نماز ۔۔۔ معبود حقيقي کي بارگاہ ميں دل کي گہرائيوں کے ساتھ سر جھکانا اور انسان و خدا کے درميان ربط قائم کرنا ہے اس رابطہ کا تعلق پيدا کرنے والے اور پيدا ہونے والے سے ہے۔نماز تسلي دينے کے ساتھ ساتھ ہمارے پريشان اور تھکے ہوئے خستہ حال دلوں کو آرام و سکون عطا کرتي ہے۔ نماز ہمارے باطن کو صاف ، آلودگي سے پاک اور نور خدا سے روشن کرتي ہے۔
نماز بندے کا خدا سے عہد و پيمان ہے، نماز خدا کے راستے پر چلنے کے لئے تحريک پيد اکرنے والي ہے اور اس حالت کے لئے آمادہ کرتي ہے جو دھوکہ اور فريب سے پاک ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہيں تاکہ ہر برائي و بدي کو دور کريں اور اس کے ذريعے سے ہر خير و خوبي اور جمال ملکوتي کو حاصل کريں۔نماز اپنے وجود سے آگاہ ہونے اور اسے حاصل کرنے کا نظام ہے۔ مختصر يہ کہ نماز اس ذات سے رابطہ قائم کرنے اور مسلسل فائدہ حاصل کرنے کا نام ہے جو تمام کمالات کا سر چشمہ ہے۔ نماز اس ذات سے رشتہ جوڑنا ہے جو تمام خوبيوں اور نيکيوں کا خالق ہے يعني خدا۔
ہمارے ذہنوں ميں اکثر يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ
٭ نماز کو اہم ترين واجبات ميں کيوں شمار کيا جاتا ہے؟
٭ کيا وجہ ہے کہ نما زکو دين کي بنياد قرار ديا گيا ہے؟
٭ کيا وجہ ہے کہ نماز کو اس قدر اہميت دي گئي ہے کہ ارشاد ہوا کہ اگر نماز قبول نہيں ہوئي
تو کوئي عمل قبول نہيں ہوگا!
٭ دوسري تمام عبادات کے مقابلے ميں آخر نماز ميں کيا خاص چيز ہے جس کي وجہ سے وہ تمام عبادات ميں سر فہرست ہے؟
٭ اور وہ کيا را ز ہيں جن کے پيش نظراسلام نماز کو بہت اہميت کے ساتھ بيان کرتا ہے؟
ہم اسلام ميں نماز کي غير معمولي اہميت کے پيش نظر اس کے مختلف پہلووں کي طرف توجہ کرسکتے ہيں مختلف کيفيات سے اسکي تحقيق اور مختلف زاويوں سے اس کے حقائق تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں چنانچہ ہم ابتدائ ہي ميںاس نکتے کي جانب اشارہ کريں گے کہ خلقت انسان کي اصلي غرض اور اس کي زندگي کا حقيقي ہدف کيا ہے؟
انسان کے کمال کا راستہ
قادر مطلق ۔۔ جس کي ذات حکمت والي ہے ۔۔ ہم نے انسانوں کو پيدا کرکے وجود جيسي نعمت سے مالا مال کيا ہے تو لازماً اس کے معني يہ ہيں کہ خداوند عالم نے ہماري پيدائش وجود سے ہمارے لئے ايک ہدف و مقصد مقرر کيا ہے اسے ہم يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہميںايک مقرر کردہ راستے پر چلنا ہے تاکہ ہم اپني منزل و مقصد تک پہنچ سکيں، وہ تراستہ اپني اہميت کے سبب باريک ہے اوراس کے وسائل بھي معين شدہ ہيں۔
اس لحاظ سے ہميں چاہئيے کہ ہم اس راستے کي معرفت حاصل کريں جو ہماري منزل تک جاتا ہے اور ساتھ ساتھ يہ بھي سمجھيں کہ وہ مطالب و مقاصد کيا ہيں جن کو حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر چلنا ضروري قرار ديا گيا ہے تاکہ اپنے راستے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتيجے پر پہنچيں کہ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمايا ہے۔
