بعض علامتیں حتمی ہیں جن کا وقوع بہرحال ضروری ہے اور ان کے بغیر ظہور کا امکان نہیں ہے۔ اور بعض غیر حتمی ہیں جن کے بعد ظہور ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اس امر کا واضح امکان موجود ہے کہ ان علامات کا ظہور نہ ہو اور حضرت کا ظہور ہو جائے اور اس امر کا بھی امکان ہے کہ ان سب کا ظہور ہو جائے اور اس کے بعد بھی حضرت کے ظہور میں تاخیر ہو۔ذیل میں دونوں قسم کی علامتوں کا ایک خاکہ نقل کیا جا رہا ہے لیکن اس سے پہلے اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ان روایات کا صدور آج سے سیکڑوں سال پہلے ہوا ہے اور ان کے مخاطب اس دور کے افراد تھے اور ان کے متعلقات کا تعلق سیکڑوں سال بعد کے واقعات سے تھا جن کا سابقہ اس دور کے افراد سے ہوگا اور اس بنا پر یہ طے کرنا تقریباً ناممکن ہے کہ روایات میں استعمال ہونے والے الفاظ سے مراد کیا ہے اور یہ الفاظ اپنے لغوی معانی میں استعمال ہوئے ہیں یا ان میں کسی استعارہ اور کنایہ سے کام لیا گیا ہے۔ اگر روایات کا تعلق احکام سے ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ احکام کے بیان میں ابہام و اجمال بلاغت کے خلاف اور مقصد کے منافی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ روایات کا تعلق احکام سے نہیں بلکہ واقع ہونے والے حادثات سے ہے اور ان کی تشریح کی کوئی ذمہ داری بیانکرنے والے پرنہیں ہے بلکہ شاید مصلحت اجمال اور ابہام ہی کی متقاضی ہو کہ ہر دور کا انسان اپنے ذہن کے اعتبار سے معانی طے کرے اور اس معنی کے واقع ہوتے ہی ظہور امام کے استقبال کے لیے تیار ہو جائے ورنہ اگر واضح طور پر علامات کا ذکر کر دیا گیا اور انسان نے سمجھ لیا کہ ابھی علامات کا ظہور نہیں ہوا ہے تو ظہور امام کی طرف سے مطمئن ہو کر مزید بدعملی میں مبتلا ہو جائے گا۔
یہ سوال ضرور رہ جاتا ہے کہ پھر اس قسم کے علامات کے بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔۔۔ لیکن اس کا بالکل واضہ سا جواب یہ ہے کہ معصومین نے جب بھی ان آنے والے واقعات کا اشارہ دیا اور فرمایا کہ ایک دور آنے والا ہے جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی لیکن یہ دنیا کا اختتام نہ ہوگا بلکہ اس کے بعد ایک قائم آل محمد کا ظہور ہوگا جو عالمی حالات کی اصلاح کرے گا اور ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، تو قوم کے ذہن میں دو متضاد تصورات پیدا ہوئے۔ ایک طرف ظلم و ستم کا حال سن کر مایوسی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی اور دوسری طرف ظہورِ امام کی خوش خبری سن کر سکون و اطمینان کا امکان پیدا ہوا تو فطری طور پر یہ سوال ناگزیر ہوگیا کہ ایسے بدترین حالات تو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم تو آج بھی نگاہ کے سامنے ہیں اور ابھی دنیا ظلم و جور سے مملو نہیں ہوئی ہے تو جب ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اس وقت دنیا کا کیا عالم ہوگا اور اس کے