اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

جامع مکارم اخلاق

جامع مکارم اخلاق

721۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم کی توصیف کرتے ہوئے… آپ سب سے زیادہ سخی و کریم، سب سے زیادہ وسیع الصدر ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ، سب سے زیادہ نرم دل اور سب سے بہتر معاشرت رکھنے والے تھے، انسان پہلی مرتبہ دیکھتا تو ہیبت زدہ ہوجاتا تھا اور ساتھ رہ جاتا تھا تو محبت کرنے لگتا تھا۔( سنن ترمذی 5 ص 599 / 3638 از ابراہیم بن محمد)۔

722۔ امام حسن (ع) ! میں نے اپنے خال ہند بن ابی ہالہ التمیمی سے دریافت کیا کہ پیغمبر اسلام کی گفتگو کے بارے میں کچھ بتائیں تو انھوں نے کہا کہ حضرت ہمیشہ رنجیدہ رہتے تھے، فکر میں غرق رہتے تھے ، کبھی آپ کے لئے راحت نہ تھی لیکن بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیر تک ساکت رہا کرتے تھے ، کلام اس طرح کرتے تھے کہ پورا منھ نہیں کھولتے تھے، نہایت جامع کلمات استعمال کرتے تھے جس میں ہر کلمہ حرف آخر ہوتا تھا کہ نہ فضول اور نہ کوتاہ، اخلاق انتہائی متوازن کہ نہ بالکل خشک اور نہ بالکل جبروت نعمتیں معولی بھی ہوں تو ان کا احترام کرتے تھے اور کسی شے کی مذمت نہیں کرتے تھے، کسی ذائقہ کی نہ مذمت کرتے تھے اور نہ تعریف ، دنیا اور امور دنیا کے لئے غصہ نہیں کرتے تے لیکن حق پر آنچ آجاتی تھی تو پھر کوئی آپ کو نہیں پہنچانتا تھا او رجب کسی غضب کیلئے اٹھ جاتے تھے تو بغیر کامیابی کے بیٹھتے بھی نہیں تھے، لیکن اپنے معاملہ میں نہ غصّہ کرتے تھے اور نہ بدلہ لیتے تھے، جب کسی کی طرح اشارہ کرتے تھے تو پوری ہتھیلی سے ، تعجب کا اظہار کرتے تھے تو اسے الٹ دیتے اور بات کرتے تھے تو اسے ملالیتے تھے اور داہنی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے دبا تے تھے، ناراض ہوتے تھے تو بالکل قطع تعلق کرلیتے تھے اور خوش ہوتے تھے تو نظریں نیچی کرلیتے تھے، خوشی میں اکثر اوقات صرف تبسم فرماتے تھے اور دندان مبارک موتیوں کی طرح نظر آتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 286 ، شعب الایمان 2 ص 154 / 1430 ، الطبقات الکبریٰ 1 ص 222 ، تہذیب الکمال 1 ص 214 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 317 /1 ، معانی الاخبار 81 / 1 روایت اسماعیل بن محمد بن اسحاق ، مکارم الاخلاق 1 ص 43 / 1 از کتاب محمد بن ابراہیم بن اسحاق ، حلیة الابرار 1 ص 171)۔

723۔ امام حسین (ع) ! میں نے اپنے پدر بزرگوار سے رسول اکرم کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ ذکر خدا کے ساتھ ہوتا تھا، جہاں دوسروں کو رہنے سے منع کرتے تھے وہاں خود بھی نہیں رہتے تھے، کسی قوم کیساتھ بیٹھ جاتے تھے تو آخر مجلس تک بیٹھے رہتے تھے اور اسی بات کا حکم بھی دیتے تھے ، تمام ساتھ بیٹھنے والوں کو ان کا حق دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ دوسرے کا مرتبہ زیادہ ہے۔کسی کی ضرورت میں اس کے ساتھ اٹھتے یا بیٹھتے تھے تو جب تک وہ خود نہ چلا جائے آپ الگ نہیں ہوتے تھے، اگرکوئی شخص کسی حاجت کا سوال کرتا تھا تو اسے پورا کرتے تھے یا خوبصورتی سے سمجھا دیتے تھے ، کشادہ روئی اور اخلاق میں تما م لوگوں کو حصہ دیتے تھے یہاں تک کہ آپ کی حیثیت ایک باپ کی تھی اور تمام لوگ حقوق میں برابر کی حیثیت کے مالک تھے، آپ کی مجلس حلم، حیاء ، صبر اور امانت کی مجلس تھی جہاں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں ، نہ کسی کو برا بھلا کہا جاتاتھا، نہ کسی غلطی کا مذاق اڑایا جاتا تھا ، سب برابر کا درجہ رکھتے تھے فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر تھی ، سب متواضع افراد تھے، بزرگوں کا احترام ہوتا تھا، بچوں پر مہربانی ہوتی تھی ، حاجت مندوں کو مقدم کیا جاتا تھا اور مسافروں کا تحفظ کیا جاتا تھا۔

