مقدمہ موٴلف
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَ السَّلااَامُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ الطَّاہِرِیْنَ۔
حمد و ثنا و صلوات و سلام کے بعد یہ فقیر عاصی عباس بن محمد رضا القمی ا س طرح کہتا ہے کہ چالیس حدیثوں کے حفظ کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں روایات مستفیضہ (تواترکے قریب) وارد ہوئی ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے ۔
عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَ مَنْ حَفَظَ مِنْ شِیْعَتَنَا اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا بَعَثَہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَالِمًا فَقِیْھًا وَلَمْ یُعَذِّبْہُ(امالی شیخ صدوق ۲۵۲)
امام جعفر صادق-نے فرمایا کہ ہمارے شیعوں میں سے جو چالیس حدیثیں یاد کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عالم اور فقیہ کے طور پر قبر سے ا ٹھا ئے گااور اسے عذاب بھی نہ دے گا ۔
احقر ( شیخ محمد ر ضا القمی) نے اس رسالے میں چا لیس حدیثیں جمع کی ہیں چو نکہ میرا مقصد عوام کو فا ئدہ پہنچا نا تھا لہٰذا میں نے احادیث کے تر جمہ پر اکتفا کیا ہے اور اصل حدیث کا حوالہ اس میں درج کر دیا ہے اور اکثر احا دیث کے نیچے ان سے مشابہ دو تین روایات فا ئدہ مند مطلب یا حکمت آمیز شعر میں نے لکھے ہیں ان میں سے اکثر کو میں نے اپنی کتاب منتہی الآ مال ( اردو میں احسن المقال) کی دوسری جلد سے نقل کیا ہے۔ اور اس کا ثواب میں نے اپنے والدین کی روح کو ہدیہ کیا ہے امید ہے اللہ تعا لیٰ اپنی رحمت واسعہ ہمارے شامل ِحال فرمائے اور ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں میں شمار فرما کر عذاب سے محفوظ رکھے۔
وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ و َاِلِیْہِ اُنِیْبُ
(میری تمام تو فیق اللہ تعا لیٰ کی طرف سے ہے اور میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔)
پہلی حدیث
اول وقت میں نمازکی فضیلت
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ سَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ؟
قَالَ: اَلصَّلٰوةُ لَوْ وَقْتِھَا۔
ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔
قُلْتُ ثُمَّ اَیُّ شَیْءٍ؟
قَالَ: اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ (وسا ئل الشیعہ جلد۳صفحہ ۸۲)
تر جمہ :۔
ابن مسعود سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سوال کیا کونسا عمل خدا کو پسند ہے؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: نماز کو بر وقت بجالانا (یعنی نماز کو اول وقت میں اور فضیلت کے وقت میں ادا کرنا)۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل ؟
حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ۔
میں نے عرض کیا اس کے بعد کونسا عمل ؟
حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
فقیر (شیخ عباس قمی(رحمۃ اللہ علیہ))فرماتے ہیں اسی مضمون کو شیخ کلینی(رحمۃ اللہ علیہ)نے منصور ابن حازم کے ذریعے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے۔نماز کو اول وقت میں بجالانے اور اس کی حفاظت کے بارے میں بہت زیادہ روایات منقول ہیں ایک روایت میں ہے کہ
مشرق و مغرب میں کوئی گھر ایسا نہیں ملک الموت ہر دن رات میں پانچوں نمازوں کے اوقات میں اس کی طرف نہ دیکھتا ہوپس جب کسی ایسے شخص کی روح قبض کرنا چاہتا ہو جو نماز کا خیال رکھتاہو اور اسے بر وقت بجا لاتا ہو تو ملک الموت اسے کلمہ شہادتین کی تلقین کرتا ہے( کلمہ شہادتین پڑھاتا ہے)اور شیطان ملعون کو اس سے دور کرتا ہے۔
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی روایات بہت ہیں ایک روایات میں ہے کہ ایک جوان جہاد کا شوق رکھتا تھا لیکن اس کے والدین راضی نہیں تھے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسے حکم دیا :
اپنے والدین کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے والدین کا تیرے ساتھ ایک دن کا انس تمہارے ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے۔
ابراہیم ابن شعیب نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میرا باپ بوڑھا اور کمزور ہوگیا ہے جب وہ رفع حاجت کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں
حضرت-نے فرمایا: اگر ہو سکے تو تم خود یہ کام کرو یعنی رفع حاجت کے لئے اسے اٹھا کر لے جاوٴاور اسے کھانا کھلاو ٴ کیونکہ تیرا باپ کل تیرے لیے جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔
دوسری حدیث
ماں کے ساتھ نیکی کرنا
عَنْ ذَکَرِیَّا بِنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ کُنْتُ نَصْرَانِیًّا فَاَسْلَمْتُ وَحَجَجْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ فَقُلْتُ اِنِّیْ کُنْتُ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ فَقَالَ وَ اَیُّ شَیْءٍ رَاِٴیْتَ فِیْ الْاِسْلااَامِ؟ قُلْتُ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ
مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ
فَقَالَ لَقَدْْ ھَدَاکَ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ:
اللّٰھُمَّ اِھْدِہ ثَلااَاثًا
سَلْ عَمَّا شِئْتَ یَا بُنَیَّ
فَقُلْتُ اِنَّ اَبِیْ وَاُمِّیْ عَلَی النَّصْرَانِیَّةِ وَاَھْلَ بَیْتِیْ وَ اُمِّیْ مَکْفُوْفَةُ الْبَصْرِ فَاَکُوْنُ مَعَھُمْ وَاَکُلُ فِیْ آنِیَتِھِمْ
فَقَالَ یَاْکُلُوْنَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ؟
فَقُلْتُ لااَا وَ لااَا یَمَسُّوْنَہُ
فَقَالَ لااَا بَآسَ فَانْظُرْ اُمَّکَ فَبَرَّھَا فَاِذَا مَاتَتْ فَلااَا تَکِلْھَا اِلٰی غَیْرِکَ کُنْ اَنْتَ الَّذِیْ تَقُوْمُ بِشَاْنِھَا وَلااَا تُخْبِرَنَّ اَحَدًا اَنَکَ اَتَیْتَنِیْ حَتّٰی تَاْتِیَنِیْ بِمِنٰی اِنْشَآءَ اللّٰہُ قَالَ فَاَتَیْنُہ بِمِنٰی وَالنَّاسُ حَوْلَہ کَاَنَّہ مُعَلِّمُ صِبْیَانٍ ھٰذَا یَسْاَلُہ وَ ھٰذَا یَسْاَلُہ فَلَمَّا قَدِمْتَ الْکُوْفَةَ الْطَفْتُ لِاُمِّیْ وَ کُنْتُ اُطْعِمُھَا وَ اَفْلِیْ ثَوْبَھَا وَ رَأْسَھَا وَاَخْدِمُھَا
فَقَالَتْ لِیْ یَا بُنَیَّ مَا کُنْتَ تَضَعُ بِیْ ہٰذَا وَاَنْتَ عَلٰی دَنِیْ فَمَا الَّذِیْ اَرٰی مِنْکَ مُنْذُھَا جَرَتْ فَدَخَلْتَ فِیْ الْحَنِیْفِیَّةِ
فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ وَلَدٌ نَبِیِّنَا اَمَرَنِیْ بِھٰذَا
فَقَالَتْ ھٰذَا الرَّجُلُ ھُوَ نَبِیٌّ
فَقُلْتُ لااَا وَ ٰلکِنَّہ اِبْنُ نَبِیٍّ
فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اِنَّ ھٰذَا نَبِیٌّ اِنَّ ھٰذِہ وَصَایَا الْاَنْبِیَآءِ
فَقُلْتُ یَا اُمَّہُ اِنَّہ لَیْسَ یَکُوْنُ بَعْدَ نَبِیِّنَا نَبِیٌّ وَٰلکِنَّہ اِبْنُہ
فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ دُیْنُکَ خَیْرُ دِیْنٍ اِعْرِضْہُ عَلَیَّ فَعَرَضْتُہ عَلَیْھَا فَدَخَلَتْ فِیْ الْاِسْلااَامِ وَ عَلَمْتُھَا فَصَلَّتِ الظُّھْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاْءَ الْآخِرَةَ ثُمَّ عَرَضَ لَھَا عَارِضٌ فِیْ الَّیْلِ فَقَالَتْ یَا بُنَیَّ اَعِدْ عَلَیَّ مَا عَلَّمْتَنِیْ فَاَعَدْتَّہ عَلَیْھَا فَاَقَرَّتْ بِہ وَمَاتَتْ فَلَمَّا اَصْبَحَتْ کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ الَّذِیْنَ غَسَّلُوْھَا وَکُنْتَ اَنَا الَّذِیْ صَلَّیْتُ عَلَیْھَا وَ نَزَلَتْ فِیْ قَبْرِہ۔
(اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۳۳)
ترجمہ:۔
ثقة الاسلام شیخ محمد ابن یعقوب کلینی قدس سرہ نے اپنی سند کے ساتھ زکریا ابن ابراہیم سے روایت کی ہے زکریا کہتا ہے کہ میں نصرانی تھا جو مسلمان ہو گیا اور حج کیلئے گیا وہاں امام جعفر صادق-کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ میں نصرانی سے مسلمان ہو گیا ہوں۔حضرت-نے فرمایا کہ اسلام میں تو نے کیا دیکھا ہے۔میں نے کہا خدا کا یہ قول
مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَ لااَا الْاِیْمَانُ وَ ٰلکِنْ جَعَلْنہُاٰا نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہ مَنْ نَّشَآءُ (سورہ شوریٰ آیت ۵۲)
(تو کیا جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کو ہی جانتا تھا لیکن ہم نے اسے نور قرار دیا ہے اس شخص کے لئے جسے ہم ہدایت کرنا چاہیں)
ظا ہر اً اس آیت کو ذ کر کرنے سے اس کی مراد یہ تھی کہ حضر ت- کی خد مت میں عر ض کر ے کہ میر ے اسلام کا سبب کو ئی چیز نہیں تھی سوا ئے اس کے کہ اللہ تعا لیٰ مجھے ہدایت کرنا چاہتا تھا۔ حضرت- نے فرمایا کہ خدا نے تجھے ہدایت کی پھر تین مرتبہ اس کے حق میں فرمایا:
اللّٰھُمَ اھْدِہ
(خدایا اس کی ہدایت فرما)
اس کے بعد حضرت- نے فرمایا جو جی چاہے سوال کر۔
میں نے عرض کیا کہ میرے والدین اور گھر والے نصرانی ہیں اور میری ماں نابینا ہے میں انکے ساتھ رہتا ہوں انہیں کے برتنوں میں کھاتا ہوں
حضرت- نے فرمایا کیا وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں؟
عرض کی نہ بلکہ سور کے گوشت کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔
حضرت- نے فرمایاکہ ماں کی رعایت کر اور اس کے حق میں نیکی کر اور جب مرے تو اس کی میّت دوسروں کے حوالے نہ کرنا بلکہ خود اسے سنبھالنا اور اس ملاقات کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہنا اور منٰی میں مجھے دوبارہ ملنا اس وقت کسی کو نہ بتا نا کہ تو میرے پاس آیا ہے پس میں منٰی میں حضرت- کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہے میں نے دیکھا کہ لوگوں نے حضرت-کے ارد گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے جس طرح بچے استاد کے ارد گرد ہوتے ہیں ہر کوئی حضرت- سے سوال پوچھ رہا تھا پس جب میں کوفہ میں آیا تواپنی ماں کے ساتھ بہت نرمی کے ساتھ پیش آنے لگااور اس کی خدمت میں مصروف ہو گیا میں اسے کھانا کھلاتااور اس کے سر اور لباس کو صاف کرتا۔
میری ماں نے ایک دن مجھ سے کہا اے فرزند عزیز! جب تو میرے دین میں تھا تو اس طرح میری خدمت نہیں کرتا تھا۔کیا وجہ ہے کہ اسلام قبول کر لینے کے بعد میرا اتنا خیال رکھتا ہے؟
میں نے کہا کہ میرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ایک فرزند نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔
میری ماں نے کہا کیا وہ پیغمبر ہے۔
میں نے کہا نہیں بلکہ پیغمبر کے فرزند ہیں ۔
میری ماں نے کہا ایسے شخص کو پیغمبر ہونا چاہیے کیونکہ جو تعلیم اس نے تجھے دی ہے یہ تو پیغمبروں کی وصیت ہے۔
میں نے کہا: اماں جان ہمارے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعد کوئی پیغمبر نہیں۔
میری ماں نے کہا: اے بیٹا تیرا دین تمام ادیان میں سب سے بہتر ہے یہ دین میرے سامنے پیش کر اور بیان کر۔
پس میں نے دین اسلام بیان کیااور میری ماں بھی اسلام میں داخل ہو گئی۔میں نے اسے دین کے آداب سکھائے۔پھر اس نے نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشاء پڑھی۔اور اسی رات مرض المو ت اسے عارض ہوئی تو مجھے بلا کر کہنے لگی اے میرے بیٹے تو نے جو کچھ مجھے سکھایا ہے اسے دوبارہ میرے سامنے دہراوٴ۔میں نے وہ سب کچھ دہرایا اور ماں نے اس کا اقرار کیا اور وفات پا گئی۔جب صبح ہوئی تو مسلمانوں نے اسے غسل دیا اور میں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کو خود قبر میں رکھا۔
نعم ما قیل
(کسی نے کیا خوب کہا ہے۔)
آبادی میخانہ زویرانی ما است
جمعیت کفر از پریشانی ما است
اسلام بذات خود ندارد عیبی
ہر عیب کہ ہست در مسلمانی ما است
( ترجمہ اشعار)
شراب خانے کی آبادی ہماری ویرانی کی وجہ سے ہے۔کفر کی جمعیت اور تعداد میں روز افزوں اضافہ ہماری پریشان حالی اور دگر گونی کی وجہ سے ہے۔اسلام کی ذات میں کوئی عیب نہیں ہے جو بھی عیب ہے وہ ہماری مسلمانی میں ہے۔
تیسری حدیث
زکوٰة نہ دینے کا بیان
شیخ کلینی نے امام جعفر صادق- سے روایت کی ہے ۔
قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ:
مَنْ مَّنَعَ قِراطًا مِنَّ الزَّکٰوةِ فَلْیَمُتْ اِنْ شَآءَ یَھُوْدِیًّا وَ اِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا
(میزان الحکمتجلد۴صفحہ۲۲۲)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا:
جو زکوٰة کی ایک قیراط مقدار روک لے (ادا نہ کرے)تو مرنے کے وقت چاہے یہودی کر مرے یا نصرانی ہو کر مرے گا(ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں)۔
ایک قیراط اکیس دینار کاہے اور اسی مضمون کے قریب اس آدمی کے بارے میں روایت ہے کہ جو استطاعت رکھتا ہو اور حج نہ کرے حتیٰ اس کی موت واقع ہو جائے (یعنی مرنے تک حج نہ کرے ) وہ یہودی یا نصرانی ہو کر مرے گا (یعنی باوجود اس کے کہ وہ مسلمان تھا)۔
چوتھی حدیث
اصول اسلام
شیخ کلینی نے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے ۔
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلامُ: بُنِیَ الْاِسْلااَامُ عَلٰی خَمْسٍ۔
اِقَامَ الصَّلٰوةَ،
وَ اِیْتَآءِ الزَّکٰوةَ،
وَحَجِّ الْبَیْتِ،
وَصَوْمِ شَھْرِ رَمَضَانِ
وَ الْوِلااَایَةِ لَنَا اَھْلَ الْبَیْتِ (الخصال۔ ص ۳۰۷)
ترجمہ:۔
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
(۱)نماز قائم کرنا
(۲) زکواةادا کرنا
(۳) حج بیت اللہ
(۴) ماہ رمضان کے روزے
(۵) ہماری ولایت۔
پانچویں حدیث
روزہ کی فضیلت کےبارے میں
شیخ کلینیمرحوم نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنے آباء(ع)سے روایت کی کہ
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
اَلااَا اُخْبِرُکُمْ بِشَیءٍ اِنْ اَنْتُمْ فَعَلْتُمُوْہُ تَبَاعَدَ الشَّیْطَانُ عَنْکُمْ کَمَا تَبَاعَدَ الْمَشْرِقُ مِنَ الْمَغْرِبِ؟
قَالُوْا بَلٰی۔
قَالَ :
اَلصَّوْمُ یُسَوِّدُ وَجْھَہ
وَالصَّدَقَةُ تُکَسِّرُ ظَھْرَہ
وَ الْحُبُّ فِی اللّٰہِ وَالْمَوَازَرَةُ عَلَی الْعَمَلِ الصَّالِحِ یَقْطَعُ دَابِرَہ
وَالْاَسْتَغْفَارُ یَقْطَعُ وَ تِیْنَہ۔
(میزان الحکمت جلد ۵صفحہ ۹۳)
ترجمہ:۔
کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاوٴں کہ اگر تم اسے بجا لاوٴ تو شیطان تم سے اس طرح دور ہو جائے جس طرح سے مشرق مغرب سے دور ہے؟
اصحاب نے عرض کی جی ہاں(ضرور بیان کیجئے)
حضرت- نے فرمایا:
روزہ شیطان کا چہرہ سیاہ کرتا ہے،
صدقہ اس کی کمر توڑتا ہے،
خدا کیلئے دوستی رکھنا اور نیک اعمال پر باہمی تعاون اس کی جڑ کو اکھاڑتا ہے،
استغفار کرنااس کے دل کی رگ کو کاٹتا ہے،
اور ہر چیز کی زکوٰةہے اور زکوٰة بدن روزہ ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَ سَلَّمَ اَلصَّومُ جُنَّةٌ مِّنَ النَّارِ
ترجمہ:۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا روزہ جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔
چھٹی حدیث
والدین کے ساتھ نیکی کرنااور صلہ رحمی کرنا
شیخ صدوق مرحوم نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے۔
قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ :
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّخِفِّفَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْہُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ فَلْیَکُنْ لِقَرَابَتِہ وُصُوْلااًا وَ وَ بِوَلِدَیْہِ بَارًا فَاِذَا کَانَ کَذٰلِکَ ھَوَّنَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَ لَمْ یَصِبْہُ فِیْ حَیَاتِہ فَقَرًا اَبَدًا
