۱) علامه مرحوم سید ھبة الدین شھرستانی اپنی کتاب موھو نھج البلاغه میں لکھتے هیں که ایک شخص نے مسیحی دانشور امین نحلة سے درخواست کی که حضرت علی کے کلمات میں چند کلمات کو چنیں اور انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو اس میں مسیحی دانشمند نے اس طرح جواب دیا که مجھے مجھ سے درخواست کی هے که عرب کی بلیغ ترین شخصیت کے کلمات میں چند کلمات کو منتخب کروں تا که تم اسے چاپ کرو فضلا مجھے ایسی کتابوں کا علم نهیں هے جو اس تقاضے کو پورا کرسکیں ۔ سوائے چند گنی چنی کتابوں کے که ان میں سے ایک نھج البلاغه هے مین خوشی کے مارے پھولا نه سمایا اور اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو میں سمجھ هی نهیں پارهاتھا که کس طرح ان کلمات میں سے سو کلمات کا انتخاب کروں اور یه کلام بلا تشبیه گویا یوں هے که ایک یاقوت کے دانے کو دوسرے دانے کے ساتھ مقایسه کرتا هوا چن لو آخر اس کام کو میں نے انجام دیا اور تمهیں یقین نه آئے گا که کس مشقت و سختی کے ساتھ بلاغت کی اس کان سے ایک ایک کلمه نکالنے میں کامیاب هوا هوں تو مجھ سے یه سو کلمات لے اور یه یاد رکھ که یه سو کلمات نور بلاغت کا مرکز اور شگوفه فصاحت کے غنچے هیں ۔
دوسری جگه استاد امین نحله کهتے هیں که جو بھی اپنے نفس کی بیماری کا علاج کرنا چاهتا هے اسے چاهیئے که نھج البلاغه میں امیر المومنین (ع) کے کلمات سے علاج کرے اور اسی کتاب کے سایه میں زندگی گذارے ۔ (۵)
۲) اسی طرح مرحوم شهرستانی کتاب تنزیه التنزیه میں رقمطراز هیں که علی گڑھ یونیورسٹی کے انگریزی استاد مستعد گرینکوی ایک دن دیگر دانشمند افراد کے ساتھ هم مجلس تھے ان سے اعجاز قرآن کے متعلق سوال کیا گیا تو اس طرح جواب ده هوئے که قرآن ایک چھوٹا بھائی جس کا نام نھج البلاغه هے آیا ممکن هے که کوئی اس کی مثال لے آئے پھر جاکر اس کے بڑے بھائی قرآنی کے متعلق سوال اور اس کی مثال لائے جانے کے امکان پر بحث کی ضرورت محسوس هونا چاهیئے اسی وجه نھج البلاغه کے بارے میں مشهور هے که یه مخلوق کے کلام سے بلند و بالا اور خالق کے کلام سے نیچے ۔ ( الفضل ما شھدت به الاعداء ) در حقیقت فضیلت تو وه هے که جس کی گواهی دشمن دے مگر افسوس صد افسوس که مسلمانوں نے نھج البلاغه کی قدرنه کی صرف شرحیں لکھی گئی جس طرح قرآن کی تفسیر با لرای سے اپنے ضمیر کو سکون دیتے رهے هیں اسی طرح نھج البلاغه بھی شرحوں سے اپنے خوابیده ضمیر کو مزید خواب خرگوش میں مبتلا کرتے رهے هیں چونکه یه کتاب صرف ادبی شاھکار هی نهیں بلکه اسلامی دائره المعارف هے جس میں راه سعادت په گامزن هونے کے لئے تمام دستورات بنحو احسن موجود هیں :
نھج البلاغه کی خصوصتیں :
۱) مولائے کائنات حضرت علی السلام کی عظیم و بلند شخصیت نھج البلاغه کے لئے سبب جاودانگی هے آنحضرت نے اپنے کلام ان تمام صفات کو پر دیا جو لوگوں کو جذب کرسکتی تھی هر عدالت و آزاد خواه آپ کے کلام اور آپ کا عاشق نظر آتا هے اور خاتم المرسلین کے بعد میدان فضیلت کے شهوارکا نام علی اسی وجه سے ان کا بیان بھی بے بدیل و بے نظیر هے ۔
۲)فصاحت و بلاغت : خطابت پیام الهی کی تبلیغ کا ایک مٶثر و روشن طریقه هے که جس سے پیامبران الهی نے استعفاده کیا هے اور خود قرآن مجید بھی احسن شیوه بیانی سے مزین هے مولائے کائنات نے بھی اپنے بیان کو شیوه ادبی و زیور فصاحت و بلاغت سے مزین جس کی وجه سے مخاطبین و سامعین کو تھکاوٹ محسوس نهیں هوسکتی نھج البلاغه سھل ممتنع کی مالک هے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نھج البلاغه ج ۶ ص ۱۴۵ پر رقمطراز هیں که فصاحت کو دیکھو کیسے اس نے اپنی بھار علی کے