى كوشش ميں لگى رہى _ائمہ معصومين پيغمبر(ص) اعظم كى سيرت كوامت اسلامى كے سامنے پيش كرتے تھے، حكومت اسلامى كے فرائض كى رعايت اور اسلام كے تمام احكام كے اجراء كو ضرورى سمجھتے تھے_ ليكن پيغمبر(ص) كے بعد تشكيل پانے والى حكومت ، احكام اسلامى كى مكمل رعايت اور سيرت پيغمبر(ص) كى متابعت كى پابندى نہيں كرتى تھى بلكہ ہميشہ اپنى نفسانى اور سياسى خواہشوں كے مطابق احكام اور قوانين كى تفسير كرتى رہى ، اميرالمؤمنين _ان كے بارے ميں فرماتے ہيںكہ : '' بيشك يہ دين اشرار كے ہاتھوں ميںاسير، نيز ہوا وہوس اور دنيا طلبى كا ذريعہ ہوگياہے'' (2) ابن ابى الحديد شرح نہج البلاغہ ميں حضرت على (ع) كى خصوصيات كوبيان كرنے ہوئے فرماتے |
ہيں: ''حضرت على _شريعت كے پابند تھے اور جو كچھ دين كے خلاف تھا اس كو يكسر نظر انداز كر ديتے تھے اور اس پر عمل نہيں كرتے تھے_'' اسى طرح حضرت على (ع) خود فرماتے ہيں كہ : '' اگر دين و تقوى مانع نہ ہوتا توميںعرب كا زيرك ترين شخص ہوتا_'' ليكن دوسرے خلفاء نے جو خود بہتر سمجھا اور جوان كى رائے كے مطابق تھا اسى پر عمل كيا، چاہے وہ شرع كے مطابق ہو يا نہ ہو _(3) خداوند عالم نے چند آيات ميں امت اسلامى كوحتى كہ پيغمبر اكرم (ص) كو احكام اسلامى ميں تبديلى كرنے سے منع كيا ہے_ پيغمبر(ص) اسلام نے بھى ان ناقابل تغيير احكام اور قوانين كى روشنى ميں لوگوںكے درميان ايسى روش اختيار كى كہ جس سے قوانين الہى كے اجراء ميں زمان ، مكان اوراشخاص كے اعتبار سے كوئي فرق نہ رہ جاتا_ پيغمبر اكرم (ص) كى سيرت طيبہ كا مقصد صرف يہ تھا كہ احكام آسمانى ،لوگوں كے درميان عادلانہ اور مساوى طور پر جارى ہوسكيں اوراسلام كے قوانين ميں كوئي تبديلى اور تحريف واقع نہ ہو اسى روش كے ذريعہ آپ(ص) نے لوگوں كے درميان ہر طرح كے امتياز كو ختم كرديا حتى كہ آپ(ص) ،خدا كے حكم سے واجب الاطاعت حاكم اور فرمانروا قرار پائے _پيغمبراكرم (ص) كے لئے ان كى زندگى ميں بجز اس امتياز كے كہ جو دستور خداوندى كے وجہ سے تھا ذرہ برابر بھى لوگوں كى بہ نسبت كوئي امتياز نہ تھا _ ليكن ائمہ معصومين كے زمانہ ميں برسر اقتدار حكومتوں نے ظاہرى لحاظ سے بھى اپنى سيرت كو پيغمبر اكرم(ص) كى سيرت سے منطبق نہيںكيا اور اپنى راہ و روش كو يكسر بدل ڈالا_ 1_ رسول(ص) خدا كى رحلت كے بعد اسلامى معاشرہ ميں شديدترين اختلافات رونما ہوئے اور امت اسلامي، طاقتور اور كمزور دو دستوں ميں تقسيم ہوگئي _(4) اور ايك گروہ كى عزت و آبرو اور جان ومال دوسرے گروہ كى ہوا وہوس كا بازيچہ بن گئي _ |
اسد ، بنت رسول (ص) حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا ،زبير كى بيٹى فاطمہ اور كچھ دوسرے لوگوں كے ساتھ مدينہ روانہ ہوئے اور مقام '' قبا'' (17) ميں پيغمبر (ص) اكرم سے جاملے_ (18) ب_ على (ع) اور راہ خدا ميں جہادرسول(ص) خدا كے مدينہ ہجرت كرنے كے بعد راہ حق ميں اپنى جان كى بازى لگانے والوں اور جان كى پروا، نہ كرنے والوں ميں پيغمبراكرم(ص) كے اصحاب كے درميان حضرت على (ع) بے نظير تھے _ آپ(ع) غزوہ تبوك كے علاوہ _ كہ جس ميںآپ(ع) ، پيغمبراكرم (ص) كے حكم سے مدينہ ميں رك گئے تھے_ تمام غزوات ميں موجود رہے_ اور زيادہ تر آپ(ع) كى فداكارى وايثار كے سبب ،لشكر اسلام نے لشكر كفر و شرك پر غلبہ حاصل كيا_ آپ(ع) نے ہميشہ اپنے دشمن و مد مقابل كو شكست دى اور كبھى بھى دشمن كو پيٹھ نہيں دكھائي اور فرمايا كہ اگر تمام عرب ايك كے پيچھے ايك مجھ سے لڑيں تو ميں اس جنگ ميں پيٹھ پھير نے والا نہيں ہوں_(19) بلاخوف و ترديد يہ بات كہى جاسكتى ہے كہ اگر اس جانباز اسلام كى جانبازياں اور فداكارياں نہ ہوتيں تو بعيد نہيں تھا كہ بدر ،احد ، خندق اورخيبر ... يا كسى بھى جنگ ميں كفار و مشركين، چراغ رسالت كوبا آسانى گل كر كے پرچم حق كو سرنگوں كرديتے_ اس مقام پرمولا على (ع) كى جنگ خندق و خيبر كے دو ميدانوں كى فداكاريوں كو بيان كرتے ہوئے اب ہم آگے بڑھيں گے_ 1_ اسلام دشمن مختلف گروہوں نے ايك دوسرے سے ہاتھ ملاليا تا كہ يك بيك مدينہ پر حملہ كركے اسلام كوختم كرديں پيغمبر(ص) اسلام نے جناب سلمان فارسى كى پيشكش پر حكم ديا كہ مدينہ كى ان اطراف ميں خندق كھود دى جائے كہ جہاں سے دشمن كے داخل ہونے كا خطرہ ہے_ خندق كے دونوں طرف دونوں لشكر ٹھہرے ہوئے تھے ، كہ عرب كا نامى گرامى جنگجو '' عمروبن عبدود'' دشمن كے لشكر سے خندق كو پاركر كے رجز پڑھتااور مبارزہ طلبى كرتا ہوا آيا_حضرت علي(ع) نے |
قدم آگے بڑھائے دونوں ميں گفتگو كے بعد ''عمرو'' گھوڑے سے اتر پڑا اور اس نے گھوڑے كو پے كرديا ، تلوار لے كر حضرت على (ع) پر حملہ آور ہواتو امام(ع) نے دشمن كے وار كو اپنى ڈھال پر روكا اور اس كے بعد آپ(ع) نے ايك ضرب سے اس كو زمين پرگراديا پھر قتل كرڈالا_ ''عمرو'' كے ساتھيوں نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ ميدان سے بھاگ كھڑے ہوئے اور جورہ گئے وہ امام كى تلوار ذوالفقار كے لقمہ بن گئے (20) _ جب امام _فاتحانہ واپس آئے تو پيغمبراكرم (ص) نے ان سے فرمايا: '' اگر تمہارى آج كى جنگ كو امت اسلام كے تمام پسنديدہ اعمال سے تو لاجائے تو تمہارا يہ عمل سب سے برتر ہے _(21) '' 2_ پيغمبر (ص) اكرم نے يہوديوں كے مركز، خيبر كا محاصرہ كيا اس غزوہ ميں آنكھوں كے درد كے سبب حضرت علي(ع) جنگ ميں شامل نہ تھے_ رسول اكرم(ص) نے دو مسلمانوں كو پرچم ديا اور وہ دونوں ہى كاميابى حاصل كرنے سے پہلے ہى واپس آگئے ، پيغمبر(ص) نے فرمايا: '' پرچم ان كاحق نہيں تھا على (ع) كو بلاؤ '' لوگوں نے عرض كياكہ '' ان كى آنكھوں ميں درد ہے'' آپ(ص) نے فرمايا: '' ان كو بلا لاؤ وہ، وہ ہيں جن كو خدا اور اس كا رسول(ص) دوست ركھتا ہے اور وہ بھى خدا اور اس كے رسول(ص) كو دوست ركھتے ہيں ... جب حضرت على _تشريف لائے تو پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا: '' علي(ع) كيا تكليف ہے؟'' تو حضرت على (ع) نے كہا: '' آنكھوں ميں تكليف ہے_'' اس وقت رسول(ص) خدا نے ان كے لئے دعا فرمائي اور ان كى آنكھوں پر اپنا لعاب دہن لگايا_ كہ جس سے حضرت على (ع) كى آنكھوں كا درد ختم ہوگيا،جب حضرت علي(ع) نے سفيد پرچم لہرايا_تو پيغمبراكرم(ص) نے ان سے فرمايا: '' جبرئيل تمہارے ساتھ ہيں اوركاميابى تمہارے آگے آگے ہے ، خدا نے ان لوگوںكے دلوں ميں خوف وہراس ڈال ديا ہے ...'' حضرت على (ع) ميدان ميں گئے توسب سے پہلے مرحب سے سامنا ہوا كچھ باتيں ہوئيں اور آخر كار اس كوزمين پرگراديا _يہودى قلعہ كے اندر چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا_ امام _دروازہ |