پس جو شخص اس راستے پر قدم اٹھالے تو اسے چاہئيے کہ وہ صرف اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرے لہذا جب انسان کو اپنے مقصد تک جانے والي راہ کي اہميت کا اندازہ ہوگا تو اسے يہ خيال ہوگا کہ اس راستے ميں انحرافات اور اس کے عزم و ارادے کو کمزور اور متزلزل کرنے والے خيالات کہيں اسے اپنے جال ميں پھنسا کر راہ مستقيم سے ہٹا نہ ديں چنانچہ اسے اپنے ہدف و مقصد کو پانے کي جدوجہد کو جاري رکھنے اور کم ہمتي اور حوصلہ شکني سے اس کي حفاظت کرنے کے لئے رہبر و ہادي کے احکامات سے ہدايات حاصل کرنے کي ضرورت ہے چنانچہ وہ رہبر اول ۔۔۔ کہ جس نے انسانوں کو ان کے ہدف و مقصد تک پہنچانے کے لئے راستہ مقرر کيا ۔۔۔۔۔ يعني خدا کے پيغمبر کي تعليمات سے ذرہ برابر منہ نہ موڑے اور وہ ان کے مرتب کردہ اصول و قوانين سے ہرگز انحراف نہ کرے۔
وہ مقصد ۔۔۔۔ کہ جو انسان کا مقام کمال ہے۔۔۔ کتنا ارفع و اعليٰ ہے يہي ہے کہ انسان کو اس دنيا سے واپس خدا کي جانا ہے جس کے لئے نماز کو مقرر کيا گيا ہے انسان کي پيدائش کي اصلي غرض يہي ہے کہ وہ نيک صفات جو انسان ميں پوشيدہ ہيں ظاہر ہوں اور باطن ميں پنہاں کمالات جلوہ افروز ہوں تاکہ انسان کي تمام صلاحيتيں اور کمالات عملي ہوجائيں اور وہ نيکي کے راستے پر گامزن ہوکر اپني ذات ، تمام دنيا اور تمام انسانيت کو نيک بنائے۔ ليکن لازم ہے کہ انسان اللہ کي معرفت کے ساتھ ساتھ اس راستے کي بھي معرفت حاصل کرے جسے خداوند عالم نے ہم انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے مقرر کيا ہے تاکہ اسے پيش نظررکھتے ہوئے سستي اور کاہلي کئے بغير اپنے مقصد و ہدف تک رسائي کے لئے جدوجہد کرے۔
وہ کام ۔۔۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد سے نزديک کرتے ہيں انہيں انجام دينا اور وہ کام۔۔۔۔۔ جو انحرافات و گمراہي سے پر اور انسان کي منزل کي راہ ميں رکاوٹ ہيں۔۔۔ انہيں ترک کرنا يہي وہ طريقہ ہے جو انسان کو اس کي زندگي کے معاني سمجھاتا ہے کہ اس مقرر کردہ خدائي راستے پر چلنا ہي اس کي زندگي کا حقيقي فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر ہم نے ان کاموں کو انجام نہيں ديا جو ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے نزديک کرتے ہيں اور ان افعال سے دوري اختيار نہيں کي جو نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہميں ہمارے مقصد و ہدف سے دور کرديتے ہيں تو حقيقتاً ہماري زندگي بے معني ہوجائيگي کہ جس کے گزارنے کا ہميں کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا۔
