اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

پیغمبر اکرم (ص) کے کلام میں ماه مبارک رمضان کی اہمیت

انسان کو سعادت جاوید تک پہنچانے کے لئے اسلام کے قوانین تدوین ہوئے ہیں ، ایسی سعادت جس کی وسعت دنیا اور آخرت دونوں میں پھیلی ہوئی ہے ، اس دوران روزہ ایسی عبادت ہے جو انسان کو کمال اور بلندی تک پہنچانے میں بہترین کردار ادا کرتا ہے ۔

ماہ رمضان کے روزوں کی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور یہ بات بہت زیادہ حدیثوں میں معتر راویوں سے بیان ہوئی ہے ، ان میں سے ایک حدیث کو ہم یہاں پر بیان کریں گے جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ماہ رمضان کے روزوں کی اہمیت کے متعلق بیان کیا ہے ۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو خداوند عالم کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا :  '' خطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ، الناس فی آخر جمعة من شعبان، فحمد اللہ اثنی علیہ ثم قال: ایھا الناس انہ قد اظلکم شھر فیہ لیلة خیر من الف شھر، و ھو شھر رمضان، فرض اللہ صیامہ و جعل قیام لیلة فیہ بتطوع صلاة کتطوع صلاة سبعین لیلة فیما سواہ من الشھور و جعل لمن تطوع فیہ بخصلة من خصال الخیر والبر کاجرمن ادی فریضة من فرائض اللہ عزوجل''۔ اے لوگو! وہ مہینہ نزدیک ہے جس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور وہ مہینہ رمضان ہے ، پروردگار عالم نے اس مہینہ کے روزے واجب کئے ہیں اور اس مہینہ کی رات میں عبادت اور نماز قائم کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کی ستر راتوں کے برابر قرار دیا ہے ، جو بھی اس مہینہ میں نیک اور مستحب کام انجام دے گا تو خداوند عالم اس کو واجب اعمال کا ثواب عطا کرے گا ۔

و من ادی فیہ فریضة من فرائض اللہ تعالی کان کمن ادی سبعین فریضة من فرائض اللہ تعالی فی ما سواہ من الشھور و ھو شھر الصبر و ان الصبر ثوابہ الجنة و ھو شھر المواساة و ھو شھر ، یزید اللہ فی رزق المومن فیہ ، ومن فطر فیہ مومنا صائما کان لہ عنداللہ عزوجل بذلک عتق رقبة و مغفرة لذنوبہ فی ما مضی ، فقیل یا رسول اللہ لیس کلما یقدر علی ان یفطر صائما ، فقال : ان اللہ تبارک و تعالی کریم یعطی ھذا الثواب لمن لم یقدر الا علی مذقة من لبن یفطر بھا صائما''۔

 اور جو بھی اس مہینہ میں واجبات الہی میں کسی واجب کو ادا کرے گا تو اس کو دوسرے مہینوں کے ستر واجبات کا ثواب عنایت ہوگا ، یہ مہینہ ، صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا ء جنت ہے ، یہ مہینہ برابری اور مواسات کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم باایمان افراد کی روزی میں اضافہ کرتا ہے ، جو بھی اس مہینہ میں کسی مومن روزہ دار کو افطار کرائے ، خداوند عالم اس کے لئے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھتا ہے اور اس کے گذشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ہم عام مسلمانوں میں افطاری دینے کی طاقت نہیں ہے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: خداوند عالم ، کریم ہے ۔

''  او شربة من ماء عذب او تمرات لا یقدر علی اکثر من ذلک ، ومن خفف فیہ ان مملوکہ خفف اللہ عنہ حسابہ، و ھو شھر اولہ الرحمة و اوسطہ مغفرة، و آخرة الاجابة والعتق من النار ولا غنی بکم عن اربع خصال خصلتین ترضون اللہ بھما و خصلتین لا نی بکم عنھما فاما اللتان ترضون اللہ عزوجل بھما فشھادة ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا رسول الہ و اما اللتان لا غنی بکم فتسالون اللہ فیہ حوایجکم و الجنة و تسالون العافیة و تعوذون بہ من النار ''  (١)۔

 جو بھی کسی کو دودھ کے یک پیالہ یا ٹھنڈے پانی یا کھجور کے چند دانوں سے افطار کراے گا تو خداوند عالم اس کو اس کا ثواب عطا کرے گا ، جو بھی اس مہینہ میں اپنے خدمت گزاروں کے وظایف کو کم کرے گا خداوند عالم قیامت کے روز اس کے حساب و کتاب میں آسانی کرے گا ، اس مہینہ کے شروع میں رحمت، درمیان میں بخشش اور آخیر میں استجابت دعا اور آگ سے آزادی ہے ، اس مہینہ میں تم دو عادتوں سے بے نیاز نہیں ہو ان میں سے دو عادتوں کی وجہ سے خداوند عالم خوشحال ہوتا ہے اور وہ خداوند عالم کی وحدانیت اور میری نبوت کی گواہی ہے اور دوسری دو خصلتیں جس سے پوری عمر تک متصف ہونے پر مجبور ہو ان میں سے ایک خداوند عالم سے اپنی حاجتوں کی درخواست اور دوسرے دوزخ کی آگ سے اپنے آپ کو اس کی پناہ میں لینا ہے ۔

اس حدیث کے علاوہ جو کہ خطبہ شعبانیہ کاخلاصہ ہے ، ر سول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خطبہ شعبانیہ میں ماہ رمضان میں اعمال کی کیفیت کے متعلق فرمایا: '' انفاسکم فیہ تسبیح'' اس مہینہ میں تمہاری سانسیں تسبیح ہے، یعنی تم جو سانس بھی لیتے ہو وہ اس طرح ہے جیسے کہہ رہے ہو ، سبوح قدوس رب الملائکة والروح۔ '' و نومکم فیہ عبادة '' ، اس مہینہ میں تمہارے سونا بھی عبادت ہے اس معنی میں کہ اگر تم کوئی کام بھی انجام نہ دو تب بھی تمہارے لئے عبادت شمار ہوگی ، دوسری جگہ فرماتا ہے : ''واعمالکم فیہ مقبولة'' یعنی جو کام تم انجام دیتے ہو اس کو خداوند عالم قبول کرتا ہے اور عمل کو قبول کرنا اس بات کا مقدمہ ہے کہ خداوند عالم خودانسان کو قبول کرلیتا ہے ۔

یہ مہینہ جو کہ رحمت اور بخشش کا مہینہ ہے اس میں شعور، عقل اور عرف اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان کو اپنے پروردگار کی بخشش کے راستہ پر گامزن ہونا چاہئے ۔

خداوند عالم کی بخشش اور رحمت کے راستہ پر گامزن ہونے کے لئے سب سے چھوٹا کام جو انسان انجام دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اس ماہ میں منادی کرنے والے کو جواب دے یعنی شکریہ کا اظہار، اپنی کوتاہیوں کی معافی اور اس کی حکم برداری کا اعتراف، دعا اور طلب مغفرت کرے کیونکہ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : '' و اذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی و لیومنوا بی لعلھم یرشدون '' (٢)۔

جس وقت میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں ، تو یقینا میں ان سے قریب ہوں ، جو مجھ سے دعا کرتا ہے میں اس کی دعا کو قبول کرتا ہوں لہذا میری دعوت کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں ، شاید سیدھے راستہ کی طرف ہدایت ہوجائے ۔

 

 


source : http://www.taghrib.ir/urdu/index.php?option=com_content&view=article&id=244:1389-05-27-09-12-18&catid=45:1388-06-09-06-53-38&Itemid=72
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment