اردو
Wednesday 15th of May 2024
0
نفر 0

جامع وصیتیں

جامع وصیتیں

773۔ عبدالرحمان بن حجاج ! میرے پاس امام موسی کاظم (ع) نے ایک نسخہ امیر المومنین (ع) کی وصیت کا ارسال فرمایا جس کا مضمون یہ تھا۔

” بسم اللہ الرحمن الرحیم“ یہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) کا وصیت نامہ ہے ، علی (ع) اس امر کی شہادت دیتاہے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں، انھیں پروردگار نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام ادیان عالم پر غالب بنائیں چاہے یہ بات مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔( پروردگار ان پر اور ان کی آل پر رحمت نازل کرے) اس کے بعد میری نماز میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیاگیاہے اور میں اس کے اطاعت گذار بندوں میں ہوں۔

میرے فرزند حسن (ع) ! میں تمھیں اور اپنے تمام اہل خانہ، تمام اولاد اور جہاں تک میرا یہ پیغام پہنچے سب کو وصیت کرتاہوں کہ اپنے پروردگار کا تقویٰ اختیار کرواور خبردار بغیر اسلام کے دنیا سے نہ جانا، ریسمان الہی سے وابستہ رہو آپس میں تفرقہ نہ ہونے پائے کہ میں نے رسول اکرم سے سناہے کہ آپس کی اصلاح تمام نماز روزہ سے بہتر ہے اور دین کو تباہ و برباد کرنے والی شے آپس کی لڑائی اور مخالفت ہے، کوئی طاقت خدائے علی و عظیم کے بغیر نہیں ہے۔

اپنے قرابتداروں پر نگاہ رکھنا اور ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا تا کہ پروردگار تمھارے حساب کو آسان کردے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا ، وہ بھوکے نہ رہنے پائیں اور تمھارے سامنے برباد نہ ہوجائیں، میں نے رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ جو شخص کسی یتیم کی کفالت کرے گا یہاں تک کہ وہ مستغنی ہوجائے پروردگار اس کے لئے جنت کو لازم قرار دیدے گا جس طرح کہ مال یتیم کھانے والے کے لئے جہنم لازم ہے۔

اللہ کو یاد رکھنا قرآن کے بارے میں، کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں۔

اور اللہ کو یاد رکھنا ہمسایہ کے بارے میں کہ رسول اکرم نے ان کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور آپ برابر اس قدر زور دیتے تھے کہ یہ خیال ہوتا تھا کہ شائد انھیں میراث میں بھی حصہ دلوادیں گے۔

اللہ کو یاد رکھنا اس کے گھر کے بارے میں کہ جب تک تم باقی رہو کعبہ تم سے خالی نہ ہونے پائے کہ اگر وہ نظر انداز ہوگیا تو تمھاری کوئی اوقات نہ رہ جائے گی۔

اس کا ارادہ کرنے والا کم سے کم یہ برکت لے کر واپس ہوتاہے کہ اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

اللہ کو یاد رکھنا نماز کے بارے میں کہ یہ بہترین عمل ہے اور تمھارے دین کا ستون ہے۔

اللہ کو یاد رکھنا زکٰوة کے بارے میں کہ اس سے غضب پروردگار سرد پڑ جاتاہے۔

اللہ کو یاد رکھنا ماہ رمضان کے بارے میں کہ اس کے روزے جہنم کی سپر ہیں۔

اللہ کو یاد رکھنا فقراء اور مساکین کے بارے میں کہ انھیں اپنی معیشت میں شریک رکھنا ۔

اللہ کو یاد رکھنا مال اور جان اور زبان سے جہاد کے بارے میں کہ جہاد کرنے والے دو ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں یا امام برحق یا اس کی ہدایت کی اقتدا کرنے والے۔

اللہ کو یاد رکھنا اپنے رسول کی ذریت کے بارے میں کہ تمھارے سامنے ان پر ظلم نہ ہونے پائے جبکہ تم ان سے دفاع کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔

اللہ کا خیال رکھنا اپنے رسول کے ان اصحاب کے بارے میں جنھون نے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی اور نہ کسی بدعتی کو پناہ دی ہے کہ رسول اکرم نے ایسے اصحاب کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور بدعتیں ایجاد کرنے والے اور ان کا اتباع کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔

اللہ کو یاد رکھنا عورتوں اور کنیزوں کے بارے میں کہ رسول اکرم کے آخری کلمات یہی تھے کہ تمھیں دو کمزوروں کے بارے میں وصیت کررہاہوں ایک عورت اور ایک کنیز۔

الصلٰوة ، الصلٰوة ، الصلٰوہ، دین خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرنا ، اللہ تمھیں ہر اذیت کرنے والے اور ظالم کے شر سے محفوظ رکھے گا، لوگوں سے اچھی باتیں کرنا جس طرح کہ پروردگار نے حکم دیا ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کرنا کہ خدا تمھارے اوپر اشرار کو مسلط کردے اور پھر تم فریاد بھی کرو تو کوئی سننے والا نہ ہو۔

میرے فرزند و! آپس میں تعلقات رکھنا ، ایک دوسرے پر مال صرف کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا اور خبردار قطع تعلق ، تفرقہ اور منھ پھیر لینے کی پالیسی پر عمل نہ کرنا ، نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا، گناہ اور تعدی پر ہرگز تعاون نہ کرنا ، اللہ سے ڈرو کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے خدا تم سب گھر والوں کو سلامت رکھے اور تمھارے درمیان نبی کی یادگار کو زندہ رکھے، میں تمھیں خدا کے حوالہ کرتاہوں اور آخری سلام کررہاہوں، اللہ کی رحمت و برکت تمھارے شامل حال ہے۔( کافی 7 ص 51 / 7)۔

774۔ امام باقر (ع) جابر بن یزید الجعفی کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک میرے دوست نہیں ہوسکتے ہو جب تک اس قدر استقلال نہ پیدا ہوجائے کہ سارے شہر والے اس راہ میں تمھاری مذمت کریں تو کوئی تکلیف نہ ہو اور تعریف کریں تو کوئی مسرت نہ ہو، دیکھو اپنے نفس کو تعریفوں پر نہیں ، کتاب خدا پر کھو، اگر دیکھو کہ اس کی راہ پر چل رہے ہو، اس کے فرمان پر دنیا سے کنارہ کش ہوجاتے ہو اور اس کے ثواب کی رغبت رکھتے ہو اور اس کے ڈرانے سے ڈرتے ہو تو اسی راہ پر قائم رکھو اور خوش ہو کہ اب کسی کا قول تمھیں نقصان نہیں پہنچاسکتاہے، لیکن اگر قرآن سے الگ ہوگئے تو کون سی شے ہے جو تمھارے نفس کو مغرور بنائے ہوئے ہے۔( تحف العقول ص 284)۔

775۔ اما م باقر (ع) اپنے بعض شیعوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اے میرے شیعو ! سنو اور سمجھو ! ان وصیتوں کو جو ہمارے دوستوں کے لئے ہمارے عہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔

دیکھو ، قول میں صداقت سے کام لو معاملات میں دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، آپس میں لوگوں کے ساتھ مالی ہمدردی کرو، دلوں سے ایک دوسرے کو دوست رکھو، فقراء پر مال خرچ کرو،امور میں اتحاد و اتفاق رکھو، کسی کے بارے میں خیانت اور فریب سے کام نہ لو، یقین کے بعد شک پیدا مت کرو، اقدام کے بعد بزدلی کا مظاہرہ مت کرو، خبردار کوئی اہل مودت سے پیٹھ نہ پھرائے ، اغیار کی محبت کی خواہش مت رکھو اور نہ ان سے دوستی کی فکر کرو، اللہ کے علاوہ کسی کے لئے عمل نہ کرو اور نبی کے علاوہ کسی پر ایمان نہ رکھو اور نہ اس کا قصد کرو، اللہ سے مدد طلب کرو اور پھر صبر کرو“ زمین اللہ کی ہے وہ جس کو چاہتاہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنادیتاہے اور عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے، یاد رکھو خدا اپنی زمین کا وارث نیک بندوں کے علاوہ کسی کو نہ بنائے گا۔

دیکھو ہمارے شیعوں میں اللہ اور رسول کا دوست وہی ہے جو بات میں سچاہو، وعدہ کو وفا کرتاہو، امانت کو پہونچا دیتاہو، حق کا بوجھ اٹھا لیتاہو واجب مطالبات پر عطا کرتاہو، حق کے احکام پر عمل کرتاہو، ہمارا شیعہ وہی ہے جس کی سماعت اس کے علم سے آگے نہیں جاتی ہے۔ہمارے بارے میں عیب لگانے والوں کی تعریف نہیں کرتاہے، ہمارے دشمن سے تعلقات نہیں رکھتاہے، ہم سے بیزار رہنے والوں کے ساتھ بیٹھتا نہیں ہے،مومن سے ملاقات کرتاہے تو اس کا اکرام کرتاہے۔ جاہل سے ملتاہے تو اسے نظر انداز کردیتاہے ہمارا شیعہ کتوں کی طرح شور نہیں مچاتاہے اور نہ کوّوں کی طرح لالچی ہوتاہے، ہمیشہ صرف اپنے برادران ایمانی سے سوال کرتاہے اور اغیار سے سوال نہیں کرتاہے چاہے بھوکا ہی کیوں نہ مرجائے، ہمارا شیعہ ہماری جیسی بات کرتاہے اور ہمارے معاملہ میں اپنے دوستوں کو بھی چھوڑ دیتاہے اور ہماری محبت میں دور والوں کو قریب بنالیتاہے اور ہماری دشمنی کی بنا پر قریب والوں کو بھی دور کردیتاہے۔ (دعائم الاسلام 1 ص 64)۔

776۔عبداللہ بن بکیر ایک شخص کے حوالہ سے امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے پاس ہماری ایک جماعت وارد ہوئی اور ہم نے گذارش کی کہ ہم لوگ عراق جارہے ہیں ہمیں کچھ نصیحتیں فرمائیں ؟

فرمایا کہ تمہارے طاقتور کا فرض ہے کہ کمزور کو قوی بنائے اور غنی ، فقیر کا خیال رکھے، خبردار ہمارے اسرار کو نشر نہ کرنا اور ہمارے خاص معاملات کا اعلان نہ کرنا ! اگر تمھارے پاس ہماری طرف سے کوئی خبر آئے اور اس پر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو فوراً لے لینا ورنہ تھہرجانا اور ہماری طرف واپس کردینا تا کہ ہم تمھارے واسطے اس کی وضاحت کریں۔( کافی 2 ص 222/4)۔

777۔ خطاب کوفی ، مصعب بن عبداللہ الکوفی کہتے ہیں کہ سدیر صیرفی امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کے پاس اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی آپ نے فرمایا ، سدیر ! ہمارے شیعہ ہمیشہ ہماری نگاہ میں ، ہماری حفاظت میں، ہر طرح سے مامون و محفوظ رہیں گے جب تک اپنے اور اپنے خالق کے درمیان تعلقات ٹھیک رکھیں گے اور ائمہ کے ساتھ نیت صحیح رکھیں گے ، اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح اچھا برتاؤ کریں گے کہ کمزوروں پر مہربانی کریں گے اور فاقہ کشوں کو مال عطا کریں گے ، ہم کسی کو ظلم کا حکم نہیں دیتے ہیں، صرف احتیاط تقویٰ اور ورع کا حکم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مواسات اور ہمدردی کرو کہ روز اول اور دور آدم (ع) سے اللہ کے دوست ہمیشہ قلیل اور کمزور رہے ہیں، ان میں آپس میں ہمدردی بیحد ضروری ہے۔( محاسن برقی (ر) 1 ص 258 / 492)۔

778۔اسماعیل بن جابر امام صادق (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے اصحاب کون یہ خط لکھا اور انھیں حکم دیا کہ اس پر نظر رکھیں ، اسے یاد رکھیں ، اس پر عمل کریں اور آپس میں اس پر مذاکرہ کرتے رہیں، چنانچہ وہ حضرات اس وصیت نامہ کو اپنے گھر کی جائے نماز پر رکھتے تھے اور ہر نماز کے بعد اس کا مطالعہ کرتے تھے۔

اما بعد ، اپنے پروردگار سے عافیت طلب کرو، سکون ، وقار اور اطمینان نفس کو اپنا شعار بناؤ ، حیات و غیرت کو اختیار کرو اور ان تمام چیزوں سے دور رہو جن سے تمھارے پہلے اللہ کے نیک بندوں نے دوری اختیار کی ہے، خبردار بہتان، ، الزام تراشی ، گناہ اور ظلم سے زبان کو آشنا نہ کرو کہ تم نے ان مکروہ اور ناپسندیدہ اقوال سے زبان کوبچالیا تو اس میں پروردگار کے نزدیک تمھارے لئے خیر ہے۔

ایسی ناپسندیدہ باتوں سے زبان کو آشنا کرنا بندہ کے لئے تباہی کا سبب اور اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتاہے اور خدا اسے گونگا ، بہرا اور اندھا بنادیتاہے جس کے بعد سورہ بقرہ کی آیت 18 کا مصداق ہوجاتا ہے ” یہ لوگ بہرے ، گونگے اور انڈھے ہیں کہ اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں یعنی بولنے کے لائق نہیں ہے اور پھر انھیں اجازت بھی نہ دی جائے گی کہ معذرت کرسکیں “ ( سورہ مرسلات آیت 36)۔

خبردار جن چیزوں سے خدا نے روکاہے ان کا ارتکاب نہ کرنا اور ان باتوں کے علاوہ خاموش رہنا جن میں آخرت کا فائدہ ہو اور خدا اجر و ثواب دے سکے ، تسبیح و تقدیس و تہلیل و ثنائے پروردگار کرتے رہتا، اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرنا اور ان چیزوں میں رغبت پیدا کرنا جو اس کے پاس ہیں اور جن کی قدر و منزلت اور حقیقت کواس کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے، اپنی زبان کوان باتوں سے دور رکھو جن کلمات باطل سے خدا نے روکا ہے اور جن کا انجام ہمیشہ کا عذاب جہنم ہے اگر انسان توبہ نہ کرلے اور ان سے بالکل الگ نہ ہوجائے۔

دعا کرتے رہو کہ مسلمانوں نے کوئی کامیابی اور کامرانی دعا سے بہتر اور تضرع و زاری سے بالاتر وسیلہ سے حاصل نہین کی ہے، جس چیز کی خدا نے رغبت دلائی ہے اس کی رغبت رکھو اور جس چیز کی طرف دعوت دی ہے ادھر قدم آگئے بڑھاؤ کہ کامیابی حاصل کرلو اور عذاب الہی سے نجات پاجاؤ۔

خبردار تمھارا نفس کسی حرام کی لالچ میں نہ پڑجائے کہ جس نے دنیا میں محرمات الہیہ کی پرواہ نہیں کی خدا آخرت میں اس کے اور جنت ونعمات و لذات جنت کے درمیان حائل ہوجائے گا اور اسے اہل جنت کی دائمی اور ابدی کرامت و عظمت سے محروم کردے گا۔

یاد رکھو ، بدترین اور خطرناک ترین حصہ اس کا ہے جس نے اطاعت الہی کو ترک کرکے معصیت کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کی چند روزہ زائل ہوجانے والی لذتوں کو آخرت کی دائمی نعمت و لذت و کرامت پر مقدم کرکے محرمات الہی کو پامال کردیا، افسوس ہے ایسے افراد کے لئے کیا بدترین حصہ ان کو ملاہے اور کیا خسارہ آمیز واپسی ہوئی ہے اور کیا بدترین حال روز قیامت ہوا ہے۔

اللہ سے پناہ طلب کرو کہ تمھیں ایسا نہ ہونے دے اور ایسی بلاء میں مبتلا نہ کرنے کہ اس کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے، دعاؤں میں کثرت پیدا کرو کہ پروردگار اپنے بندگان مومنین سے کثرت دعا کو پسند کرتاہے اور اس نے قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے اور خدا روز قیامت ان دعاؤں کو بھی ایک ایسا عمل خیر بنادے گا جس سے جنت کے درجات میں اضافہ ہوجائے گا۔

جہاں تک ممکن ہو دن رات کی تمام ساعتوں میں ذکر خدا کرتے رہو کہ اللہ نے تمھیں کثرت ذکر کا حکم دیا ہے اور وہ بھی اپنا ذکرکرنے والوں کو یاد رکھتاہے اور یاد رکھو کہ جب بھی کوئی بندہٴ مومن اسے یاد کرتاہے تو وہ بھی اسے خیر سے یاد کرتاہے، اپنی طرف سے خدا کی بارگاہ میں کثرت عبادت کا ہدیہ پیش کرو کہ اس کی بارگاہ میں کسی بھی خیر کا حصول اس کی اطاعت اور ان تمام محرمات سے اجتناب کے بغیر جن کا ذکر ظاہر یا باطن قرآن میں کیا گیاہے… ممکن نہیں ہے۔

یاد رکھو کہ خدا نے جس شے سے اجتناب کا حکم دیا ہے اسے حرام قرار دیاہے لہذاسنت و سیرت پیغمبر اکرم کا اتباع کرو اور اس کے مقابلہ میں اپنے افکار اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ گمراہ ہوجاؤ، جہاں تک ممکن ہوا اپنے نفس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کہ تم جو نیکی بھی کروگے وہ اپنے لئے کروگے اور تمھاری برائی بھی تمھارے ہی لئے ہوگی۔

اے وہ جماعت جس کے امور کا خدا محافظ ہے ! تمھارا فرض ہے کہ سنت رسول اور آثار ائمہ ہدی و اہلبیت (ع) رسول اللہ کا خیال رکھو کہ جس نے ان چیزوں کو اختیار کرلیا وہ ہدایت پاگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا اور ان سے کنارہ کشی کرلی وہ گمراہ ہوگیا، یہی وہ حضرات ہیں جن کی ولایت اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہمارے پدر بزرگوار رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اتباع سنن و آثار میں مختصر عمل کی پابندی بھی روز قیامت بدعتوں اور خواہشات کی پیروی سے کہیں زیادہ مفید اور پروردگار کو خوش کرنے والی ہے۔

یاد رکھو کہ خواہشات اور بدعات کا اتباع خدا کی ہدایت کے بغیر کھلی ہوئی گمراہی ہے اور ہر گمراہی بدعت ہے اور بدعت کا انجام جہنم ہے خدا کی بارگاہ میں کسی خیر کا حصول اطاعت اور صبر و رضا کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ صبر و رضا خود ہی اطاعت پروردگار ہے۔

اور یاد رکھو کہ کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک ایمان نہیں کہا جاسکتاہے جب تک وہ خدا کے برتاؤ سے راضی نہ ہو اور اس کے برتاؤ کو اپنی پسند و ناپسند پر مقدم نہ رکھے اور خدا صبر و رضا والوں کے ساتھ وہی برتاؤ کرے گا جس کے وہ اہل ہوں گے اور وہ برتاؤ ان کی اپنی پسند سے یقیناً بہتر ہوگا۔

تمھارا فرض ہے کہ تمام نمازوں کی محافظت اور پابندی کرو بالخصوص نماز ظہر کی اور اللہ کی بارگاہ میں دعا گو رہو جس طرح اس نے تم سے پہلے والوں کو بھی حکم دیا ہے اور تمھیں بھی حکم دیا ہے۔

اور تمھارا فرض ہے کہ غریب مسلمانوں سے محبت کرو کہ جس شخص نے بھی انھیں حقیر سمجھا اور ان کے سامنے غرور کا مظاہرہ کیا وہ دین خدا سے پھسل گیا اور پروردگار اسے ذلیل بھی کرے گا اور سزا بھی دے گا، ہمارے پدر بزرگوار رسول اکرم نے فرمایاہے کہ پروردگار نے مجھے غریب مسلمانوں کی محبت کا حکم دیا ہے اور یاد رکھو کہ جو بھی ان میں سے کسی ایک کو بھی ذلیل کرے گا، خداوند اس پر عذاب اور حقارت آمیز عذاب نازل کرے گا کہ لوگ اس سے بیزار رہیں گے اور خدائی سزا ا س سے زیادہ سخت ہوگی ، اپنے مسلمان غریب بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کہ تمھارے اوپر ان کا حق ہے کہ ان سے محبت کرو، پروردگار نے اپنے رسول کو ان کی محبت کا حکم دیا ہے، اب اگر کسی شخص نے ان سے محبت نہ کی جن کی محبت کا خدا نے حکم دیا ہے تو اس نے خدا و رسول کی نافرمانی کی اور جس نے ایسا کیا اور اسی حال میں مرگیا وہ گمراہ دنیا سے جائے گا ۔

دیکھو اپنی بڑائی اور تکبر سے دور رہو کہ کبریائی پروردگار کی ردا ہے اور جو اس میں خدا سے مقابلہ کرے گا وہ اسے روز قیامت ذلیل کردے گا اور دنیا میں اس کی کمر توڑ دے گا، خبردار ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا کہ یہ نیک بندوں کا طریقہ نہیں ہے، جو شخص بھی کسی پر ظلم کرے گا اس کا مظلمہ خود اس کی گردن پر ہوگا اور خدا اس کے خلاف مظلوم کی مدد کرے گا اور جس خدا مدد کردے گا وہی کامیاب ہوگا اور غالب آجائے گا۔

