کا مقدمہ جو عالیجناب حجة الاسلام استاد علی انصاری بوير احمدی نے تحریر فرمایا ہے کو ہم یہاں بطور تعارف کتاب پیش کر رہے ہیں ۔
بسم الله الرحمن االرحیم
مقدمه
جناب انصاري بوير احمد
قال رسول الله(ص):{ستکون من بعدي فتنة فاذا کان ذالک فالزموا علي بن ابي طالب فانه اوّل من يراني, و اوّل من يصافحني يوم القيامة و هو الصّديق الاکبر و هو فاروق هذه الامّة يفرق بين الحقّ والباطل وهو يعسوب المؤمنين والمال يعسوب المنافقين}[1]
رسول خدا| نے فرمايا:ميرے بعد عنقريب ايک فتنہ تمہیں اپني لپيٹ ميں لےلے گا۔ پس جب بھي ايسا ہو تو, تم پر علي ابن ابي طالب(ع) کي اطاعت کرنا لازم و ضروري ہے کيونکہ وہ پہلے شخص ہونگے جو قيامت کے دن ميرا ديدار اور ميرے ساتھ مصافحہ کرے گے, وہ ہی صديق اکبر اور اس امت کے فاروق ہیں (یعنی حق اور باطل کے درميان فرق کرنے والے ہیں) وہی مؤمنين کے پیشوا اورمنافقین کا رہبر و پیشوا مال دنیا ہے۔
امامت اور ولايت کے باب ميں تشيّع کے اعتقادي مباني قرآن کريم کي آيات اور پيغمبراسلام| کي طرف سے ماثورہ احاديث و روايات سے اخذ کئے گئے ہيں۔تاريخ اسلام ميں سب سے زيادہ فرحت بخش اور خوش آئند واقعہ, پيغمبراسلام| کي بعثت اور اس تاريخ کا سب سے زيادہ تاریک اور غبارآلودہ واقعہ سقيفہ بني ساعدہ کی نام نہاد انجمن کا ولي اللہ اور رسول خدا| کے وصي بر حق حضرت علي(ع) کي خلافت و ولايت کا غضب کرنا ہے۔ غصب خلافت کے اس قبیح ترین عمل سے اصلِ اسلامِ ناب محمدی انحرافات سے دچار ہوا, کمال الدين اور اتمام النعمۃ کو نقصان پہنچا, ولايتِ علوي کے ہمراہ استمرارِ رسالتِ نبوی| وقفہ کاشکار ہوئی, اور پیکر اسلام کو ایسے صدمات و نقصانات سے دوچار کیا گیا جو ناقابل جبران ہیں۔
تمام اسلامي فرقوں کے دانشوروں اور محققّين نے رسول خدا| کے وصي اور بلافصل خليفہ حضرت علی(ع) کي شخصيت عظمیٰ اور ان کی خدائی سیرت کا اعتراف کيا ہے۔ وہ معتقد ہيں کہ حضرت علي(ع) کي علمي و عملي سيرہ کا پاکیزہ بحر بیکراں, قابل تعريف, منحصر بہ فرد اور ناقابل انکار ہے ليکن حقيقت يہ ہے کہ حضرت علی(ع) کی معرفت و شناخت کاملہ کا لازمہ آپ کی سیرہ طیبّہ پر عمل پیرا اور ولایت علوی کے عرفان و معرفت کے موجزن سمندر میں داخل ہونا ہے۔
امام علي(ع) نے رسول خدا| کي حیات طیّبہ کے زمانہ ميں, اسلام و عقيدہ کے پھيلانے ميں۲۳ سال انتھک کوششیں کيں, حفظ وحدت, دین میں فتنوں کی روک تھام اور اسلام کو دشمنوں کے شر سے نجات دلانے کے لئے بھي ۲۵ سال خاموشي اختيار کي اور اپني حکومت کے پانچ سالوں ميں عدالت کے برپاء کرنے اور انحراف سے دور اصلي اسلام کے احیاء کے لئے موثر ترین اقدامات فرمائے۔
پیغمبر اسلام| کی رحلت کے بعد حضرت امام علی(ع) کی ۲۵ سالہ خاموشی اسلام کی عظمت اوراس کی وسعت کی راہ میں نہایت اثر بخش اور تاثیر گذار تھی۔ اگر عمیق نگاہ سے دیکھا جائے تو آپ کی لسان طاہر سے نکلی ہوئی نایاب کلام اور آپ کا سکوت دونوں ہی عبرت آموز اور پیام آور ہیں۔۲۵ سالہ خاموشی کے دور میں آپ نے منصب خلافت کے اعتبار سے اپنی اہلیت و شائستگی پر مختلف استدلالات اور احتجاجات فرمائے ہیں۔
