سید احمد زینی دحلان (مکہ معظمہ کے مفتی) گذشتہ مطلب کے بعد اس طرح کھتے ھیں:ان عقائد کی ردّ میں لکھی گئی کتابوں میں مذکورہ استدلال کو باطل اور غیر صحیح قرار دیاگیا، کیونکہ جو مومنین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم او ردیگر اولیاء اللہ سے استغاثہ کرتے ھیں وہ نہ ان کو خدا سمجھتے ھیں او رنہ ھی خدا کا شریک، بلکہ ان کا تو اعتقاد یہ هوتا ھے کہ یہ سب خدا کی مخلوق ھیں اور ان کو کسی بھی صورت میں مستحق عبادت نھیں مانتے ، برخلاف مشرکین کے جن کے بارے میں مذکورہ اور دیگر آیات نازل هوئیں ھیں کہ وہ خود بتوں کو مستحق عبادت سمجھتے تھے، اور ان بتوں کے لئے ایسی عظمت کے قائل تھے جس طرح خدا کی عظمت کے قائل هوتے ھیں، لیکن مومنین کرام انبیاء علیهم السلام کو مستحق عبادت نھیں جانتے اور ان کے لئے خدا سے مخصوص عظمت کے بھی قائل نھیں ھیں، بلکہ ان کا عقیدہ تو صرف یہ ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام خدا کے ولی اور اس کے منتخب بندے ھیں ، اور خود خداوندعالم ان کے وجود سے اپنے دیگر بندوں پر رحم کرتا ھے، لہٰذا ابنیاء علیهم السلام اور اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت صرف ان حضرات سے تبرک حاصل کرنے کے لئے هوتی ھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنے اور آنحضرت سے استغاثہ کرنے کے بارے میں مرحوم علامہ الحاج سید محسن امین صاحب کتاب ”خلاصة الکلام“ سے نقل کرتے ھیں کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے دوران اصحاب رسول کا نعرہ ”وامحمداہ، وامحمداہ“ تھا اور جس وقت عبد اللہ ابن عمر کے پیر میں درد هوا تو اس سے کھا گیا کہ جس کو تم سب سے زیادہ چاھتے هو اس کو یاد کرو، تو اس نے ”وامحمداہ“ کھا اور اس کے پیر کا درد ختم هوگیا، اسی طرح دوسرے واقعات ھیں جن میں آنحضرت سے استغاثہ کو بیان کیا گیا ھے،
شفاعت کے سلسلہ میں انس بن مالک اس طرح روایت کرتے ھیں:
”لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِها فَاسْتُجِیْبَ، فَجَعَلْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
”ھر نبی کے لئے خداوندعالم نے کچھ مستجاب دعائیں معین کی تھیں اور ان کی وہ دعائیں قبول هوگئیں لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ھے“
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک دوسری روایت ھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں:
”لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ یَدْعُوْ بِها وَاُرِیْدُ اَنْ اَخْتَبِیَ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی فِیْ الآخِرَةِ“
”ھر پیغمبر نے خداوندعالم سے کچھ نہ کچھ دعائیں کی ھیں اور میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ھے“۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی تحریر کے مطابق قیامت کے دن مخلوق خدا، انبیاء علیهم السلام کے پاس جمع هوکر عرض کریں گی کہ آپ خدا کے نزدیک ھماری شفاعت کریں، تاکہ روز محشر کی مشکلات سے نجات حاصل هوجائے۔
۷۔غیر خدا کو” سید“ یا” مولا “کہہ کر خطاب کرنا شرک ھے