ہم اپني بات کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ ہماري زندگي ايک کلاس يا کمرہ امتحان کي مانند ہے جہاں ہميں چاہئيے کہ کائنات خلق کرنے والي اور ہميں زندگي عطا کرنے والي ذات نے جو قوانين و فارمولے بنائے ہيں ان پر عمل کريں تاکہ اپني دلي مراد اور نتيجہ اعليٰ تک پہنچ سکيں۔ ہم ان قوانين کو الہي سنتيں اور پيدائش کے (فطري) قوانين کہہ سکتے ہيں چنانچہ ہميں چاہئيے کہ عالم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ان قوانين کي معرفت حاصل کريں اور ان کے مطابق اپني زندگي بسر کريں۔
ان تمام باتوں کو عملي جامہ پہنانے کے لئے ضروري ہے کہ ہم اپني ذات کي معرفت حاصل کريں اور يہ بھي جانيں کہ خداوند عالم نے ہمارے باطن ميں کون کون سے کمالات پوشيدہ کئے ہيں اور ہميں اپني منزل تک پہنچنے کے لئے کن کن چيزوں کي ضرورت ہے يہي انسان کي سب سے بڑي مسؤليت اور ذمہ داري ہے اور اسي ذمہ داري کو احسن طريقے سے نبھا کر انسان کو يہ قدرت حاصل ہوگي کہ اس کي اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ۔۔۔۔۔ ہوشياري کے ساتھ ہو اور اس کي جدوجہد ميں خدا کي توفيقات شامل ہوں۔ ليکن اگر ہم نے اس الہي راستے کي ، جو ہمارے کمال کا راستہ ہے۔۔۔۔ معرفت حاصل نہيں کي اور ان قوانين کے مطابق ۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کئے ہيں۔۔۔ عمل نہيں کيا اس کا مطلب ہے کہ ہماري زندگي ميں جمود ہي جمود ہے ہاں اگر ہم نے معرفت کے بغير جدوجہد کي يا قہراً تو نہ خدا کي توفيق شامل ہوگي اور نہ ہي ہم اپنے مقصد کو حاصل کرسکيں گے۔
ياد خدا
دين ہميں يہ بتاتا ہے کہ ہمارا مقصد و ہدف کيا ہونا چاہئيے ، ہميں کس رخ پر عمل کرنا چاہئيے اور ہم کن وسائل سے اپني منزل تک پہنچ سکتے ہيں اور صرف يہ بيان ہي نہيں کرتا ہے بلکہ قوت بھي ۔۔۔۔۔ جو ہماري جدوجہد کے لئے از حد ضروري ہے ۔۔۔ دين ہي انسان کو عطا کرتا ہے اور وہ اہم ترين توشہ راہ اور سامان ۔۔۔ جو ہماري گھٹڑي ميں ہے۔۔ ياد خدا ہے۔
چند چيزيں و روح انسان کے لئے ضروري ہيں وہ ’’ طلب (خواہش) ‘‘ اميد اور ’’اطمينان ‘‘ہے۔ طلب ( خواہش ) ، اميد اور اطمينان وہ مضبوط و توانا پر ہے جن کے ذريعے انسان اپني منزل کي طرف پرواز کرتا ہے اور ان کا مبدا و منبع ياد خدا ہے ياد خدا ہي کي وجہ سے انسان خواہش بھي رکھتا ہے ، اسے اميد بھي ہوتي ہے اور اطمينان بھي۔ ياد خدا ہميں ہمارے مقصد کي طرف متوجہ کرتي ہے۔ جو خدا تک پرواز ہے۔
خدا تک پرواز سے کيا مراد ہے؟ يعني تمام خوبيوں اور کمالات تک پرواز ۔ ياد خدا ہي کي وجہ سے ہم متوجہ رہتے ہيں کہ ہميں کامل بننا ہے۔ ياد خدا ۔۔ ہماري اپنے مقصد کے حصول کي جدوجہد کي حفاظت کرتي ہے کہ کہيں ہم کج ر وي کي طرف مائل ہو کر اپنے مقصد سے دور نہ ہوجائيں۔