خلفاء پر اپني برتری و فضيلت کے بارے ميں فرمايا:رسول خدا| کي زندگي میں اور ان کی رحلت کے بعد, مقام و منصب خلافت کے اعتبار سے میں سب سے زیادہ حقدار و لائق ہوں, ميں ہی ان کا وصي, ان کا وزير اور ان کے علوم کاخزانہ ہوں, ميں ہی صديق اکبر اور فاروق اعظم ہوں ...[2]
اپني ۲۵ سالہ خاموشي کے بارے ميں فرمايا:... ميں نے اپنے آپ کو روک لیا کيونکہ ميں نے دیکھا کہ لوگوں ميں روح ارتجاع (جاھليت کي طرف پلٹنے والی روح) بيدار ہوچکی ہے, اور وہ اسلام سے مونہہ موڑ رہے ہيں اور دين کے مٹانے کے لئے سعي وکوشش کر رہے ہيں, ميں ايسے موقعہ پر ڈر گيا کہ اگر میں نے اس موقعہ پر اسلام و مسلمین کی مدد نہ کی تو دین میں رخنہ پڑ جائے گا اور دین منہدم ہو کر رہ جائے گا اور دین کا انہدام اور اس میں رخنہ میرے لئے حکومت سے محروم رہ جانے سے کہیں بڑھ کر گراں ہے۔
سقيفہ کی شوم انجمن کے بعض پريشان کنندہ, لرزہ خیز اور مصيبت آور نتائج يہ ہيں:
پيغمبراسلام| کے کلام اور ان کي احاديث و سيرت (بالخصوص رسالتمآب| کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں) سے سر پیچی اور اس کي نافرماني؛
حضرت علي(ع) کی خلافت و ولایت کا غصب کرنا؛
رسول خدا| کے منصب خلافت ميں انحراف و تبدیلی؛
پيغمبر اسلام| کے اہل بيت^ کي ھتکِ حُرمت ؛
حضرت فاطمہ زہراء÷ پر ان کے گھر پر حملہ کرنے کي وجہ سے ظلم و ستم؛
ان کے گھر کے دروازہ کو توڑنا اور اس کو آگ لگانا؛
مخدومہ کائنات÷ کے پہلوئ مبارک کو شکستہ کرنا ؛
اور ان کے بطن شریف ميں موجود حضرت محسن(ع) کو شہيد کرنا؛
بیعت کے بہانے گھر سے زبردستی اور دلخراش انداز سے مسجد میں لے جانے کی وجہ سے امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کی ذات مقدس کی بے حرمتی اور بے ادبی؛
اسلامی معاشرے کو رُکن الھي يعني امامت اور عدالت علوي سے محروم کردینا؛
مسلمانوں کے درميان شگاف, اختلاف اور تفرقہ کا وجود ميں لانا۔
رسول خدا| کي رحلت سے ليکر اُن کے وصيِ بر حق کي شہادت تک کے صدر اسلام کي تاريخ کے تيس سالہ دور کے تمام حقائق اور اَن کہی حقیقتوں بالخصوص سقیفہ بنی ساعدہ کے نا مشروع حادثہ کا انکشاف عمیق و دقیق تحقیقات, صدر اسلام کی تاریخ کے بارے میں فراگیر و وسیع اطلاعات, بلند نظری وسعت ظرفی, دقتِ نظری, آزاد فکر, تجزیہ و تحلیل سے آگاہی, حق جوئی, عدم تصعب, پرہیزگاری, بلند ہمتی, مسلسل اور لگاتار محنت, اور صحیح تاریخ اسلام سے مکمل آشنائی کا محتاج ہے۔
سقيفہ کے بھیانک حادثہ ميں رسول خدا| کے خليفہ حضرت علي(ع) پر اتنے مظالم ڈھائے گئے کہ, آنحضرت (ع)نے غم و غصہ کي شدت سے فرمايا:
{صَبَرتُ وَ فِي العَينِ قَذٰي وَ فِي الحَلقِ شجيٰ}[3]
ميں نے اس حالت ميں صبر کيا گویا ميري آنکھوں ميں کاٹنا اور ميرے گلے ميں ہڈي پھسی ہوئی تھي۔