مرحوم علامہ امین ۺ ، ہدیة السنیہ رسالہ سے نقل کرتے ھیں کہ صاحب رسالہ نے زیارت قبور کی حرمت بیان کرنے کے بعد اس طرح کھا ھے کہ قبروں میں دفن شدہ لوگوں کو پکارنا اور ان سے استغاثہ کرنا یا ”یَا سَیّدی وَمَولای اِفْعَل کَذَا وَکذَا“ (اے میرے سید ومولا میری فلاں حاجت روا کریں) جیسے الفاظ سے پکارنا ، اور اس طرح کی چیزوں کو زبان پر جاری کرنا گویا ”لات وعزّیٰ“ کی پرستش ھے۔
اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ مشرکین کا لفظ ”الہ“ سے وھی مطلب هوتا تھا جو ھمارے زمانہ کے مشرکین لفظ ”سید “ سے مرادلیتے ھیں۔
خلاصة الکلام میں اس طرح وارد هوا ھے کہ محمد بن عبد الوھاب کے گمان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ”مولانا“ یا ”سیدنا“ کھے تو ان الفاظ کا کہنے والا کافر ھے۔
مذکورہ مطلب کی وضاحت
مرحوم علامہ امین ۺ مذکورہ گفتگو کو آگے بڑھاتے هوئے فرماتے ھیں کہ کسی غیر خدا کو ”سید“ کہہ کر خطاب کرنا صحیح ھے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے کیونکہ اس طرح کی گفتگو میں کوئی شخص بھی اس شخص کے لئے مالکیت حقیقی کا ارادہ نھیں کرتا، اس کے علاوہ قرآن مجید میں چند مقامات پر غیر خدا کے لئے لفظ سید استعمال هوا ھے ، مثلاً جناب یحییٰ ابن زکریا ں کے بارے میں ارشاد هوتا ھے:
<وَسَیّداً وَحَصُوْرا۔>
(سردار اور پاکیزہ کرداروالے جناب یحییٰ تھے) اسی طرح دوسری آیت میں <وَاَلْفِیَا سَیِّدَها لَدیَ الْبَابِ۔>
(اور ان دونوں نے اس کے سردار کو دروازے پر ھی دیکھ لیا)
احادیث رسول(ص) میں بھی غیر خدا کے لئے لفظ ”سید“ بھت زیادہ استعمال هوا،یھاں تک کہ تواتر کی حدتک بیان هوا ھے۔
ان احادیث کے چند نمونے یھاںذکر کئے جاتے ھیں:
lign: justify; line-height: normal; margin: 0in 34.7pt 10pt; unicode-bidi: embed; direction: rtl; mso-outline-level: 5; mso-margin-top-alt: auto; mso-margin-bottom-alt: auto;" dir="rtl">اس روایت کو بخاری نے جناب جابر سے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”مَنْ سَیّدُکُمْ یَا بَنِی سَلْمَة؟“
اے بنی سلمہ تمھارا سید وسردار کون ھے؟
اسی طرح ابوھریرہ سے ایک روایت میں وارد هوا ھے:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَم یَومَ القِیَامَةِ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار هوں۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت نے فرمایا:
”اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِیّ سَیِّدُ الْعَرَبْ“
میں تمام اولاد آدم کا سید وسردار هوں اور علی ں تمام عرب کے سید وسردار ھیں۔
ابو سعید خدری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ھے جس میں آپ نے فرمایا:
”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“
حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ھیں۔ اور اسی طرح دوسری روایتیں۔
اس کے بعد علامہ امین صاحب فرماتے ھیں کہ وہ روایات جن سے اس چیز کا وھم وگمان هوتا ھے کہ لفظ سید کو کسی غیر خدا پر اطلاق کرنا صحیح نھیں ھے ان روایات کا مقصد ”سید حقیقی“ ھے جیسا کہ ھم نے پھلے بھی بیان کیا ھے۔
اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ھے کہ اس حدیث”اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ“ کو ابن تیمیہ نے نقل کیا ھے اور اس حدیث کے ذےل میں یہ بھی کھا کہ صحیح احادیث پیغمبر اکرم میں وارد هوا ھے کہ آپ نے امام حسن ں کے بارے میں فرمایا: ”اِنَّ ابْنِی ہَذَا سَیِّدٌ“ (بے شک یہ میرا بیٹا سید و سردار ھے) اسی طرح شرح مناوی بر جامع صغیر سیوطی میں چند روایتیں نقل هوئیں ھیں جن میں غیر خدا پر سید کا لفظ استعمال هوا ھے، منجملہ یہ جملہ:
”سَیِّدُ الشُّہْدَاءِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ القِیَامَةِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ“
”جناب حمزہ بن عبد المطلب قیامت کے دن خدا کے نزدیک سید الشہداء ھیں“
اسی طرح یہ حدیث بھی بیان هوئی ھے:
”سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهم، وَسَیِّدُ النَّاسِ آدَمُ وَسَیِّدُ الْعَرَبِ مُحَمَّدٌ وَسَیِّدُ الرُّوْمِ صُہَیْبٌ وَسَیِّدُ الْفُرْسِ سَلْمَانٌ وَسَیِّدُ الْحَبَشَةِ بَلاٰلٌ، وَسَیِّدُ الْجِبَالِ طُوْرِ سِیْنَا… وَسَیِّدَاتُ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّةِ اَرْبَع مَرْیَمْ وَفاَطِمَةُ وَخَدِیْجَةُ وَآسِیّة“
(کسی قوم کا سردار اس کا خادم ھے، انسانوں کے سردار جناب آدم ں عربوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھل روم کے سردار صھیب، اھل فارس کے سردار جناب سلمان، افریقہ کے سردار جناب بلال، اور پھاڑوں کا سردار طور سینا، اور جنت میں عورتوں کی سردار چارھیں جناب مریم، جناب فاطمہ زھرا، جناب خدیجہ اور جناب آسیہ ھیں۔)
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ھے کہ سعودی بادشاهوں کے لئے متعدد بار لفظ” مولای “ نثر ونظم دونوں میں استعمال هوا ھے منجملہ ”ام القریٰ“ نامی اخبار مطبوعہ مکہ ]میں عبد العزیز کو کئی بار”مولای“ کھا گیا ھے اس قصیدہ کے ضمن میں جو عید قربان کے موقع پر تبریک وتہنیت پیش کرنے کے لئے کھا گیا جس میں دو مقام پر ”اَمولای“ (اے میرے مولا) کھا گیا ھے، اور وھاں کے اخباروں اور مجلوں میں یہ بات عام ھے۔
لیکن انبیاءعلیهم السلام ، اولیاء اور صالحین کو اس طرح خطاب کرنا در حقیقت ان سے حاجت طلب کرنا نھیں ھے بلکہ ان سے یہ چاھتے ھیں کہ ان کی درخواست کو وہ حضرات خدا وندکریم سے طلب کریں، مثلاً جس وقت ان سے یہ کھا جاتا ھے کہ میری مدد کریں یعنی آپ خدا سے یہ چاھیں کہ وہ میری مدد کرے، اس طرح کی تفسیروں کو خود وھابی تسلیم کرتے ھیں، مثلاً ان آیات کے بارے میں جن میں خداوندعالم نے بھت سی مخلوقات کی قسم کھائی ھے کھتے ھیں ان مخلوق سے مراد ” مخلوقات کا خدا“ ھے نہ کہ خود وہ مخلوقات۔
قبور کے اوپر عمارت بنانا ، وھاں پر نذر اورقربانی کرنا وغیرہ
شیخ عبد الرحمن آل شیخ کاکہناھے کہ احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ھر اس شخص کے لئے لعنت کی گئی ھے جو قبروں پر چراغ جلائے یا قبروں پر کوئی چیز لکھے یا ان کے اوپر کوئی عمارت بنائے۔
حافظ وھبہ کا کہنا ھے کہ قبروں کے بارے میں چار چیزوں پر توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔قبروں پر عمارت وغیر ہ بنانا اوران کی زیارت کرنا۔
۲۔وہ اعمال جو بعض لوگ قبروں کے پاس انجام دیتے ھیں مثلاً دعا کرنا نماز پڑھنا وغیرہ۔
۳۔قبروں پر گنبد اور ان کے نزدیک مساجد بنانا۔
