خداوند تعالیٰ کی عبادت و پرستش کرتے رسول اکرم کو چالیس سال گزر چکے تھے۔ ایک مرتبہ جب آپ غار حراء میں معبود حقیقی سے راز و نیاز میں مشغول تھے اس وقت اچانک حضرت جبرئیل امین آپ کے پاس آئے اور رسالت کی خوشخبری دیتے ہوئے انہوں نے وہ پہلی آیت جو خداوند تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی تھی:
اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم
”اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو کہ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ سکھا دیا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔“
رسول اعظم نے جب یہ آیت مبارکہ سنی اور خدا وند تعالیٰ کی جانب سے پیغمبری کی خوشخبری ملی نیز آپ نے مقام کبریائی کی عظمت و شان کا مشاہدہ کیا تو اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے وجود مبارک میں مسرت و شادمانی محسوس کی چنانچہ آپ غار سے باہر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔
راستے میں جتنی پہاڑیاں اور چٹانیں تھیں وہ سب قدرت حق سے گویا ہوگئی تھیں اور پیغمبر خدا کے ساتھ با ادب و احترام پیش آ رہی تھیں اور ”السلام علیک یا نبی اللہ“ کہہ کر آپ سے مخاطب ہو رہی تھیں۔
شیعہ محدثین اور مورخین کے نظریے کی رو سے واقعہ (عام الفیل) کے چالیس سال گزر جانے کے بعد رسول خدا پر ۲۷ رجب کو پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی۔
سب سے پہلے اسلام کا اعلان کرنے والا
رسول خدا غارِ حراء سے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے نبوت کا اعلان کر دیا۔ سب سے پہلے آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی علیہ السلام اور عورتوں میں آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ نے آپ کے پیغمبر ہونے کی تصدیق کی، اہل سنّت میں کے اکثر و بیشتر مورخین بھی اس بات سے متفق ہیں اس سلسلے میں چند روایات ملاحظہ فرمائیں:
(۱) پیغمبر اکرم
ھذا اوّل من امن بی وصدقنی وصلی معی
”علی علیہ السلام پہلے شخص ہیں جس نے تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز ادا کی۔“
(۲) پیغمبر اکرم
اولکم واردأ علی الحوض، اولکم اسلاماً علی ابن ابی طالب
”علی علیہ السلام پہلے شخص ہیں جو سب سے پہلے حوض کوثر کے کنارے مجھ سے ملاقات کریں گے اور سابق الاسلام ہیں۔“
(۳) حضرت علی علیہ السلام
اللھم انی اول من اناب وسمع واجاب لم یسبقنی الارسول اللہ
”بارالہا! میں پہلا شخص ہوں جو دین کی طرف آیا اسے سنا اور قبول کیا۔ پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی شخص نے نماز میں مجھ پر سبقت نہیں کی۔“
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=134855