میں نے عرض کی کہ ہمنشینوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیساتھا؟ فرمایا ہمیشہ کشادہ دل رہتے تھے، اخلاق میں سہل ، طبیعت میں نرم ، نہ ترشرو بدخلق ، نہ حرف بدکہنے والے ، نہ عیب نکالنے والے، نہ بے تکا مذاق کرنے والے ، جس چیز کو نہیں چاہتے تھے اس سے چشم پوشی فرماتے تھے، نہ مایوس ہوتے تھے اور نہ اظہار محبت فرماتے تھے ، تین چیزوں کو اپنے سے الگ رکھتے تھے ، بیجا بحث ، زیادہ گفتگو، بے مقصد کلام، اور تین چیزوں سے لوگوں کے بارے میں پرہیز فرماتے تھے، نہ کسی کی مذمت اور سرزنش کرتے تھے، نہ کسی کے اسرار کی جستجو فرماتے تھے اور نہ امید ثواب کے بغیر کسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے، جب بولتے تھے تو لوگوں اس طرح خاموش سر جھکا لیتے تھے جیسے سروں پر طائر بیٹھے ہوں اور جب خاموش ہوجاتے تھے تو لوگ بات کرتے تھے لیکن جھگڑا نہیں کرسکتے تھے ، کوئی شخص کوئی بات کرتا تھا و سب سنتے تھے جب تک بات ختم نہ ہوجائے، ہر ایک کو بات کہنے کا موقع ملتا تھا اور سب ہنستے تھے تو آپ بھی مسکراتے تھے اور سب تعجب کرتے تھے تو آپ بھی اظہار تعجب کرتے تھے، کوئی اجنبی بے تکی بات کرتا تھا یا غلط سوال کرتا تھا تو اسے برداشت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب کی حاجت مند کو سوال کرتے دیکھو تو عطاکرو، مسلمان کے علاوہ کسی سے تعریف پسند نہیں فرماتے تھے کسی کی بات کو قطع نہیں فرماتے تھے اور جب وہ حد سے تجاوز کرتا تو منع فرماتے یا کھڑے ہوکر بات ختم کردیتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 290)۔

724۔ معاویہ بن وہب امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضور نے ابتدائے بعثت سے آخر عمر تک کبھی ٹیک لگاکر کھانا نہیں کھایا اور نہ کسی شخص کے سامنے پیر پھیلاکر بیٹھے، مصافحہ کرتے تھے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک وہ خود نہ کھینچ لے ، کسی کی برائی پر اسے برائی سے بدلہ نہیں دیا کہ پروردگار نے فرمادیا تھا کہ برائی کا دفاع اچھائی سے کرو، کسی سائل کو رد نہیں فرمایا، کچھ تھا تو دیدیا ورنہ کہا انتظار کرو اللہ دے گا ، اللہ کے نام پر جو کہہ یا خدا نے اسے پورا کردیا یہاں تک کہ جنت کا بھی وعدہ کرلیتے تو خدا پورا کردیتا۔( کافی 8 ص 164 / 175)۔

725۔خارجہ بن زید ! ایک جماعت میرے والد زید بن ثابت کے پاس آئی اور اس نے سوال کیا کہ ذرا رسول اکرم کے اخلاق پر روشنی ڈالیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں آپ کے ہمسایہ میں تھا، جب وحی کا نزول ہوتا تھا تو مجھے لکھنے کے لئے طلب فرمایا کرتے تھے اور میں لکھ دیا کرتا تھا، اس کے بعد ہم لوگ دینا ، دین یا کھانے پینے کی جو گفتگو کرتے تھے آپ ہمارے ساتھ شریک کلام رہا کرتے تھے …( السنن الکبری 7 ص 83 / 13340)۔

726۔ ابن شہر آشوب ! رسول اکرم کے پاس جب بھی کوئی شخص آتا تھا اور آپ نماز میں مصروف ہوتے تھے تو نماز کو مختصر کرکے اس سے دریافت کرتے تھے کیا کوئی ضرورت ہے؟( مناقب 1 ص 147)۔

727۔ جابر بن عبداللہ ! رسول اکرم سفر میں ہمیشہ پیچھے رہا کرتے تھے تا کہ کمزور کو سہارا دے سکیں اور اپنے ساتھ سوار کرسکیں ۔( السنن الکبریٰ 5 ص 422 / 10352)۔

728۔ ابوامامہ سہل بن حنیف الانصاری ، بعض اصحاب رسول کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ آپ مسلمانوں کے مریضوں کی عیادت اور کمزوروں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، جنازہ میں شرکت کرتے تھے اور خود نماز جنازہ ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ عوالی کی ایک غریب عورت بیمار ہوگئی آپ برابر اس کا حال دریافت کرتے رہے اورفرمایا کہ اگر اس کا انتقال ہوجائے تو میرے بغیر دفن نہ کرنا ، میں اس کے جنازہ کی نماز پڑھاؤں گا۔

اتفاق سے اس کا ا نتقال رات میں ہوا اور لوگ جنازہ کو مسجد رسول کے پاس لے آئے لیکن جب دیکھا کہ حضور آرام فرمارہے ہیں تو جگانے کے بجائے نماز پڑھ کر دفن کردیا، دوسرے دن جب رسول اکرم نے خیریت پوچھی تو صورت حال بیان کی گئی ، آپ نے فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ اچھا اب میرے ساتھ چلو، سب کو لے کر قبرستان پہنچے اور قبر باقاعدہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور چار تکبیریں کہیں ۔( السنن الکبر یٰ 4 ص 79 / 7019)۔

729۔انس ! رسول اکرم سب سے زیادہ لوگوں پر مہربان تھے، سردی کے زمانہ میں بھی چھوٹے بڑے ، غلام و کنیز سب کے لئے پانی فراہم کرتے تھے تا کہ سب منھ ہاتھ دھولیں، جب کوئی شخص کوئی سوال کرتا تھا تو سنتے تھے اور اس وقت تک منھ نہ پھیرتے تھے جب تک وہ خود نہ چلاجائے ، جب کسی شخص نے ہاتھ پکڑنے کا ارادہ کیا تو ہاتھ دیدیا اور اس وقت تک نہ چھڑا یا جب تک اس نے خود نہ چھوڑ دیا ۔ ( حلیة الاولیاء 3ص 26)۔

730۔ امام علی (ع)! پروردگار کریم ، حلیم ، عظیم اور رحیم ہے اس نے اپنے اخلاق کی رہنمائی کی ہے اور اس اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور لوگوں کو آمادہ کیا ہے تو ہم نے اس امانت کو لوگوں تک پہنچا دیا اور بلاکسی نفاق کے اس پیغام کو ادا کردیا اور اس کی تصدیق کی اور بلاکسی شک و شبہہ کے اسے قبول کرلیا(تحق العقول ص 175 ، بشارة المصطفیٰ ص 29 روایت کمیل)۔

731۔ امام علی (ع)۔ رسول اکرم وہ مظلو م تھے جن کے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتا تھا حالانکہ آپ کے احسانات قریش ، عرب ، عجم سب کے شامل حال تھے، اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والے تھے، یہی حال ہم اہلبیت (ع) کا ہے کہ ہمارے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتاہے اور یہی حال تمام نیک مومنین کاہے کہ وہ نیکی کرتے ہیں لیکن لوگ قدردانی نہیں کرتے ہیں۔( علل الشرائع 560 /3 از حسین بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ) ۔

732۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے سامنے جب بھی حق آجاتاہے ہم اس سے متمسک ہوجاتے ہیں۔( مقاتل الطالبین ص 76 از سفیان بن اللیل)۔