كے پيچھے آئے اور جس دروازہ كو بيس آدمى بند كرتے تھے اس كو اكيلے كھولا اور اس كو اپنى جگہ سے اكھاڑ اور يہوديوں كى خندق پرڈال ديا يہاں تك كہ مسلمان اس كے اوپر سے گزر كر كامياب ہوئے_(22) ج_ علي(ع) اور پيغمبر(ص) كى جانشينيپيغمبراكرم(ص) نے اپنے بعد ،مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور ولايت كے مسئلہ ميں صرف اپنى پوشيدہ دعوت اور اعلان پرہى اكتفا نہيںكياتھا بلكہ جس طرح كہ ہم ذكر كرچكے ہيں كہ آپ(ص) نے دعوت اورتبليغ كے پہلے ہى دن سے مسئلہ ولايت كو توحيد و نبوت كے ساتھ صريحاً بيان فرمادياتھا_ اور پھر خصوصيات و فضائل كے مجموعہ حضرت على _كے لئے آپ(ص) كے پاس، خدا كا يہ فرمان موجود تھا كہ دين و دنيا كے امور ميں علي(ع) كى ولايت و سرپرستى اور اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلان فرماديں_ رسول اكرم(ص) نے اس كام كو مختلف مواقع پر منجملہ ''غديرخم'' ميں انجام ديا_ آنحضرت(ص) نے 10ھ فريضہ حج كى انجام دہى كے لئے مكہ كا قصد فرمايا، مورخين نے اس سفر ميں پيغمبراكرم (ص) كے ساتھيوں كى تعداد ايك لاكھ چو بيس ہزار لكھى ہے _(23) حج سے واپسى پر 18ذى الحجہ كو صحراء جحفہ كى ''غدير خم '' نامى جگہ پر پہنچے_ منادى نے پيغمبراكرم(ص) كے حكم كے مطابق اعلان كيا '' الصلوة جامعة'' سب لوگ رسول(ص) خدا كے گرد جمع ہوگئے_ اونٹوں كے پالانوں سے ايك بلند جگہ منبربنايا گيا اور پيغمبراكرم(ص) اس پر تشريف لے گئے، حمد خدا اور مفصل خطبہ كے بعد آپ(ص) نے فرمايا: اے لوگو مؤمنين پر ولايت و سرپرستى كا زيادہ حق كون ركھتا ہے؟ تو لوگوں نے كہا: خدا اوراس كا پيغمبر(ص) زيادہ بہتر جانتے ہيں تو آپ(ص) نے فرمايا :ميرا ولى خدا ہے اور ميں مومنين پر خود ان كے نفسوں سے زيادہ حق ركھتا ہوں اور پھر فرمايا ''من كنت مولاہ فہذا عليٌ مولا'' (24) جس كا ميں سرپرست و ولى ہوں يہ علي(ع) بھى اس كے سرپرست وولى ہيں خدايا ان كے دوستوں كو دوست ركھ اور ان كے |
دشمنوں كودشمن قرار دے_ ابھى لوگ پراكندہ نہيںہوئے تھے كہ يہ آيت نازل ہوئي : '' اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا_ '' (25) '' آج تمہارے دين كوميں نے كامل كرديا اور اپنى نعمتيں تم پر تمام كرديں، اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كرليا_ |
سوالات1_ ائمہ معصومين (ع) كى عمومى سيرت كياتھى اور كيا ائمہ معصومين (ع) اور پيغمبراكرم (ص) كى سيرت ميں كوئي فرق تھا ؟ اور اگرتھا تو وہ كيسا فرق تھا؟ 2_ ائمہ معصومين(ع) اور ان كى معاصر حكومتوںكے درميان ،اختلاف كى اصل وجہ كياتھي؟ 3_ اميرالمؤمنين كا بچپن كيسے گزرا اورخود آپ (ع) نے اس بارے ميں كيا فرماياہے؟ 4_ پيغمبراكرم(ص) نے جب پہلى بار اپنے بعد اميرالمؤمنين كى جانشينى كے مسئلہ كى تصريح كى تو وہ كون سا وقت اور كونسا موقع تھا؟ 5_ جنگوں ميں اميرالمؤمنين كى فداكارى كا ايك نمونہ بيان فرمائيں؟ |
حوالہ جات1 تفصيل كے لئے '' كتاب كفاية الاشرفى فى النص على الائمة الاثنى عشر'' اور كتاب '' الفقيہ للنعماني'' ص 57 ، ص 110_ '' بحار الانوار '' جلد 36، ص 226، ص 372، '' غيبت شيخ'' ص 99 ، 87 _ اور '' غيبت مفيد '' كا مطالعہ فرمائيں اور كے علاوہ ولايت اور اس كى شرائط كے موضوع پر قرآن مجيد كا مطالعہ ہم كو بارہ اماموں پر انحصار كرنے كى ہدايت كرتا ہے_ 2 ''فانّ ہذا الدين قد كان اسيراً فى ايدى الاشرار يعمل فيہ بالہوى و تطلب بہ الدنيا''(نہج البلاغہ فيض الاسلام خط 53 ص 1010 مالك اشتر كے نام خط ) 3 شرح نہج البلاغہ جلد 1 ص 28_ 4 مزيد معلومات كے لئے'' تاريخ اسلام امامت حضرت كے زمانہ ميں'' سبق 4 كى طرف رجوع فرمائيں_ 5 جو بيان اس مقدمہ ميںكلى طور پر آيا ہے اور جس بات كا دعوى كياگيا ہے آيندہ دروس ميں ائمہ معصومين كے بارے ميں خلفاء كے موقف اورمعصوم رہبروں كے اقدامات كے نمونوں كے ساتھ پيش كيا جائے گا_ 6 ارشاد مفيد /9 مطبوعہ بيروت _ بحار جلد 35/5 منقول از تہذيب، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد 1/59 خانہ كعبہ ميں آپ (ع) كى ولادت كے موضوع كو اہل سنّت كے بہت سے مورخين و محدثين نے لكھا ہے _ مزيد تفصيل كے لئے مروج الذہب جلد 2/249_ شرح الشفا جلد 1/151_ مستدرك حاكم جلد 3/283 شرح قصيدہ عبدالباقى آفندى از آلوسى /5 ملاحظہ ہو_ 7 عمران كے چار بيٹے، طالب، عقيل ، جعفر اور على (ع) تھے _ آپ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ ليكن ابن ابى الحديد نے جلد 1 ص 11 پر حضرت علي(ع) كے والد كا نام عبدمناف لكھا ہے_ 8 سيرة ابن ہشام جلد 1/262، كامل ابن اثير جلد 2/58 ، كشف الغمہ جلد 79، تاريخ طبرى 2/312_ 9 نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ سے چند جملے از صبحى صالح حديث 192 ص 300 اور دو سطريں ص 812 سے _ 10 تاريخ طبرى جلد 2 ص 310 كامل ابن اثير جلد 2 ص 50_ ابن ہشام جلد 1 ص 262، كشف الغمہ جلد 1 ص 86 11 نہج البلاغہ فيض الاسلام خطبہ 23 ص 811 ، ص 812 _ 12 سورہ شعراء آيت214_ 13 تاريخ طبرى جلد 2/320_ مجمع البيان جلد 7_8/206 _ الغدير جلد 2/ 379_ كامل ابن اثير جلد 2/62_ 63 |
إن ہذا أخى و وصى و خليفتى فيكم فاسمعوا لہ و اطعوا'' _ 14 سيرة ابن ہشام جلد 2/124_ كامل ابن اثير جلد 2/101 _ 103_ الصحيح من سيرة النبى جلد 2/238_ 15 تفسير الميزان جلد 2/99_ (دس جلدوالي) تفسير برہان جلد 1/206 ملاحظہ ہو_ 16 سورہ بقرہ /207_ 17 مدينہ سے دو فرسخ دور قبا قبيلہ بنى عمروبن عوف كے سكونت كى جگہ تھي_ معجم البلدان جلد 4/301_ 18 مناقب ابن شہر آشوب جلد 2/58، الصحيح من سيرة النبى جلد 2/295_ 19 ''واللہ لو تَظَاہَرت الرحب على قتالى لما ولّيت عنہا'' شرح نہج البلاغہ فيض الاسلام ص ، 971_ 20 ارشاد مفيد /52،53_ 21 بحار جلد 2/205 ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمد لرجع عملك بعملہم ...''_ 22 ارشاد مفيد /65،67_ 23 الغدير جلد 1/9_ 24 سورہ مائدہ /3_ 25- الغدير جلد 1/9_11_ |