(میزان الحکمت ۔ جلد ۹۔صفحہ ۲۶۰)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا :
جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ اس پر سکرات موت کو آ سان کر دے تو اسے چاہئے کہ رشتہ داروں کے سا تھ صلہ رحمی کرے اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرے جب وہ ایسا کرے گا تو خداوندعالم موت کی دشواریوں کواس پر آسان کردے گا اور زندگی میں وہ کبھی غریب وتنگ دست نہ ہوگا ۔
ساتویں حدیث
نماز شب(تہجد) کی ترغیب
شیخ کلینی مرحوم نے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے ۔
عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ دِیْکًا اَبْیَضَ عُنُقُہ تَحْتَ الْعَرْشِ وَ رِجْلااَاہُ فِیْ تَخُوْمِ الْاَرْضِ السَّابِعَةِ جَنَاحٌ بِالْمَشْرِقِ وَ جَنَاحٌ بِالْمَغْرِبِ لااَا تَصِیْحُ الدَّیْکَةُ حَتّٰی تَصْبَحُ فَاِذَا صَاحَ خَفَقَ بِجَنَاحَیْہِ ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظَیِْمِ الَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْءٌ فَیُجِیْبَہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی مَا اَمَنَ بِمَا تَقُوْلُ مَنْ یَحْلِفُ بِاِسْمِہ کَاذِبًا
(عقاب الاعمال صفحہ ۲۷۱)
ترجمہ :۔
تحقیق اللہ تعالیٰ نے ایک سفید مرغ پیدا کیا ہے جس کی گردن عرش کے نیچے اور اس کے پاوٴں ساتویں زمین کے نیچے ہیں اس کا ایک پر مشرق میں اور ایک پر مغرب میں ہے ۔ جب تک مرغ آواز (آذان) نہ دے اس وقت تک دوسرے مرغ آواز نہیں دیتے پس جب آذان کہتا ہے۔ تو کہتا ہے:
پاک و منزہ ہے خدا وند بزرگ کوئی چیز اس کی مثال نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ اس کو جواب دیتا ہے اور فرماتا ہے جو کچھ تو کہتا ہے اگر کوئی اس کی معرفت رکھتا ہے تو میری جھوٹی قسم نہیں کھاتا یعنی جو میری عظمت بزرگی سے آگاہ ہو وہ میرے نام کی جھوٹی قسم نہیں کھاتا۔
مولف فرماتے ہیں کہ جھوٹی قسم کی مذمت میں بہت روایا ت ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹی قسم اور قطع رحمی گھروں کو مکینوں سے خالی کرتے ہیں۔ اور جھوٹی قسم انسان کی آئندہ نسلوں اور اولاد کی تنگدستی اور غضب خدا کا باعث ہے اس عرشی مرغ کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔
ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ اما م محمد باقر-فرماتے ہیں کہ
خدا کا ایک فرشتہ ہے جو مرغ کی شکل کا ہے اس کے پنجے زمین کے نیچے ہیں اور اس کے پر ہوا میں ہیں اس کی گردن عرش کے نیچے جھکی ہوئی ہے جب آدھی رات گزر جاتی ہے تو کہتا ہے۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلااَائِکَةِ وَ الرُّوْحُ رَبَّنَا لااَا اِلٰہَ غَیْرُہ
بہت پاک و منزہ ہے بہت تقدیس اور تعریف والا ہے۔ فرشتوں اور روح (فرشتہ بزرگ ) کا پروردگار ہمارا پروردگار رحم کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں)
اس ذکر کے بعد کہتا ہے۔
لِیَقُمِ الْمُتْھَدُوْنَ
یعنی نماز شب پڑھنے والے بیدار ہو جائیں
پس اس وقت باقی مرغ آواز کرتے ہیں پس وہ فرشتہ جو مرغ کی شکل کا ہے خدا کے حکم سے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہتا ہے۔
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ لااَا اِلٰہَ غَیْرُہ لِیَقُمِ الذَّاکِرُوْنَ
یعنی بہت پاک و منزہ ہے ہمارا پروردگار اس کے سوا کوئی معبود نہیں ذکر خدا کرنے والوں کو نیند سے اٹھنا چاہیے۔
اور جب صبح طلوع کرتی ہے تو کہتا ہے۔
رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ لااَا اِلٰہَ غَیْرُہ لِیَقُمِ الْغَافِلُوْنَ
ہمارا پروردگار رحم کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں غافل لوگ نیند سے بیدار ہو جائیں
(مرحوم شیخ عباسی قمی) فرماتے ہیں کہ میں نے اس روایت کے ذیل میں ان چند اشعار کو ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے۔
دلا تا کی در این کاخ مجازی
کنی مانند طفلان خاک بازی
توئی آند ست پرو مرغ گستاخ
کہ بودت آشیان بیرون ازاین کاخ
چرازان آشیان بیگانہ گشتی؟
چہ دونان مرغ این ویرانہ گشتی
بیفشان بال و پر ز آمیز ش خاک
بہ پر تاکنگرہ ایوان افلاک
ببین دررقص ازرق طیلسانان
ردائے نور بر عالم فشانان
ہمہ دور جہان روزی گرفتہ
بہ مقصد راہ فیروزی گرفتہ
خلیل آسادر ملک یقین زن
نوائے لااَا اَحَبُّ آفِلِیْنَ زن
ترجمہ اشعار
اے دل تو کب تک اس مجازی قصر میں بچوں کی طرح مٹی میں کھیلتا رہے گا تو وہ فالتو گستاخ پرندہے کہ ٹھکانہ اس محل سے باہر تھا کس لئے تو اپنے گھونسلے سے بیگانہ ہوگیا ہے کتناپست ہو کر اس ویرانہ کا مرغ بن گیا ہے خاک کی ملاوٹ سے اپنے پر وبال جھاڑ افلاک کے ایوان کے کنگرہ تک پرواز کر کشادہ لباس والوں کو آسمان کے رقص میں دیکھ جو جہان پر نور کی چادر پھیلا رہے ہیں تمام جہان والے اپنی روزی لے چکے ہیں اور اپنی کامیابی منزل کی طرف جارہے ہیں ابراہیم- خلیل اللہ کی طرح یقین کے دروازے کو دستک دے اور لااَا اَحُبُّ غافلین (یعنی میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ) کی آواز بلند کر۔
آٹھویں حدیث
غم نہ کرنے کے بارے میں
سَاَلَ الصَّادِقُ بَعْضِ اَھْلِ مَجْلِسِہ فَقِیْلَ عَلِیْلٌ فَقَصََدَہ عَائِدًا وَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِہ فَوَجَدَہ دَنِفًا فَقَالَ لَہ اَحْسِنْ ظَنََّکَ بِاللّٰہِ قَالَ اِمَّا ظَنِّیْ بِاللّٰہِ فَحَسَنٌ وَٰلکِنْ غَمِّیْ لِبَنَاتِیْ مَا اَمَرَضَنِیْ غَیْرَ غَمِیْ بِھِنَّ فَقَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ الَّذِیْ تَرْجُوْہُ لِتَضْعِیْفِ حَسَنَاتِکَ وَ مَحْوَ سَیِّائِتِکَ فَاَرْجِہ ِلااِاصْلااَاحِ حَالِبَنَاتِکَ اَمَّا عَمَلٌ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ قَالَ:
لَمَّا جَاوَزْتُ سِدْرَةُ الْمُنْتَھٰی وَبَلَغْتُ قَضْبَانَھَا وَ اَغْصَانَھَا وَ رَأَیْتُ بَعْضَ ثِمَارِ قَضْبَانَھَا اَثْدَأُوْہُ مُعَلَّقَةٌ یَقْطُرُ مِنْ بَعْضِھَا اللَّبَنِ وَ مِنْ بَعْضِھَا الْعَسَلِ وَ مِنْ بَعْضِھَا الدُّھْنُ وَ مِنْ بَعْضِھَا شِبْہُ دَقِیْقِ السَّمِیَّدِ وَ مِنْ بَعْضِھَا الثِّیَابِ وَ مِنْ بَعْضِھَا کَالنَّبْقِ فَیَھْوِیْ ذَالِکَ کُلُّہ نَحْوَ الْاَرْضِ فَقُلْتُ فِیْ نَفْسِیْ اَیْنَ مَقَرٌّ ھٰذِہِ الْخَارِجَاتِ فَنَادَانِیْ رَبِّیْ یَا مُحَمَّد ھٰذِہ اُنْبِتُھَا مِنْ ھٰذَا الْمَکَانِ لِاُغْذِ وَ مِنْھَا بَنَاتِ الْمُوْٴمِنِیْنَ مِنْ اُمَّتِکَ وَ بَنِیْھِمْ فَقُلْ لِآبَآءِ الْبَنَاتِ لااَا تُضِیْقَنَّ صُدُوْرُکُمْ عَلٰی بَنَاتِکُمْ فَاِنِّیْ کَمَا خَلَقْتُھُنَّ اَرْزُقُھُنَّ ۔
(سفینہ البحارصفحہ ۱۰۸،خرائج صفحہ ۲۸۴)
ترجمہ:۔
شیخ صدوق نے روایت کہ ہے کہ ایک دن امام جعفر صادق-نے اپنے صحابیوں میں سے ایک کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے ؟ بتایا گیا کہ وہ مریض ہے۔ حضرت- اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے۔ حضرت- نے دیکھا کہ وہ مرنے کے نزدیک ہے تو فرمایا کہ خدا کے باے میں اچھا گمان رکھ ۔وہ مرد کہنے لگا کہ میرا گمان خداکے بارے میں اچھا ہے۔لیکن بیٹیوں کے لئے غمناک ہوں ۔ اور مجھے فقط ان کے غم نے بیمار کیا ہے۔ حضرت- نے فرمایا: وہ خدا جس سے اپنی نیکیوں کے دگنا ہونے اور اپنے گناہوں کے مٹنے کی امید رکھتے ہو۔ اسی سے اپنی بیٹیوں کے حال کی اصلاح کی امید رکھو کیا تجھے معلوم نہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
شب معراج جب میں سدرة المنتہی سے گزرا اور جب سدرة المنتہی کی شاخوں کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ان شاخوں کے ساتھ بعض میوے لٹکے ہوئے ہیں اور بعض سے دودھ نکل رہا ہے اور بعض سے شہد اور بعض سے گھی اور بعض سے بہترین قسم کا سفید آٹا بعض سے لباس اور بعض سے بیری کی مانند کوئی چیز نکل رہی تھی اور یہ تمام چیزیں زمین کی طرف جارہی تھیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ چیزیں کہاں اتر رہی ہیں ۔ جبرئیل- بھی اس وقت میرے ساتھ نہ تھے۔ پس میرے سر کے اوپر سے آواز پروردگار نے مجھے ندادی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں نے اس درخت کو اس مقام پر اگایا ہے۔ جوتمام مکانات سے بلند ہے۔ اور یہ تیری امت میں سے مومنین کے بیٹوں اور بیٹیوں کی غذا ہے پس تم ہر بیٹی کے باپ کو کہہ دوکہ بیٹیا ں پیدا ہونے پر تمہارا دل تنگ نہیں ہونا چاہیے جس طرح میں نے ان کو پیداکیا ہے ان کو روزی بھی دوں گا۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ذیل میں سعدی مرحوم کے اشعار نقل کرنامناسب نظر آتا ہے۔
ترجمہ اشعار:۔
ایک بچے کے دانت نکلنے لگے تو باپ سخت حسرت کر رہا تھا کہ اس کے لئے روٹی کہاں سے لاوٴں گا جب اس نے یہ بات اپنی عورت سے کہی تو اس عورت نے کیسا مردوں والا جواب دیا؟ کہ شیطان کے مرنے تک اس کے چکر میں نہ آنا جو دانت عطا کرتا ہے روزی بھی وہی دیتا ہے۔ جو خدا پیٹ کے اندر بچے کے نقش و نگار درست کرتا ہے وہ اس کی عمرمتعین کرنے اور اس کو روزی فراہم کرنے کا ذمہ دار بھی ہے اگر کوئی شخص غلام خرید لائے تو اس کو روٹی بھی کھلاتا ہے پس کس طرح ممکن ہے جو خدا غلام پیدا کرے اور اس کی روزی کا بندوبست نہ کرے تیرا خدا پر اتنا بھروسہ بھی نہیں جو غلام کو اپنے آقا پر ہوتا ہے۔
نویں حدیث
وہ افراد جن سے دوستی اور رفاقت نہیں کرنی چاہئے
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَلَیْھِمُ السَّلااَامُ اَوْصَانِیْ اَبِیْ فَقَالَ یَا بُنَیَّ لااَا تَصْحَبَنَّ خَمْسَةً وَلااَا تُحَادِثْھُمْ وَلااَا تَرَافِقْھُمْ فِیْ طَرِیْقٍ۔
فَقُلْتُ: جَعَلْتُ فِدَاکَ یَا اَبَةَ مَنْ ھٰوٴُلااَآءِ الْخَمْسَةَ؟
قَالَ: لااَا تَصْحَبَنَّ فَاسِقًا فَاِنَّہ یَبِیْعُکَ بِاَکْلَةٍ فَمَا دُوْنَھَا
فَقُلْتُ: یَا اَبَةَ وَ مَا دُوْنَھَا
قَالَ: یَطْمَعُ فِیْھَا ثُمَّ لااَا یَنَالُھَا؟
قَالَ قُلْتُ: یَا اَبَةَ وَ مِنَ الثَّانِیْ؟
قَالَ:لااَاتَصْحَبَنَّ الْبَخِیْلَ بِکَ فِیْ مَالِہ اَحْوَجُ مَا کُنْتُ اِلِیْہِ
قَالَ فَقُلْتُ: مِنَ الثَّالِثِ؟
قَالَ: لااَاتَصْحَبَنَّ کَذَّابًا فَاِنَّہ بِمَنْزِلَةِ السَّرَابِ یُبَعِّدُ مِنْکَ الْقَرِیْبَ وَ یُقَرِّبُ مِنْکَ الْبَعِیْدَ
قَالَ: فَقُلْتُ وَمِنَ الرَّابِعِ؟
قَالََ: لااَاتَصْحَبَنَّ اَحْمَقَ فَاِنَّہ یُرِیْدُ اَنْ یَنْفَعَکَ فَیَضُرُّکَ
قَالَ قُلْتُ: یَا اَبَةَ مِنَ الْخَامِسِ؟
قَالَ: لااَاتَصْحَبَنَّ قَاطِعَ رَحِمٍ فَاِنِّیْ وَجَدْتُہ مَلْعُوْنًا فِیْ کِتَابَ اللّٰہِ فِیْ ثَلاٰثَةِ مَوَاضِعَ (کشف الغمہجلد۲صفحہ۸۱۔ بحارالانوارجلد ۷۸ صفحہ ۱۳۷)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار نے مجھے ان کلمات کے ساتھ نصیحت فرمائی:
اے بیٹا پانچ قسم کے آدمیوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔ان کے ساتھ بات نہ کرو۔ان کے ہمسفر نہ بنو۔
میں نے عرض کی آپ- پر قربان جاوٴں وہ کون ہیں؟
فرمایا فاسق کے ساتھ نہ بیٹھو کیونکہ وہ تجھے ایک لقمہ بلکہ اس سے بھی کم پر فروخت کر دے گا۔
میں نے عرض کی ابا جان ایک لقمہ سے کم کا کیا مطلب؟
فرمایا کہ لقمہ کے لالچ میں وہ تجھ کو فروخت کر دے گا لیکن اس لقمہ تک نہ پہنچ سکے گا۔
میں نے عرض کی اے اباجان دوسرا کون ہے؟
فرمایا کہ بخیل کے ساتھ دوستی نہ کر۔کیونکہ جب تجھے اس کے مال کی سخت ضرورت پڑے گی تو وہ تجھے اس وقت اس سے محروم رکھے گا۔
میں نے سوال کیا تیسرا کون ہے؟
فرمایا: بہت جھوٹ بولنے والے کے ساتھ نہ بیٹھ۔کیونکہ وہ سراب کی طرح ہے جو تجھے نزدیک کی چیز دور کر کے اور دور کی چیز نزدیک کر کے دکھائے گا(سراب یہ ہے کہ سورج کی دھوپ دوپہر کے وقت جب ہموار زمین پر پڑتی ہے تو اس زمین سے چمک دمک اس طرح نظر آتی ہے جیسے پانی موجیں مار رہا ہو۔گمان ہوتا ہے کہ وہاں پانی زمین پر جاری ہے حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی)۔
میں نے عرض کی کہ چوتھا شخص کون ہے؟
فرمایا: احمق ہے ۔کیو نکہ وہ تجھے فائدہ پہنچانا چاہے گا لیکن اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے تجھے نقصان پہنچادے گا۔
میں نے پوچھا پانچواں شخص کون ہے؟
فرمایا: قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ نہ بیٹھ ۔ کیونکہ قرآن میں تین مقامات پر میں نے اسے ملعون پایا ہے۔
دسویں حدیث
علم اور علماء کی فضیلت
قَالَ مُحَمَّدُ ابْنِ عَلِیٍّ عَلَیْہِمَا السَّلااَامُ عَالِمٌ یَنْتَفِعُ بِعِلْمِہ اَفْضَلٌ مِنْ سَبْعِیْنَ اَلْفَ عَابِدٍ
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایاایسا عالم جو اپنے علم سے فائدہ اٹھاتا ہے ستر ہزار عابد سے بہتر ہے
مولف(محدث شیخ عباس قمی)فرماتے ہیں کہ علم اور علماء کی فضیلت میں بے شمار روایات ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے ۔
ایک عالم افضل ہے ہزار عابد سے اور ہزار زاہد سے۔اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی سورج کی باقی ستاروں پر اور ایک رکعت نماز جو عالم فقیہ پڑھتا ہے عابد کی ستر ہزار رکعت سے افضل ہے اور علم کے ساتھ سو جانا جہالت کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے جب ایک مومن مرے اور ایک ورقہ چھوڑجائے جس پر علم لکھا ہوا ہو تووہ ورقہ قیامت کے دن اس شخص کے اور آگ کے درمیان پردہ بن جائے گا۔اور اللہ تعالیٰ ہر لفظ کے بدلے میں(جو ورقہ میں لکھا ہوا ہے)اسے ایک شہر عطا کرے گا۔جو دنیا سے سات گنا بڑا ہو گا۔اور جب عالم مرتا ہے تو اس پر فرشتے روتے ہیں،وہ زمین روتی ہے جہاں جہاں اس نے خدا کی عبادت کی تھی اور آسمان کے وہ دروازے روتے ہیں جن سے گزر کر اس کے اعمال اوپر جاتے تھے اور اسلام میں ایک ایسا رخنہ اور شگاف سا پڑ جاتا ہے۔جسے کویٴ چیز پر نہیں کر سکتی کیونکہ مومن علماء ان قلعوں کی طرح اسلام کے قلعے ہیں جو شہر کے ارد گرد بنائے جاتے ہیں۔اور علماء کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ثواب کئی گنا ہوتا ہے ۔اسی طرح علماء کو صدقہ دینا بھی کئی گنا ثواب رکھتا ہے۔
چنانچہ شیخ شہیدنے روایت نقل کی ہے۔کہ
مسجدجامع کے علاوہ کسی جگہ پر عالم کے پیچھے نماز پڑھیں تو دو ہزار رکعت کا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھیں تو ایک لاکھ رکعت کا ثواب ملتا ہے۔
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا فرمان ہے :
علماء کو ایک روپیہ صدقہ دینا سات ہزار روپے کے برابر ہے اور علماء کے ساتھ بیٹھنا عبادت ہے۔
مولا علی-کا فرمان ہے:
ایک گھڑی علماء کے ساتھ بیٹھنا خدا کو ہزار سال کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے۔اور علماء کے گھر کے دروازے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
اور حضرت علی-کا فرمان ہے
عالم کی طرف دیکھنا خدا کے نزدیک خانہ کعبہ میں اعتکاف سے زیادہ پسندیدہ ہے
(مولف شیخ عباس قمی )فرماتے ہیں کہ یہ بات مخفی نہ رہے کہ علم کی فضیلت اس وقت ہے ۔کہ اس کے ساتھ عمل بھی ہو۔اور یہ دونوں گرانبھا موتی اکٹھے ہوں۔
قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اَشْقَی النَّاسَ مَنْ ھُوَ مَعْرُوْفٌ عِنْدَ النَّاسِ مَجْھُوْلٌ بِعَمَلِہ