734۔ مصعب بن عبداللہ ! جب دشمنوں نے چاروں طرف سے امام حسین (ع) کو گھیر لیا تو آپ رکاب فرس پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خامو ش رہنے کی دعوت دی ، اس کے بعد حمد و ثناء الہی کرکے فرمایا کہ مجھے ایک ناتحقیق باپ کے ناتحقیق بیٹے نے دورا ہے پر کھڑا کردیا ہے کہ یا تلوار کھینچ لوں یا ذلت برداشت کروں اور ذلت برداشت کرنا میرے امکان میں نہیں ہے، اسے نہ خدا پسند کرتاہے اور نہ رسول اور نہ صاحبان ایمان، نہ پاک و پاکیزہ گودیاں اور طیب و طاہر آباء و اجداد کسی کو یہ برداشت نہیں ہے کہ میں آزاد مردوں کی طرح جان دینے پر ذلیلوں کو اطاعت کو مقدم کروں۔( احتجاج 2 ص 97 / 167)۔

735۔ امام زین العابدین (ع) ! پروردگار نے ہمیں حلم، علم ، شجاعت، سخاوت اور مومنین کے دلوں میں محبت کا انعام عنایت فرمایا ۔( معجم احادیث المہدی (ع) 3 ص 200 ، منتخب الاثر 172 / 96)۔

736۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع) سے عر ض کی کہ رسول اکرم ہمیشہ بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے؟ فرمایا بیشک ہر صبح و شام ہم بھی بخل سے پناہ مانگتے ہیں کہ پروردگار نے فرمایاہے کہ جو نفس کے بخل سے محفوظ ہوگیا وہی کامیاب ہے۔( علل الشرائع 548 / 4 ، قصص الانبیاء 118 / 118)۔

737۔ امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) جب کسی شخص کے خیر کو خود جان لیتے ہیں تو پھر ہمارے خیال کو لوگوں کی باتیں تبدیل نہیں کرسکتی ہیں۔( بصائر الدرجات ص 1362 از داؤد بن فرقد)۔

738۔ حریز ! امام صادق (ع) کی خدمت میں جہینہ کی ایک جماعت وارد ہوئی ، آپ نے باقاعدہ ضیافت فرمائی اور چلتے وقت کافی سامان اور ہدایا بھی دیدیے لیکن غلاموں سے فرمادیا کہ خبردار سامان باندھنے ، سمیٹنے میں ان کی مدد نہ کرنا ، ان لوگوں نے گذارش کی کہ فرزند رسول ! اس قدر ضیافت کے بعد غلاموں کو امداد سے کیوں روک دیا ؟ فرمایا، ہم اپنے مہمانوں کی جانے میں امداد نہیں کرتے ہیں ۔( ہمارا منشاء یہی ہوتاہے کہ مہمان مقیم رہے تا کہ صاحب خانہ میزانی کی برکتوں سے مستفید ہوتارہے) ( امالی صدوق 437 / 9 ، روضة الواعظین ص 233)۔

739۔ اللہ کے صالح اور متقی بندوں کے اخلاق میں تکلف اور تصنع شامل نہیں ہوتا ہے، پروردگار نے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اپنی زحمتوں کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں اور رسول اکرم نے بھی فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء وا تقیاء و امنا ہر طرح کے تکلف سے بری اور بیزار رہتے ہیں ۔( مصباح الشریعہ ص 208)۔

840۔ حماد بن عثمان ! ایک مرتبہ مدینہ میں قحط پڑا اور صورت حال یہ ہوگئی کہ بڑے بڑے دولت مند بھی مجبور ہوگئے کہ گند میں جو ملاکر کھائین یا اسے بیچ کر طعام فراہم کریں، تو امام صادق (ع) نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو گندم ابتدائے فصل میں خرید لیاہے اس میں جو ملادو یا اسے بیچ ڈالو کہ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ عوام الناس جو ملا ہوا گیہوں کھائیں اور ہم خالص کیہوں استعمال کریں ۔( کافی 5 ص 166 / 1)۔

741۔ امام کاظم (ع) ! جب سندی بن شاہک نے آپ سے کفن دینے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) اپنے ذاتی حج، اپنی عورتوں کا مہر اوراپنا کفن اپنے خالص پاکیزہ مال سے فراہم کرتے ہیں ۔( الفقیہ 1 ص 189 / 577 ، ارشاد 2 ص 243 ، تحق العقول ص 412 ، روضة الواعظین ص 243 ، فلاح السائل ص 72 ، الغیبتہ للطوسی (ر) 30 / 6)۔

