ایثار
﴿و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا ، انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاءً اولا شکورا﴾ ( سورہ دہر 8 ، 9)۔
﴿و یوثرون علیٰ انفسہم و لو کان بھم خصاصہ و من یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ﴾
( سورہ حشر 9)
273۔ ابن عباس ! حسن (ع) وحسین (ع) بیمار ہوئے تو رسول اکرم ایک جماعت کے ساتھ عیادت کے لئے آئے اور فرمایا یا اباالحسن ! اگر تم اپنے بچوں کے لئے کوئی نذرکرلیتے؟ یہ سن کر علی (ع) ، فاطمہ (ع) و فضہ (کنیز خانہ) سب نے نذر کرلی کہ اگر بچہ صحتیاب ہوگئے تو تین دن روزہ رکھیں گے۔
خدا کے فضل سے بچے صحتیاب ہوگئے لیکن گھر میں روزہ کیلئے کوئی سامان نہ تھا تو حضرت علی (ع) شمعون یہودی کے یہاں سے تین صباع جو قرض لے آئے اور فاطمہ (ع) نے ایک صاع پیس کر 5 روٹیاں تیار کیں۔
ابھی افطار کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ایک سائل نے آواز دی۔ اہلبیت محمد ! تم پر میرا سلام، میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، خدا تمھیں دستر خوان جنت سے سیر کرے گا، سب نے ایثار کرکے روٹیاں اس کے حوالہ کردیں اور پانی سے افطار کرلیا۔
دوسرے دن پھر روزہ رکھا اور اسی طرح افطار کے لئے بیٹھے تو ایک سائل نے سوال کرلیا اور روٹیاں اس کے حوالہ کردیں، تیسرے دن پھر یہی صورت حال پیش آئی۔
اب جو چوٹھے دن حضرت علی (ع) بچوں کو لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ بچے بھوک کی شدت سے بچہٴ پرند کی مانند کانپ رہے ہیں، یہ دیکھ کر آپ کو سخت تکلیف ہوئی اور بچوں کو لے کر خانہ فاطمہ (ع) میں آئے، دیکھا کہ فاطمہ (ع) محراب عبادت میں ہیں، لیکن فاقوں کی شدت سے شکم مبارک پیٹھ سے مل گیاہے اور آنکھیں اندر کی طرف چلی گئی ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی کہ جبریل امین آگئے اور سورہ دہر دیتے ہوئے کہا کہ یامحمد ! مبارک ہو ، پروردگار نے تمھارے اہلبیت (ع) کے لئے یہ تحفہ نازل فرمایاہے۔( کشاف 4 ص 169 ، کشف الغمہ 1 ص 302)۔
274۔ امام صادق (ع) ! جناب فاطمہ (ع) کے پاس کچھ جو تھا جس کا حلوہ تیار کیا اور جب سب گھر والے کھانے کے لئے بیٹھے تو ایک مسکین آگیا اور اس نے کہا کہ خدا آپ حضرات پر رحمت نازل کرے، حضرت علی (ع) نے ایک تہائی حلوہ اس کے حوالہ کردیا، چند لمحوں میں ایک یتیم آگیا اور آپ نے ایک تہائی اس کے حوالہ کردیا اس کے بعد ایک اسیر آگیا اور باقی ماندہ اس کے حوالہ کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا تو پروردگار نے ان کی شان میں یہ آیات نازل کردیں۔( مجمع البیان 10 ص 612 ، تفسیر قمی 2 ص 398 روایت عبداللہ بن میمون قداح)۔
نوٹ: اس روایت سے اندازہ ہوتاہے کہ سورہٴ دہر کے نزول کے بعد بھی اہلبیت (ع) کا مستقل طریقہ رہاہے کہ یتیم و مسکین و اسیر کو اپنے نفس پر مقدم کرتے رہے ہیں اور جب بھی یہ عمل انجام دیا ہے۔ سرکار دو عالم نے آیات دہر کی تلاوت فرمائی ہے نہ یہ کہ سورہ بار بار نازل ہوتا رہا ہے۔(جوادی)۔
275۔ امام (ع) باقر ! سورہٴ دہر کی شان نزول بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” علی حبہ “ سے مراد یہ ہے کہ انھیں خود بھی ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود مسکین و یتیم و اسیر کو مقدم کردیا اور خدا نے ان آیات کو نازل کردیا اور یاد رکھو کہ ” انما نطعمکم لوجہ اللہ ( ہم صرف رضائے الہی کے لئے کھلاتے ہیں اور نہ اس کی کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ) یہ قول اہلبیت (ع) نہیں ہے اور نہ ان کی زبان پر ایسے الفاظ آئے ہیں، یہ ان کے دل کی بات ہے جسے پروردگار نے اپنی طرف سے واضح کردیا ہے اور ان کے ارادوں کی ترجمانی کردی ہے کہ یہ نہ جزا کی زحمت دینا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ کی تعریف کے خواستگار ہیں، یہ اپنے عمل کے معاوضہ میں صرف رضائے الہی اور ثواب آخرت کے طلب گار ہیں اور بس ! ( امالی صدوق (ر) روایت سلمہ بن خالد ص 215)۔
276۔ ابن عباس ! علی (ع) بن ابی طالب نے ایک رات صبح تک باغ کی سینچائی کا کام انجام دیا اور معاوضہ میں کچھ جو لے کر آئے جس کا ایک تہائی پیسا گیا اور حریرہ نام کی غذا تیار ہوئی کہ ایک مسکین نے آکر سوال کردیا اور سب نے اٹھاکر اس کے حوالہ کردیا، پھر دوسرے تہائی کا حریرہ تیار کیا اور اس کا یتیم نے سوال کرلیا اور اسے بھی دیدیا، پھر تیسرے تہائی کا تیار کیا اور اس کا اسیر نے سوال کرلیا تو اسے بھی اس کے حوالہ کردیا اور بھوک ہی کے عالم میں سارا دن گذار دیا۔( مجمع البیان 10 ص 612)۔