ترجمہ:۔حضرت عیسیٰ- نے فرمایا کہلوگوں میں سب سے زیادہ شقی اور بد بخت وہ ہے جو لو گوں کے نزدیک علم میں معروف و مشہور ہو اور عمل میں مجہول (اور غیر معروف )ہو۔
گیارہویں حدیث
حیاء کی فضیلت
قَالَ مُحَمَّدُ ابْن عَلِیٍّ اَلبَاقِرُ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ اَلْحَیَآءُ وَالْاِیْمَانُ مَقْرُوْنَانِ فِیْ قَرْنٍ وَاحِدٍ فَاِذَا ذَھَبَ اَحَدَ ھُمَا تَبِعَہ صَاحِبَہ
(تحف العقول صفحہ۲۱۷)
ترجمہ:۔
حضرت امام محمد باقر- نے فرمایا کہ
حیاء اور ایمان ایک ہی رسی میں اکٹھے ہیں اور یہ دونوں گرانبھا گوہر ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں جب ان میں سے ایک چلا جاتا ہے تو دوسرا بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
موٴلف (شیخ عباس قمی)فرماتے ہیں حیاء کی فضیلت میں بہت روایات ہیں اور حیاء کے حق میں یہی کافی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حیا کو اسلام کا لباس قرار دیا ہے اور فرمایا ہے
اَلْاِسْلاٰمُ عُرْیَانٌ فَلِبَاسُہ اَلْحَیَاْء
یعنی اسلام عریاں ہے اس کا لباس حیاء ہے
جس طرح بدن کا ظاہری لباس شرمگاہیں اور جسم کے دیگر عیب چھپاتا ہے اسی طرح حیاء ایک باطنی لباس ہے جو قباحتوں اور بری خصلتوں کو دوسروں سے اوجھل رکھتا ہے امام جعفر صادق-کا ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ امام- نے جو قمیض پہن رکھی ہے اسے پیوند لگا ہے وہ ٹکٹکی لگائے پیوند کو تعجب سے دیکھ رہا تھا امام- نے اس تعجب کا سبب پوچھا تو عرض کرنے لگا میری نظر پیوند پر ہے جو آپ- کے گریبان پر لگا ہوا ہے حضرت- نے فرمایا اس کتاب کو اٹھا کر پڑھ ۔راوی کہتا ہے حضرت- کے پاس ایک کتاب پڑی ہوئی تھی اس نے اٹھا کر اس میں نظر کی تو لکھا ہوا تھا
لااَااِیْمَانَ لِمَنْ لااَاحَیَآءَ لَہ وَلااَا مَاَل لِمَنْ لااَا تَقْدِیْرَ لَہ وَلااَا جَدِیْدَ لِمَنْ لااَا خَلْقَ لَہ۔
ترجمہ:۔
جس میں حیاء نہیں اس میں ایمان نہیں اور جو معاش میں حساب و کتاب اور اندازہ نہیں رکھتا اس کا مال نہیں ہوتا اور جس کے پرانا نہیں اس کے پاس نیا نہیں ۔
(اسکی تفصیل حدیث نمبر ۱۸ میں بیان ہو گی)
بارہویں حدیث
وصیت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
شیخ ابو الفتوح رازی نے روایت کی ہے کہ جب حضرت امیر المومنین-‘حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمةالزہرا=اکے دفن سے فارغ ہوئے تو قبرستان کی طرف تشریف لے گئے اور فرمایا:۔
اَلسّلااَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَ نَحْنُ لَکُمْ خَلَفٌ وَاِنَّا اَنْشَآءَ اللّٰہِ بِکُمْ لاٰحِقُوْنَ اَمَّا الْمَسَاکِنُ فَقَدْ سُکِنَتْ وَاَمَّا الْاَزْوَاجُ فَنُکِحَتْ وَاَمَّا الْاَمْوَالُ فَقُسِمَتْ ھٰذَا خَبَرٌ مَا عِنْدَنَا فَلَیْتَ شِعْرِیْ مَا خَبَرٌ مَا عِنْدَکُمْ؟ ثُمَّ قَالَ اَمَّا اِنَّھُمْ اِنْ نَطَقُوْا لَقَالُوْا وَجَدْنَا التَّقْوٰی خَیْرَ زَادٍ(۱)
(میزان الحکمت ۔جلد۹۔صفحہ۲۵۳۔بحار الانوارجلد۷۸)
ترجمہ:۔
قبروں میں رہنے والو!تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے جا چکے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں اور انشاء اللہ تم سے جلد ملحق ہوں گے تمہارے اعمال تقسیم ہو چکے ہیں۔تمہارے گھروں میں دوسرے آباد ہو چکے ہیں۔تمہاری بیویوں کے نکاح کہیں اور پڑھ دیئے گئے ہیں۔یہ وہ خبر تھی جو ہمارے پاس تھی تمہارے پاس کیا خبر ہے۔کسی نے(جواب میں)کہا جو کچھ ہم نے کھایا وہ ہمارا
(۱)اس حدیث کی عربی عبارت میں نے میزان الحکمت سے نقل کی ہے۔ شیخ عباس قمی نے اسے ابو الفتوح رازی کی کتاب سے لیا ہے لہٰذا عبارات میں فرق ہے۔البتہ جتنی چہل حدیث میں تھیں میں نے ان سب کا ترجمہ کر دیا ہے۔مترجم
فائدہ تھا۔اور جو کچھ ہم نے آگے بھیجا اسے ہم نے پا لیا اور جو چھوڑ آئے ہیں نقصان کیا۔
(۱) محدث قمی نقل کرتے ہیں امام جعفر صادق-نے ایک وصیت کی خواہش رکھنے والے ایک شخص سے فرمایا :
سفر آخرت کے لئے زاد راہ اکٹھا کرو ۔اور جانے سے پہلے اسے بھیج دو تا کہ تمہیں مرتے وقت دوسروں سے التماس اور وصیتّ نہ کرنی پڑے کہ وہ بعد میں تمہارے لئے یہ زاد راہ بھیج دیں(۱)۔
(۱)یہ حدیث مختلف کتابوں میں مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ جناب شیخ عباس قمی مرحوم نے اس حدیث کو فارسی میں نقل کیا ہے عربی نہیں لکھی۔ میں نے فقط فارسی عبارت کا ترجمہ کیا ہے۔مترجم
تیرھویں حدیث
نامحرم عورت کی طرف نگاہ کرنے کی مذمت
شیخ صدوق حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کرتے ہیں ۔
مَنْ مَلااَاءَ عَیْنَہ مِنْ اِمْرَئَةٍ حَرَامًا حَشَرَہُ اللّٰہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُسَمَّرًا بِمَسَامِیْرَ مِنْ نَارٍ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی بَیْنَ النَّاسِ ثُمَّ یُوْمَرُ بِہ اِلَی النَّارِ
(سفینةالبحارجلد۲صفحہ۱۷۱)
ترجمہ:۔جو بھی نا محرم عورت کی طرف بھر پور نگاہ کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس طرح محشور فرمائے گا کہ آگ کی میخیں اس میں پیوست ہوں گی اور اللہ تعالیٰ تمام لو گوں کے حساب کتاب سے فارغ ہو کر حکم دے گا کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے (یعنی اتنی مدت اسے اذیت ناک انتظار میں گذارنا پڑے گی)۔
شیخ صدوقنے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے۔
جو شخص کسی نا محرم عورت سے مصافحہ کرے تو قیامت کے دن لوہے کا طوق اس کی گردن میں ہو گا اور زنجیر وں میں جکڑا ہوا ہو گا ۔پس حکم دیا جائے گا کہ اسے آگ میں پھینک دو۔اور جو شخص ایسی عورت کے ساتھ مذاق کرے جس کا وہ مالک نہ ہو یعنی اپنی بیوی اور کنیز کے علاوہ کسی عورت سے مذاق کرے تو ہر لفظ کے بدلے میں ہزار سال محبوس ہو گا۔
اور فرمایا کہ: جو شخص کسی عورت یا کنیز کے ساتھ فعل حرام کر سکتا تھا مگرخوف خدا کی وجہ سے بچا رہا تو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔اور قیامت کے بڑے خوف سے اسے محفوظ رکھے گا بہشت میں داخل کر دے گا۔
چودھویں حدیث
چار چیزوں کے چھپانے کے بارے میں
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ اَلْبَاقِرُعلَیْہِ السَّلااَامُ:
اَرْبَعٌ مِنْ کُنُوْزِ الْبِرِّ
۱; کِتْمَانُ الْحَاجَةِ
۲; وَ کِتْمَانُ الصَّدَقَةِ
۳; وَ کِتْمَانُ الْوَجْعِ
۴; وَ کِتْمَانُ الْمُصِیْبَةِ
(تحف العقول صفحہ۲۱۶)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا:
چار چیزیں نیکی اور اچھائی کے خزانوں میں سے ہیں
۱; اپنی حاجت،
۲; صدقہ،
۳; درد
۴; اور مصیبت کو چھپانا ۔
(محدث قمی )کہتے ہیں کہ کتاب مجموعہ ورام میں احنف سے روایت نقل ہوئی ہے جسے ذکر کرنا مناسب ہے (مصنف کہتے ہیں کہ)میں نے اپنے چچا صعصعہ سے شکم درد کی شکایت کی تو اس نے مجھے ڈانٹ کر کہا:
اپنے جیسے انسان کے سامنے اپنے درد کی شکایت نہ کر کیونکہ جس کے سامنے شکایت کرے گا۔اگ تو وہ شخص تیرا دوست ہو گا تو وہ پریشان ہو گا اور اگر دشمن ہوا تو سن کر خوش ہو گا اسی طرح تجھے کوئی درد عارض ہوا ہے تو اس کی شکایت مخلوق کے سامنے نہ کر۔جو اپنا درد دور کرنے سے قاصر ہے تو تیرا درد دور کرنا اس کے بس میں کیونکر ہو گا۔تجھے ایسی ذات کے سامنے عرض کرنا چاہیے جس نے تجھے اس درد میں مبتلا کیا ہے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ تجھ سے وہ درد دور کرے اور کشائش عنایت فرمائے۔ اے بھتیجے چالیس سال ہو گئے ہیں کہ میری ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی ہے۔اس آنکھ کے ذریعے کوہ وبیاباں کی کوئی چیز دکھایٴ نہیں دیتی۔لیکن میں نے ابھی تک اس کا ذکر اپنے اہل وعیال سے نہیں کیا۔
پندرھویں حدیث
مومن کی حاجت پوری نہ کرنے کی مذمت
رَوَیَ اَبَانُ ابْنُ تَغْلِبُ عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلاامُ:
اَیُّمَا مُوْمِنٍ سَاَلَ اَخَاہُ الْمُوْمِنُ حَاجَةً وَھُوَ یَقْدِرُ عَلٰی قَضَائِھَا فَرَدَّہ عَنْھَا سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ شُجَاعًا فِیْ قَبْرِہ یَنْھَشُ مِنْ اَصَابِعِہ
(عدةالداعی صفحہ۱۹۰)
ترجمہ:۔
شیخ اجل ابن فہد حلی نے ابان بن تغلب کے ذریعے امام جعفر صادق-سے روایت نقل کی ہے:
جب کو ئی شخص اپنے مومن بھائی سے کوئی کام کہے اور وہ کر سکنے کے با وجود انجام نہ دے۔تو اللہ تعالیٰ قبر میں اس پر بہت بڑا سانپ مسلط کرے گا۔جس کا نام شجاع ہے ۔جو ہمیشہ اس کی انگلیوں کو ڈستا رہے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ
وہ سانپ اس کی انگلی کو ڈستا رہے گا قیامت تک(یعنی اس آدمی کے بخشے جانے یا عذاب میں مبتلا ہونے تک)۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں دینی بھائیوں کی حاجت روائی کے بارے میں بہت سی روایات ہیں۔امام باقر-سے مروی ہے:
جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روا ئی کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر ہزار فرشتوں کا سایہ کرتا ہے اور حاجت روائی کے لئے اٹھائے جانے والے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک برائی مٹا دی جائے گی اور ایک درجہ بلند کر دیا جائے گا۔اور جب اس کے کام سے فارغ ہو گا تو اس کے لئے حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔
حضرت امام جعفر صادق-سے منقول ہے:
مومن بھائی کی حاجت پوری کرنا حج ،حج اور حج ہے۔حتیٰ کہ دس بار آپ نے تکرار فرمایا ہے
روایت میں آیا ہے کہ
جب بنی اسرائیل میں کوئی عابد عبادت کی حد کو پہنچ جاتا تھا۔ تو تمام عبادات سے لوگوں کی حاجت کے لئے کوشش کرنے کو اختیار کرتا تھا۔
اور جناب شاذان ابن جبرائیل قمی نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ شب معراج حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے جنت کے دوسرے دروازے پر یہ کلمات لکھے ہوئے دیکھے
ہر چیز کا وسیلہ ہے اور آخرت میں خوشی کا وسیلہ چار چیزیں ہیں یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرنا ،بیوہ عورتوں پر مہربانی کرنا ، مومنین کی حاجات پوری کرنا ، فقیروں اور مسکین لوگوں کی خبر گیری اور خدمت کرنا ۔
لہٰذا علماء ‘بزرگان دین اور مومنین کی حاجات پوری کرنے کے لئے بہت اہتمام کرتے تھے چنانچہ اس موضوع سے متعلق بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں جن کا ذکر یہاں پر طول کا سبب بنے گا۔
سولہویں حدیث
مومنین کو خوش کرنے کےبارے میں
شیخ کلینی و صدوق نے سدید صیرفی سے ایک طولانی حدیث نقول کی ہے۔
قَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ:
اِذَا بَعَثَ اللّٰہُ الْمُوْمِنَ مِنْ قَبْرِہ خَرَجَ مَعَہُ مِثَالُ یُقَدِمُہ اَمَامَہ کُلَّمَا رَاْیَ الْمُوْمِنُ ھَوْلًا مِنْ اَھْوَالِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ قَالَ لَہُ الْمِثَالُ لاٰ تَفْزَعُ وَ لاٰ تَحْزَنْ وَاَبْشِرْ بِالسُّرُوْرِ وَ الْکَرَامَاتِ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ حَتّٰی یَقِفَ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّفَیُحَاسِبُہ حِسَابًا یَسِیْرًا وَ یَاْمُرُ بِہ اِلَی الْجَنَّةِ وَ الْمِثَالُ اَمَامَہ فَیَقُوْلُ لَہُ الْمُوْمِنُ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ نِعْمَ الْخَارِجُ خَرَجْتَ مَعِیْ مِنْ قَبْرِیْ وَمَا زِلْتَ تَبْشِرُنِیْ بِالسُّرُوْرِ وَالْکَرَامَاتِ مِنَ اللّٰہِ حَتّٰی رَاَیْتَ ذَالِکَ فَیَقُوْلُ مَنْ اَنْتَ؟ فَیَقُوْلُ اَنَا السُّرُوْرُ کُنْتَ اَدْخَلْتَ عَلٰی اَخِیْکَ الْمُوْمنِ فِی الدُّنْیَاخَلَقَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْہُ
(اصول کافی جلد۳صفحہ۲۷۳)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا :
جب اللہ تعالیٰ مومن کو قبر سے اٹھائے گا تو اس کے ساتھ ایک مثالی صورت بھی قبر سے نکلے گی جو اس کے آگے آگے ہو گی پس قیامت کی ہولناکی جب وہ مومن دیکھے گا۔تو مثالی صورت اسے کہے گی پریشان نہ ہو ڈر نہیں تجھے خدا کی طرف سے سرور اورعزت وکرامت کی خوشخبری ہو اسے لگا تار یہ حوصلہ و تسلی ملتی رہے گی۔یہاں تک کہ جب حساب کے مقام پر وہ مومن پہنچے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے آسان حساب لے گا۔ اس پر بھی وہ صورت خوشخبری دے گی۔اللہ تعالیٰ اسے جنت میں جانے کا حکم دے گا۔وہ مثالی صورت مومن کے آگے آگے ہو گی تو مومن اس سے کہے گا خدا تم پر رحمت کرے تم میرے لئے بہترین ساتھی تھے۔تم میری قبر سے میرے ساتھ نکلے ہو اور مسلسل مجھے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے خوشی اور کرامت کی بشارت دیتے رہے ہو یہاں تک کہ میں نے وہ سرور و کرامت خود دیکھی ہے۔اب یہ بتاو تم کون ہو؟وہ کہے گی کہ تو نے دنیا میں اپنے مومن بھائی کو خوش کیا تھاتو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خوشی سے پیدا کیا ہے تا کہ تمہیں روز قیامت خوش رکھ سکوں۔
سترھویں حدیث
صلہ رحمی اور امانت کے بارے میں
علامہ مجلسینے ثقہ جلیل حسین ابن سعید اہوازیسے اور انہوں نے امام محمد باقر-سے روایت کی ہے کہ حضرت- نے فرمایا کہ ایک آدمی نے جناب ابوذر(رحمۃ اللہ علیہ) کو بکریوں کی بچے پیدا ہونے کی خوشخبری دی کہ تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری بکریوں نے بچے دیئے ہیں اور اب بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔جناب ابو ذر (رحمۃ اللہ علیہ)نے کہا ان کا زیادہ ہونا مجھے خوش نہیں کرتا اور مجھے یہ بات پسند نہیں ہے پس جو کم ہو لیکن کفالت کرے اس زیادہ سے بہتر ہے جو انسان کو اپنی طرف مشغول کر لے کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے:
یَقُوْلُ عَلٰی حَافَتِی الصِّرَاطِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَلرِّحْمُ وَ الْاَمَانَةُ فَاِذَا مَرَّ عَلَیْہِ الْوُصُوْلُ لِلرَّحِمِ الْمُوٴَدِّی الْاَمَانَةِ لَمْ یَتَکَفَاءَ بِہ فِی النَّارِ(سفینة البحارجلد ۱صفحہ۴۱)
ترجمہ:۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:
پل صراط کے دونوں طرف قیامت کے دن رحم اور امانت ہوں گے پس جب قریب سے صلہ رحمی کرنے والا، امانت ادا کرنے والا گزرے گا تو وہ دونوں اس کو جہنم میں گرنے سے بچائیں گے
اور ایک اور روایت میں ہے کہ
اگر قطع رحمی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا گذرے گا تو اسے وہا ں کوئی عمل فائدہ نہ دے گا۔بلکہ پل صراط اسے جہنم میں گرا دے گی۔
اٹھارہویں حدیث
روزگار زندگی میں حساب و کتاب رکھنے کے بارے میں
قَالَ اَبُوْ جَعْفَرٍ اَلْبَاقِرُ عَلَیْہِ السَّلامُ:
اَلْکَمَالُ کُلُّ الْکَمَالِ اَلتَّفَقَّہُ فِیْ الدِّیْنِ وَ الصَّبْرُ عَلَی النَّائِبَةِ وَ تَقْدِیْرُ الْمَعِیْشَةِ
(تحف العقولصفحہ۲۱۳)
ترجمہ:۔
امام محمد باقر-نے فرمایا:
سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ دین کو اچھی طرح سے سمجھا جائے‘ مصیبت پر صبر کیا جائے‘اخراجات زندگی میں حساب و اندازہ گیری کو دخل حاصل ہے۔
شیخ عباس قمیکہتے ہیں کہ آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ماہانہ آمدنی کا اندازہ لگائے اور اس کے مطابق خرچ کرے پس جب کسی کی آمدنی تین روپے ہو تو اسے چاہیے کہ روزانہ ایک روپیہ(یعنی اپنی آمدنی کا ایک تہائی) خرچ کرے اور اس سے زیادہ خرچ نہ کرے اگر اتفاقاً ایک دن زیادہ خرچ کرے تو دوسرے دن کم خرچ کرے۔تا کہ سوال کرنے اور قرض اٹھانے کی ذلت سے دو چار نہ ہو نا پڑے۔ استاد ثقة الاسلام نوری کتاب مستدرک الوسائل کے خاتمہ میں نقل کرتے ہیں :
