اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

غیبت کے نقصانات

غیبت کا سب سے بڑا نقصان تو یھی ھے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ھے ۔ جو لوگ غیبت کے عادی ھو گئے ھیں انھوں نے اپنی فکری موز ونیت و نظم اخلاقی کو کھو دیا ھے، یہ لوگ عیوب کو اور رازوں کو ظاھر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ھیں ۔

غیبت بزرگترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ھے اور انسان کے پاک وصاف خصائل و ملکات کو بھت جلد کمزور کر دیتی ھے بلکہ یہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے دل میں فضیلتوں کی رگوں کو جلا دیتی ھے اور نا پید کر دیتی ھے ۔ مختصر یہ کہ یہ بری عادت روشن افکار کو بدل کر اس کے ذھن کے سامنے فھم و تعقل کے دریچوں کو بند کر دیتی ھے ۔

اگر آپ معاشرے کو گھری نظر سے دیکھیں تو اس غیبت نے پیکر اجتماع پر ضرب کاری لگا کر اس کو مجروح کر دیا ھے اور معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھاوا دیا ھے ۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ھو گئی ھے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ھے اس کی شھرت کو داغدار بنا دیا ھے ۔ اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ھے جو بھرنے والا نھیں ھے ۔

بڑے افسوس کے ساتھ ھم کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاھئے کہ آج غیبت کا بازار ھر جگہ گرم ھے ۔ اور اس نے ھر طبقہ کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ھے جس طرح گیتی کے حادثات باھم مرتبط ھوتے ھیں ۔ اسی طرح اگر لوگوں میں روحانی انحراف پیدا ھو جائے تو وہ ھر طبقہ میں سرایت کر جاتا ھے ۔ غیبت کی وسعت دامانی کی وجہ سے لوگوں کے افق افکار پر مایوسی و بد بینی کی روح سایہ فگن ھو چکی ھے ۔ آپسی اعتماد ختم ھو گیا ھے اس لئے جب تک اچھے صفات و روح یگانگت کا سایہ معاشرے پر نہ پڑے خلوص کا تحقق نا ممکن ھے ۔ جس معاشرے میں اخلاق پسندیدہ کا وجود نہ ھو وہ حیات کی نعمتوں سے محروم رھتا ھے ۔

غیبت بیماری کے اسباب اور اس کا علاج

ویسے تو غیبت ایک عملی بیماری ھے مگر اس کا ڈائریکٹ تعلق انسان کی روح سے ھے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ھے جس کے سوتوں کو دل و جان کے گوشوں میں تلاش کرنا چاھئے ۔علمائے اخلاق نے اس کی پیدائش کے متعد اسباب ذکر فرمائے ھیں جن میں اھم ترین اسباب حسد ،غصھ، خود خواھی ، بد گمانی ھیں ۔ انسان سے جتنے بھی کام سر زد ھوتے ھیں وہ ان مختلف حالات کی پیدا وار ھوتے ھیں جن کا وجود انسان کے باطن میں ھوتا ھے اور انھیں اوصاف مذکورہ کے کسی ایک صفت کے نفس انسانی میں جڑ پکڑ لینے کی وجہ سے ۔  نفس کے اندر یہ صفت اس طرح چھپی ھوتی ھے جیسے راکہ میں چنگاری ۔ انسان کی زبان غیبت سے آشنا ھوتی ھے کیونکہ زبان ترجمان انسان ھے ۔ اور جب کوئی صفت انسان کے دل میں راسخ ھو جاتی ھے تو وہ انسان کی آنکھوں کو اندھی کر دیتی ھے اور اس کے افکار پر تسلط حاصل کر لیتی ھے ۔لوگوں میں شدت کے ساتھ غیبت کا رواج تکرار عمل اور اس کے عقوبت کی طرف سے غفلت کرنے کی وجہ سے ھوتا ھے کیونکہ ھم نے بھت سے لوگوں کو دیکھا ھے کہ وہ بھت سے گناھوں سے بچتے ھیں مگر غیبت جیسے عظیم گناہ کی طرف متوجہ نھیں ھوتے کیونکہ اس کی عقوبت سے غافل ھوتے ھیں ۔

