اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی شیخ جعفر سبحانی نے مشہد مقدس کے مدرسۂ عالی نواب میں "اسلامی کلام" کی سلسلہ وار نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا: توسل یہ ہے کہ ہم قرآن، نبی اکرم (ص) یا امام معصوم (ع) کے وسیلے سے اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں "وسیلہ" "سبب" ہے اور "توسل" "وسیلے کو بروئے کار لانا"ہے۔
انھوں نے کہا: کسی شیئے یا فرد کا وسیلہ ہونا شریعت میں "تعبداً" ثابت ہونا چاہئے اور کسی شیئے یا فرد کو وسیلہ قرار دینے کے لئے قرآن مجید نے ضابطہ عطا فرمایا ہے؛ ارشاد ربانی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ" (سورہ المائدة آیت 35)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے غضب سے بچو اور اس کے پاس پہنچنے اور اس کی قربت کے لئے وسیلہ (ذریعہ) ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تم دین و دنیا کی فلاح (رستگاری اور بہتری) حاصل کرلواس مرجع تقلید نے کہا: امیرالمؤمنین امام علی بن ابیطالب علیہما السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 110 میں ایمان باللہ، ایمان برسول اللہ (ص)، جہاد فی سبیل اللہ، نماز قائم کرنے، زکات ادا کرنے، روزہ رکھنے، حج بیت اللہ ادا کرنے، صدقہ دینے اور نیک اعمال انجام دینے کو ایمان کے وسائل قرار دیا ہے۔ مگر وسائل صرف یہی نہیں ہیں بلکہ آیات و روایات میں دیگر وسائل کا ذکر بھی آیاہے۔
آیت اللہ العظمی سبحانی نے سورہ اعراف کی آیت 180 کا حوالہ دیا ـ جہاں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: "وَ لِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا کَانُوا يَعْمَلُونَ" (اور اللہ کے لئےبہترین اور زیباترین نام، تو اسے پکارو ان ہی ناموں سے اور چھوڑو انہیں جو اس کے نیک ناموں میں تحریف کرتے ہیں (یا ان ناموں سے منحرف ہوجاتے ہیں اور غلط راستہ اختیار کرتے ہیں) جلد ہی انہیں ان کے اعمال کی سزا ملے گی) ـ اور کہا: خدا سے تقرب کا بہترین وسیلہ فرائض اور نوافل کی طرف خصوصی توجہ دینا ہے؛ اس طرح اسماء اللہ سے دعا اور توسل تمام اسلامی مکاتب و مذاہب کے نزدیک قابل قبول ہے۔
آیت اللہ العظمی سبحانی نے کہا: قرآن کریم اور نیک اعمال سے توسل اور ایک مؤمن کی دوسرے کے لئے دعا بھی تمام اسلامی مکاتب کے نزدیک قابل قبول اور مسلّم ہے اور سورہ بقرہ کی آیت 127 (وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ = اور(یاد کرو اس وقت کو) جب ابراہیم (ع) اور اسماعیل (ع) خانۂ کعبہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے؛ (اور التجا کررہے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار!ہم سے قبول فرما یقینا تو بڑا سننے والا ہے۔جاننے والا ہے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے نیک عمل کو بھی دعا کے لئے وسیلہ قرار دیا جاسکتاہے۔
انھوں نے نوجوانوں کو نصیحت کی: اگر تم نے اپنی زندگی میں کوئی نیک عمل انجام دیا ہے تو اپنا عمل خداوند متعال کو جتا دو کیونکہ ایسی صورت میں بھی اللہ تعالی انسان کی دعا قبول کرتا اور اس کی حاجت برلاتاہے۔
اس مرجع تقلید نے کہا کہ حتی وہابی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات کے وقت آپ (ص) سے توسل جائز قرار دیتے ہیں اور تمام اسلامی مکاتب مذکورہ توسلات کے قائل و معترف ہیں۔
انھوں نے سورہ منافقون کی آیت 5 (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَکْبِرُونَ = اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ پیغمبر خدا (ص) تمہارے لئے دعائے مغفرت کر دیں تو وہ (کبر و غرور کی بنا پر) اپنے سر گھماتے ہیں اور (اے میری رسول (ص)! آپ) انہیں دیکھتے ہیں کہ آپ کے کلام سے اعراض (اور دوری) کرتے ہیں اور وہ تکبر برتنے والے ہیں) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: شیعہ اور وہابیوں کے عقیدے میں فرق اس بات پر ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) کی حیات ظاہری میں آپ (ص) سے توسل کے قائل ہیں جبکہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد بھی آپ (ص) سے توسل کیا جاسکتاہے۔
اس مرجع تقلید نے اہل تشیع کے عقیدے کی دلیل کو سورہ نساء کی آیت 64 اور سورہ حجرات کی آیت 2 کا مفہوم و اطلاق قرار دیا جہان ارشاد ربانی ہے: "َمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا؛ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس کے لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر وہ اپنے اوپر ستم کرتے (اور اللہ کے فرامین کو پامال کرتے) تو آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش کے طلبگار ہوتے اور پیغمبر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان پاتے۔ اور "يا أََيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ" اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو پیغمبر (ص) کی آواز پر بلند نہ کرو اور آپ (ص) سے اونچی آواز سے باتیں نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ زور زور سے بات کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر تک نہ ہو (الحجرات آیت 2 )
انھوں نے کہا: یہ دو آیتیں مطلق ہیں اور ان میں ایسی قید و شرط نظر نہیں آتی کہ صرف حیات رسول (ص) میں آپ (ص) سے توسل جائز ہے اور وصال کے بعد آپ (ص) سے توسل نہیں کیا جاسکتا۔
آیت اللہ سبحانی نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے فرزندوں اور دعائے نبی (ع) سے ان کے توسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس قصے میں واضح کیا گیا ہے کہ دعائے نبی (ع) سے توسل پچھلی امتوں میں بھی مرسوم تھا۔
اس مرجع تقلید نے "برزخی حیات" اور "برزخ میں زندگی گذارنے والوں کے دنیا سے رابطے" کی طرف اشارہ کیا اور اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا: برزخی زندگی کے اثبات پر متعدد قرآنی آیات گواہ ہیں؛مثال کے طور پر خداوند متعال آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ = وہ آگ جس کے سامنے وہ صبح اور شام لائے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی، (تو اللہ تعالی فرمائے گا) داخل کرو فرعون والوں کو سخت ترین عذاب میں" (سورہ غافر یا مؤمن آیت46)
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آل فرعون برزخ میں بھی صبح و شام جہنم کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔
انھوں نے شہداء کے زندہ ہونے اور اللہ کے نزدیک رزق پانے کو بھی برزخی حیات کی مثال قرار دیا جس کے بارے میں خداوند متعال سورہ آل عمران کی آیت 169 میں ارشاد فرماتا ہے
"وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ = اور اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں [اور] اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں۔
انھوں نے عالم برزخ والوں کے دنیا سے رابطے و تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: برزخ والے دنیا سے اپنا تعلق جوڑے رہتے ہیں، دنیا کا ادراک رکھتے ہیں اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کے سوالوں کا جواب تک دیتے ہیں اور ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے اس سلسلے میں سورہ اعراف کی آیات 78 اور 79 کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوتا ہے: "فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ * فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ = نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو وہ اپنے گھروں میں بے حس و حرکت [اور بے جان ہو کر] رہ گئے * تو (صالح (ع) نے) ان لوگوں سے رو گردانی اختیار کی اور کہا اے میری قوم والو ! میں نے تمہیں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور تمہارے لیے خیرخواہی سے کام لیا مگر [کیا کروں کہ] تم خیرخواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے"۔
انھوں نے کہا: ان آیات سے ثابت ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم والوں سے بات چیت کی ہے جبکہ وہ زلزلے سے دوچار ہوکر مر گئے تھے۔
انھوں نے اسی سورت کی آیات 92 اور 93 کا حوالہ بھی دیا جہاں ارشاد ربانی ہے: الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْبًا كَانُواْ هُمُ الْخَاسِرِينَ * فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسَى عَلَى قَوْمٍ كَافِرِينَ = جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا (وہ اس طرح نیست و نابود ہوگئے کہ) وہ گویا کبھی ان مکانات میں رہتے ہی نہ تھے۔ جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہی گھاٹا اٹھانے والے ثابت ہوئے ٭ تو انھوں نے [یعنی شعیب (ع) نے] ان لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے میری قوم والو! میں نے تو تمہیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا دیئے اور تمہاری نصیحت [اور خیرخواہی] کا حق ادا کردیا لیکن میں کفر و بے ایمانی پر قائم رہنے والی قوم پر افسوس کیونکر کروں"۔