ملا علامہ محمد تقی مجلسی کی والدہ عارفہ مقدسہ صالحہ تھی ان کے تقویٰ کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب ان کے شوہر ملاّ مقصودعلی سفر پر جانے لگے تو اپنے بیٹوں ملا محمد تقی مجلسی اور ملا محمد صادق کو علامہ مقدس و پرہیز گار ملا عبداللہ شو شتری کے پاس تحصیل علم دین کے لئے لے آئے اور ان کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کی تعلیم کا خیال رکھیں اس کے بعد سفر پر چلے گئے۔
پس ان دنوں میں عید آئی جناب ملا عبداللہ نے تین تومان (ایرانی سکہ) ملا محمد تقی مجلسی کو دیئے اور فرمایا کہ انہیں اپنی معاشی ضروریات کے لئے خرچ کرے انہوں نے فرمایا کہ ماں کی اجازت اور اطلاع کے بغیر خرچ نہیں کر سکتے۔جب اپنی والدہ کی خدمت میں آئے تو ان کو سارا قصہ بتایا تو ماں نے بتایا کہ تمہارے باپ کی ایک دکان ہے جس کا غلہ چودہ روپے کا ہے اور وہ تمہارے اخراجات کے برابرہے۔جس طرح میں نے تمہارے لئے تقسیم اور معین کیا ہے اس عرصے میں تمہاری یہ عادت بن گئی ہے۔ اب اگر یہ تین تومان لے لوں تو تمہارے لئے معیشت میں خرابی پیدا ہو جائے گی۔یہ پیسے ختم ہو جائیں گے اور تم پہلی عادت بھلا دو گے۔پھر اپنے کم اخراجات پر صبر نہ کر سکو گے تو میں بھی مجبورہو جاوٴں گی کہ اکثر اوقات تمہاری تنگدستی کی شکایت ملا عبداللہ اور دوسروں کے پاس لے جاوٴں اور یہ کام ہماری شان کے لائق نہیں ہے۔
پس یہ بات ملا عبداللہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے ان دونوں بھائیوں کے حق میں دعا کی اور ان کی دعا خدا نے قبول کی اور اس جلیل سلسلہ کو دین کے حامیوں اور شریعت سید المرسلین پیغمبر آخر الزمان(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مروجین اور پھیلانے والوں میں قرار دیا اور خدا ان میں سے علامہ مجلسی جیسی شخصیت کو سامنے لایا۔
فائدہ آ پ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس حدیث میں سختیوں اور مصیبتوں میں صبر کی ترغیب دلا ئی گئی ہے صبر کی تعریف و مدح میں روایات اور حکایات بہت ہیں میں یہاں پر ایک روایت اور حکایت پر اکتفا کرتا ہوں ۔
امام جعفر صادق-سے منقول ہے:
جب مومن کو قبر میں داخل کرتے ہیں تو نماز اس کے دائیں طرف اور زکوٰة اس کے بائیں طرف ہوتی ہے۔ اس کی نیکی ا س کے سر کی طرف اور صبر اس کے ایک طرف کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جب سوال کرنے والے دو فرشتے آتے ہیں تو صبر نماز ، زکوٰة اور نیکیوں کو کہتا ہے کہ اپنے ساتھی کا خیال رکھو اور اس کی حفاظت کرو جب تم عاجز ہو جاؤ تو اس کے ساتھ ہوں۔
حکایت
بعض تاریخوں میں نقل ہوا کہ کسریٰ حکیم بزر جمہر پر غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ اسے ایک اندھیری جگہ پر قید کردیں اور زنجیروں اور طوقوں میں جکڑ دیں کچھ دن اسی حالت میں گزر گئے کسریٰ نے ایک دن کسی کو بھیجا کہ اس کی خبر لے آوٴ اور اس کا حال معلوم کرو جب وہ آدمی دیکھنے کو آیا تو اس نے اس حکیم کو پر سکون و آرام اور خوشحال اطمینان کی حالت میں دیکھا تو وہ دیکھنے والا کہنے لگا تو اتنی تنگی اور سختی کی حالت میں ہے لیکن یوں لگ رہا ہے کہ تو بہترین آسائش و آرام میں زندگی گزار رہا ہے۔ (آخر وجہ کیا ہے) حکیم بزر گ نے کہا کہ میں نے چھ چیزوں کا ایک معجون تیار کیا ہے اسے استعمال کرتا ہوں اسی وجہ سے میرا وقت اس طرح خوشی میں گزر رہا ہے تو وہ کہنے لگا معجون ہمیں بھی بتاتا کہ سختیوں اور مشکلات کے وقت استعما ل کرکے ہم بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ تو حکیم نے کہا وہ چھ چیزیں یہ ہیں:۔
(۱) اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ
(۲) جو کچھ مقدر میں ہے وہ ہو کر رہے گا
(۳) آزمائش میں مبتلا شخص کیلئے صبر سب سے بہترین چیز ہے
(۴) اگر صبر نہ کروں تو کیا کروں
(۵) اس مصیبت سے زیادہ سخت مصیبت بھی ہوسکتی ہے
(۶) ایک گھڑی سے دوسری گھڑی تک کشائش و آزادی کی امید ہے۔
جب یہ اطلاع کسریٰ بادشاہ کو دی گئی تو اس کی آزادی کا حکم دیا اور اس کا احترام کیا۔
انیسویں حدیث
جھوٹ کی مذمت
شیخ کلینی نے امام باقر-سے روایت ہے کہ حضرت- نے فرمایا:
ِانَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ لِلشَّرِّ اَقْفَالااًا وَ جَعَلَ مَفَاتِیْحَ تِلْکَ الْاَقْفَالِ الشَّرَابِ وَالْکِذْبُ شَرٌّ مِنَ الشَّرَابِ
(سفینہ البحارجلد ۲ صفحہ ۸۳ ۴)
ترجمہ :۔
امام باقر-نے فرمایا :
خداوند عزوجل نے شر اور برائی کیلئے تا لے قرار دیئے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بدتر ہے۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں جھوٹ کی مذمت میں بہت سی روایات ہیں اور اس کی مذمت کیلئے حضرت امیر المومنین-کا یہ فرمان کافی ہے۔ حضرت- نے فرمایا:
اس وقت تک کوئی آدمی ایمان کا ذائقہ نہیں پاسکتا جب تک مکمل طور پر جھوٹ کو نہ چھوڑ دے۔
یعنی سنجیدگی یا مذاق کسی حالت میں بھی جھوٹ نہ بولے۔
بیسویں حدیث
شراب پینے کی مذمت
شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ حضرت- نے فرمایا:
اِنَّ شَارِبُ الْخَمْرِ یَجِیْءُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَسْوَدًّا وَجْھُہ مُزَرَّقَةً عَیْنَاہُ مَائِلااًا شَدْ قُہ سَائِلااًا لُعَابُہ دَالِعًا لِسَانُہ مِنْ قَفَاہُ۔ (بحار۔جلد۷۹صفحہ۱۲۶)
ترجمہ:۔
شراب پینے والا قیامت کے دن اس حال میں محشور ہو گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو گا اس کی آنکھیں نیلگوں ہوں گی اس کا منہ ٹیڑھا ہو گا اور اس کی زبان سے رال(لعاب دہن)بہتی ہو گی اور گدی سے اس کی زبان باہر نکلی ہو گی۔
شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ شراب کی مذمت میں روایات بہت ہیں اور روایات میں آیا ہے کہ شراب ام الخبائث اور ہر برائی کی جڑ ہے اور شرابی پر ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس کی عقل ختم ہو جاتی ہے۔اس وقت وہ اپنے پروردگارکو نہیں پہچانتا ہر گناہ کرتا ہے۔اور ہر حرمت اور احترام کو پامال کرتا ہے۔اور ہر ایک سے قطع رحمی کرتا ہے۔اور ہر برا کام کرتا ہے۔مست آدمی کی باگ شیطان کے ہاتھ میں ہے اگر شیطان اس کو بتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دے تو سجدہ کرتا ہے۔شیطان اس کو جہاں لے جانا چاہے یہ اس کی اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے۔نیز روایت میں آیا ہے:
شرابی سے کسی عورت کی شادی نہ کرو اگر تم نے ایسا کیا تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے تم نے زنا کے لئے کوئی عورت دی ہو‘جب شرابی بات کرے تو اس کی بات کی تصدیق نہ کرو ‘اس کی گواہی قبول نہ کرو ‘اسے اپنے مال میں امانت دار نہ سمجھو یعنی اپنا مال اس کے ہاتھ میں نہ دو اس کے ساتھ دوستی نہ رکھو ‘اس کے سامنے نہ ہنسو اس سے ہاتھ نہ ملاوٴ‘گلے نہ ملو‘اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کرو‘اگر مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ نہ جاوٴ‘شرابی کے ساتھ نہ جاوٴ‘کیو نکہ اگر لعنت نازل ہو تو جو لوگ اس کے ساتھ بیٹھے ہوں گے سب کو گھیر لے گی‘ایسے دستر خوان پر بھی نہ بیٹھو جس پر شراب پی جا رہی ہو‘اور تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ شرابی بت پرست کی طرح ہے۔اور جو شراب پیتا ہے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہو تی۔شرابی قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ کوزہ اس کی گردن میں اور پیالہ اس کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی بدبو ہر قسم کے مر دار سے بد تر ہو گی۔ مخلوقات میں سے جو بھی اس کے پاس سے گزرے گا اس پر لعنت بھیجے گا۔
اکیسویں حدیث
سود کی مذمت
شیخ جلیل القدر علی ابن ابراہیم قمی نے اپنے باپ سے انہوں نے ابن ابی عمیر سے انہوں نے جمیل سے اور انہوں نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ
قَالَ الصَّادِقُ عَلَیْہِ السَّلامُ:
دِرْھَمُ رِبَا اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ سَبْعِیْنَ زَانِیَّةٍ کُلُّھَا بِذَاتِ مَحْرِمٍ فِیْ بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرَامِ
ترجمہ:۔
حضرت امام جعفر صادق-نے فرمایا:
سود کے ایک درہم کی برائی خدا کے نز دیک خانہ کعبہ میں اپنی محرم عورتوں سے ستر بار زنا ء کرنے سے زیادہ ہے۔
شیخ عباس قمی کہتے ہیں۔بہت سی آیات اور روایات سود کی مذمت اور اس کے گناہ کی سنگینی کے بارے میں ہیں۔اسی مضمون کی چند روایات شیخ صدوق نے نقل کی ہیں۔
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امیر المومنین- کو یہ وصیت کی تھی:
یا علی- سود کے ستر(۷۰) جز ہیں ان میں سے سب سے آسان یہ ہے کی انسان اپنی ماں کے ساتھ کعبہ میں نکاح(زنا) کرے۔
نیز رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت نقل ہوئی ہے:
جو سود کھائے اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو جہنم کی اس مقدار سے بھر دے گا جتنا اس نے سود کھایا ہو گا پس اگر اس نے سود کے ذریعے کوئی مال کمایا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا۔ جب اس کے پاس ایک قیراط سود کا ہو گا۔وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کی زد میں ہو گا۔
اور فرمایا:
بد ترین ذریعہ معاش سود کمانا ہے۔
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل ہوا ہے:
جو شخص غیر حلال طریقے سے مال کمائے گا وہ جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب بنے گا ۔
بائیسویں حدیث
امام جعفر صادق- کی نصیحتوں کے بارے میں
شیخ صدوق نے ابان بن تغلب سے روایت نقل کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کونسی چیز انسان میں ایمان کو ثابت رکھتی ہے۔
قَالَ عَلَیْہِ السَّلامُ :
اَلَّذِیْ یُثْبِتُہ فِیْہِ الْوَرْعُ وَالَّذِیْ یَخْرُجُہ مِنْہُ الطَّمْعُ۔
(میزان الحکمتجلد۱صفحہ۳۲۱)
ترجمہ:۔
امام جعفر صادق-نے فرمایا:
جو چیز انسان میں ایمان کو ثابت رکھتی ہے وہ پرہیز گاری ہے۔اور جو چیز انسان سے ایمان کو نکال دیتی ہے وہ لالچ ہے۔
شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ اس باب میں بہت سی روایات ہیں پرہیز گاری اور(ورع)محرمات کو ترک کرنا‘حرام اور مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بچنا۔ عمرو ابن سعید ثقفی سے نقل ہوا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کی کہ میں ہمیشہ آپ کی ملاقات نہیں کر سکتا۔پس آپ مجھے ایسی تعلیم فرمائیں کہ جس پر عمل کروں۔حضرت- نے فرمایا:
میں تجھے اللہ سے ڈرنے اور پرہیز گاری اور نیکیوں کی کوشش کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ نیکیوں کی کو شش کرنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک پرہیز گاری ساتھ نہ ہو۔
حضرت- نے حماد کو فرمایا :
اگر تو چاہتا ہے کہ تیری آنکھیں روشن ہوں(تجھے خوشی حاصل ہو)اور تو دنیا اور آخرت کی بھلائی تک پہنچے تو جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے اس کا لالچ نہ کر اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کر اور دل میں یہ نہ کہہ کہ تو لوگوں میں سے کسی سے بلند مرتبہ ہے اور اپنی زبان کی حفاظت کر جس طرح اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے۔
اور امام زین العابدین-سے نقل ہوا ہے:
میں نے دیکھا ہے کہ تمام اچھائی اور بھلائی لوگوں سے لالچ نہ رکھنے میں جمع ہو چکی تھی میری نظر میں اچھائی صرف اس میں ہے کہ لوگوں کو دیکھتے ہوئے لالچ دل میں نہ آنے دیا جائے۔
تئییسویں حدیث
زناء اور لواط کی مذمت
شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے یہ روایت نقل کی ہے۔
قَالَ عَلَیْہِ السَّلامُ:
لِلزَّانِیْ سِتُّ خِصَالٍ ثَلااَاثٌ فِیْ الدُّنْیَا وَثَلااَاثٌ فِیْ الْآخِرَةِ
فَاَمَّا الَّتِیْ فِیْ الدُّنْیَا۔
فَاِنَّہ یَذْھَبُ بِنُوْرِ الْوَجْہِ
وَ یُوْرِثُ الْفَقْرَ
وَ یُعَجِّلُ الْفَنَآءَ
وَ اَمَّا الَّتِیْ فِیْ الْآخِرَةِ
فَسُخْطُ الرَّبِّ جَلَّ جَلااَالَہ
وَ سُوْءُ الْحِسَابِ
وَ الْخُلُوْدِ فِی النَّارِ
(المواعظ العددیہ صفحہ۱۸۳)
ترجمہ:۔
حضرت امام جعفر صادق-نے فرمایا :
زانی کے لئے چھ سزائیں ہیں۔تین سزائیں دنیا میں اور تین سزائیں آخرت میں۔
وہ تین جو دنیا میں ہیں ۔
(۱)زناء اس کا نور ختم کر دیتا ہے۔
(۲) فقیری اور تنگدستی لاتا ہے
(۳)اسکی فناء میں جلدی کرتا ہے یعنی اسکی عمر کم کرتا ہے۔
اور وہ تین سزائیں جوآخرت میں ہیں وہ یہ ہیں۔
(۱)خدا کا غضب اور ناراضگی۔
(۲ )حساب میں بدی اور
(۳)آگ میں ہمیشگی۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں اس مضمون کی روایات فراواں ہیں کہ نا محرم عورت کے رحم میں نطفہ ڈالنے کا عذاب بہت سخت ہے۔
شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے روایت نقل کی ہے کہ
آدم- کافرزند اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بڑا (برا) عمل نہیں کرتا کہ کسی پیغمبر کو شہید کرے یا کسی امام کو شہید کرے یا خانہ کعبہ کو گرائے جس کو خدا نے اپنے بندوں کا قبلہ قرار دیا ہے یا اپنا پانی کسی ایسی عورت کے رحم میں خالی کرے جو اس پر حرام ہو
(میزان الحکمت صفحہ ۲۳۸)۔
روایت میں ہے کہ حرام زادے کی کچھ علامتیں ہیں۔
(۱)اہل بیت(ع) کا بغض۔
(۲) بچہ اسی حرام کا شوق رکھتا ہے جس سے وہ پیدا ہوا یعنی زناء کا۔
(۳)دین کو حقیر سمجھنا(بے پروائی کرنا)۔
(۴)لوگوں کے ساتھ اس کا چال چلن رہن سہن برا ہو گا۔جس کا رہن سہن بھائیوں کے ساتھ برا ہو یا تو وہ زناء کے ساتھ پیدا ہوا ہے یا اس کی ماں حیض کی حالت میں حاملہ ہوئی ہے۔اور معلوم ہو نا چاہئے کہ لواط کے گناہ کی سنگینی زناء سے زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک امت کو لواط کرنے کی وجہ سے ہلاک کیا۔
روایت میں ہے :
لواط دبر کے علاوہ ہے اور دبر میں داخل کرنا خدا کا انکار کرنا ہے اور جو شخص لڑکے کے ساتھ جماع( یعنی برا فعل) کرے۔ قیامت کے دن وہ جنابت کی حالت میں آئے گا اور دنیا کا پانی اسے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اس پر۔اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم تیار کرے گا جو بہت بری جگہ ہے۔
ثقة الاسلام کلینی نے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے :
جو شخص کسی لڑکے کو شہوت کے ساتھ بوسہ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں ڈالے گا۔
چوبیسویں حدیث
غیبت کی مذمت
شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے روایت کی ہے کہ امام- فرماتے ہیں کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:
اَلْغِیْبَةُ اَسْرَعْ فِیْ دِیْنِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ مِنْ الْاَکِلَةِ فِیْ جَوْفِہ(سفینة البحار جلد۲صفحہ۳۳۶)
ترجمہ:۔
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا :
غیبت آکلہ (وہ بیماری ہے جو عضو کو ختم کر دے)سے بھی زیادہ موذی مرض ہے۔ مسلمان کے دین کو فاسد اور تباہ کر دیتی ہے۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ غیبت کی مذمت میں بہت سی روایات ہیں بعض روایات میں آیا ہے :
غیبت زناء سے بھی بد تر ہے اور غیبت جہنم کے کتوں کا سالن ہے اور غیبت کرنے والا جہنم میں ہمیشہ اپنے بدن کا گوشت کھاتا رہے گا اور واویلا اور ہائے تباہی کہتا رہے گا اور یہ شخص ان چار آدمیوں میں سے ایک ہے کہ اہل جہنم کو اپنے عذاب سے زیادہ اس شخص کی وجہ سے تکلیف ہو گی۔