بعد اس اضطراب کا سکون اور اس بے چینی کا اطمینان کب میسر ہوگا اس کے حالات علامات کا معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ مظلوم و ستم رسیدہ اور بے کس و بے نوا کو اس حسِین مستقبل کے تصور سے کچھ تو اطمینان حاصل ہو اور ائمہ معصومین کی بھی ذمہ داری تھی کہ علامات کو ایسے کنایہ کے پیرایہ میں بیان کریں کہ ہر دور کا مظلوم سکون و اطمینان کو قریب تر سمجھ سکے اور اس کے لیے اطمینان کا راستہ نکل سکے ورنہ بے شمار صاحبانِ ایمان مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اور رحمت ِ خدا سے مایوسی خود بھی ایک طرح کا کفر اور ضلال مبین ہے۔اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل مقصد کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ علماءِ اعلام نے سات قسم کی علامات کو حتمی قرار دیا ہے:
۱۔ خروج دجّال
جس کا تذکرہ تمام عالم اسلام کی کتب احادیث میں پایا جاتا ہے اور اس کی طرح طرح کی صفات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ گدھے پر سوار ہوگا۔ ایک آنکھ سے کانا ہوگا، دوسری آنکھ پیشانی پر ہوگی، انتہائی درجہ کا جادوگر ہوگا اور لوگوں کو بہترین نعمتوں کی ترغیب دے گا۔ اس کے لشکر میں ہر طرح کے ناچ گانے کا ساز و سامان ہوگا۔ وہ مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لشکر جمع کرے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا، یہاں تک کہ حضرت کا ظہور ہوگا اور آپ براہِ راست یا آپ کی رکاب میں حضرت عیسیٰ بن مریم اسے فنا کر دیں گے۔ان روایات سے تو بظاہر یہی معلو م ہوتا ہے کہ یہ کسی انسان کا تذکرہ ہے لیکن چونکہ دجّال خود ایک صفت ہے اور اس کے معنی مکار اور فریب کار کے ہیں اس لیے بہت سے علماء نے اس کے کنائی معنی مراد لیے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ مکار اور فریب کار حکومتیں ہیں جن کے ساز و سامان دجّال والے ہیں اور جنہوں نے ساری دنیا کو مسحور کر رکھا ہے اور ان کی نظر سرمایہ داری یا مزدوری پر ہے کہ ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں اور ایک آنکھ کو بند کر لیا ہے اور دیکھنے والی آنکھ کو اپنی پیشانی پر اتنا نمایاں کر لیا ہے کہ ہر شخص صرف اس کی چمک دمک دیکھ رہا ہے اور ان کی سواری کے لیے بے شمار انسان موجود ہیں جنہیں قرآن حکیم کی زبان میں گدھا ہی کہا گیا ہے کہ گویا ایک پورا ”خر صفت“ سماج ہے جس کی پشت پر سوار ہو کر اپنے دجل و فریب کی ترویج کر رہے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
۲۔ نداءِ آسمانی
اس سلسلہ میں روایات میں مختلف آسمانی آوازوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک سلسلہٴ اصوات ماہِ رجب میں ہے جس میں پہلی آواز ہوگی: ”ألا لعنة اللّٰہ علی الظالمین“ دوسری آواز ہوگی ”ازفة الآزفة“ اور تیسری آواز قرص آفتاب سے بلند ہوگی کہ امیر الموٴمنین دوبارہ دنیا میں انتقام کے لیے آرہے ہیں۔دوسرا سلسلہ ماہِ مبارک رمضان میں ہوگا جہاں ۲۳ رمضان کو ظہور کی خوش خبری کا اعلان کیا جائے گا۔