خبردار ایک دوسرے سے حسد بھی نہ کرنا کہ کفر کی اصل حسد ہی ہے اور خبردار کسی مظلوم مسلمان کے خلاف کسی کی امداد نہ کرنا کہ وہ بد دعا کردے گا تو اس کی دعا قبول ہوجائے گی ، رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ مظلوم مسلمان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔

اور ایک دوسرے کی امداد کرتے رہنا کہ ہمارے جد رسول اکرم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کی امداد ایک کار خیر ہے اور اس کا ثواب ایک ماہ کے روزہ اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے زیادہ ہے۔

اور خبردار کسی مسلمان بھائی پر غربت میں دباؤ مت ڈالنا کہ اگر تمھارا کوئی حق ہے تو زبردستی وصول کرو کہ ہمارے جد رسول اکرم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کو مسلمان پر تنگی کرنے کا حق نہیں ہے اور جو شخص غریب مسلمان کو مہلت دیدے گا خدا اس دن اسے سایہ رحمت میں جگہ دے گا جس دن اس کے علاوہ کسی کا سایہ نہ ہوگا۔

اور یاد رکھو کہ اسلام سپردگی کا نام ہے، جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کردیا وہ مسلمان ہوگیا اورجو ایسا نہ کرسکا وہ واقعاً مسلمان نہیں ہے جو اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے اس کا فرض ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے کہ جو اللہ کی اطاعت کرے گا اس کافائدہ اسی کو ہوگا۔

اور خبردار معصیت سے دور رہنا کہ جو معصیت کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے ہی ساتھ برائی کرے گا اور اچھائی اور برائی کے درمیان کوئی تیسری قسم نہیں ہے ، اچھائی کرنے والوں کے لئے پروردگار کے یہاں جنت ہے اور برائی کرنے والوں کے لئے جہنم ہے لہذا اطاعت پر عمل کرو اور معصیت سے پرہیز کرو۔

اور یاد رکھو خدا سے کوئی شے بھی بے نیاز نہیں بناسکتی ہے نہ ملک مقرب اور نہ نبی مرسل نہ کوئی اور … جو شخص چاہتاہے کہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے فائدہ اٹھائے اس کا فرض ہے کہ رضائے خدا کو طلب کرے اور یہ بھی معلوم رہے کہ رضائے خدا اس کی اطاعت اور رسول و آل رسول کی معصیت ہے اور ان کے چھوٹے بڑے کسی بھی فضل کا انکار کے بعد رضائے خدا کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اللہ سے عافیت کا سوال کرو اور اسی کو تلاش کرتے رہو کہ کوئی قوت و طاقت اس کے علاوہ نہیں ہے، اپنے نفس کو دنیا کی بلاؤں کے برداشت کرنے پر آمادہ کرو کہ ولایت واطاعت خدا و رسول و آل رسول میں مسلسل بلاؤں کا نزول بھی آخرت میں تمام دنیا کے اقتدار اور اس کی ان مسلسل نعمتوں اور لذتوں سے بہتر ہے جس میں ان لوگوں سے محبت رکھی جائے جن کی محبت اور اطاعت سے خدا نے منع کیا ہے۔

یاد رکھو پروردگار نے صرف ان ائمہ کی محبت کا حکم دیا ہے جن کا ذکر سورہ انبیاء آیت نمبر 73 میں کیا ہے اور جن کی محبت و اطاعت سے منع کیا ہے ، وہ سب ائمہ ضلال میں جن کا کام جہنم کی طرف دعوت دیناہے۔

اور یاد رکھو کہ پروردگار جب بندہ کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتاہے اور جب یہ نعمت دیتاہے تو اس کی زبان پر حق جاری کردیتاہے اور اس کے دل میں حق کو جاگزیں کرداہے اور وہ اسی پر عمل کرنے لگتاہے اور جب ایسا کردیتاہے تو اس کا اسلام مکمل ہوجاتاہے اور وہ اسی حال میں مرجائے تو حقیقی مسلمان مرتاہے، لیکن اگر وہ کسی کو خیر نہیں دینا چاہتاہے تو اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دیتاہے اور اس کا سینہ بالکل تنگ ہوجاتاہے کہ اگر حق زبان پر جاری بھی ہوجائے تو دل میں جاگزین نہیں ہوتاہے اور جب ایسا نہیں ہوتاہے تو اس پر عمل کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور اس حال میں مرجانے والا منافقین میں شمار ہوتاہے اور جو وہ حق زبان پر جاری ہوکر دل کی گہرائیوں میں نہ اترسکے اور اس پر عمل نہ ہوسکے وہ روز قیامت ایک حجت بن جاتاہے۔