بظاہر یہ بھی سورہٴ دہر کی ایک تطبیق ہے ورنہ تنزیل کی روایت ابن عباس ہی کی زبان سے اس سے پہلے نقل کی جاچکی ہے، جوادی
277۔ ابن عباس !” یوثرون علی انفسھم “ کی آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔( شواہد التنزیل 2 ص332 / 973)۔
278۔ ابوہریرہ ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بھوک کی شکایت کی ، آپ نے ازواج کے گھر دریافت کرایا، سب نے کہہ دیا کہ یہاں کچھ نہیں ہے تو فرمایا کوئی ہے جو آخر رات اسے سیر کرے؟ علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے فرمایا کہ میں حاضر ہوں۔! اور یہ کہہ کر خانہٴ زہرا (ع) میں آئے ، فرمایا دختر پیغمبر ! آج گھر میں کیا ہے؟
فرمایا کہ بچوں کا کھانا ہے اور کچھ نہیں ہے… لیکن اس کے بعد بھی ہم ایثار کریں گے، چنانچہ بچوں کو سلادیا، چراغ خانہ کو بجھا دیا اور آنے والے کو سارا کھانا کھلادیا۔
صبح کو پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا قصہ بیان کیا تو فوراً آیت کریمہ نازل ہوگئی ” یوثرون علی انفسھم و لو کان بھم خصاصہ ( امالی الطوسی (ر) 185 /309 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 653 ، شواہد التنزیل 2 ص 331 /972 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 74)۔
279۔ امام باقر ! ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتے تھے اور آپ کے گرد اصحاب کا حلقہ تھا کہ حضرت علی (ع) ایک بوسیدہ چادر اوڑھ کر آگئے اور رسول اکرم کے قریب بیٹھ گئے، آپ نے تھوڑی دیران کے چہرہ پر نگاہ کی اور اس کے بعد آیت ایثار کی تلاوت کرکے فرمایا کہ یاعلی (ع) تم ان ایثار کرنے والوں کے رئیس ،امام اور سردار ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ وہ لباس کیا ہوگیا جو میں نے تم کو دیا تھا؟ عرض کی اصحاب میں سے ایک فقیر آگیا اور اس نے برہنگی کا شکوہ کیا تو میں نے رحم کھاکر ایثار کیا اور لباس اس کے حوالہ کردیا اور مجھے یقین تھا کہ پروردگار مجھے اس سے بہتر عنایت فرمائے گا۔
فرمایا تم نے سچ کہا ، ابھی جبریل نے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار نے تمھارے لئے جنت میں ایک ریشم کا لباس تیار کرایاہے جس پر یاقوت اور زمرد کا رنگ چڑہا ہواہے اور یہ تمھاری سخاوت کا بہترین صلہ ہے جو تمھارے پروردگار نے دیا ہے کہ تم نے اس پرانی چادر پر قناعت کی ہے اور بہترین لباس سائل کے حوالہ کردیاہے، یا علی (ع) ! یہ تحفٴ جنّت مبارک ہو۔( تاویل الآیات الظاہرہ 255 روایت جابر بن یزید)۔
280۔ احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبئ کا بیان ہے کہ میں نے بعض کتب تفسیر میں دیکھا ہے کہ جب رسول اکرم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) کو مکہ میں یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ انھیں سرکار کے قرضے ادا کرنا ہیں اور لوگوں کی امانتوں کو واپس کرناہے، اور اس عالم میں چلے گئے کہ سارا گھر مشرکین سے گھرا ہوا تھا اور حضور کا حکم تھا کہ علی (ع) چادر حضرمی اوڑھ کر بستر پر سوجائیں، انشاء اللہ پروردگار ہر شر سے محفوظ رکھے گا، چنانچہ آپ نے تعمیل ارشاد کی اور ادھر پروردگار نے جبریل و میکائیل سے کہاکہ میں نے تم دونوں کے درمیان برادری کا رشتہ قائم کردیاہے اور ایک کی عمر کو دوسرے سے زیادہ کردیا ہے اب بتاؤ کون اپنی زیادہ عمر کو اپنے بھائی پر قربان کرسکتاہے؟ جس پر دونوں نے زندہ رہنے کو پسند کیا تو پروردگار نے فرمایا کہ تم لوگ علی (ع) جیسے کیوں نہیں ہوجاتے ہو، دیکھؤ میں نے ان کے اور محمد کے درمیان برادری قائم کردی تو وہ کس طرح ان کے بستر پر لیٹ کر اپنی جان قربان کررہے ہیں اور ان کا تحفظ کررہے ہیں ، اچھا اب دونوں افراد جاؤ اور تم ان کا تحفظ کرو۔
چنانچہ دونوں فرشتے نازل ہوئے ، جبریل سرہانے کھڑے ہوئے اور میکائیل پائینتی اور دنوں نے کہنا شروع کیا ، مبارک ہو مبارک ہو ابوطالب (ع) کے لال تمھارا مثل کون ہے کہ خدا تمھارے ذریعہ ملائکہ پر مباہات کررہاہے، اور راہ مدینہ میں رسول اکرم پر یہ آیت کریمہ نازل کردی ” من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ بقرہ 207 ( اسدالغابہ 4 ص 98 ، العمدة 239 / 367 ، تذکرة الخواص 35 ، شاہد التنزیل 1 ص 123 / 132، ارشا د القلوب ص 224 ، ینابیع المودة 1 ص 274 / 3 الصراط المستقیم 1 ص 174 ،تنبیہ الخواطر 1 ص 173)۔
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=58361