اور تیسرا سلسلہ وقت ظہور قائم ہوگا جب قرص آفتاب سے حضرت کے مکہٴ مکرمہ سے ظہور کا اعلان ہوگا اور پورے شجرہٴ نسب کے ساتھ اعلان ہوگا اور اس اعلان کو شرق و غرب عالم میں سنا جائے گا جس کے بعد صاحبانِ ایمان آپ کی بیعت اور نصرت کے لیے دوڑ پڑیں گے، اور آپ کے مقابلہ میں دوسری شیطانی آواز بھی بلند ہوگی جو مثل جنگ احد بہت سے مسلمانوں کو گمراہ کر دے گی۔
۳۔ خروج سفیانی
اس شخص کا نام عثمان بن عنبہ ہوگا اور یہ یزید بن معاویہ کی اولاد میں سے ہوگا۔ پہلے دمشق، حمص، فلسطین، اردن اور قنسرین پر حکومت قائم کرے گا اس کے بعد مختلف اطراف میں لشکر روانہ کرے گا جس کا ایک حصہ بغداد کی طرف جائے گا اور نجف و کربلا میں صاحبانِ ایمان کا قتل عام کرے گا۔ دوسرا حصہ مدینہ کی طرف جائے گا اور وہاں قتل عام کرے گا اور پھر مکہ کا رخ کرے گا لیکن مکہ تک رسائی نہ حاصل کر سکے گا۔ تیسرا حصہ بطرف شام روانہ ہوگا اور راستہ میں لشکر امام عصر سے مقابلہ ہوگا اور اس حصہ کا ایک ایک شخص فنا کر دیا جائے گا۔ مکہ کی طرف جانے والا لشکر تین لاکھ افراد پر مشتمل ہوگا اور ایک صحرا میں دھنس جائے گا، صرف دو افراد باقی رہیں گے۔ ایک مکہ کی طرف جا کر امام عصرں کی فتح کی بشارت دے گا اور دوسرا شام کی طرف جا کر سفیانی کو لشکر کی ہلاکت کی اطلاع دے گا۔ اس کے بعد سفیانی خود کوفہ کا رخ کرے گا اور پھر حضرت کا لشکر تعاقب کرے گا اور وہ فرار کر جائے گا یہاں تک کہ بیت المقدس میں حضرت کے لشکر ہاتھوں واصل جہنم کر دیا جائے گا۔ اس روایت میں بھی اگرچہ نام اور نسب کا ذکر موجود ہے لیکن یہ دونوں باتیں عرف عام میں کنایہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہیں جس طرح کہ حضرت عائشہ نے قتل عثمان کی ترغیب دیتے وقت عثمان کا نام نہیں لیا تھا بلکہ نعثل کہہ کر یاد کیا تھا کہ مشابہت کی بنا پر دوسرا نام بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی حال شجرہٴ نسب کا بھی ہے کہ اس طرح کا قاتل و ظالم انسان یزید بن معاویہ کے علاوہ کسی شخص کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے جس طرح کہ خود یزید کے باپ نے زیاد کو اتحاد کردار کی بنا پر اپنے شجرہ پر شامل کر لیا تھا۔
بہرحال ایسے انسان یا ایسی طاقت کا ظہور ضروری ہے کہ خدا جانے کب انکشاف ہو جائے کہ موجودہ طاقت وہی طاقت ہے جسے سفیانی سے تعبیر کیا گیا ہے اور ظہور امام اور جہادِ امام کا قت آگیا ہے، لہٰذا موٴمنین کرام کو ہر وقت اس جہاد کے لیے تیار رہنا چاہیے اور کسی وقت بھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ۴۔ قتل نفس زکیہ یعنی اولاد رسول اکرم میں ایک محترم اور پاکیزہ نفس انسان کو خانہٴ کعبہ کے پاس رکن و مقام کے درمیان قتل کر دیا جائے گا اور اس کے بعد حضرت کا ظہور ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جب روایت میں کسی تفصیل کا ذکر نہیں ہے تو کوئی بھی محترم کسی وقت بھی قتل ہو سکتا ہے اور اس کے بعد امام عصرں کا ظہور ہو سکتا ہے جب کہ حکومت وقت ہمہ وقت اولاد رسول کے قتل و خون کے درپے رہتی ہے۔
۵۔ خروج سید حسنی دیلم اور قزوین کی طرف سے ایک سید حسنی جن کا شجرہٴ نسب امام حسن مجتبیٰں تک پہنچتا ہے خروج فرمائیں گے اور وہ نصرت امام کے حق میں آواز بلند کریں گے جس پر طالقان کی ایک عظیم سپاہ آپ کے گرد جمع ہو جائے گی اور آپ کوفہ کا رخ کریں گے اور راستہ میں ظالموں کا قلع قمع کرتے جائیں گے اور اس وقت یہ خبر نشر ہوگی کہ امام عصرں نے ظہور فرمایا ہے اور کوفہ تشریف لے آئے ہیں۔ سید حسنی ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے دلائن امامت کا مطالبہ کریں گے تاکہ تمام لوگوں پر ان کی امامت کا اثبات ہو جائے اور اس کے بعد حضرت کی بیعت کریں گے لیکن ان کے ساتھیوں میں چار ہزار افراد معجزات کو جادو کا نام دے کر نہروان کے خوارج کی طرح بیعت سے انکار کر دیں گے اور بالآخر سب کے سب تہہ تیغ کر دیے جائیں گے۔ ۶۔ وسط ِ ماہِ رمضان میں سورج گرہن اور آخر ماہِ رمضان میں چاند گرہن کا واقع ہونا جو عام طور سے نہیں ہوتا ہے اور نہ قابل وقوع تصور کیا جاتا ہے۔ ۷۔ آسمان میں ایک پنجہ کا ظاہر ہونا یا چشمہٴ خورشید کے قریب سے ایک صورت کا ظاہر ہونا جو اس بات کی علامت ہے کہ آنے والا منظر عام پر آرہا ہے اور قدرت کا منشاء ہے کہ ساری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہو جائے اور کسی طرح کا ابہام نہ رہ جائے۔ اب اگر کسی انسان کو دن کا سورج بھی نظر نہ آئے تو ایسے بوم صفت اور شپرّہ چشم انسان کا کوئی علاج نہیں ہے۔چشمہٴ آفتاب سے شکل و صورت کا ظہور غالباً اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ امامت کا اقتدار زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا ہے اور جس طرح پہلے امام نے آفتاب کو پلٹا کر اپنی امامت اور بندگی کا ثبوت پیش کیا تھا اسی طرح آخری امام بھی آفتاب ہی کے ذریعہ اپنے اقتدار کا اظہار کرے گا اور اپنے دلائل کو روز ِ روشن کی طرح واضح کرے گا۔ آفتاب کے وسیلہ قرار دینے میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمین کا سارا نظام آفتاب کی گردش کا تابع ہے اور آفتاب کی گردش اشارہٴ امام کی تابع ہے تو جو شخص بھی گردش آفتاب کو منقلب کر سکتا ہے اور ڈوبے ہوئے آفتاب کو مغرب سے نکال سکتا ہے وہ نظام عالم کو کیونکر منقلب نہیں کر سکتا ہے؟ اور ڈوبے ہوئے اسلام و ایمان کو مغرب سے کیوں نہیں نمایاں کر سکتا ہے؟ ”ان ھذا الا اختلاق“۔ غیر حتمی علامات
غیر حتمی علامات کی فہرست بہت طویل ہے اور بعض حضرات نے سیکڑوں سے گزار کر ان علامات کو ہزاروں کی حدوں تک پہنچا دیا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ ان میں اکثر باتیں علامات نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے ظلم و جور سے بھر جانے کی تفصیلات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان علامات میں ہر برائی کا تذکرہ موجود ہے جو دنیا کے ظلم و جور اور فسادات سے مملو ہو جانے کا خاصہ ہے۔ علامات کے طور پر حسب ذیل امور کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
۱۔ مسجد کوفہ کی دیوار کا منہدم ہو جانا۔
۲۔ شط ِ فرات سے کوفہ کی گلیوں میں نہر کا جاری ہو جانا۔
۳۔ شہر کوفہ کا تباہی کے بعد دوبارہ آباد ہونا۔
۴۔ دریائے نجف میں پانی کا جاری ہو جانا۔
۵۔ فرات سے نجف کی طرف نہر کا جاری ہو جانا۔
۶۔ ستارہٴ جدی کے قریب دمدار ستارہ کا ظاہر ہونا۔
۷۔ دنیا میں شدید قسم کے قحط کا پیدا ہونا۔
۸۔ اکثر شہروں اور ملکوں میں زلزلہ اور طاعون کا پیدا ہونا۔
۹۔ مسلسل قتل و خون کا ہونا۔
۱۰۔ قرآن مجید کا زیورات سے آراستہ کرنا، مساجد میں سونے کا کام ہونا اور میناروں کا بلند ترین ہونا۔
۱۱۔ مسجد براثا کا تباہ ہو جانا۔
۱۲۔ مشرق زمین میں ایک ایسی آگ کا ظاہر ہونا جس کا سلسلہ تین روز یا سات روز تک جاری رہے۔
۱۳۔ سارے آسمان پر سرخی کا پھیل جانا۔
۱۴۔ کوفہ میں ہر طرف سے قتل و غارت کا برپا ہونا۔
۱۵۔ ایک جماعت کا بندر اور سور کی شکل میں مسخ ہو جانا۔
۱۶۔ خراسان سے سیاہ پرچم کا برآمد ہونا۔
۱۷۔ ماہِ جمادی الثانی اور رجب میں شدید قسم کی بارش کا ہونا۔
۱۸۔ عربوں کا مطلق العنان اور آوارہ ہو جانا۔
۱۹۔ سلاطینِ عجم کا بے آبرو اور بے وقار ہو جانا۔
۲۰۔ مشرق سے ایک ایسے ستارہ کا برآمد ہونا جس کی روشنی چاند جیسی ہو اور شکل بھی دونوں طرف سے کج ہو۔
۲۱۔ تمام عالم میں ظلم و ستم اور فسق و فجور کا عام ہو جانا جس کے بارے میں مولائے کائناتں نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا کہ ”جب لوگ نماز کو مردہ بنا دیں گے، امانتوں کو ضائع کر دیں گے، جھوٹ کو جائز بنا لیں گے، سود کھائیں گے، رشوت لیں گے، عمارتوں کو انتہائی مستحکم بنائیں گے، اقرباء سے قطع تعلق کر لیں گے، خواہشات کا اتباع کریں گے، خون کو سستا بنا لیں گے، تحمل کو دلیل کمزوری اور ظلم کو باعث فخر سمجھ لیں گے، امراء فاجر ہوں گے، وزراء ظالم ہوں گے، عرفاء خائن ہوں گے اور قرّاء فاسق ہوں گے، جھوٹی گواہیوں کا زور ہوگا۔ فجور کو اعلانیہ انجام دیا جائے گا، قرآن مجید کو زیورات سے آراستہ کیا جائے گا، مسجدوں میں سنہرا کام ہوگا، مینارے طویل ترین ہوں گے، اشرار کا احترام ہوگا، صفوں میں اژدہام ہوگا اور خواہشات میں اختلاف ہوگا، عہد توڑے جائیں گے، عورتوں کو طمع دنیا میں شریک تجارت بنایا جائے گا، فساق کی آواز بلند ہوگی اور اسے سنا جائے گا، رذیل ترین آدمی سردار قوم ہوگا، فاجر سے اس کے شر کے خوف سے ڈرا جائے گا، جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی، خائن کو امین بنایا جائے گا، ناچ گانے کا کاروبار عام ہوگا اور امت کا آخری آدمی پہلے آدمی پر لعنت کرے گا، عورتیں گھوڑوں پر سواری کریں گی، مرد عورتوں سے مشابہ اور عورتیں مردوں سے مشابہ ہو جائیں گی، لوگ زبردستی گواہی پیش کریں گے اور بغیر حق کو سمجھے ہوئے گواہی دیں گے، علم دین غیر دین کے لیے حاصل کیا جائے گا، عمل دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جائے گی، دل بھیڑیوں جیسے اور لباس بکریوں جیسے ہوں گے، دل مردار سے زیادہ بدبودار اور ایلوا سے زیادہ تلخ ہوں گے۔ اس وقت بہترین مقام بیت المقدس ہوگا جس کے بارے میں لوگ تمنا کریں گے کہ کاش ہماری منزل وہاں ہوتی۔ اس کے علاوہ اور بھی علامات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس دور کی عکاسی ہوتی ہے جب ظلم و جور اور فسق و فجور کا دور دورہ ہوگا اور عدل و انصاف اور دین و ایمان دم توڑ دیں گے۔
خصائص و امتیازات امام عصر
ان خصوصیات میں بعض کا تعلق آپ کی ذات ِ مبارک سے ہے اور بعض کا تعلق آپ کے اضافی اوصاف و کمالات سے ہے اور بعض میں آپ کے اندازِ حکومت اور دورِ اقتدار کی امتیازی حیثیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ان خصوصیات کی تعداد کا مختصر خاکہ علامہ شیخ عباس قمی نے ۴۶ امور سے مرتب کیا ہے: ۱۔ آپ کا نور ِ اقدس بھی انوار ِ قدسیہ کے درمیان ایک مخصوص حیثیت کا حامل ہے جیساکہ احادیث معراج سے ظاہر ہوتا ہے۔
۲۔ شرافت ِنسب، آپ کو جملہ ائمہ طاہرین سے انتساب کے علاوہ قیصر روم اور جناب شمعون وصی حضرت عیسیٰں سے بھی انتساب حاصل ہے۔
۳۔ روزِ ولادت روح القدس آپ کو آسمانوں کی طرف لے گیا اور وہاں فضائے قدس میں آپ کی تربیت ہوتی رہی۔
۴۔ آپ کے لیے ایک مخصوص مکان بیت الحمد نام کا ہے جہاں کا چراغ روزِ ولادت سے روشن ہے اور روزِ ظہور تک روشن رہے گا۔
۵۔ آپ کو رسول اکرم کا اسم گرامی اور کنیت دونوں کا شرف حاصل ہوا ہے، یعنی ”ابو القاسم محمد“۔
۶۔ دور ِ غیبت میں آپ کو نام محمد سے یاد کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
۷۔ آپ کی ذات ِ گرامی پر وصایت کا عہدہ ختم ہوگیا اور آپ خاتم الاوصیاء ہیں۔
۸۔ آپ کو روز اول ہی سے غیبت کا شرف حاصل ہوا ہے اور آپ ملائکہ مقربین کی تحویل میں رہے ہیں۔
۹۔ آپ کو کفار و مشرکین و منافقین کے ساتھ معاشرت نہیں اختیار کرنا پڑی۔
۱۰۔ آپ کو کسی بھی حاکم ظالم کی رعایا میں نہیں رہنا پڑا۔
۱۱۔ آپ کی پشت مبارک پر رسول اکرم کی مہر نبوت کی طرح نشانِ امامت ثبت ہے۔
۱۲۔ آپ کا ذکر کتب سماویہ میں القاب و خطابات کے ذریعہ ہوا ہے اور نام نہیں لیا گیا ہے۔
۱۳۔ آپ کے ظہور کے لیے بے شمار علامتیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۴۔ آپ کے ظہور کا اعلان ندائے آسمانی کے ذریعہ ہوگا۔
۱۵۔ آپ کے دور ِ حکومت میں سن و سال کا انداز عام حالات سے مختلف ہوگا اور گویا حرکت فلک سست پڑ جائے گی۔
۱۶۔ آپ مصحف امیر الموٴمنین کو لے کر ظہور فرمائیں گے۔
۱۷۔ آپ کے سر پر مسلسل ابر سفید کا سایہ ہوگا۔
۱۸۔ آپ کے لشکر میں ملائکہ اور جنات بھی شامل ہوں گے۔
۱۹۔ آپ کی صحت پر طول زمانہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔
۲۰۔ آپ کے دور میں حیوانات اور انسانوں کے درمیان وحشت و نفرت کا دور ختم ہو جائے گا۔
