غم واندوہ کاطوفان اسکے جسم وروح پر چھایاہواتھا،اضطراب وپریشانی کی کالی گھٹائیں اس کے ذہن پرسایہ فگن، تھیںاسے سکون کی نیند نہیں آرہی تھی،وہ بیحدپریشان اوربیچین تھا۔
ہرلمحہ اسے یہی فکرکھائے جارہی تھی کہ مالک الہام ووحی اسے کیوںبھول گیاہے اوراسکی مشکلات کو کیوںحل نہیںکرتا۔وہ کیوںمالک حقیقی کے لطف اورعنایت سے محروم ہو گیاہے اور کیوں مالک الہام و وحی نے ایک دم اس سے ارتباط ختم کرلیاہے۔ کیا اسمیں وحی کی سنگینی اوررسالت وتبلیغ کے گرانقدر بار کو برداشت کرنے کی استعداد نہیںرہی؟ کیابہترڈھنگ سے تبلیغ رسالت کے فرائض انجام نہیںدے سکتا۔
شب وروزگذرتے رہے اورحضرت ختمی مرتبتۖنزول وحی کے شوق میں کروٹیں بدلتے رہے ۔جبرئیل سے ملاقات کااشتیاق بڑھتا رہا(١) انکی خواہش تھی کہ وحی بندہوجانے کی وجہ سمجھ سکیںاوریہ سمجھ سکیںکہ کیوںخداکی مہربانی اور عنایات اب کچھ کم ہوگئی ہیں ،یاجیساکہ مکہ کے مشرکین کہتے ہیں کہ خد ا ناراض ہوگیاہے اوراب اس پہ غضب نازل کررہاہے ۔
خداوندمتعال نے اس پریشانی اورتشویش کو دور کرنے کے لئے ایک مکمل سورہ نازل فرمایا۔سورہ والضحیٰ جسکی ساری آیتیںحضرت ختمی مرتبتۖ پہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے لطف وعنایات کوبیان کرتی ہیں۔
روزروشن کی قسم (٢)جب سورج کے نورنے ساری دنیاپرسایہ کیااورعالم کومنورکردیا،تاریکی اور اندھیری کی گھٹاؤںکوصاف کیا،جس طرح قرآن کی وحی کے نورسے دنیاپہ رحمت وہدایت کی بارش ہوئی اورزنگ آلودہ سیاہ قلب صاف و شفاف ہو گئے۔ کفروضلالت اورگمراہی کے پردے پارہ پارہ ہوگئے، ظلم وستم اورفسادکی ڈراونی رات نے اپنادامن سمیٹ لیا۔
رات کی قسم (٣)وہ رات کہ جسمیںسکون وراحت ہوجب براحت محوخواب ہو جائیں ۔ تمام موجودات عالم آرام کرتے ہوں،دن بھرکی تھکاوٹ اورپریشانی دورہوجائے اورآئندہ کیلئے تازہ دم لیکر تیارہوجائیں۔
ان دومتضادچیزوںکی قسم (٤)تمہارے پرور دگار نے تمہیںفراموش نہیںکیاہے اورتم سے ناراض نہیںہے ۔یہ بات ممکن نہیںکہ تمہاراخداتمہیںبھول جائے اورتمہیںتنہاچھوڑدے یاناراض ہوجائے (اے محمد)تم اسکی مخلوق ہواوراس کے پیغمبروںکے سردار ہواوراس کے محبوب ترین رسول ہو۔
خداجانتاہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ تمہارا انجام آغازسے بہترہے (٥)تم کوان طاقت فرسا زحمتوںکے مقابلے میںاوران حوصلہ پست کردینے والے رنج وغم کے عوض بہتر سے بہترانعام دیا جائیگا اوریہ انعام تمہیںپسندآئے گااورتم خوش ہو جائوگے، مستقبل قریب میں تمہارا پروردگاروہ بخشش اور پاداش عنایت فرمائے گاکہ تم راضی ہوجاؤگے ۔
اﷲکایہ وعدہ خودآنحضرت ۖکی زندگی میںپوراہونے لگااورآنحضرت کی تبلیغ کامستقبل روشن تر ہوتا رہا، کامیابی وکامرانی مقدربنی، کفروشرک کے گھناونے بادل تیزی سے چھٹے اورہدایت کے نورنے زحمتوںکونورانی بنادیا۔آنحضرت کی تعلیم نے دنیاکی آنکھوں کو کھول دیااورگنگ زبانوں کو بولنے کاسلیقہ سکھادیا نادان اورکمزورانسانوںکوعاقل اور طاقتور، روشن فکر،دوراندیش ،دانا اور توانا بنادیا۔
ہاں! ا س خورشید ہدایت نے طلوع کے بعد پھر کبھی غروب نہیںکیااورجب تک زمین کافرش اور آسمان کاشامیانہ برقرارہے ہمیشہ مستعد دلوں پر چمکتارہے گااورانہیںایمان وتقویٰ اورپرہیزگاری کی طاقت بخشتارہے گا۔