اللہ سے ڈرو اور دعا کرو کہ تمھارے دلوں کو اسلام کے لئے کشادہ کردے اور تمھاری زبانوں کو حق کے ساتھ گویا بنادے تا کہ اسی حال میں دنیا سے جاؤ اور تمھاری بازگشت نیک بندوں جیسی ہوکہ اللہ کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے اور ساری حمد اسی رب العالمین کے لئے ہے۔

اور جو شخص بھی یہ جاننا چاہتاہے کہ خدا اس سے محبت کرتاہے اس کا فرض ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے اور ہماری پیروی کرے، کیا اس نے پیغمبر اکرم کا یہ خطاب نہیں سناہے کہ آپ کہہ دیں کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تم سے محبت کرے اور تمھارے گناہوں کو معاف کردے۔(آل عمران 31)۔

خدا کی قسم کوئی شخص بھی خدا کی اطاعت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ خدا ہمارے اتباع کو شامل کردیتاہے اور کوئی شخص ہمارا اتباع نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ خدا اسے محبوب بنالیتاہے اور پھر جو شخص ہمارا اتباع چھوڑدیتاہے وہ ہمارا دشمن ہوجاتاہے اور جو ہمارا دشمن ہوجاتاہے وہ خدا کا نافرمان شمار کیا جاتاہے اور جو ایسا ہوجاتاہے خدا اسے ذلیل و رسوا کردیتاہے اور منھ کو بھل جہنم میں ڈال دیتاہے والحمدللہ رب العالمین ۔( کافی 8 ص4)۔

779۔ عبدالسلام بن صالح الہروی ! میں نے امام رضا (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ اس بندہ پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرتے تو عرض کیا کہ آپ کا امر کس طرح زندہ کیا جاتاہے ؟ فرمایا ہمارے علوم سیکھا جاتاہے اور پھر لوگوں کو سکھایا جاتاہے کہ لوگ ہمارے کلام کے محاسن سے آگاہ ہوجائیں تو خود بخود ہمارا اتباع کرنے لگیں گے،( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص307 /69 ، معانی الاخبار ص 180/1)۔

780۔ امام رضا (ع) نے عبدالعظیم الحسنئ سے فرمایا کہ ہمارے دوستوں تک ہمارا سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ خبردار شیطان کو اپنے نفس پر کوئی راستہ نہ دیں اور ان کو حکم دینا کہ سچ بولیں ، امانتیں ادا کریں اور سکوت اختیار کریں بلاوجہ بحث نہ کریں، ایک دوسرے کی طرف متوجہ رہیں ، ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں کہ اسی میں ہماری قرابت ہے اور آپس میں پھوٹ نہ پیدا کریں کہ میں نے قسم کھالی ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور میرے کسی دوست کو ناراض کرے گا تو میں خد ا سے دعا کروں گا کہ اس پر دنیا میں بھی بدترین عذاب کرے اور آخرت میں تو بہر حال وہ خسارہ والوں میں ہوگا۔

انھیں یہ بھی بتادینا کہ خدا ان کے نیک کرداروں کو بخش دے گا اور برے اعمال والوں سے بھی درگذر کردے گا لیکن شرک کرنے والوں اور ہمارے دوستوں کو اذیت کرنے والوں یا ان کے ساتھ برائی چاہنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرے گا جب تک اپنے عمل سے باز نہ آجائیں… ہاں اگر اپنی حرکت سے باز آگئے تو خیر ہے، ورنہ وہ ان کے دل سے ایمان کی روح نکال لے گا اور اسے ہماری ولایت سے نکال باہر کرے گا اور اس کا ہماری محبت میں کوئی حصہ نہ ہوگا، اللہ اس دن سے پناہ دے ۔( الاختصاص ص 247)۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تقلید کیوں ضروری ہے؟
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت
امام حسن مجتبی (ع) کی سوانح عمری
وصیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا
ولایت علی ع قرآن کریم میں
امام حسن علیہ السلام اور افسانۂ طلاق‏ / تحقیقی ...
امام زین العابدین علیہ السلام کے مصائب
مکتب اہلبیت علیہم السلام کی پائیداری
اصحاب امام مہدی علیہ السلام ۳۱۳افراد کیوں ؟

 
user comment