ياد خدا راہيان کمال کو ان کے راستے اور وسيلے کے بارے ميں ہوشيار کرتي ہے اور انہيں احساس رہتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہيں اور ان کا راستہ کون سا ہے؟ ياد خدا۔۔۔۔ ہمارے قلوب کو قوت ، تازگي اور اطمينان عطا کرتي ہے۔ ياد خدا اس سلسلے ميں بھي ہماري معاونت کرتي ہے کہ کہيں ہم دنياوي جلووں اور ان کي ظاہري چمک دمک ميں دل نہ لگا بيٹھيں اور نہ ہي زندگي کے مسائل اور نشيب و فراز ہماري راہ ميں رکاوٹ بنيں۔
ايک اسلامي معاشرے ميں ايک گروہ يا ايک مسلمان اگر يہ خواہش رکھتا ہے کہ
ميں اس راستے پر چلوں جو اسلام نے انسانوں کے کمال کے لئے مقرر کيا ہے
ان اصول و قوانين پر عمل پيرا ہوں جن پر تمام پيغمبران نے عالم انسانيت کو عمل کرنے کي دعوت دي
اس راستے کا مسافر بنوں جس ميں رکاوٹيں اور مزاحمتيں نہ ہوں کہ ان سے گھبرا کر منزل پر پہنچنے سے قبل ہي واپس پلٹ آوںاور اس کي يہ بھي خواہش ہو کہ صراط مستقيم پر ميرے قدم ثابت رہيں
تو خواہ وہ ايک گروہ ہو يا فرد واحد، اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ ہميشہ خدا کو ياد رکھے اور اس کي يا سے کبھي منہ نہ موڑے اور اسي وجہ سے دين کي ۔۔ جو انسانوں کو منزل کمال تک پہنچانے والے قوانين کا مجموعہ ہے۔۔۔۔ ہميشہ سے يہ کوشش رہي ہے کہ مختلف راستوں اور وسيلوں سے ايسے حالات پيدا کرے کہ ايک ديندار کے دل ميں ياد الہي کا سورج ہميشہ چمکتا دمکتا رہے اور اس کي روشني سے اسکي روحاني دنيا ہميشہ منور رہے۔
انہي اعمال ميں سے۔۔۔۔ جو دين نے ہم انسانوں کے کمال کے لئے ضروري قرار دئيے ہيں ايک عمل ايسا ہے جو ياد خدا سے لبريز اس کي نورانيت سے منور اور انسان کو ياد خدا کے دريا ميں غرق کرنے والا ہے اور وہ عمل انسان کو بيدار اور اسے اس کي ذات سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ عمل شاخص يا علامت و نشاني کے مثل ہے کہ خدائي راستے پر چلنے والے اس شاخص يا علامت و نشاني کو ديکھتے ہوئے ’’ صراط مستقيم ‘‘ پر ثابت قدم اور انحرافات و گمراہي سے دور رہيں اور وہ عمل جو انسان کي زندگي ميں سر اٹھانے والي دنياوي غفلت سے ہر آن اور ہر لمحے برسرپيکار ہے ’’ نماز‘‘ ہے۔
نماز انسان کو بيدار کرتي ہے
انسان کو ذہن ہر وقت زندگي کے مسائل ميں الجھا رہتا ہے جب کہ اس کي فکر مختلف امور ميں مصروف و مشغول رہتي ہے اور شاذ و نادر ہي ايسا ہوتا ہے کہ انسان کبھي اپني ذات کي طرف متوجہ ہو يا کبھي اسے خيال ہو کہ ميري زندگي کا کيا مقصد ہے يا کبھي وہ اپنا حساب کرے کہ ميري زندگي کے لمحات جو گزر گئے وہ کيسے گزرے اور يہ دن گزر رہے ہيں ان ميں کيا تياري کررہا ہوں چنانچہ ہماري زندگي ميں کتنے ہي ايسے دن ہيں جو اپنے انجام يعني رات کي تاريکي ميں گم ہوجاتے ہيں اور دوسرا دن اپنا سفر شروع کرديتا ہے۔ کڑيوں سے ملتي رہتي ہيں ، دن و رات دوڑ ميں ہفتے اور مہينے گزر جاتے ہيں اور انسان کي زندگي سالوں کے گرد و غبار ميں مٹتي چلي جاتي ہے اور انسان يہ خيال بھي نہيں کرتا کہ کب صبح ہوئي اور کب شام ؟ کتني باطل پرستي ہے کہ انسان ان باتوں کا احساس بھي نہيں کرتا اور وقت گزرتا جارہا ہے ۔
نماز ايک گھنٹي ہے جو زندگي کے عظيم مقصد سے غافل انسان کو بيدار کرنے کا کام انجام ديتي ہے ، نماز انسان کو دن و رات کے مختلف اوقات ميں بيدار کرتي ہے اور اس کي زندگي کو بہتر طور پر گزارنے کا پروگرام ديتي ہے ۔۔۔ نماز انسان سے يہ کہتي ہے کہ تم يہ عہد کرو کہ مجھے تمام کمالات حاصل کرنے ہيں۔ نماز۔۔۔۔ انسان کو متوجہ کرتي ہے کہ تمہارے دن اور رات بيکار نہيں ہيں۔ يہ نما ہي ہے جو انسان کو اس کے گذرے ہوئے لمحات کا حساب کرنے پر آمادہ کرتي ہے ايسي زندگي کہ جس ميں انسان مادي مسائل اور ہنگاموں ميں پھنسا رہتا ہے اور اسے يہ احساس بھي نہيں ہوتا کہ زمانہ اپنا سفر کتني تيزي سے طے کررہا ہے اور وقت کي چکي ميں اس کي زندگي کے شب و روز پس پس کر اس کي زندگي کو ختم کررہے ہيں۔ نماز انسان کو متوجہ کرتي ہے اور اسے سمجھاتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک اور دن رات کي تاريکي ميں گم ہوگيا جو کبھي پلٹنے والا نہيں اور ايک نئے دن کا آغاز ہوگيا کہ معلوم نہيں کہ تم اس کا انجام ديکھ سکو گے يا نہيں نماز ہي انسان کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ تي ہے کہ تم بيکار پيدا نہيں کئے گئے ہو بلکہ تمہارے کندھوں پر ايک عظيم ذمہ داري اور عہدہ ہے تمہيں اہم ترين کام انجام دينے ہيں لہذا تم اپنا وقت برباد مت کرو۔۔۔ نماز ہي انسان کو ہوشيار کرتي ہے کہ تمہاري زندگي کا ايک بڑا حصہ بيکار گزر چکا ہے تو اب جو تمہاري عمر باقي ہے تمہيں چاہئيے کہ اپنے مقصد کے حصول تک جدوجہد ميں لگے رہو۔
نماز تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے
ايک طرف يہ خيال کرنا چاہئيے کہ ہماري زندگي کے مادي مسائل اتنے پيچيدہ اور گھمبير ہيں ۔۔۔۔ اور يہ فطري بات ہے ۔۔۔۔۔ کہ انسان اپني زندگي کے مقصد اعليٰ اور عظيم ہدف کو فراموش کرديتا ہے اور دوسري جانب انسان کا خودبخود ان عظيم ذمہ داريوں کي طرف ۔۔۔۔۔۔ جو اسے مقام کمال تک پہنچے کے لئے سونپي گئي ہيں۔۔ ہر روز متوجہ ہونا ، نا ممکن اور محال ہے اور اسي طريقے سے يہ بھي ممکن نہيں کہ کوئي ايسي ذات ہو جس کا کام فقط يہي ہو کہ وہ ہميں سمجھائے کہ تم کس لئے دنيا ميں آئے ہو اور تمہاري زندگي کا کيا مقصد ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ ايک اور بات بھي قابل ذکر ہے کہ خود يہ زمانہ اپنے دامن ميں اتني وسعت نہيں رکھتا ہے کہ ہم اسلامي آئيڈيالوجي يا نظريات کے مطابق اپني زندگي بسر کريں اور اسلام کي عطا کردہ خواہشات کي تکميل کريں۔ نہ تو ہمارے صبح و شام ميں اتني گنجائش ہے کہ ہم اعليٰ مقاصد تک پہنچ سکيں اور نہ ہي ايسي لمبي فرصت ملے گي کہ ہم اس ميں اپني منزل کو پاسکيں۔
چنانچہ کم اوقات والے دن و رات کي زندگي ميں نماز وہ معجون الہي ہے جس نے انسانوں کے لئے تمام کمالات کو اپنے اندر سمويا ہوا ہے يا با الفاظ ديگر نماز ہي تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے۔ ہمارا دل روزانہ نما ز ميں متوجہ ہوتا ہے کہ ہميں دنيا ميں رہ کر کيا کرنا ہے۔۔۔۔۔ نماز ہميں بتاتي ہے کہ اسلام ہم سے کس چيز کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔۔ ؟ نماز کے لئے ہم کہہ سکتے ہيں کہ نما زتمام ممالک کا قومي نغمہ ہے البتہ ہر قوم کے لحاظ سے نماز کے معني ميں تھوڑے بہت فرق ہوں گے اور ہر ملک اور ہر زمانے کے لحاظ سے اس کي توجہ ميں کمي بيشي ہوسکتي ہے۔
اصول و قوانين کي تکرار ذہنوں ميں ان کي پختگي کا سبب ہوتي ہے
ايک مملکت اس بات کي خواہشمند ہوتي ہے کہ اس کے اصول و قوانين مضبوط ہوں، اس کے نظريات وہاں بسنے والے افراد کے اذہان ميں راسخ و پختہ ہوں اور وہ مملکت کي فکر پر باقي رہيں، چنانچہ اس کے لئے ضروري ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد سے کہا جائے کہ يہ تمہارا قومي نغمہ ہے ۔۔۔۔ جو زندگي کے ہدف ، آئيڈيالوجي اور ملت کے افراد کے مقاصد پر مشتمل ہے۔۔۔۔
اسے بار بار پڑھو اور ضروري ہے کہ اس ملک کے باشندے ان کي تکرار کرتے ہيں کيونکہ اس تکرار کي وجہ سے وہ ملک کے نظريات و افکار پر باقي رہيں گے اور انہيں يہ احساس رہے گا کہ وہ اس ملک کے رہنے والے ہيں اور وہ ، ان اغراض و مقاصد کو ۔۔ جو مملکت انہيں بتا رہي ہے۔۔۔ حاصل کرنے کي جدوجہد جاري رکھيں گے۔
اگر اس مملکت کے رہنے والے اپنے ملک کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو فراموش کرديں تو اس کا مطلب يہ ہے کہ ان کا راستہ بدل جائے گا اور وہ اس راستے کے مسافر نہيں رہيں گے۔ چنانچہ لوگوں کے لئے مملکت کے اغراض و مقاصد بار بار بيان کرنا ، ان ميں احساس ذمہ داري پيدا کرنا اور کام و خدمت کي طرف بار بار ان کي توجہ مبذول کرانا۔۔۔۔ يہي وہ عوامل ہيں جن کي وجہ سے وہ جدوجہد کے لئے آمادہ ہوں گے۔۔۔۔۔ اور ويسے ہي بن جائيں گے ۔۔۔ اور اسي تکرار کي وجہ سے منزل کا نقشہ اور منزل کا راستہ ان کي سمجھ ميں آجائے گا اور ساتھ ہي وہ اپني مسؤليت و ذمہ داري کو بھي سمجھ ليں گے۔ يہ تکرار ان کے ذہنوں ميں ان کي مملکت کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو زندہ رکھنے اور ان کي ذمہ داريوں کو مقرر کرنے کا باعث ہوگي اور ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ ہوگا کہ وہ عمل کے لئے تيار ہوجائيں گے اور شجاعت و ہمت کے ساتھ ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے۔
source : http://www.shiastudies.com/urdu/modules.php?name=News&file=article&sid=784