پچیسویں حدیث
چل خوری کی مذمت
شیخ صدوق نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ایک طولانی حدیث میں روایت کی ہے کہ حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:
وَمَنْ مَشٰی فِیْ نَمِیْمَةِ بَیْنَ اثْنَیْنِ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِیْ قَبْرِہ نَارًا تُحْرِقُہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَاِذَا خَرَجَ مِنْ قَبْرِہ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ تَنِیْنًا اَسْوَدَ یَنْھَشُ لَحْمَہُ حَتّٰی یَدْخُلَ النَّارَ
(تفسیر البصائرجلد۴۸صفحہ۴۴۶)
ترجمہ:۔
حضور اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :
دو آدمیوں کے درمیان چغل خوری کرے تو اللہ تعالیٰ قبر میں اس پر ایک آگ مسلط فرمائے گا جو اسے قیامت تک جلاتی رہے گی۔پس جب اپنی قبر سے باہر آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک بڑا سیاہ سانپ مسلط فرمائے گا جو جہنم میں داخل ہونے تک اس کے گوشت کو اپنے دانتوں سے نو چتا رہے گا۔
شیخ عباس قمیفرماتے ہیں کہ چغل خور کی مذمت میں بھی کافی روایات ہیں اور روایات میں آیا ہے:
جنت چغل خور اور ہمیشہ شراب پینے والے اور دیوث (بے غیرت)پر حرام ہے
اور روایت میں ہے:
کَفَرَ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةُ عَشَرَةَ
اس امت میں دس آدمی کافر ہیں ان میں سے ایک چغل خورہے۔
بد ترین چغل خوری کی قسم سعایت ہے یعنی حکومت کے پاس چغلخوری اور شکایت کرنا۔حدیث میں ہے :
جو شخص لو گوں کی چغلی حکو مت کے پاس لے جائے تو قیامت کے دن آگ کی سو لی پر لٹکایا جائے گا
اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں۔
چھبیسویں حدیث
اس گھر کے بارے میں جوامام جعفر صادق- نے اپنےایک صحابی کو جنت میںخرید کر دیا
عَنْ ھِشَامُ بْنُ الْحَکَمُ قَالَ کَانَ رَجُلٌ مِنْ مُلُوْکِ اَھْلِ الْجَبَلِ یَاْتِیْ الصَّادِقَ عَلَیْہِ السَّلامُ فِیْ حِجَّةِ سِنَةٍ فَیَنْزُلُہ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ فِیْ دَارٍ مِنْ دُوْرِہ فِیْ الْمَدِیْنَةِ وَطَالَ حَجُّہ وَ نَزُوْلُہ فَاَعْطٰی اَبَا عَبْدِاللّٰہ عَلَیْہِ السَّلامُ عَشْرَةَ اَلااَافِ دِرْھَمٍ لِیَشْتَرِیْ لَہ دَارًا وَ خَرَجَ اِلَی الْحَجِّ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ جُعِلَتْ فِدَاکَ اِشْتَرَیْتَ لِیَ الدَّارَ؟ قَالَ نَعَمْ وَ اٰتٰی بِصَکٍ فِیْہِ:
بِسْمِ ا للّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ھٰذَا مَا اِشْتَرٰی جَعْفَرِ بْنُ مُحَمَّدٍ لِفُلااَانِ بْنِ لِفُلااَانِ الْجَبَلِیْ لَہ دَارٌ فِی الْفِرْدَوْسِ حَدُّھَا الْاَوَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ الْحَدُّ الثَّانِیْ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ اَلْحَدُّ الثَّالِثُ اَلْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ وَ الْحَدُّ الرَّابِعُ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ
فَلَمَّا قَرَءَ الرَّجُلُ ذَالِکَ قَالَ قَدْ رَضِیْتُ جَعَلَنِیَ اللّٰہُ فَدَاکَ قَالَ فَقَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ :
اِنِّیْ اَخَذْتُ ذَالِکَ الْمَالُ فَفَرَّقْتُہ فِیْ وُلِدِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَ اَرْجُوْ اَنْ یَّتَقَبَّلَ اللّٰہُ ذَالِکَ وَ یُثِیْبَکَ بِہِ الْجَنَّةِ
قَالَ فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ اِلٰی مَنْزِلِہ وَکَانَ الصَّکُّ مَعَہ ثُمَّ اِعْتَلَّ عِلَّةَ الْمَوْتِ فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاةُجَمَعَ اَھْلَہ وَ حَلَفَھُمْ اَنْ یَجْعَلُوْا الصَّکَّ مَعَہ فَفْعَلُوْا ذَالِکَ فَلَمَّا اَصْبَحَ الْقَوْمُ غَدَوْا اِلٰی قَبْرِہ فَوَجَدُوْ ا الصَّکَّ عَلٰی ظَھْرِ الْقَبْرِ مَکْتُوْبٌ عَلَیْہِ:
وَفٰی وَلِیُ اللّٰہِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ
(مناقب ابن شھر اشوب صفحہ۲۳۳)
ترجمہ:۔
قطب راوندی اور ابن شھر آشوب نے ہشام ابن الحکم سے روایت کی ہے کہ ملوک جبل کا رہنے والا ایک مرد جو امام جعفر صادق-کے دوستوں میں سے تھا اور ہر سال حج کے مو قع پر حضرت- کی ملاقات کے لئے جب مدینہ میں آتا تھا تو امام- اسے اپنے ایک گھر میں ٹھہراتے تھے۔بہت زیادہ محبت کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ حضرت کی خدمت میں ٹھرتا تھا۔حتیٰ کہ جب ایک مرتبہ مدینہ میں آیا تو حج پر جانے سے پہلے دس ہزار درہم امام- کو دیئے کہ اس کے لئے ایک گھر خریدیں تا کہ جب بھی وہ مدینہ آئے تو حضرت کے لئے باعث زحمت نہ ہو۔حج سے واپسی پر حضرت- کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ- نے میرے لئے گھر خریدا ہے ؟حضرت- نے فرمایا: ہاں اور ایک کاغذ اسے دیا اور فرمایا کہ یہ اس گھر کی ملکیت کا کاغذ ہے۔جب اس نے وہ کاغذ پڑھا تو اس میں لکھا تھا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیمیہ قبالہ ہے اس مکان کا جو جعفر بن محمد نے فلاں بن فلاں جبلی کے لئے خریدا ہے وہ گھر جنت الفردوس میں ہے۔اور اس کی چار حدود ہیں پہلی حد رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے گھر کے ساتھ اور دوسری حد امیرالمومنین-کے گھر کے ساتھ ہے۔ تیسری حد حسن بن علی + کے گھر سے ملتی ہے اور چوتھی حد حسین-کے گھر سے ملتی ہے
جب اس نے پڑھا تو کہا میں آپ پر قربان جاؤں میں اس گھر پر راضی ہوں حضرت- نے فرمایا :
اس گھر کے پیسے میں نے امام حسن-اور امام حسین-کی اولاد میں تقسیم کر دیئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ خدا نے تجھ سے یہ پیسے قبول فرما لئے ہوں گے اور بدلے میں جنت عطا فرمائے گا۔
جب اس شخص کی زندگی کے دن ختم ہو نے لگے اور مرض الموت عارض ہوئی تو اس نے اپنے تمام اہل وعیال کو جمع کیا اور انہیں قسم دی کہ میرے مرنے کے بعد یہ کاغذ میری قبر میں رکھیں انہوں نے بھی ایسا ہے کیا دوسرے دن جب اس کی قبر پر گئے تو دیکھا کہ وہ ہی کاغذ قبر کے اوپر پڑا ہوا ہے اس پر لکھا ہوا ہے:
خدا کی قسم جعفر بن محمد+ نے جو کچھ مجھے فرمایا اور جو کچھ لکھا تھا اس کی وفا کی ہے(یعنی پورا کیا ہے مجھے جنت الفردوس میں جگہ مل گئی ہے)۔
وضاحت:۔ قارئین محترم میں نے اصل عربی عبارت کو نقل کیا ہے عربی کا ترجمہ نہیں کیا ۔
ستائیسویں حدیث
ابو بصیر کے ہمسائے کی توبہ
عَنْ اَبِیْ بَصِیْرِ قَالَ کَانَ لِیْ جَارًا یَتْبَعُ السُّلْطَانَ فَاَصَابَ مَالااًا فَاَعَدَّ قِیَّانًا وَ کَانَ یَجْمَعُ الْجَمِیْعَ اِلَیْہِ وَ یَشْرَبُ الْمُسْکِرَ وَ یُوْذِیْنِیْ فَشَکَوْتُہ اِلٰی نَفْسِہ غَیْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ یَنْتَہِ فَلَمَّا اَنْ اَلْحَحْتُ عَلَیْہِ قَالَ لِیْ یَا ھَدَّ اَنَا رَجُلٌ مُبْتَلَیْ وَاَنْتَ رَجُلٌ مَعَافِیْ فَلَوْ عَرَضْتَنِیْ لِصَاحِبِکَ رَجَوْتُ اَنْ یُنْقِذَنِیَ اللّٰہُ بِکَ فَوَقَعَ ذَالِکَ لَہ فِیْ قَلْبِیْ فَلَمَّا صِرْتُ اِلٰی اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ ذَکَرْتُ لَہ حَالَہ فَقَالَ لِیْ اِذَا رَجَعْتَ اِلَی الْکُوْفَةِ سَیَاتِیْکَ فَقُلْ لَہ یَقُوْلُ لَکَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلامُ دَعْ مَا اَنْتَ عَلَیْہِ وَ اَضْمُنَ لَکَ عَلَی اللّٰہِ الْجَنَّةَ فَلَمَّا رَجَعْتَ اِلَی الْکُوْفَةِ اَتَانِیْ فِیْمَنْ اَتٰی فَاحْتَسَبْتُہ عِنْدِیْ حَتّٰی خَلااَا مُنْزِلِیْ ثم قُلْتُ لَہ یَا ھٰذَا اِنِّیْ ذَکَرْتُکَ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا السّلااَامُ فَقَالَ لِیْ اِذَا رَجَعْتُ اِلَی الْکُوْفَةِ یَاْتِیْکَ فَقُلْ لَہ یَقُوْلُ لَکَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ دَعْ مَا اَنْتَ عَلَیْہِ وَ اَضْمَنُ لَکَ عَلَی اللّٰہِ الْجَنَّةِ قَالَ فَبَکٰی ثُمَّ قَالَ لِیَ اللّٰہُ لَقَدْ قَالَ لَکَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ ھٰذَا؟ قَالَ فَحَلَفْتُ لَہ اِنَّہ قَدْ قَالَ لِیْ مَا قُلْتُ فَقَالَ لِیْ مَا قُلْتُ فَقَالَ لِیْ حَسْبُکَ وَ مَضٰی فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ اَیَّامٍ بَعَثَ اِلَیَّ فَدَعَانِیْ وَ اِذَا ھُوَ خَلَفَ بَابِ دَارِہ عُرْیَانٌ فَقَالَ لِیْ یَا اَبَا بَصِیْرُ لااَا وَ اللّٰہُ مَا بَقِیَ فِیْ مَنْزِلِیْ شَیْءٌ اِلَّا وَ قَدْ اَخْرَجْتُہ وَ اَنَا کَمَا تَرٰی قَالَ فَمَضِیْتُ اِلٰی اِنِّیْ عَلِیْلٌ فَاْتِنِیْ فَجَعَلْتُ اَخْتَلِفُ اِلَیْہِ وَ اَعَالِجُہ حَتیّٰ نَزَلَ بَہِ الْمَوْتُ فَکُنْتُ عِنْدَہ جَالِسًا وَ ھُوَ یَجُوْدُ بِنَفْسِہ فَغَشٰی عَلَیْہِ غَشْیَةً ثُمَّ قُبِضَ (رَحْمَةُ اللّٰہِ عَلَیْہِ) فَلَمَّا حجَجْتُ اَتَیْتُیَا اَبَا عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَلَمَّا دَخَلْتُ قَالَ لِیْ اِبْتَدَاءً مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ وَ اِحْدٰی رِجْلِیْ فِیْ الصِّحْنِ وَالْاُخْرٰی فِیْ دِھْلِیْزِ دَارِہ یَا اَبَا بَصِیْرِ قَدْ وَفِیْنَا لِصَاحِبِکَ۔
(اصول کافی جلد۲؛صفحہ۳۸۱)
ترجمہ :
ابن شہر آشوب اور ثقة الاسلام کلینی نے ابو بصیر سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبصیر نے کہا کہ میرا ایک ہمسایہ تھا جو حاکم کے مدد گاروں میں سے تھا اور مالدار تھا گانے والی کنیزیں لے رکھی تھیں اور ہمیشہ لہوولعب اور ساز وآواز والوں کے گروہ کی انجمن سجی رہتی تھی اور وہ شراب پیتاتھا اور عورتیں اس کے لئے گاتی تھیں اس کے ہمسایہ ہو نے کی وجہ سے میں ہمیشہ تکلیف اور صدمے میں رہتا تھا ان گناہوں کے سننے کی وجہ سے اس کے پاس چند دفعہ شکایت بھی کی لیکن وہ باز نہ آیا ۔
آخر میں نے اس معاملے میں اس کے ساتھ بے حد مبالغہ اور اصرار کیاتو اس نے کہا کہ اے ابو بصیر میں شیطان کا قیدی اور ہوا وہوس میں مبتلاہوں تو ان چیزوں سے آزاد ہے لیکن اگر تو میری حالت کو اپنے امام جعفر صادق-کی خدمت میں عرض کرے تو امید ہے کہ خدا مجھے خواہشات کی قید سے نجات بخش دے۔
ابوبصیر کہتاہے کہ اس کی بات نے مجھ پر اثر کیا۔جب میں مدینہ گیا اور امام-کی خدمت میں حاضرہواتو اپنے ہمسائے کا حال بیان کیا۔
امام-نے فرمایا: جب توکوفہ جائیگا تو وہ آدمی تجھے ملنے کیلئے آئے گا۔اسے کہنا اگر گناہ ترک کردے تو تیری بہشت کا میں ضامن ہوں ۔
ابوبصیر کہتا ہے ۔کہ جب واپس آیا تو لوگ میری ملاقات کیلئے آئے جب وہ آدمی آیا تو میں نے اسے روک لیا خلوت کے موقع پر میں نے اسے کہامیں نے تیرا حال امام جعفرصادق-کی خدمت میں عرض کیا ہے ۔حضرت نے فرمایا اسے میراسلام کہنا جس حال میں تو ہے اسے چھوڑدے جنت کا میں ضامن ہوں۔ وہ میری بات سن کر رونے لگا اور کہنے لگا تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا واقعی امام جعفر صادق-نے اسی طرح فرمایا ؟میں نے قسم کھا کر کہا اسی طرح فرمایا ہے کہنے لگا کہ یہی میرے لئے کافی ہے۔یہ کہا اور چل دیا۔
پس چند دن گزرنے کے بعد میرے پاس پیغام بھیجا جب میں اس کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ دروازے کے پیچھے برہنہ کھڑا ہے۔مجھے کہنے لگا اے ابو بصیر جو مال بھی میرے گھر میں تھا میں نے اسے باہر نکال دیا ہے اب میں برہنہ و عریاں ہوں۔جب میں نے اس مرد کا یہ حال دیکھا تو اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور اس کے لئے لباس جمع کیا اور اسے پہنایا۔
چند روز بعد اس نے پھر میری طرف ایک آدمی بھیجاکہ میں بیمارہوگیا ہوں میرے پاس پہنچ۔پس میں مسلسل اس کے پاس جانے لگا اور اس کے علاج معالجے میں مشغول ہو گیا جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا۔تو میں اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔اچانک اسے غش آگیا جب ہو ش میں آیا تو کہنے لگا اے ابو بصیر تیرے صاحب حضرت امام جعفر صادق-نے اپنا وعدہ پورا کیا جو مجھ سے کیا تھا یہ کہا اور اس کے روح قبض ہو گئی۔
اس کے بعد میں حج پر گیا جب مدینہ پہنچاتو چاہتا تھا کہ اپنے امام-کی خدمت میں جاوٴں۔حضرت- کے دروازے پر اجازت طلب کی تو میرا ایک پاوٴں صحن میں تھا اور ایک پاوٴں ڈیوڑھی میں تھا کہ امام جعفر صادق-نے اپنے حجرے سے مجھے آواز دی کہ اے ابو بصیر تیرے ساتھی کی جس چیز کی ہم نے ضمانت لی تھی وہ پوری کر دی ہے(۱)۔
(۱)اس عبارت میں بھی تمام دوسری روایات کی طرح عربی دان حضرات کے لئے اصل عربی عبارت نقل کی گئی ہے لیکن تر جمہ فقط اس عبارت کا کیا گیا ہے جو جناب شیخ عباس قمینے ان روایات کا اپنی کتاب چہل حدیث میں فارسی میں نقل کیا ہے۔
اٹھائیسویں حدیث
حضرت علی- کا واعظ و نصیحت کرنا
عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَ کَانَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عِنْدَ کُمْ یَغْتَدِیْ کُلَّ یَوْمٍ بُکْرَةً مِنَ الْقَصْرِ فَیَطُوْفُ فِیْ اَسْوَاقِ الْکُوْفَةِ سُوْقًا سُوْقًا وَ مَعَہُ الدُّرَّةُ عَلٰی عَاتِقِہ وَکَانَ لَھَا طَرْفَانِ وَ کَانَتْ تُسَمَّی السَّبَیْبَةَ فَیَقِفُ عَلٰی اَھْلِ کُلِّ سُوْقٍ فَیُنَادِیْ یَا مَعْشِرَ التُّجَارِ اِتَّقُوْا اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ فَاِذَا سَمِعُوْا صَوْتَہ عَلَیْہِ السَّلامُ اَلْقُوْا مَا بِاَیْدِیْھِمْ وَ اَرْعَوْا اِلَیْہِ بِقُلُوْبِھِمْ وَ سَمِعُوْا بِاَذَانِھِمْ فَیَقُوْلُ عَلَیْہِ السَّلامُ قَدِّ مُوْا الْاِسْتِخَارَةُ وَ تَبَرَّکُوْا بِالسَّھُوْلَةِ وَ اقْتَرَبُوْا مِنَ الْمُبْتَاعِیْنَ وَ تَزِیْنُوْا بِالْحِلْمِ وَ تَنَاھُوْا عَنِ الْیَمِیْنِ وَ جَانِبُوْا الْکِذْبَ وَ تَجَافُوْا عَنِ الظُّلْمِ وَ انْصِفُوْا الْمَظْلُوْمِیْنَ وَ لااَاتَقْرَبُوْا الرِّبَا وَ اَوْفُوْا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَلااَاتَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَائَھُمْ وَلااَاتَعْثَوْا فِیْ الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ فَیَطُوْفُ عَلَیْہِ السَّلامُ فِیْ جَمِیْعِ اَسْوَاقِ الْکُوْفَةِ ثُمَّ یَرْجِعُ فَیَقْعُدُ لِلنَّاسِ(فروع کافی جلد۵صفحہ۱۵۱)
ترجمہ:۔
شیخ کلینی کی روایت ہے امام باقر محمد باقر-نے فرمایا :
امیر المومنین کوفہ میں ہر روز پہلے دارالامارہ سے نکل کر کوفہ کے بازاروں میں گردش فرماتے اور حضرت علی- کے کاندھوں پر تازیانہ ہوتاتھا ۔ جس کے دو سر تھے اور اسے سبیبہ کہتے ہیں۔ حضرت علی- ہر بازار کے سرے پر کھڑے ہو کر آواز دیتے :
اے تاجرو خدا کے عذاب سے بچو
جب لوگ حضرت علی- کی آواز سنتے تو جو کچھ ہاتھ میں ہوتا تھا اسے رکھ کر امام- کی طرف ہمہ تن گوش ہوجاتے ۔
حضرت علی- فرماتے :
خیر کی طلب کو مقدم کرو اور اچھے معاملے کے ذریعہ برکت تلاش کرو اور خریداروں کے نزدیک (یعنی اپنی چیز کی قیمت اتنی زیادہ نہ بتاؤ جو خریدار کی سوچ سے زیادہ ہو) اپنے آپ کو بردباری و تحمل کے ساتھ مزین کرو قسم کھانے سے بچو اگرچہ حق ہی کیوں نہ ہو، جھوٹ سے بچو اور ظلم و ستم سے دور رہو، مظلوموں کے ساتھ انصاف کرو(یعنی اگر کسی خریدار کے ساتھ غبن ہو گیا ہو اور وہ معاملہ ختم کرنا چاہتا ہو تو اس کی بات مان لو) سود کے قریب نہ جاوٴ (یعنی جہاں بھی سود کا احتمال ہو اس سے بچو) پیمانہ اور ترازو پورا رکھو اور لوگو ں کے حقوق کم نہ کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاوٴ۔