حوالے کردی هے اور خود زیان علی کی تابع بن گئی هے اور الفاظ کے نظم کو دیکھو که کس طرح یکه بعد دیگرے علی کرم الله وجھه کے اختیار میں هیں جیسے یه احساس هی نهیں هوتا که آیا کتاب سیاست هے یا کتاب ھدایت آیا یه کتاب فلسفی هے یا تاریخی بلکه مطالعه کرنے کے بعد یه بات واضح هوجاتی هے که نھج البلاغه رشد وھدایت و سعادت اخروی و دنیوی کے تمام رموز کو رکھتی هے شاعر و خطیب فصیح و بلیغ افراد کے علاوه فقھاء و متکلمین و مفسرین و فلاسفه و جامعه شناس و اعلاء اخلاق و دیگر دانشمند حضرات نھج البلاغه سے فیض یاب هوتے رهے هیں ۔
زمان تالیف سے دور حاضر تک اس کی ضیاپاشیاں :
نھج البلاغه اخلاقی تعلیمات کا سر چشمه هے اس کے ایک ایک فقرے میں قرآن کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم مضمر هے جب تک معلم اسلام کے حکمت آمیز کلمات کے آئینه میں اسلام کے خدو خال کو پهچاننے کی کوشش نه کی جائے گی اس وقت تک اسلام کے بلند معیار اخلاق سے بیگانه رهیں گے لذا اس مکرو فریب کی دنیا میں ضروری هے که ماقاله المرتضی المرتضی کی روشنی میں اسلام کے خدو خال کو پهچنوایا جائے یه کلام علوی وه معجزه قولی که جس سے هر زمانے میں مختلف مکتب خیال کے افراد استعفاده کرتے رهے هیں جس طرح قرآن پیامبر اسلام معجزه قولی هے اسی طرح نھج البلاغه وصی پیامبر کا معجزه قولی هے اس معجزه کے سدامنے سبھی عاجز و ناتواں نظر آتے رهے هیں آنحضرت (ع) کے کلام کی نورانیت اتنی هی زیاده که هر مکتب خیال کے علماء و فضلاء نے زمان تالیف سے لیکر آج تک اس کے مطالب و حقائق کو بقدر امکان واضح کرنے کے لئے شرحیں لکھی هیں علامه بزرگ تهرانی نے اپنی کتاب الذریعه ج ۱۴ ۔ ص ۱۱۳ ۔ پر حدودا نھج البلاغه کی سو شرحوں کا تذکره کیا هے ۔
علامه امینی نے اپنی عظیم کتاب الغدیر ج ۴ ص ۱۸۶ پر نھج البلاغه کی ۸۱ شرحوں کا تذکره کیا هے سید عبد الزهراء خطیب نے مصادر نھج البلاغه ج ۱ ص ۲۴۷ پر نھج البلاغه کی ۱۴۳ شرحوں کا تذکره فرمایا آیة الله رضا استادی نے کتابنامه نھج البلاغه میں ۳۷٠ شرحوں و ترجموں کو لکھا هے اتنی شرحیں و ترجمے و تعلیقات و مستدرکات اسی کتاب نھج البلاغه سے هی قلمبند هوئے هیں تبیین معارف میں شیوه نھج البلاغه مثل قرآن هے ۔ نھج البلاغه خود اپنی ضیا پاشی هی کی وجه سے هر دانشمند کے لئے ایک ارزشمن کتاب هے اور تحریف و اسرائیات بھی محفوظ هیں چونکه نھج البلاغه کی علمی و ادبی اهمیت اور اس کے حقایق آگیں مضامین و اخلاق مواعظ کا وزن نا قابل انکار هے اور فقها و علماء اسلام کی مسلسل نظارت و تفسیر سے یه کتاب محفوظ هے کسی بھی کتاب کے باقی رهنے کے اسباب و علل پائے جاتے هیں اور جس قدر اسباب و علل قوی هونگے کتاب کی ارزش و قیمت بھی زیاده هوگی اور نسبت و نابودی سے بھی محفوظ رهے گی :
چند اسباب حسب ذیل هیں :
۱) راویاں نھج البلاغه کی کثرت
۲) حفاظ کی کثرت
۳) نھج البلاغه کی کثرت نسخه برداری
۴) راویوں کا تسلسل
۵) سید رضی سے پهلے دانشمندان شیعوں کی جمع آوری
۶) آثار علوی کے تحفظ میں علماء شیعه کی ایثار گری: انھیں اسباب و علل کی وجه سے یه اثر علوی محفوظ و مصون هے انشاء الله تا ظهور یوسف زھراء (س) یه کتاب چمکتی و دمکتی رهے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) حالات سید رضی : مٶلف سید محمد مھدی جعفری ص ۶۲ و ۶۳ ۔
(۲) ابن ابی الحدید ج ۱ ۔ ص ۵۴۳ ۔
(۳) بھج الصباغة ج ۱ ۔ ص ۳۲ ۔
(۴) البیان و التبیین ج ۱ ۔
(۵) عبد الزھراء ۔ مصادر نھج البلاغه ج ۱ ص ۹۱ و ۹۲ ۔
نوشته شده توسط: ميرشاعرعلي
source : http://www.islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/50698/71243.aspx