۲۱۔ آپ کی رکاب میں بہت سے مر جانے والے بھی زندہ ہوکر شامل ہوں گے۔
۲۲۔ آپ کے سامنے زمین سارے خزانے الگ دے گی۔
۲۳۔ آپ کے دور میں پیداوار اور سبزہ زار اس قدر ہوگا کہ گویا زمین دوسری زمین ہو جائے گی۔
۲۴۔ آپ کی برکت سے لوگوں ی عقلوں کو کمال حاصل ہو جائے گا۔
۲۵۔ آپ کے اصحاب کے پاس غیر معمولی قوت ِ سماعت و بصارت ہوگی کہ چار فرسخ سے حضرت کی آواز سن لیں گے۔
۲۶۔ آپ کے اصحاب و انصار کی عمریں بھی طولانی ہوں گی۔
۲۷۔ آپ کے انصار کے اجسام بھی مرض اور بیماری سے بری ہوں گے۔
۲۸۔ آپ کے اعوان و انصار میں ہر شخص کو ۴۰ افراد کے برابر قوت عطا کی جائے گی۔
۲۹۔ آپ کے نور ِ اقدس کے طفیل میں لوگ نور شمس و قمر سے بے نیاز ہو جائیں گے۔
۳۰۔ آپ کے دست ِ مبارک میں رسول اکرم کا پرچم ہوگا۔
۳۱۔ آپ کے جسم اقدس پر رسول اکرم کی زرہ بالکل درست ہوگی۔
۳۲۔ آپ کے لیے ایک خاص بادل ہوگا جو آپ کو مختلف مقامات پر لے جایا کرے گا۔
۳۳۔ آپ کے دور میں تقیہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور شوکت کاذبین و ظالمین کا خاتمہ ہو جائے گا۔
۳۴۔ آپ کی حکومت مشرق و مغرب عالم پر ہوگی۔
۳۵۔ آپ کے دور میں زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔
۳۶۔ آپ کے فیصلے علم امامت کے مطابق ہوں گے اور صرف ظاہری شواہد پر اکتفا نہ کی جائے گی۔
۳۷۔ آپ ان مخصوص احکام کو رائج کریں گے جو اس دور تک رائج نہ ہو سکے ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بیس سال کا نوجوان احکام دین سے بے خبر ہوگا تو اسے تہہ تیغ کر دیں گے اور زندہ رہنے کا حق نہ دیں گے کہ بلوغ کے بعد بھی پانچ سال کی مہلت دی جا چکی ہے۔
۳۸۔ آپ علوم کے ان ۲۵ حروف کا اظہار کریں گے جن کا اب تک اظہار نہیں ہو سکا ہے اور انبیاء کرام اور اولیاء عظام نے ۲۷ حروف میں سے صرف دو کا اظہار کیا ہے۔۳۹۔ آپ کے اصحاب و انصار کے لیے آسمان سے تلواریں نازل ہوں گی۔
۴۰۔ آپ کے اصحاب و انصار کی جانور تک اطاعت کریں گے۔
۴۱۔ آپ کوفہ میں حضرت موسیٰں کے پتھر سے پانی اور دودھ کی دو نہریں جاری فرمائیں گے۔
۴۲۔ آپ کی مدد کے لیے آسمان سے حضرت عیسیٰں نازل ہوں گے اور آپ کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔
۴۳۔ آپ اس دجال ملعون کو قتل کریں گے جس سے ہر نبی نے اپنی امت کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔
۴۴۔ آپ کے علاوہ امیر الموٴمنینں کے بعد کسی کے جنازہ پر سات تکبیروں کا جواز نہ ہوگا۔
۴۵۔ آپ کی تسبیح ۱۸ تاریخ سے آخر ماہ تک ہے، یعنی تقریباً ۱۲ دن۔ جب کہ باقی معصومین کی تسبیح بس ایک روز ہے یا دو روز۔
۴۶۔ آپ کی حکومت کا سلسلہ قیامت سے متصل ہوگا کہ آپ خود حکومت کریں گے یا ائمہ طاہرین رجعت فرمائیں گے یا آپ کی اولاد کی حکومت ہوگی لیکن مجموعی طور پر یہ سلسلہ قیامت سے متصل ہو جائے گا جیساکہ امام صادقں فرمایا کرتے تھے:لکل اناس دولة یرقبونھاو دولتنا فی آخر الدھر لیظھر
source : http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=598