۴۔قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا۔
قبروں کی زیارت، ان سے عبرت حاصل کرنا یا میت کے لئے دعا کرنا اور ان کے ذریعہ آخرت کی یاد کرنا، اگر سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مطابق هو تو مستحب ھے، لیکن قبور کے لئے سجدہ کرنا یا ان کے لئے جانور ذبح کرنا یا ان سے استغاثہ کرنا شرک ھے، اسی طرح ان پر اور وھاں موجود عمارت پر رنگ وروغن کرنا یہ تمام چیزیں بدعت ھیں جن سے منع کیا گیاھے، اسی وجہ سے وھابیوں نے مکہ اور مدینہ میں موجود قبروں کی عمارتوں کو مسمار کردیا ھے، جیسا کہ ایک صدی پھلے (حافظ وھبہ کی کتاب لکھنے سے ایک صدی قبل جو تقریباً ۱۴۰سال پھلے کا واقعہ ھے) مکہ او رمدینہ کی قبروں پر موجود تمام گنبدوںکو مسمارکردیاگیا، اسی طرح حافظ صاحب کھتے ھیں کہ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بھی بدعت ھے۔
قبروں کے پاس اعتکاف کرنابھی شرک کے اسباب میں سے ھے بلکہ خود یہ کام شرک ھے، سب سے پھلے رافضی لوگ شرک اور قبور کی عبادت کے باعث هوئے ھیں، اور یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے سب سے پھلے قبروں کے اوپر مسجدیں بنانا شروع کی ھیں۔
وھابیوں کے نزدیک نہ یہ کہ صرف قبور کی زیارتوں کے لئے سفر کرنا حرام ھے بلکہ یہ لوگ صاحب قبر کے لئے فاتحہ پڑھنے کو بھی حرام جانتے ھیں، (اور جس وقت انھوں نے حجاز کو فتح کرلیا جس کی شرح بعد میں بیان هوگی)جب بھی کسی شخص کو قبروں پر فاتحہ پڑھتے دیکھتے تھے اس کو تازیانے لگاتے تھے، ۱۳۴۴ھ میں جس وقت حجاز پرتازہ تازہ غلبہ هوا تھا تو اس وقت سید احمد شریف سنوسی کو (جوکہ مشهورومعروف اسلامی شخصیت تھیں) حجاز سے باھر کردیا کیونکہ ان کو مکہ معظمہ میں جناب خدیجہ کی قبر پر کھڑے هوکرفاتحہ پڑھتے دیکھ لیا تھا۔
اسی طرح وھابی حضرات ایک روایت کے مطابق قبروں پر چراغ اور شمع جلانے کو بھی جائز نھیں جانتے، اسی وجہ سے جس وقت سے انھوں نے مدینہ منورہ پر غلبہ پایا اس وقت سے روضہ نبوی پر چراغ جلانے کو منع کردیا۔
شیخ محمد بن عبد الوھاب کا کہنا ھے کہ جو شخص کسی غیر خدا سے مدد طلب کرے یا کسی غیر خدا کے لئے قربانی کرے یا اس طرح کے دوسرے کام انجام دے تو ایسا شخص کافر ھے۔
اسی طرح اس نے قبروں پر چراغ جلانا وھاں پر نماز پڑھنا یا قربانی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کو زمان جاھلیت کے مسائل میں شمار کیا ھے۔
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوھاب کا پوتا)کھتا ھے کہ مشرک لوگ جو نام بھی اپنے شرک کے اوپر رکھیں ،وہ بھر حال شرک ھے، مثلاً مُردوں کا پکارنے، یا ان کے لئے قربانی یا نذر کرنے کو محبت وتعظیم کانام دیں ،یا وہ نذر جو قبروں کے مجاروں اور خادموں کے لئے کی جاتی ھے یہ کام بھی ہندوستان کے بت خانوں کی طرح ھے، اسی طرح قبروں پر شمع جلانے کی نذر یا چراغ کے تیل کی نذر کرنا بھی باطل ھے مثلاً خلیل الرحمن ،دیگر انبیاء اوراولیاء اللہ کی قبروں پرشمع اورچراغ جلانے کی نذر کرنے کے باطل هونے میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے ، اور اس طرح کی شمع جلانا حرام ھے چاھے کوئی ان کی روشنائی سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے.