بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مہینے میں مسلمانوں کی کوشش یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کی مہمانی سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور خدا کی رحمت و مغفرت حاصل کریں میں توبہ پر زور دیتا ہوں، گناہوں سے توبہ، خطاوں سے توبہ پر،کجرویوں سے توبہ پر،چاہیے چھوٹے گناہ ہوں، چاہے بڑے گناہ ہوں-
ماہ رمضان ایک بار پھراپنی تمام برکتیں اور معنوی جلوے لے کر آگیا ہے ماہ رمضان آنے سے پہلے سرکاردوعالم(صلی اللہ علیھ وآلہ وسلم) لوگوں کو اس بابرکت اورباعظمت مہینے میں وارد ہونے کے لئے تیار کرتے تھے " قداقبل الیکم شھراللہ بالبرکۃ والرحمۃ" ایک روایت کے مطابق آپ نے ماہ شعبان کی آخری نماز جمعہ کے خطبہ میں یہی فرماتے ہوئے لوگوں کو ماہ رمضان کی آمد کی طرف متوجہ کیا اگر ہم ایک جملہ میں اس مہینہ کی تعریف کرنا چاہیں توکہدیں کہ یہ ایک " غنیمت موقع" ہے۔ ہمارے اور آپ کے لئے اس مہینہ میں بہت سارے غنیمت مواقع ہیں اگرہم ان سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں توآخرت کے لئے ایک عظیم اورگراں قیمت ذخیرہ اکٹھا کر لیں گے اس بات کی میں تھوڑی وضاحت کرنا چاہوں گا یہ پہلا خطبہ ماہ رمضان اوراس بے نظیرموقع سے ہی متعلق ہوگا۔
پیغمبراکرم(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جس خطبہ کا میں نے تذکرہ کیا ہے اس میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں "شھردعیتم فیھ الیٰ ضیافۃاللہ" اس مہینہ میں تمہیں خداکی طرف سے مہمانی میں بلایا گیا ہے یہی جملہ اپنی جگہ قابل غور ہے خدا کی طرف سے دعوت ہے، مجبور نہیں کیا گیا ہے کہ دعوت میں سب کوآناہے۔ فریضہ قراردیا ہے لیکن دعوت میں جانا یا نہ جانا ہمارے اپنے اختیار میں ہے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں دعوت نامہ بھی پڑھنے کا موقع نہیں ملتا اس قدر غافل ہیں، اتنا مادی اور دنیاوی معاملات میں غرق ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ماہ رمضان آیا اور کب چلا گیا ایسے ہی جیسے کسی شخص کوکسی بڑی بابرکت دعوت میں بلایا جائے لیکن وہ کارڈ تک کھولنے کی زحمت گوارانہ کرے یہ تو بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جائیں گے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہیں اتنا تو پتہ چل جاتا ہے کہ انہیں دعوت میں بلایا گیا ہے لیکن وہ شرکت نہیں کرتے۔ خدا کا لطف جن کےشامل حال نہیں ہے، جنہیں اس نے توفیق نہیں دی ہے یا یہ کہ خود ہی معذور ہیں وہ روزہ نہیں رکھ پاتے یا یہ کہ قرآن کی تلاوت اور ماہ رمضان کی دعاؤں سے محروم رہ جاتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو دعوت میں جاتے ہی نہیں جب جاتے ہیں نہیں تو ان کاجو ہونا ہے وہ واضح ہے لیکن مسلمانوں کی ایک بڑی تعداداورہم جیسے لوگ اس دعوت میں شریک ہوتے ہیں لیکن ہم سب یہاں ایک سا فائدہ نہیں اٹھاتے کچھ اس دعوت میں سب سے زیادہ فوائد حاصل کرلیتے ہیں۔
اس دعوت میں جو ریاضت ہے روزہ رکھنا اوربھوکا رہنا شاید یہ اس خدائی دعوت کا سب سے بڑا فائدہ ہے روزہ میں انسان کے لئے معنوی برکتیں اتنی زیادہ ہیں اور دل میں اتنی نورانیت پیدا کرتی ہیں شاید یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس ماہ مبارک کا سب سے بڑا فائدہ روزہ ہی ہے۔ جولوگ روزہ رکھتے ہیں وہ دعوت میں حاضرہوگئے ہیں اوریہاں انہیں کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا اس ماہ مبارک کی معنوی ریاضت یعنی روزہ رکھنے کے علاوہ کچھ لوگ بہترین انداز میں قرآن بھی سیکھتے ہیں قرآن کی تلاوت غور فکر کے ساتھ کرتے ہیں روزہ کی حالت میں یا روزہ سے پیدا ہوئی نورانی حالت میں رات، آدھی رات میں قرآن کی تلاوت کرنا، قرآن سے انس پیدا کرنا اور خدا کا مخاطب قرار پانا کچھ اور ہی معنوی لذت دیتاہے اس حال میں قرآن کی تلاوت کرنے سے انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ عام حالات میں تلاوت کرنےسے نہیں ملتا کچھ لوگ یہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اس کے علاوہ یہ لوگ خدا سے کلام کرتے ہیں، اس سے مخاطب ہوتے ہیں اس سے راز ونیاز کرتے ہیں، اس سے اپنے دل کی بات کہتے ہیں،اپنے راز کی باتیں اسے بتاتے ہیں یہ لوگ یہ فائدہ بھی اٹھاتے ہیں مطلب یہ کہ یہی دعائیں، دعائے ابوحمزہ ثمالی، دن کی دعائیں، رات کی دعائیں، سحری کی دعائیں یہ سب خدا سے بات ہی کرنا تو ہے اس سے کچھ مانگنا اور دل کو اس کی بارگاہ عزت سے قریب کرنا یہی ہے تو یہ فائدہ بھی یہ لوگ اٹھاتے ہیں اورکل ملا کے ماہ رمضان کے تمام فوائد سے بہرہ مند ہوجاتے ہیں۔
اس سب سے بڑھ کے بلکہ ایک لحاظ سے ان سب سے افضل چیز گناہوں سے پرہیز ہے یہ لوگ گناہ بھی نہیں کرتے، پیغمبراکرم صلیٰ اللہ علیھ وآلھ وسلم کی طرف سے جمعہ کےخطبہ بیان ہونےوالی روایت میں مزیدآیا ہے کہ امیرالمومنین علیھ الصلاۃ والسلام سرکاردوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ اس مہینہ میں سب سے افضل عمل کون سا ہے آپ جواب دیتے ہیں " الورع عن محارم اللہ" محرمات الہی سے پرہیزتمام اعمال پر مقدم ہے، سب سے افضل عمل قلب وروح کوآلودہ ہونے اورانہیں زنگ لگنے سے بچانا ہے یہ لوگ گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں روزہ بھی رکھتے ہیں، تلاوت بھی کرتے ہیں، ذکرودعا بھی پڑھتے ہیں اور گناہوں سے دور بھی رہتے ہیں یہ ساری چیزیں انسان کو اسلام کی مطلوبہ رفتاروکردارسے نزدیک کردیتی ہیں جب یہ سارے اعمال انجام پا جاتے ہیں تو انسان کا دل کینوں سے خالی ہوجاتاہے اس کے اندرایثاروفداکاری کا جذبہ بیدارہوجاتاہے غریبوں اورمسکینوں کی مدد اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے مادی امور میں دوسرے کے فائدہ اور اپنے نقصان میں کوئی قربانی دے دینا اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماہ رمضان میں جرائم کم ہوجاتے ہیں نیکیاں بڑھ جاتی ہیں معاشرہ میں آپسی پیار، محبت زیادہ ہوجاتاہے یہ سب خدا کی اس دعوت کی برکتیں ہیں۔
اس طرح سے کچھ لوگ ماہ رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسا نہیں کرپاتے ایک چیز کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو دوسری چیز سے اپنے کو محروم کرلیتے ہیں ہرمسلمان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اس دعوت الہی سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوکرخداکی رحمت ومغفرت حاصل کرلے استغفار کے لئے میں تاکید کررہا ہوں خطاؤں سے استغفار، گناہوں سے استغفار، لغزشوں سے استغفار، چھوٹے گناہوں سے استغفار، بڑے گناہوں سے استغفارکیجئے ، اس مہینہ میں اپنے دل سے زنگ چھڑانا، اپنے آپ سے آلودگیاں دورکرنا اوراپنے نفس کو دھو ڈالنا بہت ضروری ہے اوریہ استغفارہی کے ذریعہ ممکن ہوگا بہت سی روایات میں آیا ہے کہ بہترین دعا یا سب سے افضل دعا استغفارہے استغفاریعنی خدا سے مغفرت چاہنا استغفار سب کے لئے ہے، پیغمبراکرم(صلیٰ اللہ علیھ وآلھ وسلم) جیسی ذات گرامی بھی استغفار کرتی تھی ہم جیسوں کا استغفار گناہوں کی معافی مانگنا ہے لیکن کچھ لوگوں کا استغفاران عام گناہوں کی وجہ سے جنہیں سب جانتے ہیں یا انسان کے اندرکی حیوانی خصلتوں کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ ترک اولی کی وجہ سے ہوتا ہے کچھ تو ترک اولی بھی نہیں کرتے پھربھی استغفار کرتے ہیں یہ استغفارخداکی ذات مقدس کی عظمت کے مقابلہ میں ممکن الوجود انسان کے فطری نقص کی بنا پر ہوتا ہے خدا کی کامل معرفت نہ ہونے کی وجہ سے استغفار کیا جاتا ہے یہ بزرگان اوراولیاء کا استغفارہے۔
ہمیں گناہوں سے استغفارکرنا چاہئے استغفار کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمیں اپنے سلسلہ میں غفلت سے بازرکھتا ہے ہم بعض اوقات اپنے سلسلہ میں غلطی کرتے ہیں لیکن جب استغفارکرنے بیٹھتے ہیں توگناہ، خطائیں، لغزشیں، جتنی بھی خواہشات نفس کی پیروی کی ہے، جتنا بھی حد سے تجاوز کیا ہے، جتنا اپنے اوپرظلم کیا ہے، جتنا دوسروں پر ظلم کیا ہے سب ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ہمیں سب یاد آجاتا ہے کہ ہم نے کیا، کیا ہے لہذاغرور، تکبراورغفلت میں مبتلا ہونے سے ہم بچ جاتے ہیں استغفار کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے اس کے بعد خدا نے وعدہ کیا ہے کہ جوشخص استغفارکرے، یعنی حقیقی معنی میں گناہوں کی بخشش کے لئے خدا سے دعا کرے اور گناہوں پر شرمندہ بھی ہو " لوجداللہ تواباً رحیماً" خدائے متعال توبہ قبول کرنے والا ہے اس استغفار کا مطلب خدا کی طرف لوٹ آنا اورخطا وگناہ سے منہ موڑلیناہے۔ اگراستغفارسچاہوتو اسے خدا قبول کرلیتا ہے۔
توجہ کے ساتھ استغفارکیجئےاگرآدمی ایسے ہی زبان سے استغفراللہ استغفراللہ استغفراللہ کہتا رہے اوراس کا ذہن ادھرادھر ہوتو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ استغفار نہیں ہے استغفار دعا ہے استغفار کا مطلب مانگنا اور طلب کرنا ہے انسان کو حقیقی معنی میں خدا سے مانگنا چاہئے اوراس سے عفو ومغفرت طلب کرنی چاہئے میں نے یہ گناہ کیا ہے پالنے والے ! مجھ پر رحم کر میرے اس گناہ کو معاف کر دے ہر گناہ کا اگر اس طرح استغفار کیا جائے تو یقینا غفران الہی حاصل ہوجائے گی خدا نے توبہ واستغفارکا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
البتہ دین مقدس اسلام میں دوسروں کے سامنے گناہ کا اقرارکرنا ممنوع ہے بعض دوسرے مذاہب میں ہے کہ عباتگاہ میں جاکر وہاں روحانی یا مذہبی رہنما کے سامنے بیٹھ کر گناہوں کا اعتراف کیا جائے یہ اسلام میں نہیں ہے اس کی اسلام اجازت نہین دیتا اپنا پردہ فاش کرنا، اپنے راز اور گناہ دوسروں سے کہنا منع ہے اس کا فائدہ بھی کچھ نہیں ہے ان تحریف شدہ خیالی مذاہب میں تو کہا جاتا ہے کہ روحانی رہنما گناہ بخش دیتا ہے ایسا کچھ نہیں ہے گناہوں کو معاف کرنے والا صرف خدا ہے خود پیغمبرصلی ٰ اللہ علیھ وآلہ وسلم بھی گنا ہوں کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے قرآن میں ارشاد ہوا ہے : " ولوانھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک فاستغفراللہ واستغفرلھم الرسول لوجداللہ تواباً رحیماً" اگر گناہ اور اپنے اوپر ظلم کرنے کے بعد یہ لوگ تمہارے پاس آکر کہیں کہ تم پیغمبر ہوپھر خداسے مغفرت وبخشش طلب کریں اورتم بھی ان کے لئے بخشش طلب کرو تو خدا ان کی توبہ قبول کرلےگا یعنی پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے مغفرت مانگتے ہیں خودمعاف نہیں کرتے گناہ کوصرف خدائے متعال ہی بخش سکتا ہے اسے استغفار کہتے ہیں استغفارکی بہت فضیلت ہے اس ماہ مبارک میں اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے خاص طورسے سحر کے وقت اور رات میں استغفار کیا کیجئے ماہ رمضان کی دعاؤں کوان کے معنی پرتوجہ دے کر پڑھا کیجئے۔
الحمدللہ ہمارا معاشرہ روحانی اورمذہبی معاشرہ ہے دعا، توسل اور ابتہال الیٰ اللہ لوگوں میں رائج ہے لوگ اسے پسند کرتے ہیں ہمارے نوجوانوں کے پاک ونورانی دل ذکرخدا کی طرف مائل ہیں یہ سب اچھے مواقع ہیں ماہ رمضان کی صورت میں ایک غنیمت موقع ہمیں دیا گیا ہے اس ماہ سے، اس سنہرے موقع سے پورافائدہ اٹھانا چاہیے اپنے دلوں کو خدا سے نزدیک کیجئے انہیں خدا سے آشنا کیجئے استغفارکے ذریعہ قلب روح کو پاک کیجئے اپنی دعائیں خدا کے سامنے پیش کیجئے ہماری قوم نے خدا سے معنوی ارتباط کے نتیجہ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں خداسے ارتباط پیدا کرنے کا ماہ رمضان ایک زبردست موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھائیے۔
خدا وند متعال سےدعاکرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کرے تاکہ ماہ رمضان میں ہم اپنےفرشتہ صفت نفس کوحیوان صفت نفس پرغالب بنا دیں، ہمارا وجودایک رخ سے فرشتہ صفت ہے اوردوسرے رخ سے مادی اورحیوان صفت، نفسانی خواہشات مادی رخ کو فرشتہ صفت رخ پرغالب کردیتی ہیں۔ خداکرے ماہ مبارک رمضان میں ہم مادی رخ پرروحانیت ونورانیت کو غلبہ دینے میں کامیاب ہوجائیں اورپھراس حالت کوایک ذخیرہ کی طرح محفوظ رکھ لیں اس طرح ماہ رمضان میں کی گئی یہ مشق سال بھرہمارے کام آئے گی۔
source : http://urdutv.irib.ir/index.php?option=com_k2&view=itemlist&task=category&id=8:news&Itemid=32