742۔ امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت (ع) کو وراثت میں آل یعقوب (ع) سے عفو ملاہے اور آل داؤد سے شکر !( کافی 8 ص 308 / 480 از محمد بن الحسین بن یزید)۔

743۔ امام رضا (ع) ! آ پ نے بن سہل کے خط میں تحریر فرمایا کہ ائمہ کے کردار میں تقویٰ ، عفت ، صداقت ، صلاح، جہاد، اداء امانت صالح و فاسق ، طول سجدہ ، نماز شب ، محرمات سے پرہیز ، صبر کے ذریعہ کشائش احوال کا انتظار ، حسنِ معاشرت، حسن سلوک ہمسایہ، نیکیوں کا عام کرنا،اذیتوں کا روکنا، کشادہ روی سے ملنا، نصیحت کرنا اور مومنین پر مہربانی کرنا شامل ہے۔( تحف العقول ص 416)۔

744۔ امام رضا (ع) ہم اہلبیت (ع) جب کوئی وعدہ کرلیتے ہیں تو اسے اپنے ذمہ ایک قرض تصور کرتے ہیں جیسا کہ سرکار دو عالم کے کردار میں تھا۔( تحف العقول ص 246 مشکٰوة الانوار ص 173)۔

745۔امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت(ع) سوتے وقت دس کام انجام دیتے ہیں، طہارت، داہنے ہاتھ پر تکیہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمدللہ ، 34 مرتبہ اللہ اکبر ، استقبال قبلہ ، سورہٴ حمد کی تلاوت ، آیة الکرسی کی تلاوت، شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو الخ تو جو شخص بھی اس طریقہ کو اپنا لے گا وہ اس رات کی فضیلتیں حاصل کرلے گا ۔( فلاح السائل ص 280 روایت حسن بن علی العلوی)۔

نوٹ! بظاہر روایت مین قل ہوا للہ یا انا انزلناہ کا ذکر رہ گیا ہے ورنہ مذکورہ اشیاء صرف نو ہیں۔

746۔عبید بن ابی عبداللہ البغدادی ! امام رضا (ع) کی خدمت میں ایک مہمان آیا اور رات گئے تک حضرت سے باتیں کرتا رہا،یہاں تک کہ چراغ ٹمٹانے لگا، اس نے چاہا کہ ٹھیک کردے، آپ نے روک دیا اور خود ٹھیک کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں۔( کافی 6 ص 283 / 2)۔

747۔ ابراہیم بن عباس ! میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا (ع) نے کسی شخص سے بھی ایک نامناسب لفظ کہا ہو یا کسی کی بات کاٹ دی ہو جبتک وہ اپنی بات تمام نہ کرے ، یا کسی کی حاجت برآری کا امکان ہوتے ہوئے اس کی بات کو رد کردیا ہو یا کسی کے سامنے پیر پھیلاکر بیٹھے ہوں ، یا ٹیک لگاکر بیٹھے ہوں یا کسی نوکر اور غلام کو برا بھلا کہا ہو یا تھوک دیا ہو یا سننے میں قہقہہ لگایاہو بلکہ ہمیشہ تبسم سے کام لیتے تھے ، جب گھر میں دستر خوان لگتا تھا تو تمام نوکروں اور غلاموں کو ساتھ بٹھالیتے تھے، رات کو بہت کم سوتے تھے اور زیادہ حصہ بیدار رہتے تھے، اکثر راتوں میں تو شام سے فجر تک بیدار رہی رہتے تھے، روزے بہت رکھتے تھے، ہر مہینہ تین روزے تو بہر حال رکھتے تھے اور اسے سارے سال کا روزہ قرار دیتے تھے، نیکیاں بہت کرتے تھے اور چھپاکر صدقہ بہت دیتے تھے خصوصیت کے ساتھ تاریک راتوں میں اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایسا کوئی دوسرا شخص بھی دیکھاہے تو خبردار اس کی تصدیق نہ کرنا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2ص 184 /7)۔

748۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں، اے اہلبیت (ع) آپ کا کلام نور ، آپ کام ہدایت ، آپ کی وصیت تقویٰ ، آپ کا عمل خیر ، آپ کی عادت احسان آپ کی طبیعت کرم اور آپ کی شان حق و صداقت و نرم دلی ہے۔ ( تہذیب 6 ص 100 / 177)۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۱) / امام سجاد علیہ ...
حضرت امام علی علیہ السلام
ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(

 
user comment