مؤخر الذکر آیت میں بھی حضرت شعیب علیہ السلام نے ہلاک ہوجانے والی قوم سے بات چیت کی ہے اور آیت اللہ سبحانی نے کہا کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دو آیتیں بھی اٹھترویں اور اناسیویں آیات کی مانند ہیں۔
آیت اللہ العظمی سبحانی نے صحیح بخاری جلد 2 ص 101 پر منقولہ ایک روایت کا حوالہ دیا جو کچھ یوں ہے:
عن ابن عمرأخبره قال اطلع النبي صلى الله عليه وسلم على أهل القليب فقال وجدتم ما وعد ربكم حقا فقيل له أتدعو أمواتا فقال ما أنتم بأسمع منهم ولكن لا يجيبون۔ رسول اللہ (ص) نے بدر کے کنویں میں پھینکے جانے والے مشرکین سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا تم نے درست پایا جو تم سے اللہ نے وعدہ کیا تھا؟ تو کہا گیا کہ یا رسول اللہ (ص)! کیا آپ مُردوں سے بات کرتے ہیں؟ تو
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو (یعنی مُردوں کی قوت سماعت تم سے بہتر ہے) فرق صرف یہ ہے کہ وہ جواب نہیں دیتے۔
انھوں نے کہا: اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ص) اہل برزخ والوں سے تکلم فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مُردے میری بات تم سے بہتر سنتے اور سمجھتے ہیں۔
انھوں نے کہا: مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ برزخی حیات کی بنا پر رسول اللہ (ص) کے ساتھ رابطہ برقرار کیا جاسکتا ہے اور آپ (ص) سے دعا کی درخواست کی جاسکتی ہے۔
آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی نے سوال اٹھایا کہ "اگر رسول اللہ (ص) (معاذاللہ) مرے ہوئے ہیں تو پھر ہم نماز میں کیوں کہتے ہیں کہ "السلام علیک ایها النبی و رحمةالله و برکاته" (اے رسول خدا (ص)! سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور برکتیں)؛ جبکہ رسول اللہ (ص) تم (منکرین توسل) کی نظر میں مرے ہوئے ہیں؛ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم نے رسول اللہ (ص) اور دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو پہچانا نہیں ہے جو حیات برزخی رکھتے ہیں اور ان سے یہ عرض کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ "يا وجيهاً عند الله، اشفع لنا عند الله = اے بارگاہ خداوندی کے آبرومند! اللہ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرما"۔
انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات، آپ (ص) کے حق، آپ (ص) کی منزلت و کرامت سے توسل خدا کی قربت کے حصول کے لئے ہے اور آپ (ص) کے صدقے اللہ کو قسم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس قسم کا توسل مخالفین کی کتابوں میں بھی مستند طور پر مذکور ہے۔
انھوں نے کہا: کہا جاتا ہے کہ کسی کا بھی خدا پر کوئی حق نہیں ہے؛ لیکن اس حق کی دوقسمیں ہیں: ایک حق "حق بالاصالۃ" ہے اور دوسرا حق "حق بالعَرَض" ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بنیادی طور پر خدا پر کسی کا بھی کوئی حق نہیں ہے لیکن خداوند متعال نے دوسری قسم کا حق اپنے فضل و لطف سے خود ہی قبول فرمایا ہے؛ جیسا کہ وہ خود ہی فرماتا ہے: "مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ کَرِيمٌ =کون ہے جو اللہ کو اچھا قرضہ دے [ان اموال میں سے جو اللہ نے خود ہی انہیں عطا فرمائے ہیں] تو وہ اسے بڑھا دے گا اس کے لیے اور اس کے لیے بہت بڑا صلہ ہے۔" (الحديد : 11 ) (1)
انھوں نے کہا: یہ جو اللہ تعالی اپنے آپ کو مقروض کردیتا ہے اس کی بنیاد صرف اللہ کی عظمت اور اس کا لطف ہے اور بس۔
............
(1) اس سلسلے میں اس آیت سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے جہاں اللہ تعالی انسانوں کو توبہ اور اپنی طرف بلانے کے لئے ارشاد فرمایا ہے: "قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ قُل لِلّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُواْ أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ = (سوره انعام آیت 12)
[اے میرے رسول (ص)] کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ کس کا ہے؟ کہہ دیجئے کہ اللہ کا ہے۔ اس نے اپنے ذمے رحمت [و بخشش] کرنا عائد کر لیا ہے وہ تم سب کو یقینا روز قیامت تک ـ جس میں کوئی شک نہیں اکٹھا کرتا رہے گا ـ جنہوں نے خود اپنا نقصان کیا تو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔
source : http://abna.ir