''تبوك''(1)كا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پيغمبر (ص) نے اپنى جنگوں ميں پيش قدمى كى _ ''تبوك''اصل ميںايك محكم اور بلند قلعہ كا نام تھا _ جو حجاز او رشام كى سرحد پر واقع تھا اسى وجہ سے اس علاقے كو سر زمين تبوك كہتے تھے _
جزيرہ نمائے عرب ميں اسلام كے تيز رفتار نفوذ كى وجہ سے رسول اللہ (ص) كى شہرت اطراف كے تمام ممالك ميں گونجنے لگى باوجود يہ كہ وہ اس وقت حجازكى اہميت كے قائل نہيں تھے ليكن طلوع اسلام اور لشكر اسلام كى طاقت كہ جس نے حجاز كو ايك پرچم تلے جمع كرليا، نے انھيں اپنے مستقبل كے بارے ميں تشويش ميں ڈال ديا _
مشرقى روم كى سرحد حجاز سے ملتى تھى اس حكومت كو خيال ہوا كہ كہيں اسلام كى تيز رفتار ترقى كى وہ پہلى قربانى نہ بن جائے لہذا اس نے چاليس ہزار كى زبردست مسلح فوج جو اس وقت كى روم جيسى طاقتور حكومت كے شايان شان تھي' اكھٹى كى اور اسے حجاز كى سرحد پر لاكھڑا كيا يہ خبر مسافروں كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) كے كانوں تك پہنچى رسول اللہ (ص) نے روم اور ديگر ہمسايوں كودرس عبرت دينے كے لئے توقف كئے بغير تيارى كا حكم صادر فرماياآپ كے مناديوںنے مدينہ اور دوسرے علاقوں تك آپ(ص) كا پيغام پہنچايا تھوڑے ہى عرصہ
ميں تيس ہزار افراد روميوں سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوگئے ان ميں دس ہزار سوار اور بيس ہزار پيادہ تھے _
موسم بہت گرم تھا، غلے كے گودام خالى تھے اس سال كى فصل ابھى اٹھائي نہيں گئي تھى ان حالات ميں سفر كرنا مسلمانوں كے لئے بہت ہى مشكل تھا ليكن چونكہ خدا اور رسول كافرمان تھا لہذا ہر حالت ميں سفر كرنا تھا اور مدينہ اور تبوك كے درميان پرُ خطر طويل صحرا كو عبور كرنا تھا _
لشكر ى مشكلات
اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ ''جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر ) كے نام سے مشہور ہوا _
تاريخ اسلام نشاندہى كرتى ہے كہ مسلمان كبھى بھى جنگ تبوك كے موقع كى طرح مشكل صورت حال، دبائو اور زحمت ميں مبتلا نہيں ہوئے تھے كيونكہ ايك تو سفر سخت گرمى كے عالم ميں تھا دوسرا خشك سالى نے لوگوں كو تنگ اور ملول كرركھا تھا اور تيسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے كے دن تھے اور اسى پر لوگوں كى سال بھر كى آمدنى كا انحصار تھا_
ان تمام چيزوں كے علاوہ مدينہ اور تبوك كے درميان بہت زيادہ فاصلہ تھا اور مشرقى روم كى سلطنت كا انھيں سامنا تھا جو اس وقت كى سپر پاور تھي_
مزيد برآں سوارياں اور رسد مسلمانوں كے پاس اتنا كم تھا كہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے كہ ايك ہى سوارى پربارى بارى سفر كريں بعض پيدل چلنے والوں كے پاس جوتاتك نہيںتھا اور وہ مجبور تھے كہ وہ بيابان كى جلانے والى ريت پرپا برہنہ چليں آب وغذا كى كمى كا يہ عالم تھا كہ بغض اوقات خرمہ كا ايك دانہ چند آدمى يكے بعد ديگرے منہ ميں ركھ كر چوستے تھے يہاں تك كہ اس كى صرف گٹھلى رہ جاتى پانى كا ايك گھونٹ كبھى چند آدميوں كو مل كر پينا پڑتا _
يہ واقعہ نوہجرى يعنى فتح مكہ سے تقريبا ايك سال بعد رونماہوا _مقابلہ چونكہ اس وقت كى ايك عالمى سوپر طاقت سے تھا نہ كہ عرب كے كسى چھوٹے بڑے گروہ سے لہذا بعض مسلمان اس جنگ ميں شركت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال ميں منافقين كے زہريلے پر وپيگنڈے اور وسوسوں كے لئے ماحول بالكل ساز گار تھا اور وہ بھى مومنين كے دلوں اور جذبات كوكمزور كرنے ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں كررہے تھے _
پھل اتارنے اور فصل كاٹنے كا موسم تھا جن لوگوں كى زندگى تھوڑى سى كھيتى باڑى اور كچھ جانور پالنے پر بسر ہوتى تھى يہ ان كى قسمت كے اہم دن شمار ہوتے تھے كيونكہ ان كى سال بھر كى گزر بسر انہيں چيزوں سے وابستہ تھےں_
جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں مسافت كى دورى اور موسم كى گرمى بھى روكنے والے عوامل كى مزيد مدد كرتى تھى اس موقع پر آسمانى وحى لوگوں كى مدد كے لئے آپہنچى اور قرآنى آيات يكے بعد ديگر ے نازل ہوئيں اور ان منفى عوامل كے سامنے آكھڑى ہوئيں_
تشويق ، سرزنش، اور دھمكى كى زبان
قرآن جس قدر ہوسكتى ہے اتنى سختى اور شدت سے جہاد كى دعوت دتياہے _ كبھى تشويق كى زبان سے كبھى سرزنش كے لہجے ميں اوركبھى دھمكى كى زبان ميں ان سے بات كرتا ہے،اور انہيںآمادہ كرنے كے لئے ہر ممكن راستہ اختيار كرتا ہے_ پہلے كہتا ہے:'' كہ خدا كى راہ ميں ،ميدان جہاد كى طرف حركت كرو تو تم سستى كا مظاہرہ كرتے ہو اور بوجھل پن دكھاتے ہو ''_(1)
اس كے بعد ملامت آميز لہجے ميں قرآن كہتا ہے : ''آخرت كى وسيع اور دائمى زندگى كى بجائے اس دنياوى پست اور ناپائيدار زندگى پر راضى ہوگئے ہو حالانكہ دنياوى زندگى كے فوائد اور مال ومتاع آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں كوئي حيثيت نہيں ركھتے اور بہت ہى كم ہيں ''_(2)
ايك عقلمند انسان ايسے گھاٹے كے سودے پر كيسے تيار ہوسكتا ہے اور كيونكہ وہ ايك نہايت گراں بہامتاع اور سرمايہ چھوڑكر ايك ناچيز اور بے وقعت متاع كى طرف جاسكتاہے _
اس كے بعد ملامت كے بجائے ايك حقيقى تہديد كا اندازاختيار كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے :'' اگر تم ميدان جنگ كى طرف حركت نہيں كرو گے تو خدا دردناك عذاب كے ذريعے تمہيں سزادے گا''_ (3)
''اور اگر تم گمان كرتے ہو كہ تمہارے كنارہ كش ہونے اور ميدان جہاد سے پشت پھيرنے سے اسلام كى پيش رفت رك جائے گى اور آئينہ الہى كى چمك ماند پڑجائے گى تو تم سخت اشتباہ ميں ہو ،كيونكہ خدا تمہارے بجائے ايسے صاحبان ايمان كو لے آئے گا جو عزم مصمم ركھتے ہوں گے اور فرمان خدا كے مطيع ہوں گے''_ (4)
وہ لوگ كہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہيں نہ صرف ان كى شخصيت بلكہ انكا ايمان، ارادہ،دليرى اور فرماں بردارى بھى تم سے مختلف ہے لہذا '' اس طرح تم خدا اور اس كے پاكيزہ دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _(5)
تنہاوہ جنگ جس ميں حضرت على نے شركت نہ كي
اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكّڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ'' جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر )كے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختيوں كو جھيلا اور ماہ شعبان كى ابتداء ميں ہجرت كے نويں سال سرزمين ''تبوك'' ميں پہنچا جب كہ رسول اللہ حضرت على كو اپنى جگہ پر مدينہ ميں چھوڑآئے تھے يہ واحد غزوہ ہے جس ميں حضرت على عليہ السلام شريك نہيں ہوئے _
رسول اللہ كايہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا كيونكہ بہت احتمال تھا كہ بعض پيچھے رہنےوالے مشركين يامنا فقين جو حيلوں بہانوں سے ميدان تبوك ميں شريك نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان كى فوج كى طويل غيبت سے فائدہ اٹھائيں اور مدينہ پر حملہ كرديں، عورتوں اور بچوں كو قتل كرديں اور مدينہ كو تاراج كرديں ليكن حضرت على كا مدينہ ميں رہ جانا ان كى سازشوں كے مقابلے ميں ايك طاقتور ركاوٹ تھى _
بہرحال جب رسول اللہ تبوك ميں پہنچے تو وہاں آپ كو رومى فوج كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا عظيم سپاہ اسلام چونكہ كئي جنگوں ميں اپنى عجيب وغريب جرا ت وشجاعت كا مظاہرہ كرچكى تھي، جب ان كے آنے كى كچھ خبر روميوں كے كانوں تك پہنچى تو انھوں نے اسى كو بہتر سمجھا كہ اپنے ملك كے اندرچلے جائيں اور اس طرح سے ظاہر كريں كہ مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے لشكر روم كى سرحدوں پر جمع ہونے كى خبر ايك بے بنياد افواہ سے زيادہ كچھ نہ تھى كيونكہ وہ ايك ايسى خطرناك جنگ شروع كرنے سے ڈرتے تھے جس كا جواز بھى ان كے پاس كوئي نہ تھا ليكن لشكر اسلام كے اس طرح سے تيز رفتارى سے ميدان تبوك ميں پہنچنے نے دشمنان اسلام كو كئي درس سكھائے، مثلاً:
1_يہ بات ثابت ہوگئي كہ مجاہدين اسلام كا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے كہ وہ اس زمانے كى نہايت طاقت ور فوج سے بھى نہيں ڈرتے_
2_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوك كے امراء پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ كرنے كے عہدوپيمان پر دستخط كيے اس طرح مسلمان ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _
3_ اسلام كى لہريں سلطنت روم كى سرحدوں كے اندر تك چلى گئيں اور اس وقت كے ايك اہم واقعہ كے طور پر اس كى آواز ہر جگہ گونجى اور روميوں كے اسلام كى طرف متوجہ ہونے كے لئے راستہ ہموار ہوگيا _
4_ يہ راستہ طے كرنے اور زحمتوں كو برداشت كرنے سے آئندہ شام كا علاقہ فتح كرنے كے لئے راہ ہموار ہوگئي اور معلوم ہوگيا كہ آخركار يہ راستہ طے كرنا ہى ہے _
يہ عظيم فوائد ايسے تھے كہ جن كے لئے لشكر كشى كى زحمت برداشت كى جاسكتى تھى _
بہرحال پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى سنت كے مطابق اپنى فوج سے مشورہ كيا كہ كيا پيش قدمى جارى ركھى جائے ياواپس پلٹ جايا جائے؟
اكثريت كى رائے يہ تھي، كہ پلٹ جانا بہتر ہے اور يہى اسلامى اصولوں كى روح سے زيادہ مناسبت ركھتا تھا خصوصاً جبكہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے كى مشقت وزحمت كے باعث اسلامى فوج كے سپاہى تھكے ہوئے تھے اور ان كى جسمانى قوت مزاحمت كمزور پڑچكى تھي، رسول اللہ نے اس رائے كو صحيح قرار ديا اور لشكر اسلام مدينہ كى طرف لوٹ آيا_
ايك عظيم درس
''ابو حثيمہ ''(6) اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے تھا ،منافقين ميں سے نہ تھا ليكن سستى كى وجہ سے پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ ميدان تبوك ميںنہ گيا _
اس واقعہ كو دس دن گذر گئے ،ہوا گرم او رجلانے والى تھي،ايك دن اپنى بيويوں كے پاس آيا انھوں نے ايك سائبان تان ركھا تھا ، ٹھنڈا پانى مہيا كر ركھا تھا او ربہترين كھانا تيار كر ركھا تھا، وہ اچانك غم و فكر ميں ڈوب گيا او راپنے پيشوا رسول اللہ (ص) كى ياد اسے ستانے لگى ،اس نے كہا:رسول اللہ(ص) كہ جنھوںنے كبھى كوئي گناہ نہيں كيا او رخدا ان كے گذشتہ اور آئندہ كا ذمہ دار ہے ،بيابان كى جلا ڈالنے والى ہوائوں ميں كندھے پر ہتھيار اٹھائے اس دشوار گذار سفر كى مشكلات اٹھارہے ہيں او رابو حثيمہ كو ديكھو كہ ٹھنڈے سائے ميں تيار كھانے اور خوبصورت بيويوں كے پاس بيٹھا ہے ،كيا يہ انصاف ہے ؟
اس كے بعد اس نے اپنى بيويوں كى طرف رخ كيا او ركہا:
خدا كى قسم تم ميں سے كسى كے ساتھ ميں بات نہ كروں گا او رسائبان كے نيچے نہيں بيٹھوں گا جب تك پيغمبر (ص) سے نہ جاملوں _
يہ بات كہہ كر اس نے زادراہ ليا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوااور چل كھڑا ہوا ،اس كى بيويوںنے بہت چاہا كہ اس سے بات كريں ليكن اس نے ايك لفظ نہ كہا او راسى طرح چلتا رہا يہاں تك كہ تبوك كے قريب جا پہنچا _
مسلماان ايك دوسرے سے كہنے لگے :يہ كوئي سوار ہے جو سڑك سے گذررہا ہے، ليكن پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا:اے سوار تم ابو حثيمہ ہو تو بہتر ہے_
جب وہ قريب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان ليا تو كہنے لگے : جى ہاں ; ابو حثيمہ ہے _
اس نے اپنا اونٹ زمين پر بٹھايا او رپيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں سلام عرض كيا او راپنا ماجرابيان كيا _
رسول اللہ (ص) نے اسے خوش آمديد كہا اور اس كے حق ميں دعا فرمائي _
اس طرح وہ ايك ايسا شخص تھا جس كا دل باطل كى طرف مائل ہوگيا تھا ليكن اس كى روحانى آمادگى كى بنا ء پر خدا نے اسے حق كى طرف متوجہ كيا اور ثبات قدم بھى عطا كيا _
جنگ تبوك ميںشركت نہ كرنے والے تين لوگ
مسلمانوں ميں سے تين افراد كعب بن مالك ،مرارہ بن ربيع او ربلال بن اميہ نے جنگ تبوك ميںشركت نہ كى او رانھوںنے پيغمبر خدا (ص) كے ہمراہ سفر نہ كيا وہ منافقين ميں شامل نہيں ہو نا چاہتے تھے بلكہ ايسا انھوںنے سستى اور كاہلى كى بنا پر كيا تھا،تھوڑا ہى عرصہ گذرا تھا كہ وہ اپنے كئے پر نادم اور پشيمان ہوگئے_
جب رسول اللہ (ص) ميدان تبوك سے مدينہ لوٹے تو وہ آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور معذرت كى ليكن رسول اللہ(ص) نے ان سے ايك لفظ تك نہ كہا اور مسلمانوں كو بھى حكم ديا كہ كوئي شخص ان سے بات چيت نہ كرے وہ ايك عجيب معاشرتى دبائو كا شكار ہوگئے يہاں تك كہ ان كے چھوٹے بچے او رعورتيں رسول اللہ (ص) كے پاس آئيں او راجازت چاہى كہ ان سے الگ ہو جائيں ،آپ (ص) نےانھيں عليحدگى كى اجازت تو نہ دى ليكن حكم ديا كہ ان كے قريب نہ جائيں،مدينہ كى فضااپنى وسعت كے باوجود ان پر تنگ ہو گئي ،وہ مجبور ہوگئے كہ اتنى بڑى ذلت اوررسوائي سے نجات حاصل كرنے كے لئے شہر چھوڑديں اوراطراف مدينہ كے پہاڑوں كى چوٹى پر جاكر پناہ ليں_
جن باتوںنے ان كے جذبات پر شديد ضرب لگائي ان ميں سے ايك يہ تھى كہ كعب بن مالك كہتا ہے :ميںايك دن بازار مدينہ ميں پريشانى كے عالم ميں بيٹھا تھاكہ ايك شامى عيسائي مجھے تلاش كرتا ہوا آيا، جب اس نے مجھے پہچان ليا تو بادشاہ غسان كى طرف سے ايك خط ميرے ہاتھ ميںديا ، اس ميں لكھاتھا كہ اگر تيرے ساتھى نے تجھے دھتكارديا ہے تو ہمارى طرف چلے آئو، ميرى حالت منقلب اور غير ہوگئي ،اور ميں نے كہا وائے ہو مجھ پر ميرا معاملہ اس حد تك پہنچ گيا ہے كہ دشمن ميرے بارے ميں لالچ كرنے لگے ہيں، خلاصہ يہ كہ ان كے اعزا ء واقارب ان كے پاس كھانالے آتے مگر ان سے ايك لفظ بھى نہ كہتے ،كچھ مدت اسى صورت ميں گزر گئي او روہ مسلسل انتظار ميں تھے كہ اس كى توبہ قبول ہو اوركوئي آيت نازل ہو جو ان كى توبہ كى دليل بنے ، مگر كوئي خبر نہ تھى _
اس دوران ان ميں سے ايك كے ذہن ميںيہ بات آئي او راس نے دوسروں سے كہا اب جبكہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق كر ليا ہے ،كيا ہى بہتر ہے كہ ہم بھى ايك دوسرے سے قطع تعلق كرليں (يہ ٹھيك ہے كہ ہم گنہ گار ہيں ليكن مناسب ہے كہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضى نہ ہوں)_
انھوں نے ايسا ہى كيا يہاں تك كہ ايك لفظ بھى ايك دوسرے سے نہيںكہتے تھے اوران ميںسے كوئي ايك دوسرے كے ساتھ نہيں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزارى كى او رآخر كار ان كى توبہ قبول ہوگئي _(7)
(1) واقعہ جنگ تبوك سورہ توبہ آيت 117 كے ذيل ميں بيان ہوا ہے
(3)سورہ توبہ آيت 38
(5)سورہ توبہ آيت 39
(6)سور ہ توبہ آيت 39
source : http://www.maaref-foundation.com