حجۃ الاسلام والمسلمین علی عباس حمیدی
بعض حضرات کی عادت ہربات میں سوال ایجاد کرنا ہوتی ہے مگرکبھی کبھی کچھ ایسے سوال بھی ہوتے ہیں جو انسان کو روشنی میں لا کر اندھیروں سے چھٹکارا دلا دیتے ہیں ۔ایسے سوالوں کا تعلق معتقدات سے ہوتا ہے انہیں میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہم ۱۸!ذی الحجہ کی تاریخ میں عید کیوں مناتے ہیں ؟یہ سوال اپنوں اور بیگانوں دونوں ہی کے لئے ہدایت کا موجب ہو سکتا ہے ۔ ۱۸! ذی الحجہ کی تاریخ میں غدیر کی تاریخی اور اعتقادی حقیقت اپنی جگہ مگرفلسفۂ عید خود ایک مستقل موضوع ہے جس پر گفتگو کی جانی چاہئے ۔
عید کا تعلق مسرت سے ہے اور غدیرکا تعلق اسلام سے ۔اس جملے سے کم از کم یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ غدیر کے دن عید منانے کا سوال فقط مسلمانوں ہی میں پیدا ہوتا ہے غیر مسلموں کو اس سے کوئی سروکار نہیں اگرچہ ایک اعتبارسے یہودیوں ، مسیحیوں اور زرتشتیوں کو۱۸!ذی الحجہ کی تاریخ میں مسلمانوں کے ہمراہ عید منانے کاحق حاصل ہوجاتا ہے وہ اس لئے کہ جس وجہ سے مسلمانوں کو اس دن عید منانی چاہئے وہی و جہ ان کے یہاں بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ قمری سن ہجری کے مہینوں کو جب رومی ، ہندی، عیسوی اور فارسی مہینوں سے تطبیق دی جاتی ہے تو۱۸!ذی الحجہ ۱۰ھ کی مبارک تاریخ ان کے لئے بھی خوشی کا روز بن جاتی ہے ۔زرتشتیوں کی بڑ ی عیدیعنی نوروز۱۰ہجری میں ۱۸ !ذی الحجہ ہی کے روز تھی اور اسی تاریخ میں حضرت موسیٰ نے فرعون کے جادوگروں پر کامیابی حاصل کی اور اسی تاریخ میں انہوں نے جناب یوشع کو اپنا وصی بنایا۔ حضرت ابراہیم۔کے لئے آگ بھی اسی روز گلزار بنی تھی اور اتفاق کی بات تو یہ بھی ہے کہ ایک احتمال کے مطابق حضرت ابراہیم۔کو غدیر ہی کے مقام پر آگ میں ڈالا گیا تھا۔حضرت عیسیٰ۔ نے اسی تاریخ میں جناب شمعون۔کو اپنا وصی اور جانشین منتخب فرمایاحضرت سلیمان۔نے بھی اسی تاریخ میں تمام لوگوں کے درمیان جناب آصف بن برخیا۔کے لئے اپنی خلافت اور جانشینی کا اعلان فرمایا۔تاریخ اس دن کوشیث۔ اور ادریس ۔ کے دن سے بھی یاد کرتی ہے آسما ن والوں میں یہ تاریخ ’’عہدِ معہود‘‘ اور زمین والوں میں ’’میثاقِ ماخوذ‘‘کے نام سے یاد کی جاتی ہے ۔
یہاں تک کوئی بات ثابت ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات ضرور ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر دنیا والے مل جل کرکسی ایک دن خوشی منانا چاہیں تو ۱۸!ذی الحجہ کی تاریخ اپنے دامن میں وہ وسعت رکھتی ہے کہ ساری کائنات اس دن کو اپنی عید کا عنوان دے سکتی ہے اگر تمام ادیان اس دن کو اپنے اپنے معتقدات کے ساتھ عید کا رنگ دیدیں تو پورے عالم میں تمام انسان ایک ساتھ خوشی منا کر انسانیت کے حسین چہر ے پر مسرت کے نقوش واضح طور پر ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
اگر دیگر ادیان کے پیرو ہماری اس دعوت پر لبیک نہ کہیں اور وہ اسی بات کواپنی اکثریت یا کسی اور دلیل کے تحت اپنی کسی مذہبی عیدکی تاریخ سے تطبیق کریں تو اختلاف کی صورت کا اپنی جگہ باقی رہنا عقلی امر ہے مگر تمام لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑ ھنے والوں کو اس دن ملکر عید منانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے اگر وہ یہ کہیں کہ مسلمان تو عید فطر ، عید قربان اورجمعہ کی شکل میں ایک ساتھ عید مناتے ہی ہیں تو پھراس کی کیا ضرورت ہے کہ ۱۸!ذی الحجہ کو ملکر ایک نئی عید منائی جائے ؟تو ا سکے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ تمام عیدیں مسلمانوں کی متفق علیہ عیدیں ہیں مگریہ عیدیں بس کسی ایک مناسبت کی یاد سے متعلق ہیں لیکن۱۸!ذی الحجہ بہت سی یادوں کی امین ہے اس دن میں گذشتہ انبیاء نے عیدمنائی ہے اللہ کی طرف سے گذشتہ امتوں میں یہ دستور رہا ہے کہ ہر نبی کی بعثت اور ا سکے وصی کی خلافت کے اعلان کے روزخوشی منائی جائے اور عید کے جشن کا اہتمام کیا جائے ۲۷رجب عید اعلان بعثت ختم المرسلین اور ۱۸! ذی الحجہ عید اعلان ولایت امیرالمومنین کا خوبصورت دن ہے اسی لئے اسلام نے اس دن کوعیدِ اکبر کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے اورمسلمانوں کے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنی امت کے لوگوں کے درمیان اسی تاریخ میں عقد اخوت پڑ ھا تھالہٰذآج پھر مسلمانوں کو اس د ن ایک ساتھ جمع ہوکرصیغۂ اخوت پڑ ھ کر عید منانا چاہئے ۔
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1200&link_articles=family_and_community_library/general_articles/sbaq_aamouz_shadi