بازار سے واپس آکر لوگوں کے فیصلے کرتے تھے۔
ترجمہ فقط شیخ قمی فارسی عبارت کا کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے تمام حدیثیں فارسی میں نقل فرمائی ہیں۔
انتیسویں حدیث
امام جعفر صادق- نے ایک آدمی کو اس کےضمیر کی خبر دی
اِسْمَاعِیْلُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْقَرْشِیْ قَالَ اَتٰی اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ رَجُلٌ فَقَالَ لَہ یَا بْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ رَأَیْتُ فِیْ مَنَامِیْ کَاَنّٰی خَارِجٌ مِنْ مَدِیْنَةِ اَلْکُوْفَةِ فِیْ مَوْضِعٌ اَعْرِفُہ وَکَانَ شِبْحًا مِنْ خَشَبٍ اَوْ رَجُلااًا مَنْحُوْتًا مِنْ خَشَبٍ عَلٰی فَرَسٍ مِنْ خَشَبٍ یَلَوِّحُ بِسَیْفَہ وَانَا شَاھِدُہ فَزِعًا مَرْعُوْبًا فَقَالَ لَہ عَلَیْہِ السَّلامُ اَنْتَ رَجُلٌ تُرِیْدُ اِغْتِیَالَ رَجُلٍ فِیْ مَعِیْشَتِہ فَاتَّقِ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَکَ ثُمَّ یُمِیْتُکَ فَقَالَ الرَّجُلُ اَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ اُوْتِیْتَ عِلْمًا وَ اسْتَنْبِطَتْہُ مِنْ مَعْدَنِہ اُخِبْرُکَ یَا بْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ عَمَّا قَدْ فَسَّرْتُ لِیْ اَنَّ رَجُلااًا مِنْ جِیْرَانِیْ جَائَنِیْ وَ عَرَضَ عَلَیَّ ضَعَتَہ فَھَمَمْتُ اَنَّ اَمْلِکَھَا بِوِکْسٍ کَثِیْرٍ لَمَّا عَرَفْتُ لَیْسَ لَھَا طَالِبٌ غَیْرِیْ فَقَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ وَ صَاحِبُکَ رَجُلٌ یَتَوَلَّانَا وَ یَبْرَءُ مِنْ عَدُوِّنَا؟ فَقَالَ نَعَمْ یَابْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ رَجُلٌ جَیِّدُ الْبَصِیْرَةِ مُسْتَحْکَمُ الدِّیْنِ وَ اَنَا تَائِبٌ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ اِلَیْکَ مِمَّا ھَمَمْتُ بِہ وَ نَوَیْتُہ فَاَخْبِرْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَوْ کَانَ نَاصِبًا حَلَّ لِیْ اِغْتِیَالُہ؟ فَقَالَ اَدِّ الْاَمَانَةَ لِمَنْ اِئْتَمَنَکَ وَ اَرَادَ مِنْکَ النَّصِحَةَ وَ لَوْ اِلٰی قَاتِلِ الْحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلامُ۔(روضة الکافی ۔ جلد ۸ صفحہ ۲۹۳)
ترجمہ:۔
شیخ کلینی کی روایت ہے کہ ایک مرد امام جعفر-کی خدمت میں آیا عرض کی یابن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کوفہ سے باہر نکل کر ایک جگہ آیا وہاں لکڑی کے بنے ہوئے شخص کو دیکھا جو لکٹری کے گھوڑے پر سوار ہے اور اپنی تلوار کو چمکا رہا ہے میں اسے دیکھتے ہوئے دلی طور پر ڈر بھی رہا ہوں اور مرعوب بھی ہوں۔ حضرت- نے فرمایا: تونے ایک مرد کو معاشی طور پر ہلاک کرنے کا ارادہ کیا اور تو یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کا سازوسامان اس سے چھین لے اس خدا سے ڈر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور تجھے موت دے گا۔ اس مرد نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو علم عطا ہوا ہے اور آپ نے علم کو اس کے معدن سے نکالا ہے۔ اے فرزند رسول- میرا ہمسایہ میرے پاس آیا اور اپنی تمام املاک بیچنے کا ارادہ ظاہر کیا، میں نے چاہا کہ کم قیمت پر میں ان املاک کا مالک بن جاؤں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میرے علاوہ کوئی خریدار نہیں ہے۔
حضرت- نے فرمایا کیا وہ آدمی ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزار ہے؟
میں نے عرض کیا: ہاں اے فرزند رسول اس شخص کی بصیرت اچھی ہے اور دین مستحکم ہے میں اللہ تعالیٰ اور آپ- کے حضور اس ارادہ اور نیت سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر اس مرد نے کہا کہ اے فرزند رسول- فرمائیے کہ اگر یہ آدمی ناصبی (آپ- کا دشمن ) ہوتا تو اس کے ساتھ دھوکا فریب کرنا جائز تھا؟حضرت- نے فرمایا کہ جو تجھے امین سمجھے اور تجھ سے نصیحت چاہے اس کی امانت ادا کر اگر چہ امام حسین- کا قاتل ہی کیوں نہ ہو۔
تیسویں حدیث
صلہ رحمی
عَنْ سَالِمَةَ مَوْلااَاةِ اُمِّ وَلَدٍ کَانَتْ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَتْ کُنْتُ عِنْدَ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ حِیْنَ حَضَرْتَہُ الْوَفَاةُ فَاُغْمِیْ عَلَیْہِ فَلَمَّا اَفَاقَ قَالَ اُعْطُوْا الْحَسَنَ بْنَ َعِلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَھُوَ الْاَفْطَسُ سَبْعِیْنَ دِیْنَارًا وَاُعْطُوْا بِالشَّفْرَةِ قَالَ وَیْحَکَ اَمَّا تَقْرَئِیْنَ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلٰی قَالَ اَمَّا سَمِعْتِ قَوْلَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی اَلَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہ اَنْ یُوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْءَ الْحِسَابِ فَقَالَ تُرِیْدِیْنَ اَنْ لَّا اَکُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِیْھِمُ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ……… نَعَمْ یَا سَالِمَةُ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی خَلَقَ الْجَنَّةَ وَ طَیَّبَھَا وَ طَیَّبَ رِیْحَھَا وَ اِنَّ رِیْحَھَا لِیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفَیْ عَامٍ وَ لااَایَجِدُ رِیْحَھَا عَاقٌ وَ لااَاقَاطِعُ رَحِمٍ
(تفسیر عیاشیجلد۲صفحہ ۲۰۹، تھذیب الاحکام (قدیم) جلد ۲صفحہ۳۴۶)
ترجمہ:۔
شیخ طوسی (رحمۃ اللہ علیہ) امام جعفر صادق-کی کنیز سالمہ سے روایت کرتے ہیں میں امام جعفر صادق-کی وفات کے وقت ان کے پاس تھی کہ ایک دفعہ حضرت- پر غش کی حالت طاری ہوئی جب افاقہ ہوا تو فرمایاکہ حسن ابن علی ابن حسین افطس کو ستراشرفی دو اور فلاں فلاں کو اتنی مقدار دو۔
میں عرض کی کیا آپ ایسے مرد عطا کرتے ہیں جس نے آپ- پر خنجر سے حملہ کیا؟ اور آپ- کو قتل کرنا چاہتا تھا؟
فرمایا: تو چاہتی ہے کہ میں ان لوگوں سے نہ بنوں جن کی خدا نے صلہ رحمی کے ساتھ مدح کی ہے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں جن کے ساتھ خدانے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور برے حساب سے ڈرتے ہیں پس حضرت- نے فرمایا:
اے سالمہ خدا نے بہشت کو پیدا کیا اور اسے معطر کیا اور اس کی خوشبو دو ہزار سال کی راہ تک پہنچی ہے لیکن یہ خوشبو عاقِ والدین اور قطع رحمی کرنے والا نہیں سونگھے گا۔
اکتیسویں حدیث
نماز کو اہمیت نہ دینےکی مذمت
عَنْ اَبِیْ بَصِیْرٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی اُمِّ حَمِیْدَةَ اُعَزِّیْھَا بِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ فَبَکََتْ وَ بَکَیْتُ لِبَکَآئِھَا ثُمَّ قَالَتْ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ لَوْ رَاَیْتَ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ عِنْدَ الْمَوْتِ لَرَاَیْتَ عَجَبًا فَتَحَ عَنَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِجْمَعُوْ لِیْ کُلَّ مَنْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہ قَرَابَةٌ قَالَتْ فَلَمْ نَتْرُکَ اَحَدًا اِلَّا جَمَعْنَاہُ قَالَتْ فَنَظَرَ اِلَیْھِمْ ثَمَّ قَالَ اِنَّ شَفَاعَتَنَا لااَاتَنَالُ مُسْتَخِفًّا بِالصَّلٰوةِ۔(عقاب الاعمالصفحہ ۲۸۲)
ترجمہ :۔
شیخ صدوق نے ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق-کی ام ولد حمیدہ(رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں امام- کی شہادت کی تعزیت کیلئے حاضر ہوا۔ْ پس وہ خاتون مجھے دیکھ کر رونے لگی۔ مجھے بھی رونا آگیا اس کے بعد کہنے لگیں۔ اے محمد (ابو بصیر) اگر تو امام جعفر صادق-کو وفات کے وقت دیکھتا توتُو عجیب چیز دیکھتا۔امام- نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا کہ ان تمام افراد کو جمع کرو جن کے ساتھ میری قرابت اور رشتہ ہے۔ پس ہم نے حضرت- کے تمام رشتہ داروں کو حضرت- کے پاس جمع کردیا۔ حضرت- نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا:
ہماری شفاعت ایسے شخص کو نصیب نہ ہوگی جو نماز کو سبک شمار کرے (یعنی نماز کو کوئی اہمیت نہ دے اور اس کی پرواہ نہ کرے)۔
بتیسویں حدیث
دینی بھائی کی حاجت برآری
عَنْ اَبِیْ حَمْزَةَ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَ قُلْتُ لَہ جَعَلْتُ فِدَاکَ مَا تَقُوْلُ فِیْ مُسْلِمٍ اَتٰی مُسْلِمًا زَائِرًا اَوْطَالِبٍ حَاجَةٍ وَ ھُوَ فِیْ مَنْزِلِہ فَاسْتَاذَنْ عَلَیْہِ فَلَمْ یَاْذَنْ لَہ وَ لَمْ یَخْرُجْ اِلَیْہِ؟
قَالَ: یَا اَبَا حَمْزَةَ!اَیُّمَا مُسْلِمًا زَائِرًا اَوْ طَالِبُ حَاجَةٍ وَ ھُوَ فِیْ مَنْزِلِہ فَاسْتَاْذَنَ لَہ وَ لَمْ یَخْرُجْ اِلَیْہِ لَمْ َیزَلْ فِیْ لَعْنَةِ اللّٰہِ حَتّٰی یَلْتَقَیَا۔
فَقُلْتُ جَعَلْتُ فِدَاکَ فِیْ لَعْنَةِ اللّٰہِ حَتّٰی یَلْتَقَیَا؟
قَالَ: نَعَمْ یَا اَبَا حَمْزَةَ۔(اصول کافی جلد۴ صفحہ ۸۱)
ترجمہ:۔
شیخ کلینی نے ابو حمزہ سے روایت نقل کی ہے میں نے امام باقر-کی خدمت میں عرض کی کہ آپ- پر قربان جاؤں ایسے مسلمان کے حق میں آپ- کیا فرماتے ہیں جو مسلمان کی طرف جائے اور اس سے ملاقات کرنے یا کسی اور غرص کے لئے اجازت طلب کرے لیکن وہ مسلمان گھر میں ہونے کے باوجود ملاقات کیلئے باہر نہ آئے۔
تو حضرت- نے فرمایا: اے ابو حمزہ جب تک ان کی ملاقات نہ ہوگی اس وقت تک اس مسلمان پر خداکی لعنت ہوتی رہے گی ۔
ابو حمزہ کہتا ہے کہ میں نے تعجب سے عرض کی آپ- پر قربان جاؤں ملاقات کرنے تک یہ مسلمان خدا کی لعنت میں رہے گا؟
فرمایا ہاں۔
تینتیسویں حدیث
خاموشی کی مدح
قَالَ (عَلِیٌّ) عَلَیْہِ السَّلامُ:
اَلْکَلااَامُ فِیْ وِثَاقِکَ مَا لَمْ تَتَکَلَّمْ بِہ فَاِذَا تَکَلَّمْتَ بِہ صِرْتَ فِیْ وَثَاقِہ فَاخْزَنْ لِسَانَکَ کَمَا تَخْزَنْ ذَھَبَکَ وَ وَرِقَکَ فَرُبَّ کَلِمَةُ سَلَبَتْ نِعْمَةً (وَجَلَبَتْ نِقْمَةً)۔
(نھج البلاحہ کلمہ ۳۸۱مفتی جعفر حسین صفحہ ۳۹۰
ابن اَبِیْ حدید۔ جلد ۱۹ اصل ۳۸۷ صفحہ ۳۲۲)
ترجمہ:۔سید رضی رضوان اللہ علیہ نے حضرت امیر المومنین-سے نقل کیا ہے فرمایا:
جب تک تم نے بات نہیں کہ وہ تمہارے کنٹرول میں ہے لیکن جب بات کہہ ڈالی تو تم اس کے اختیار میں چلے گئے۔ لہٰذا اپنی زبان کی اسی طرح حفاظت کرو جس طرح اپنے سونے چاندی کی حفاظت کرتے ہو کیونکہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی بڑی نعمت کو چھین لیتی ہیں اور کسی عذاب کا موجب بنتی ہیں۔
فقیر (شیخ عباس قمی) کہتا ہے کہ خاموشی کی مدح میں روایات بہت ہیں یہاں نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
چونتیسویں حدیث
ان لوگوں کے بارے میں جوانسانیت سےدور ہیں
اِنَّہ قِیْلَ لِاَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ اَتَرٰی ھٰذَا الْخَلْقَ کُلَّہ مِنَ النَّاسِ؟
فَقَالَ:
اَلْقِ مِنْھُمُ التَّارِکَ لِلسِّوَاکَ
وَ الْمُتَرَبِّعَ فِیْ مَوْضِعِ الضِّیْقِ
وَ الدَّاخِلَ فِیْمَا لااَا یَعْنِیْہِ
وَالْمَمَارِیْ فِیْمَا لااَاعِلْمَ لَہ بِہ
وَ الْمُتَمَرِّضَ مِنْ غَیْرِ عِلَّةٍ
وَالْمُتَشَعِّثَ مِنْ غَیْرِ مُصِیْبَةٍ
وَالْمُخَالِفَ عَلٰی اَصْحَابِہ فِیْ الْحَقِّ وَ قَدْ اِتَّفَقُوْا عَلَیْہِ
وَالْمُفْتَخِرَ بِاَبَائِہ وَ ھُوَ خَلَوٌ مِنْ صَالِحِ اَعْمَالِھِمْ فَھُوَ بِمَنْزِلَةِ الْخَلَنْجِ یُقْشَرُ لَحَا عَنْ لَحَا حَتّٰی یُوْصَلَ اِلٰی جَوْھَرِیَّتِہ وَ ھُوَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ اِنَّ ھُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلااًا۔
(بحار الانوارجلد۷۰ صفحہ ۱۱)
ترجمہ:
شیخ صدوق نے روایت کہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق-سے پوچھا گیا یہ مخلوق جو آپ- دیکھ رہے ہیں کیا یہ تمام لوگ انسانیت اور آدمیت میں شمار ہوتے ہیں تو جواب میں فرمایا ان افراد کو آدمیت کی صف سے خارج کردو آپ- نے فرمایا :
اس کو انسانوں اور آدمیوں کی صف سے نہ سمجھو جو مسواک نہ کرے ،
جو تنگ جگہ پر چوپڑی مار کر بیٹھے،
جو ایسی بات یا کام میں (خوا ہ مخواہ)دخل اندازی کرے جو اس کے مطلب کی نہ ہو،
جو ایسی بات پر جھگڑے جس کا اسے علم تک نہ ہو،
جو بغیر کسی وجہ کے بیمار بن جائے،
جو غیر مصیبت کے اپنے بالوں کو غبار آلود کرے اور بکھیرے،
حق میں اپنے ساتھیوں کی مخالفت کرے جبکہ آپس میں متفق ہوں،
اور جو اپنے آباء و اجداد پر فخر کرے حالانکہ ان کے اچھے کاموں سے خالی ہو وہ آرمی خلنج (جس کو فارسی میں خدنگ کہتے ہیں اس کے چھلکے) کی طرح ہے اس درخت کی لکڑی تیر بنانے کیلئے مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے چھلکے کو اتار دیتے ہیں تاکہ اس کے اصلی جوہر تک پہنچ جائیں پس جس طرح خدنگ کا درخت کا چھلکا اتار کر پھینک دیتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ اس لکڑی کے مغز اور جوہر کے بہت ہی قریب ہوتا ہے اسی طرح جو اپنے آباء واجداد کے فضائل سے خالی ہے اسے بھی دور پھینکتے ہیں۔ اور اس کی پرواہ نہیں کرتے یہ اسی طرح ہے جس طرح خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ وہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ اور راہ سے دور ہیں۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ بہترین بات کہی ہے جس نے کہا ہے۔
اَلْعَاقِلُ یَفْتَخِرُ بِالْھِمَمِ الْعَالِیَةِ لااَا بِالرَّمَمِ الْبَالِیَةِ کُنْ اِبْنَ مَنْ شِئْتَ وَاکْتَسِبْ اَدَبًا یُغْنِیْکَ مَحْمُوْدُہ عَنِ النَّسَبِ اِنَّ الْفَتٰی مَنْ یَقُوْلُ ھَا اَنَاذَا لَیْسَ الْفَتٰی مَنْ یَّقُوْلُ کَانَ اَبِیْ۔
عقل مند انسان بلند ہمت پر فخر کرتا ہے نہ کہ (آباء و اجداد کی) بوسیدہ ہڈیوں پر جس کا بھی چاہے بیٹا بن جا۔لیکن ادب سیکھ اچھا ادب تجھے نسب سے بے نیاز کردے گا۔ جوان مرد وہ ہے جو یہ کہے کہ میں یہ ہوں (اتنے کمالات وفضائل کا مالک ہوں)نہ کہ کہے کہ میرا باپ ایسا تھا۔
پینتیسویں حدیث
امیر المومنین- کی فرمائش
عَنْ عَبْدِالْعَظِیْمِ الْحَسَنِیْ قَالَ قُلْتُ لِاَبِیْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ ابْنِ عَلِیِّ الرَّضَا عَلَیْھِمَا السَّلااَامُ یَا بْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ بِحَدِیْثٍ عَنْ اَبَآئِکَ فَقَالَ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَنْ جَدِّیْ عَنْ اَبَآئَہ عَلَیْھِمُ السّلااَامُ قَالَ:
قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلامُ: لااَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا تَفَاوَتُوْا فَاِذَا اسْتَوَوْا ھَلَکُوْا
قَالَ قُلْتُ لَہ زِدْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ قَالَ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ عَنْ جَدِّیْ اَبَآئِہ عَلَیْھِمُ السّلااَامُ قَالَ:
قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلامُ اِنَّکُمْ لَنْ تَسَعُوْا النَّاسَ بِاَمْوَالِکُمْ فَسَعَوْھُمْ بَطَلااَاقَةِ الْوَجْہِ وَ حُسْنِ اللِّقَاءِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّکُمْ لَنْ تَسَعُوْا النَّاسَ بِاَمْوَالِکُمْ فَسَعُوْھُمْ بِاَخْلااَافِکُمْ
قَالَ قُلْتُ لَہ زِدْنِیْ یَا بْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فقَالَ:
قَالَ اَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلامُ مَنْ عَتَبَ عَلَی الزَّمَانِ طَالَتْ مَعْتَبَتُہ
(سفیة البحار جلد ۲ صفحہ ۱۲۰)
ترجمہ:۔
شیخ صدوق نے جناب عبدالعظیم بن عبداللہ حسنی سے نقل کیا ہے۔ میں نے امام محمد تقی-کی خدمت میں عرض کی کہ اے فرزندِ رسول- مجھے ایسی حدیث سنائیں جو آپ- کے آباء واجداد سے نقل کی ہوئی ہو۔حضرت- نے فرمایا کہ میرے باپ نے اپنے آباء(ع) سے نقل کیا ہے :
امیرالمومنین-نے فرمایا : لوگ اس وقت تک ہمیشہ خیر و خوبی اور بھلائی میں رہیں گے جب تک ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہوں گی۔ جب تمام ایک جیسے ہوگئے تو ہلاک ہو جائیں گے۔
میں (جناب العظیم ) نے عرض کی فرزند رسول-کچھ اور فرمائیں پھر حضرت امام محمد تقی-نے آباء و اجداد کے ذریعے امیر المومنین-سے نقل کیا:
اگر تمہیں ایک دوسرے کے عیب معلوم ہوجائیں تو ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرو گے
میں (جناب العظیم) نے عرض کی فرزند رسول-اور فرمائیے پھر حضرت نے اپنے آباء اور امیر المومنین-سے نقل فرمایا:
تمہارے مالوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ایک دوسرے کو دو (یعنی مال کے ذریعہ ایک دوسرے کو خوشحال نہیں کرسکتے ) لہٰذا ایک دوسرے کو کشادہ روئی اور خوش اخلاقی کے ذریعہ خوشحال کرو کیو نکہ میں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کو مال کے ذریعہ وسعت نہیں دے سکتے۔ پس اخلاق کے ذریعہ وسعت دو۔
جناب عبدالعظیم فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی فرزند رسول-کچھ اور فرمائیے تو حضرت- نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے:
جو زمانے پر غصہ و عتاب کرے تو اس کا یہ عتاب طولانی ہوگا۔
یعنی زمانے کی مناسب باتیں ایک دو تو نہیں ہیں کہ جن کے ختم ہونے سے آدمی کا غصہ ختم ہوجائے بلکہ بہت زیادہ اور حدوشمار سے باہر ہیں پس نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا غصہ طولانی ہوگا۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں حضرت- کا فرمان نہج البلاغہ میں اسی معنی میں ہے کہ فرمایا:
کانٹوں سے چشم پوشی کرو ورنہ کبھی خوش نہ رہو گے
یعنی دنیا کی نا پسندباتوں ، رنج، بلاوٴں اور بے وفا دوستوں کی نا مناسب باتوں سے چشم پوشی کر اور انہیں برداشت کر، ورنہ کبھی بھی خوش نہ ہوگا اور ہمیشہ غصہ میں رہے گا اور تلخ زندگی گزارے گا کیونکہ دنیا کی طبیعت ہی نا پسند چیزوں کیے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
روایت میں ہے کہ امام زین العابدین- نے اپنے بیٹے کو فرمایا:
اگر کسی نے تیرے دائیں طرف کھڑے ہو کر تجھے گالی دی اور پھر بائیں طرف آکر معذرت خواہی کرلی تو اسے معاف کردے اور اس کا عذر قبول کر لو
جناب عبدالعظیم نے کہا کہ میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی کچھ اور بیان کیجئے۔
قَالَ قَالَ اَمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ مُجَالِسَةُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَارِ
آپ- نے فرمایا: حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے: برے لوگوں کی ہم نشینی اچھے لوگوں پر بد گمانی کا باعث بنتی ہے
جناب عبدالعظیم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی مزید فرمائیں حضرت- نے فرمایا کہ امیر المومنین-کا ارشاد ہے
بِئْسَ الزَّادِ اِلَی الْمَعَادِ الْعُدْوَانُ عَلَی الْعِبَادِ
برا زاد(کمائی) یہ ہے کہ اللہ کے بندوں پر ظلم کیا جائے
مرحوم شیخ عباس قمی فرماتے ہیں یہ بھی حضرت امیر المومنین-کے کلمات میں سے ہے۔
اَلْبَغِیْ آخِرُ مُدَّةِ الْمَلُوْکِ
بغاوت بادشاہوں کی آخری مدت ہوتی ہے
(جناب عبدالعظیم کہتے ہیں ) میں نے امام محمد تقی-سے عرض کی مزید فرمائیں حضرت- نے فرمایا حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے۔
قَیِّمَةُ کُلِّ امْرِیءٍ مَّایُحْسِنُہ
یعنی ہر آدمی کی قیمت اور ہر شخص کا مرتبہ وہی علم وہنر اور عرفان ہے جسکو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔
مولا کے اس جملے کا مقصد یہ ہے کہ کمالات نفسانیہ کو حاصلہ کیا جائے نیز صناعات اور ان کی مثل حاصل کرنے کی رغبت و خواہش ہونا چاہیے خلیل ابن احمد نے کہا ہے کہ بہترین کلمہ جو آدمی کو طلب علم و مغفرت کی رغبت دلاتا ہے مولا کا یہ جملہ ہے جس میں فرمایا ہے کہ ہر مرد کی قدر و قیمت وہی چیز ہے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے۔
میں (جناب عبدالعظیم ) نے عرض کی حضور کچھ مزید فرمائیے۔ تو فرمایا کہ حضرت امیر المومنین-کا ارشاد ہے
اَلْمَرْءُ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِسَانِہ
مرد اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے
یعنی جب تک وہ بولے گا نہیں اس کی قدر و قیمت معلوم نہ ہوسکے گا۔ اسی لئے فرمایا ہے
تُکَلَّمُوْا تُعْرَفُوْا
بولو تاکہ پہچانے جاؤ۔
میں (جناب عبدالعظٰم ) نے عرض کی اے فرزند رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے حضرت نے فرمایا :
مَا ھَلَکَ امْرَءٌ عَرَفَ قَدْرَة
وہ آدمی ہلاک نہ ہوا جس نے اپنی قدر کو پہچانا
میں (جناب عبدالعظیم) نے عرض کہ اے فرزند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین- نے فرمایا:
اَلتَّدْبِیْرُ قَبْلَ الْعَمَلِ یُوٴْمِنُکَ مِنَ النَّدَمِ
کام کرنے اور اقدام کرنے سے پہلے تدبیر (منصوبہ بندی) کرنا تجھے پشیمانی اور ندامت سے محفوط رکھے گا۔
شیخ عباس قمی فرماتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق-یہی مطلب اپنی وصیت میں عبد اللہ ابن جندب کو بیان فرمایا :
کسی بھی کام سے پہلے اس میں داخل ہونے اور خارج ہونے کی راہ کو پہچان ورنہ پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(عبدالعظیم کہتے ہیں کہ) میں نے کہا کچھ اور فرمائیے یابن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ۔
حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے:
خَاطَرَ بِنَفْسِہ مَنِ اسْتَغْنٰی بِرَاْیِہ
اس آدمی نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا جو اہم ترین کاموں میں اپنی رائے اور عقل و دانش پر بھرسہ کرتے ہوئے دوسروں سے مشورہ نہیں کرتا۔
(عبدالعظیم کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کی فرزند رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مزید فرمائیے۔ حضرت نے فرمایا کہ امیر المومنین-نے فرمایا ہے۔
قِلَّةُ الْعَیَالِ اَحَدُ الْیَسَارَیْنِ
اہل و عیال کی کمی تو انگریوں میں سے ایک تونگری ہے مال میں۔
کیونکہ جس کے عیال کم ہوں اس کی زندگی آسانی سے گزرتی ہے اور اس کی معیشت زیادہ وسیع ہوتی ہے جس طرح مال میں بھی یہ حالت ہوتی ہے۔
میں (جناب عبد العظیم ) نے عرض کہ فرزند رسول- مزید فرمائیے فرمایا امیر المومنین-کا ارشاد ہے
مَنْ دَخَلَہُ الْعُجْبُ ھَلَکَ
جس میں بھی خود پسندی داخل ہوئی وہ ہلا ک ہوا۔
میں ( جناب عبدالعظیم ) نے عرض کہ فرزند رسول- مزید فرمائیے فرمایا امیر المومنین-کا ارشاد ہے۔
مَنْ اَیْقَنَ بِالْخَلْفِ جَادَ بِالْعَطِیَّةِ
جو اس بات کا یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ دے رہا ہے اس کا عوض و بدلہ اس کی جگہ آئے گا تو وہ عطا کرنے میں جواں مردی سے کام لے گا۔ کیونکہ جانتا ہے کہ اس عطا کا بدلہ اسے ضرور ملے گا
مصنف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں بعض شعراء نے حضرت امیر المومنین-کی مدح میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
جَادَ بِالْقُرْصِ مَلااَاءَ جَنْبَیْہِ
وَعَافَ الطَّعَامِ وَ ھُوَ سَغُوْبٌ
فَاَعَادَ الْقُرْصُ الْمُنِیْرُ عَلَیْہِ
اَلْقَرْضَ وَالْمُقْرِضَ الْکِرَامَ کَسُوْبٌ
حضرت امیر المومنین-نے جو کہ روٹی بخشی اس حال میں کہ حضرت کے پہلو بھوک سے پر تھے اور حضرت کھانا پسند نہ فرمارہے تھے سائل کی وجہ سے ، پس چونکہ روٹی ٹکیہ سائل کو دی اس کے بدلے میں سورج کی ٹکیہ آسمان پر حضرت- کیلئے پلٹ آئی پس قرض دینے والا کریم شخص کمانے والا اور نفع اٹھانے والاہے۔
نقل ہوا ہے کہ جناب امیر المومنین-نے کھجوروں کے درختوں کو پانی دیا اس کے عوض ایک مد (تقریباً ۱۴ چھٹانک) جو ملے ان کو پیساگیا اور روٹی پکائی گئی جب اس روٹی سے افطار کرنا چاہا تو سائل نے آواز دی حضرت نے وہ روٹی اس کو دے دی اور خود رات کو بھوکے سوئے۔
جناب عبدالعظیم نے کہا میں نے عرض کی فرزند رسول- مزید فرمائیے حضرت امام محمد تقی-نے فرمایا حضرت امیر المومنین-نے فرمایاہے۔
مَنْ رَضِیَ بِالْعَافِیَةِ مِمَّنْ دُوْنَہ رَزَقَ السَّلااَامَةَ مِمَّنْ فَوْقَہ
جو اپنے سے کم( اپنے ماتحت) آدمے کی عافیت اور سلامتی پر راضی اور کواش ہوا تو اس کو اپنے سے اوپر والے آدمی (افسر) کی طرف سے سلامتی نصیب ہوگی۔
عبدالعظیم نے فرمایا کہ میں نے اس وقت امام محمد تقی-کی خدمت میں عرض کیا کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے یہ کافی ہے۔
(امالی شیخ صدوق ۔ص ۳۶۲)
چھتیسویں حدیث
عقائد حضرت عبدالعظیم
رَوَیَ فِیْ کِتَابِ التَّوْحِیْدِ بِاَسْنَادِہ عَنْ عَبْدِالْعَظِیْمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْحَسَنِیْ رَحْمَةُ اللّٰہِ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی سَیِّدِیْ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْھِمُ السّلااَامُ فَلَمَّا بَصَرَ بِیْ قَالَ لِیْ مَرْحَبًا بِکَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ اَنْتَ وَلُیُّنَا حَقًّا قَالَ فَقُلْتُ لَہ یَابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اَعْرَضَ عَلَیْکَ دِیْنِیْ فَاِنْ کَانَ مَرْضِیًّا مَشَیْتُ عَلَیْہِ حَتّٰی اَلْقَی اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلامُ ھَاتَ یَا اَبَا الْقَاسِمِ فَقُلْتُ اِنِّیْ اَقُوْلُ:
اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَاحِدٌ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْءٌ خَارِجٌ مِنَ الْحَدِّیْنِ حَدِّ الْاَبْطَالِ وَ حَدِّ التَّشْبِیْہِ وَ اِنَّہ لَیْسَ بِجِسْمِ وَ لااَا بِصُوْرَةٍ وَ لااَا عَرَضَ وَ لااَا جَوْھَرٍ بَلْ ھُوَ مُجَسِّمٌ الْاَجْسَامِ وَ مُصَوِّرُ الصُّوَرِ وَ خَالِقُ الْاَعْرَاضِ وَ الْجَوَاہِرِ وَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَ مَالِکُہ وَ جَاعِلُہ وَ اِنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ وَ خَاتِمُ النَّبِیِّنَ فَلااَا نَبِیَّ بَعْدَہ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ
وَاَقُوْلُ: اِنَّ الْاِمَامَ وَ الْخَلِیْفَةَ وَ اِلَی الْاَمْرِ مِنْ بَعْدِہ اَمِیْرُ الْمُوٴْمِنِیْنَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلامُ ثُمَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ عَلِیَّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ مُحَمَّدَ بْنِ عَلِیِّ عَلَیْھُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ جَعْفَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرٍ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ عَلِیَّ بْنَ مُوْسَی عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ مُحَمَّدَ بْنِ عَلِیٍّ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ ثُمَّ اَنْتَ یَامَوْلااَایَ
فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلامُ: وَ مِنْ بَعْدِی الْحَسَنُ ابْنِیْ فَکَیْْفَ لِلنَّاسِ بِالْخُلْفِ مِنْ بَعْدِہ؟
قَالَ فَقُلْتُ وَ کَیْفَ ذٰلِکَ یَا مَوْلااَایَ؟
قَالَ:لِاَنَّہ لااَایُرٰی شَخْصُہ وَلااَا یَحِلُّ ذِکْرُہ بِاسْمِہ حَتّٰی یَخْرُجُ فِیَمْلااَاءُ الْاَرْضَ قِسْطًا وَّعَدْلااَا کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّظُلْمًا۔
قَالَ فَقُلْتُ اَقْرَرْتُ وَاَقُوْلُ اِنَّ وَلِیَّھُمْ وَلِیَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّھُمْ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ طَاعَتَھُمْ طَاعَةُ اللّٰہِ وَ مَعْصِیَّتَھُمْ مَعْصِیَّةُ اللّٰہِ۔
وَ اَقُوْلُ: اِنَّ الْمِعْرَاجَ حَقٌّ وَ اِنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ وَ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَ الْمِیْزَانَ حَقٌّ وَ اِنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لااَارَیْبَ فِیْھَا وَ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِیْ قُبُوْرٍ ۔
وَّ اَقُوْلُ: اِنَّ الْفَرَائِضَ الْوَاجِبَةَ بَعْدَ الْوَلااَایَةِ اَلصَّلٰوةُ وَ الزَّکٰوةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِھَادُ وَ الْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھِیُ عَنِ الْمُنْکَرِ۔
فَقَالَ: عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ یَا اَبَا قَاسِمٍ ھٰذَا وَ اللّٰہِ دِیْنُ الَّذِیْ ارْتَضَاہُ الْعِبَادِ فَاثْبُتْ عَلَیْہِ ثَبَّتَکَ اللّٰہُ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَا لْاَخِرَةَ۔
(اکمال الدین واتمام النعمة کتاب التوحید جلد۲ ۳۷۹)
ترجمہ :شیخ صدوق وغیرہ نے حضرت عبدالعظیم سے روایت کی ہے میں نے اپنے آقا حضرت امام علی نقی-کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: مرحبا اے ابو قاسم تو ہمارا حقیقی ولی ہے۔
میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں چاہتا ہوں کہ اپنا دین آپ کے سامنے پیش کروں اگر آپ کو پسند ہوا تو قیامت تک اس پر ثابت قدم رہوں گا۔
حضرت امام نقی-نے فرمایا: اپنا دین بیان کر۔
میں نے کہا :میں کہتا ہوں کہ خدا یکتا و یگانہ ہے اس کی مثل کوئی چیز نہیں خداابطال اور حدتشبیہ سے خارج ہے (یعنی نہ اس طرح ہے کہ کچھ بھی ہو اور نہ اس طرح ہے کہ کسی چیز کا مشابہ ہو)جسم و صورت اور جوہر و عرض نہیں ہے بلکہ ان کو پیدا کرنے والا ہر چیز کا پالنے والا اور مالک ہے اور ہر چیز کو اس نے عدم سے وجود عطا کیا ہے۔
اور میں کہتا ہوں کی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اور قیامت تک کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شریعت تمام شریعتوں کی آخری شریعت ہے اور اس کے بعد قیامت تک کوئی شریعت نہیں ہے
اور میں اقرار کرتا ہوں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد امام، خلیفہ اور ولی امیر المومنین علی-ابن ابی طالب ہیں ان کے بعد امام حسن- ان کے بعد امام حسین-ان کے بعد ابن الحسین زین العابدین- ان کے بعد محمد ابن علی الباقر+ ان کے بعد جعفر ابن محمد صادق + پھر موسی ابن جعفر کاظم+ ان کے بعد علی ابن موسیٰ رضا-پھر محمد ابن علی + ہیں اور ان بزرگوکے بعد اے میرے مولا آپ ہیں۔
پس امام نے فرمایا کہ میرے بعد میرا بیٹا امام حسن عسکری- ہے پھر فرمایا(معلوم ہے) اس امام کے بعد اس کے خلیفہ کے زمانے کے لوگ کس طرح ہوں گے؟
میں نے عرض کی مولا کس طرح ہوں گے؟
حضرت نے فرمایا: زمین ظلم و جور سے پرہو چکی ہوگی کیونکہ لوگ اپنے امام کو دیکھ نہ سکیں گے۔ اور نہ ان کیلئے امام کا نام لینا جائز ہوگا( کہ کہیں ذات امام- کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے) یہ سلسلہ جارہی رہے گا یہاں تک کہ امام کا ظہور ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے۔
میں عرض کیا کہ میں امام حسن عسکری-اور ان کے خلف (فرزندو جانشین) کا اقرار کرتا ہوں اور قائل ہوتا ہوں ان بزرگواروں کا دوست خدا کا دوست ہے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ان کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے ۔
اور یہ(اقرار کرتا ہوں) کہ معراج حق ہے قبر میں سوال ہونا حق ہے اور یہ کہ جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور صراط حق ہے اور میزان حق ہے اور قیامت کے آنے میں شک نہیں ہے اور خداوند عالم قبر والوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا۔
اور میں قائل ہوں کہ ولایت (یعنی خدا، رسول اور آئمہ(ع) کی دوستی) کے بعد نماز، زکوة،روزہ،حج، جہاد، خمس، امر بالمعروف، اور نہی عن المنکر سب کے سب فرض ہیں۔
پس امام علی نقی-نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کا دین ہے جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے اور تو اسی عقیدے پر ثابت قدم رہ خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور اسی عقیدے پر ثابت قدم رہ خداوند عالم تمہیں دنیاوی اور آخروی زندگی میں قول ثابت (وحق) پر ثابت قدم رکھے۔
سینتیسویں حدیث
قناعت کی فضیلت
عَنْ اَبِیْ ھَاشِمِ الْجَعْفَرِیْ قَالَ اَصَابَتْنِیْ ضَیْقَةً شَدِیْدَةً فَسِرْتُ اِلٰی اَبِیْ الْحَسَنِ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہُمَا السَّلااَامُ فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَاَذِنَ لِیْ فَلَمَّا جَلَسْتُ قَالَ یَا اَبَا ھَاشِمٍ اَیُّ نِعَمِ اللّٰہِ عَلَیْکَ تُرِیْدُ اَنْ تُوٴَدِّیْ شُکْرَھَا قَالَ اَبُوْ ھَاشِمٍ فَوَجَمْتُ فَلَمْ اَدْرِ مَا اَقُوْلُ فَابْتَدِئَنِیْ عَلَیْہِ السَّلامُ فقَالَ رِزْقُکَ الْاِیْمَانَ فَحَرَّ مَ بَدَنَکَ عَلَی النَّارِ وَ رَزَقَکَ الْعَافِیَّةِ فَاَعَانَتَکَ عَلَی الطَّاعَةِ وَ رَزَقَکَ الْقُنُوْعَِ فَصَنَکَ عَنِ التَّبَذُّلِ یَا اَبَا ھَاشِمٍ اِنَّمَا اِبْتَدَئْتُکَ بِھٰذَا لِاَنِّیْ ظَنَنْتُ اَنَّکَ تُرِیْدُ اَنْ تَشْکُوَ اِلٰی مَنْ فَعَلَ بِکَ ھٰذَا وَ قَدْ اَمَرْتُ لَکَ بِمِائَةِ دِیْنَارٍفَخُذْھَا۔
(الدمعة اساکبة جلد۸ صفحہ ۱۳۷،
امالی شیخ صدوقصفحہ ۳۳۶ حدیث۱۱)
ترجمہ:۔شیخ صدوق نے ابو ہاشم جعفری سے روایت نقل کی ہے جس وقت مجھ پر فقر و فاقہ (غربت و تنگدستی) نے سختی کی توامام علی نقی- کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے فرمایا: اے ابو ہاشم تو خدا کی عطا کی ہوئی کون سی نعمت کا شکر ادا کر سکتا ہے؟
ابو ہاشم کہتا ہے کہ مجھے سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دوں؟ پس خود حضرت نے ابتدا فرمائی اور فرمایا کہ اس نے تجھے ایمان نصیب کیا جس کی وجہ سے اس نے تیرے بدن کوآگ پر حرام کیا اور تجھے عافیت عطا کی جس نے اطاعت کرنے میں تیری مدد کی اور تجھے قناعت عطا کی جس کی وجہ سے تیری عزت آبرو محفوظ رکھی۔اے ہاشم اس لئے میں نے ابتدا کرتے ہوئے تجھے یہ کہا ہے میرا گمان تھا کہ تو ایسی ذات کی میرے سامنے شکایت کرنا چاہتا ہے جس نے تجھے یہ سب نعمتیں دی ہیں اور میں نے حکم دیا ہے کہ ایک سو سرخ دینار تجھے دیئے جائیں اور انہیں لے لے۔
مرحوم مصنف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان خدا کی نعمتوں سے عظیم نعمت ہے اورہے بھی اسی طرح کیونکہ تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمان پر ہے اور اس کے بعد عافیت ہے۔ روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کسی نے پوچھا اگر میں شب قدر کوپا لوں تو خدا سے اس رات کیا مانگوں تو حضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کہ:
عافیت مانگو اور عافیت کے بعد قناعت کی نعمت
اس آیت شریفہ کے ذیل میں روایت ہوئی۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنثٰی وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوةً طَیِّبَةً(سورہ نحل…۹۷)
اس آیت شریفہ کا ظاہری معنی یہ ہے کہ جو عمل صالح (یعنی شائستہ کردار) رکھتا ہو (چاہے مرد ہو یا عورت ) اور مومن ہو بغیر ایمان کے جزاء کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا) تو یقینا ہم اسے دنیا میں اچھی زندگی دیں گے۔
معصوم-سے سوال پوچھا کہ یہ حیات طیبہ کیا ہے؟ فرمایا: قناعت ہے۔
حضرت امام جعفر صادق-سے بھی نقل ہوا ہے کہ
تھوڑی چیز پر قناعت کرنے سے زیادہ فائدہ مند مال اور کوئی نہیں ہے۔
نقل ہوا ہے کہ کسی دانا سے پوچھا گیا تو نے سونے سے بہتر کوئی چیز دیکھی ہے؟ اس نے کہا ہاں! قناعت ۔
اسی لحاظ سے حکماء کا کلام ہے کہ
اِسْتَغْنَائَکَ عَنِ الشَّیْءِ خَیْرٌ مِنْ اِسْتَغْنَاکَ بِہ
کسی چیز کے ملنے کی وجہ سے تیرا بے نیاز ہونا اس سے بہتر ہے کہ تو خود اس چیز سے بے نیاز ہوجائے۔
دیو جانس یونان کے بزرگ حکماء میں سے تھا اور ایک فقیر قسم کا اور زاہد قسم کا آدمی تھا اس نے کوئی چیز جمع نہیں کی تھی حتی کہ اپنے رہنے کیلئے گھر تک نہیں بنایا تھا ایک دفعہ جب سکندر نے اسے اپنی محفل میں آنے کی دعوت دی تو حکیم نے سکندر کے ایلچی سے کہا کہ سکندر سے کہنا کہ جس چیز نے تجھے میرے پاس آنے سے روکا ہے وہ تیری سلطنت اور بادشاہت ہے اور مجھے میری قناعت نے روکا ہے۔
مرحوم نوری کے اشعار کا ترجمہ
میں نے دیکھا کی تونگری کی جڑ قناعت ہے تو میں نے اس کا دامن پکڑلیا نہ کوئی مجھے کسی کے دروازے پر دیکھتا ہے اور نہ ہی کسی دروازے پر لیچڑپن (سوال و جواب) کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ پس میں نے بغیر درہم و دینار کے امیروں جیسی زندگی گزاری ہے اور لوگوں کے پاس سے بادشاہوں کی طرح (بے پرواہ ہو کر)گزرتا ہوں۔
امام رضا-کے اشعار کا ترجمہ:
میں نے لوگوں کے پاس حاجت کے لے جانے سے دامن بچا کر تو نگری کا لباس پہنا ہے اور سربلندی کے ساتھ شام کی۔ اور دن گزارا ہے۔ میں انسانوں کے ساتھ مشابہ لوگوں سے انس ہے۔ جب میں نے مال دار کو تکبر کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے بھی اس کے حال سے مایوسی اور بے پرواہی کے ساتھ اس سے متکرانہ سلوک کیا ہے (مشہور ہے کہ متکبر کے ساتھ تکبر سے پیش آنا عبادت ہے)۔ نہ ہی میں نے نادار شخص پر اس کی غربت کی وجہسے فخر و مباہات کیا ہے اور نہ ہی اپنی ناداری کی وجہ سے کسی کے سامنے سر جھکاہوں۔
اڑتیسویں حدیث
گالی گلوچ اور بدزبانی کی مذمت میں
عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلامُ قَالَ:اِنَّ مِنْ عَلااَامَاتِ شِرْکِ الشَّیْطَانِ الَّذِیْ لااَایُشَکُّ فِیْہِ اَنْ یَکُوْنَ فَحَاشًا لَّا یُبَالِیْ مَا قَالَ وَلااَا مَا قِیْلَ فِیْہِ۔(اصول کافی جلد۴صفحہ۱۴)
ترجمہ :۔مرحوم شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا:
بے شک شیطان کی شرکت کی علامت یہ ہے کہ انسان بہت زیادہ بد زبان ہو۔ اس کو پروا نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا اسے کیا کہا جارہا ہے (وہ کسی کو گالی دے یا کوئی اسے گالی دے تو اس کوئی پرواہ نہ ہو)۔
موٴلف (شیخ عباس قمی) فرماتے ہیں بد زبان آدمی کے بارے میں بہت سی روایات ہیں بلکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم نے ہر زبان ، بے شرم و بے حیاء پر بہشت کو حرام کیا ہے جسے پرواہ نہ ہو کہ وہ لوگوں کو کیا کہہ رہا ہے اور لوگ اسے کیا کہہ رہے ہیں۔ پس اگر آپ ایسے آدمی کی تفتیش کریں تو آپ اسے یا حرا مزادہ پائیں گے یا اس میں شیطان کا حصہ ہوگا اور حدیث میں ہے
خدا وند عالم گالی دینے والے بے شرم کو دشمن رکھتا ہے اور یہ کہ اگر گالی کسی شکل و صورت میں آجائے تو بری شکل والی ہوگی اور مسلمان کو گالی دینا سبب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں برکت ختم کردے اور خداوند عالم اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیتا ہے اور اس کی معیشت کو خراب کردیتا ہے۔
روایت ہے کہ امام جعفر صادق-کا ایک دوست تھا جو ہمیشہ حضرت کے ساتھ رہتا اور جدانہ ہوتا تھا ایک دن اس نے اپنے غلام سے کہا اے زناء کار عورت کے بچے تو کہاں تھا؟
جب حضرت نے یہ بات سنی تو اپنے ہاتھ کو پیشانی پر مارا اور فرمایا کہ سبحان اللہ تو اس کی ماں کو زناء کی نسبت دے رہا ہے ؟ میں توتجھے پرہیز گار آدمی سمجھتا تھا اور اب دیکھتا ہوں کہ تو تقویٰ و پرہیز گاری نہیں رکھتا ۔
اس نے عرض کی آپ- پر قربان جاؤں ا س کی ماں سندیہ مشرکہ ہے۔
حضرت امام- نے فرمایا :تجھے معلوم نہیں کہ ہر قوم میں نکاح ہوتا ہے؟ مجھ سے دور ہو جا۔
راوی کہتا ہے اس کے بعد میں نے اس کو حضرت امام- کی شہادت تک حضرت امام- کے ساتھ نہ دیکھا ۔ حتیٰ کہ موت نے حضرت اور اس شخص کے درمیان جدائی ڈال دی۔
انتالیسویں حدیث
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر صلوٰة بھیجنےکے بارے میں
عَنِ الصَّادِقِ عَلَیْہِ السَّلامُ اِنَّہ قَالَ:اِذَا ذَکَرَ النَّبِیْ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فَاَکْثَرُوْا الصَّلٰوةَ عَلَیْہِ فَاِنَّہ مَنْ صَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وَ اَلْفَ صَلٰوةٍ فِیْ اَلْفِ صَفٍّ مِنَ الْمَلااَائِکَةِ وَ لَمْ یَبْقِ شَیْءٌ مِّمَّا خَلَقَہُ اللّٰہُ اِلَّا صَلّٰی عَلَی الْعَبْدِ لِصَلٰوةِ اللّٰہِ وَ صَلٰوةِ مَلااَائِکَتِہ فَمَنْ لَمْ یَرْغَبُ فِیْ ھٰذَا فَھُوَ جَاھِلٌ مَغْرُوْرٌ قَدْ بَرَءَ اللّٰہُ مِنْہُ وَ رَسُوْلُہ وَ اَھْلُ بَیْتِہ۔
(اصول کافی جلد ۴ صفحہ ۲۴۹)
ترجمہ :۔شیخ کلینی نے امام جعفر صادق-سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا :
جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ذکر ہو توآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بہت زیادہ صلوٰةبھیجو ۔ پس تحقیق جو بھی حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر ایک مرتبہ صلوٰة بھیجے گا اس شخص پر فرشتوں کی ہزار صفوں میں ہزار مرتبہ صلوٰة بھیجے گا۔ پس خدا اور فرشتوں کی صلوٰة کی وجہ سے کوئی مخلوق باقی نہیں رہے گی مگر یہ خدا اور فرشتوں کی صلوٰةکی وجہ سے اس شخص پر صلوٰة بھیجے گی۔ پس جو آدمی اس میں رغبت نہ کرے گا وہ جاہل اور مغرور ہوگا اس شخص سے خدا او اس کا رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اہل بیت رسول(ع) بیزار ہیں۔
موٴلف (شیخ قمی) فرماتے ہیں شیخ صدوق نے کتاب معافی الاخبار میں نقل کیا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق-نے اِنَّ اللهَ وَ مَلٰٓئِکَتَہ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(سورہ احزاب…۵۶)کے معنی کے بارے میں فرمایا :
خدا کی طرف سے صلوٰة ایک رحمت ہے اور ملائکہ کی طرف سے صلوٰةایک تزکیہ اور لوگو ں کی طرف سے صلوٰة ایک دعاہے۔
اور اسی روایت میں ہے کہ راوی نے کہا کہ ہم کس طرح محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) واٰلِ محمد(ع) پر صلوٰة بھیجیں حضرت- نے فرمایا کہ اس طرح کہو۔
صَلٰوتُ مَلااَائِکَتِہ وَ اَنْبِیَائِہ وَ رُسُلِہ وَ جَمِیْعُ خَلْقِہ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّدٍ وَّ السّلااَامُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہ۔
اللہ تعالیٰ لہ صلوٰة ،فرشتوں ، انبیاء رسولوں اور تمام مخلوقات کی صلوٰة ہو محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وال محمد(ع) پر۔ اور پیغمبر اور ان کی آل پر سلام ہو اور رحمت و برکات ہو۔
راوی نے عرض کیا جو آدمی یہ صلوٰة پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھیجے اس کا ثواب کیا ہے؟ حضرت- نے فرمایا: اس کا ثواب گناہوں کو اس طرح پاک کرتا ہے جس طرح ماں سے پیدا ہوا تھا۔
چالیسویں حدیث
امام موسیٰ کاظم- کا معجزہ
عَنْ عَلِیِّ بْنِ یَقْطِیْنٍ قَالَ اِسْتَدْعَی الرَّشِیْدُ رُجُلااًا یُبْطِلُ بِہ اَمْرَ اَبِیْ الْحَسَنِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ وَ یُخْجِلُہ مُعْزِمٌ۔
فَلَمَّا اُحْضِرَتِ الْمَائِدَةُ عَمِلَ نَامُوْسًا عَلَی الْخُبْزِ فَکَانَ کُلَّمَا رَامٍ اَبُوْ الْحَسَنِ عَلَیْہِ السَّلامُ رَغِیْفًا مِنَ الْخَبْزِ طَارَ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ اسْتَقَرَّ ھَارُوْنُ الْفَرْحُ وَ الضِّحْکُ لِذَالِکَ فَلَمْ یَلْبَثْ۔
اَبُوْ الْحَسَنِ عَلَیْہِ السَّلامُ اَنْ رَفَعَ رَاسَہ اِلٰی مُصَوِّرٍ عَلٰی بَعْضِ السُّتُوْرِ فَقَالَ لَہ یَا اَسَدَ اللّٰہِ خُذْ عَدُوَّ اللّٰہِ۔
فَوَثَبَتْ تِلْکَ الصُّوْرَةُ کَاَعْظَمِ مَا یَکُوْنُ مِنَ السَّبَاعِ فَافْتَرَسَتْ ذَالِکَ الْمُعْزِمَ فَخَرَّ ھَارُوْنُ وَ نُدَمَائُہ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ مَغْشِیًّا عَلَیْھِمُ وَ طَارَتْ عُقُوْلُھُمْ خَوْفًا مِنْ حَوْلِ مَا رَاَوْہُ ۔
فَلَمَّا اَفَاقُوْا مِنْ ذَالِکَ بَعْدَ حِیْنٍ قَالَ ھَارُوْنُ اَبِیْ الْحَسَنِ عَلَیْہِ السَّلامُ اِسْئَلَکَ بِحَقِّیْ عَلَیْکَ لَمَّا سَأَلْتَ الصُّوْرَةَ اَنْ تَرُدَّ الرَّجُلَ۔
فَقَالَ اِنْ کُنْتَ عَصَا مُوْسٰی رَدَّتْ مَا اِبْتَلَعَتْہُ مِنْ حِبَالِ الْقَوْمِ وَ عَصِیْھِمْ فَاِنْ ھٰذِہِ الصُّوْرَةُ تَرُدُّ مَا اِبْتَلَعَتْہُ مِنْ ھٰذَا الرَّجُلِ۔
(مناقب شھر آشوب جلد ۴ صفحہ ۲۹۹،
القطرہ صفحہ ۲۲۲)
ترجمہ:۔علی ابن یقطین کہتے ہیں کہ ہارون الرشید نے ایک جادو گر بلایا تاکہ امام موسیٰ کاظم-کی امامت کے مسئلے کو باطل کر دکھائے اور امام- کو اس مجمع میں شرمندہ کرے تو ایک جادوگر نے یہ قبول کرلی کہ میں ایسا کروں گا۔
جب دسترخوان اور کھانا لایا گیا تو اس نے مرد نے حیلہ گری اور جادو سے کام لیا حضرت- جب بھی روٹی کا لقمہ لینے کا ارادہ فرماتے تو وہ روٹی کا لقمہ لینے کا ارادہ فرماتے تو وہ روٹی حضرت- کے سامنے اڑجاتی (غائب ہو جاتی) ہارون اس بات سے خوش ہوا اور ہنسنے لگا اتنا خوش ہوا کہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔
پس حضرت-نے فوراً اپنے سر کو شیر کی تصویر کی طرف بلندفرمایا جو اس مکان کے پردوں پر بنی ہوئی تھی اور فرمایا اے اللہ کے شیر اللہ کے دشمن کو پکڑ لے۔
پس وہ بہت بڑے شیر کی طرح جھپٹی اور اس جادوگر کو پھاڑ ڈالا۔ ہارون اور اس کے ساتھی اس عظیم امر کو دیکھ کربے ہوش ہو کر منہ کے بل گر پڑے اور اس کی ہولناکی کی وجہ سے ان کی عقلیں اڑ گئیں۔
جب کچھ دیر بعد ہوش میں آئے تو ہارون نے امام- کی خدمت میں عرض کی کہ میں آپ- سے درخواست کرتا ہوں اس حق کی وجہ سے جو میر اآپ کے ذمہ ہے کہ آپ-اس تصویر کو فرمائیں کہ وہ اس مرد کو واپس کردے۔
حضرت- نے فرمایا کہ اگر موسیٰ- کا عصا جادوگروں کی نگلی ہوئی رسیاں اور عصاء واپس کردیتا تو یہ بھی اس مرد کو واپس کرے گی۔
اس معجزے کے نقل کرنے والوں میں ایک شیخ بہائی بھی تھے جنہوں نے اس کو نقل کرنے کے بعد امام موسیٰ کا ظم-اور امام محمد تقی-کی شان میں تین شعر کہے ہیں ۔ جن کا مفہوم یہ ہے۔
اے زوراء (مکان) کی طرف جانے والے تو مغرب کی طرف اس سر سبز باغ کی طرف جا،جب تجھے دو گنبد نظر آئیں تو اپنے جوتے اتار دے اور خضوع کا سجدہ کر انہی گنبدوں کے نیچے موسیٰ- کی آگ اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کا نور ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔
تمت بالخیر
والحمد اللّٰہ ولا وآکرا
ہفتہ کی رات ۱۱ بجے ۶ مارچ ۱۹۹۹ءء
source : http://www.shiastudies.com/urdu/other/mutafariqat/chil-e-hadis/main.htm