اب قرآن ان نعمتوںکی طرف اشارہ کرتاہے کہ جوحضرت رسول اکرم ۖسے مخصوص ہے ۔
کیاتم یتیم نہ تھے اورپھرہم نے تمہیںپناہ دی اور جب متعارف نہ تھے توہم نے تمہیںمتعارف کرایا اور جب تم مالدارنہ تھے توہم نے تمہیںغنی بنادیا(٦) ان باتوںکے بعدآنحضرت کوحکم دیاجاتاہے کہ ان نعمتوںکابرابرشکراداکرتے رہو۔
اے ہمارے محبوب رسول! تم نے خودیتیمی کارنج اٹھایااوریتیموںکے دردوتکلیف سے اچھی طرح واقف ہو،جس طرح ہم نے تمہیںیتیمی کے دوران پناہ دی اورابوطالب کی سرپرستی میںہم نے تمہیں سکون وآرام پہونچایا،اس نعمت کاشکراداکرتے رہو اوریتیموںکے ساتھ نازوبخشش کرنے سے کبھی غافل نہ رہو،کسی بات میںانکادل مت توڑو۔ (٧) ہماری رہبری کے بدلے میںتم کسی سائل اورفقیرکومحروم مت کرنا(٨)علم ودانش کے حاصل کرنے والوںکوسیراب کرتے رہنا،جولوگ تم سے الٰہی نجات اورہدایت حاصل کرناچاہتے ہیں انکی رہبری کرو،دنیوی اوراخروی نعمتوںکاسوال کرنے والوںکوبھی محروم مت کرنا۔
صرف انہیںتین نعمتوںکاشکراداکرناتم پرواجب نہیںہے، بلکہ وہ تمام دنیاوی اوراخروی نعمتیں جو ہم نے تمہیںبخشی ہیںانکابھی شکراداکرتے رہو۔ ہاں!نعمتوںکی یادآوری ہی شکر اداکرناہے اور نعمت کاچھپاناکفراورناشکری ہے ۔
اگرچہ یہ سورہ ظاہرمیںحضرت پیغمبراکرم ۖ سے متعلق ہے لیکن ہرمسلمان کیلئے اس پرعمل کرنا واجب ہے ۔
ہروہ آدمی جوخداکی راہ میںقدم اٹھاتا ہے اور خدا کیلئے کسی کام کوانجام دیتاہے۔ اس پہ خداکی خاص عنایت اوررحمت ضرورہوتی ہے اورخدائے متعال ہرحال میںبخشش ومہربانی فرماتا رہیگا ۔ اگر کبھی اس راہ میںمشکل اوردشواری پیش آئے تواس بات کا یقین کرلیناچاہیے کہ سب کچھ اسکے فائدہ اورنفع کیلئے ہے۔ لہٰذاہرمصیبت کاکھلے دل اورکشادہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرناچاہیے اور یقین دل کے ساتھ اسکے عمدہ انجام کی امید رکھنا چاہیے اورہررنج وغم کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے اس سورہ سے ایک اوربات واضح ہوجاتی ہے کہ ہرآدمی جس نعمت سے سرفرازہوخواہ دنیوی ہو یا اخروی ا سکوخداکی طرف سے سمجھے۔
اس سورہ سے یہ بھی معلوم ہوجاتاہے کہ جولوگ اﷲ کی نعمتوںسے مالامال ہیں ، انہیں ہر نعمت کاشکریہ اداکرناہے۔
حضرت علی اس سلسلے میںفرماتے ہیں:جب خداکی نعمتیںفراوان ہوجاتی ہیںتولوگوںکی خدا کی بارگاہ میںاحتیاجات بھی بڑھ جاتی ہیں ،پھر جو با تیں نعمتوں کے ساتھ ضروری ہیں،اگرانکالحاظ کیا اور اپنے فرائض کواچھی طرح انجام دیا تونعمتیںہمیشہ باقی رہتی ہیںاگراپنے فرائض کوبھول کرانحراف کیاتووہ بھی ایک دن ختم ہوکررہ جاتی ہیںاس وجہ سے ہروہ آدمی جوآج طاقت وراورقدرتمندہے اس نعمت کا شکریوں اداکرے کہ ہرکمزوراورناتواں آدمی کی مدد کرے اوراسکی خبرگیری کرتارہے جولوگ علم کی نعمت سے سرفرازہیں۔خصوصاًعلم دین کی گراں بہا نعمت سے انکافرض ہے کہ اپنے رفتاروکردارسے عملاً لوگوں کو تعلیم دیںاورانکی ہدایت کریں۔
جولوگ ثروتمند ہیںانہیںقرآن کے واضح حکم کے مطابق''فحدث''اپنی نعمتوںکوکسی سے چھپانا نہیں چاہیے نیک لوگوںکی مددکریں۔
یہی تعلیمات اسلامی ہیںاور ہرمسلمان کو انکا پابند ہونا چاہیے ۔ و السلام
حوالہ جات:یہ سورہ والضحیٰ کاترجمہ ہے
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=1175&link_articles=holy_quran_library/quranic_concepts/qurani_taleemat_nimat