آپ کے سامنے موجود اس کتاب ميں واقعہ سقيفہ کے بارے ميں تحقيق کی گئی ہے, وہي سقيفہ جس کی بنیاد نہ صحیح مشاورتی اصولوں پر تھی, نہ انتصابی اور انتخابی اصولوں پر اور نہ ہی مشروع طریقہ کی بنیاد پر بلکہ جو کشمکش,جنگ و جدال , منفعت طلبی اور ریاست طلبی جیسے پست اور گھٹیا بنینادوں پر وقوع پذیر ہوا۔
يہ با ارزش اورنفیس کتاب فاضلہ, محقّقہ, محترمہ, خاتون معصومہ قرہ داغي نے تحرير کی ہے, مصنفہ محترمہ نے سادہ اور روان عبارت میں مطالب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کتاب کے مطالب کا سمجھنا معاشرہ کے مختلف افراد اورطبقات بالخصوص جوان نسل کے لئے مفید و آسان ہو, محققہ ارجمند نے کوشش کی ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں پیش آنے والے واقعات و حالات اور اس کے عبرت آموز نتائج اور اس بارے میں حضرت علي(ع) کے عکس العمل کي واضح و روشن نشاندھي اور تصویر پیش کريں۔
شکرالله مساعيها الجميلة, ينفع الله بها الناس والسلام عليکم ورحمة الله و برکاته
سر پرست اعلیٰ مجمع جھاني شيعہ شناسي
علي انصاري بوير احمدي
حواشی
[1] ۔متقي هندي”کنزالعمال“ ج١١، ص٦١٢، چاپ بيروت وج١٢، ص٢١٠؛ ”ترجمة الامام علي(ع)“ج٣، ص١٥٧،ح١١٧٤؛ شيخ سليمان حنفي”ينابيع المودۃ“ص٢٥١، چاپ اسلامبولو ج١، ص١٢٩، چاپ بيروت،علامہ امر تسري“ارجح المطالب“ص٢٣؛ چاپ لاهور؛ شافعي ھمداني”مودۃ القربي“ ص٦٠، چاپ لاهور؛ علامہ خوارزمي”مناقب“ص٥٧وص١٠٥،چاپ قم؛ علامہ ذھبي”ميزان الاعتدال“ج١، ص١٨٨؛ علامہ ابن اثير”اسد الغابه“ج٥،ص٢٨٧؛ شافعي همداني”السبعين“ص٥٠٧،چاپ پاکستان;علامہ ابن حجر عسقلاني”لسان الميزان“ج١،ص٣٥٧، چاپ بيروت وج١،ص٥٤٤جديد؛حافظ ابن عبدالبر اندلسي”الاستعياب“ج٤،ص١٧؛علامہ ابن حجر عسقلاني”الاصاب“ج٤،ص١٧١؛حلبي”انسان العيون“ ج١،ص٣٨٠؛ علامہ ابن حسنويہ”درّ بحرالمناقب“ص١٣٢؛ علامہ گنجي شافعي”کفاية الطالب“ص٧٩، ١٨٨؛ علامہ بکري”الصلوات الهامعة“ص١٣٨؛ علامہ کشفي ترمذي”مناقب المرتضوية“ص٩٣؛ علامہ سيوطي”اللئالي المصنوعة“ج١،ص٣٢٤، چاپ بيروت؛ علامہ عيني”مناقب“ص٥٩؛ ابي جعفر طبري”بشارۃ المصطفي“ص١٥٢،وص١٨٦، چاپ نجف؛ علامہ مجلسي”بحارالانوار“ج٣٨،ص١١٧،چاپ بيروت؛ابن شهر آشوب”مناقب“ج٣،ص٩١؛مرعشي نجفي”ملحقات احقاق الحق“ج٤،ص٣٣٥،ج١٥،ص٣٠٧،چاپ قم; فيروز آبادي”فضائل الخمسة“ج٢، ص٨٨؛علامہ اربلي”کشف الغمة“ج١،ص٥٠٤؛ نجم الدين عسکري”عليّ والوصيه“ص١٤٦چاپ بيروت؛ سيد ھاشم حسيني”بوستان معرفت“ص٤٢٣؛ سيد فخر الدين موسوي”علي(ع) قائد الغرّ المحجلين“ ص١٢٣؛ علامہ حلي”کشف اليقين“ص٢٦٨.گذشتہ صفحہ میں ذکرہونے والے منابع ميں سے نمبر ١ سے ليکر نمير ١٩ تک کے ايڈرس اهل سنت کي کتابوں سے نقل کئے گئے ہيں اور باقي تمام شيعہ کتابوں سے مربوطہيں۔
[2] ۔طبرسي”الاحتجاج“ج١، ص٩٥.
[3] ۔”نهج البلاغه“ نامہ ٦٢
source : http://www.shiastudies.com/urdu/modules.php?name=News&file=article&sid=886