یہ بات یاد رکھئے کہ تکرار عمل اور ضعف تعقل کی وجہ سے انسان کا کام اس منزل تک پھونچ جاتا ھے کہ اس کے نقصانات کی طرف متوجہ ھو جانے کے بعد بھی اپنی نفسانی خواھش سے صرف نظر نھیں کر سکتا ۔ کیونکہ بشر اگر چہ ایک حد تک حقائق کی طرف متوجہ ھوتا ھے اور اپنی فطرت کے مطابق جو یائے کمال رھتا ھے لیکن عمل سے مسلسل گریز اں رھتا ھے اور حصول سعادت کے لئے معمولی سا رنج و غم برداشت کرنے پر تیار نھیں ھوتاا سی لئے اپنی پست فطرتی کا محکوم ھوتا ھے ۔

جو لوگ اپنی اور دوسروں کی شرافت کی حفاظت کے پابند نھیں ھوتے وہ کسی بھی اخلاقی آئین کے پابند بھی نھیں ھوتے بلکہ ان کا اخلاقی آئین کی پابندی قبول کر لینا امر محال ھے اور جن لوگوں نے حیات کو اپنی شھوتوں کا میدان قرار دے لیا ھے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے رھتے ھیں بد بختی و بد نصیبی ان کا مقدر بن جاتی ھے ۔

ضعف اخلاق ضعف ایمان ھی سے پیدا ھوتا ھے کیونکہ ضعف اخلاق مکمل طریقہ سے ضعف عقیدہ سے تعلق رکھتا ھے کیونکہ اگر انسان قوت ایمان نہ رکھتا ھو گا تو پھر کوئی بھی چیز نہ اس کو کسب فضیلت پر آمادہ کر سکتی ھے اور نہ وہ اخلاقی پابندیوں میں اپنے کو جکڑ سکتا ھے ۔

لوگوں کو ضلالت و اخلاقی مفاسد سے نکالنے کے لئے اپنے اپنے سلیقہ و استعداد کے مطابق الگ الگ رائے ھوتی ھے لیکن ( میری نظر میں ) موٴ ثر ترین طریقہ یہ ھے کہ موجبات اصلاح خود لوگوں کے اندر پیدا ھو جائیں ۔ اور اسکے لئے نیک جذبات کو بیدار کرنا، فطرت کی آواز پر لبیک کھنا اور فکری ذخیرہ وں کو راہ حصول سعادت میں صرف کرنا ھے ۔ اس لئے کہ صفات ذمیمہ کے برے انجام کو سوچ کر اور ارادہ کو مضبوط بنا کر ھم اخلاقی رذائل پر کنٹرول حاصل کر سکتے ھیں اور اپنے نفسوں پر سے تاریکی کے پردوں کو ھٹا کر ان کی جگہ بلند صفات کو دے سکتے ھیں ۔

ڈاکٹر ژاگو اپنی کتاب ” قدرت و ارادہ “ میں کھتا ھے: ھم نا پسندیدہ صفات کے برے انجام کو سوچ کر اور اس عادت کے ترک کرنے کے بعد جو مصالح و منافع ھم کو حاصل ھوں گے ان میں غور کرنے پر اور پھر زندگی کے ان مختلف مواقع کو سامنے لا کرجن میں ھم اس عادت کی قربانگاہ پر بھینٹ چڑھ چکے ھیں برے صفات کا مقابلہ کر سکتے ھیں اور پھر جب چند بار اپنے اندر ان نتائج کا مشاھدہ کریں گے اور اس کے ترک کر دینے کی لذت کو محسوس کریں گے تو وسوے ھم سے دور ھو جائیں گے!!

چونکہ وجود بشر میں استعداد کمالات کی بذر افشانی کی جا چکی ھے اورمملکت جسم کو تمام دفاعی وسائل سے مجھز کیا جا چکا ھے اس لئے پھلے اس گمراھی وضلال کے منشاء کو تلاش کیا جائے اس کے بعد ناقابل تزلزل ارادہ سے اس کو لوح دل سے محو و معدوم کر دیا جائے اور اپنی غیر متناھی خواھشات کے سامنے مضبوط باندہ بنادیا جائے ۔

چونکہ انسان کے اعمال اس کی واقعیت و شرف کے مظاھر ھوا کرتے ھیں ۔ اس لئے کہ انھیں افعال سے ھر انسان کی واقعی شخصیت ظاھر ھوتی ھے اس لئے اگر انسان حصول سعادت کرنا چاھتا ھے تو اس کا فریضہ ھے کہ اپنے اعمال کا تزکیہ کرے اور خدا کو اپنے اعمال کا نگراں تسلیم کرے اور آخرت کے جزا سے خائف ھو ، کتاب الٰھی پر عقیدہ رکھے کہ وہ ھر چھوٹے بڑے گناہ کا احصار کرنے والی ھے ۔

ایک فلسفی کھتا ھے: کائنات کو بے عقل ،مردہ اور بے شعور نہ کھو کیونکہ ایسا کھنے پر بے عقلی کی نسبت تم نے خود اپنی طرف دی ھے ۔ کیونکہ تم بھی اسی کائنات سے ظاھر ھوئے ھو ۔ پس اگر کائنات میں عقل و حس نھیں ھے تو خود تمھارے اندر بھی نھیں ھو گی ۔

جس قدر معاشرہ بقائے حیات کے لئے زندگی کے لوازم اولیہ کا محتاج ھے اسی قدر معاشرہ روحانی روابط کے بر قراررھنے کا محتاج ھے ۔ اگر لوگ اپنے سنگین اجتمای وظیفہ پر عمل پیرا ھو جائیں تو اپنے تکامل کے لئے معنویات سے بھت بڑا فائدہ اٹھا سکتے ھیں۔ ھمارا فریضہ ھے کہ نقصان دہ افکار کی جگہ اچھے افکار کو اپنے اندر تقویت بخشیں تاکہ ھماری روح تاریکیوں کی قید و بند سے آزاد ھو سکے اور ھم اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکہ کر جاوداں مقصد سعادت کی طرف پھلا قدم اٹھا سکیں اسی طرح ھمارا فریضہ ھے کہ معاشرے میں بڑھتے ھوئے اخلاقی مفاسد کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں میں ایک روحانی انقلاب پیدا کریں اور اپنے ھم نوع افراد کے حقوق کے احترام کی روح کو زندہ کر کے اصول انسانیت و معنوی بنیادوں کو استوار کریںاور حتی المقدور کوشش کریں کہ جن اخلاقی بنیادوں پر معاشرے کی بقاء موقوف ھوتی ھے ان کے استحکام کے لئے اساسی قدم اٹھائیں ۔ اگر لوگوں کے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا ھو جائے تو یقینی طور سے حقائق کے قبول کرنے کی صلاحیت بھی لوگوں میں قوی ھو جائے گی اور پھر اس کا نتیجہ یہ ھو گا کہ اجتماعی و اخلاقی اصولوں کی مکمل طور سے رعایت ھو سکے گی


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=56261
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توحيد
زیارت اربعین کی فضیلت روایات کی روشنی میں
عصر جدید میں وحی کی احتیاج
خطرناک مثلث اسلام کے تین دشمن
امام خمینی(رہ) تاریخ معاصر کے مرد مجاہد
حديث نبوي ميں بشارت مہدي
چار سخت ترین حالات کے لئے چار ذکر خدا
خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ...
حسین ابن علی
جناب فاطمہ(ع) حضرت رسول خدا (ص)کی اکلوتی بیٹی

 
user comment