ايمان اس وقت تك كامل نھيں ھوسكتا جب تك اجر رسالت كي ادائگي نہ ھو، اجر رسالت اس وقت تك ادا نھيں ھوسكتا جب تك اھل بيت اطھار عليہم السلام سے محبت و مودت نہ كي جائے1 ان حضرات سے محبت و مودت نھيں ھوسكتي جب تك كہ ان كے دشمنوں كي شناخت كرتے ھوئے ان سے اور ان كے افعال و كردار سے نفرت نہ كي جائے، اور يہ ممكن ھي نھيں جب تك نفاق كي آشنائي كا حصول نہ ھوجائے، اس لئے كہ نفاق كي شناخت اھل بيت اطھار عليہم السلام كے دشمنوں كي شناخت ھے۔
متن:
دشمن شناسي كي اھميت
صاحبان ايمان كے وظائف ميں سے ايك اھم وظيفہ خصوصاً اسلامي نظام و قانون ميں دشمن كي شناخت و معرفت ھے۔
اس ميں كوئي ترديد نھيں كہ اسلامي نظام كو برقرار ركھنے اور اس كے استحكام، پائداري كے لئے اندروني (داخلي) و بيروني (خارجي) دشمنوں نيز، ان كے حملہ ور وسائل كي شناخت لازم و ضروري ھے، دشمن اور ان كے مكر و فريب كو پہچانے بغير مبارزہ كا كوئي فائدہ نھيں، بعض اوقات دشمن كے سلسلہ ميں كافي بصيرت و ھوشياري نہ ھونے كے سبب، انسان دشمن سے رھائي حاصل كرنے كے بجائے دشمن ھي كي آغوش ميں پہنچ جاتا ھے۔
امام جعفر صادق عليہ السلام نے ھر اقدام سے پہلے بصيرت و ھوشياري كو بنيادي شرط بتايا ھے، آپ فرماتے ھيں:
((العامل علي غير بصيرۃ كالسائر علي غير الطريق، لا يزيدہ سرعۃ السير الا بعداً عن الطريق)) ۱
بغير بصيرت و آگاھي كے عمل كو انجام دينے ولا ايسا ھي ھے جيسے راستہ كو بغير پہچانے ھوئے چلنے والا، كہ اس صورت ميں اصل ھدف و مقصد اور راہ سے دور ھوتا چلا جاتا ھے۔
اسي ضرورت كي بنا پر قرآن ميں پندرہ سو آيات سے زيادہ دشمن كي شناخت كے سلسلہ ميں نازل ھوئي ھيں، خدا وند عالم ان آيات ميں، مومنين اور نظام اسلامي كے مختلف دشمنوں كي (جن و انس ميں سے) نشاندھي كي ھے نيز ان كي دشمني كے انواع و اقسام حربے اور ان سے مقابلہ كرنے كے طور و طريقہ كو بتايا ھے، اور اس بات كي مزيد تاكيد كي ھے كہ مسلمان ان سے دور رھيں اور برائت اختيار كريں:
(يا ايھا الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي و عدوكم اولياء)
۲اے صاحبان ايمان اپنے اور ميرے دشمنوں كو دوست نہ بناؤ۔
آيات قرآن كي بنا پر مومنين كے دشمنوں كو بنيادي طور پر چار نوع و گروہ ميں تقسيم كيا جاسكتا ھے۔
نوع اوّل: شيطان اور اس كے اھل كار
(انّ الشيطان لكم عدو فاتخذوہ عدوا) ۳
يقيناً شيطان تم سب كا دشمن ھے، تم بھي اسے دشمن بنائے ركھو۔
بعض قرآن كي آيات ميں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنين كے سلسلہ ميں شيطان كے آشكار كينے اور دشمني كو عدو مبين (آشكار دشمن) سے تعبير كيا ھے، اللہ انسان كو منحرف كرنے والے شيطان كے مكر و فريب، حيلے كو شمار كرتے ھوئے، مومنين سے چاھتا ھے كے وہ شيطان كے راستے پر نہ چليں۔
(يا ايھا الذين آمنوا لا تتبعوا خطوات الشيطان)۴
اے صاحبان ايمان شيطان كے قدم بہ قدم نہ چلو۔
نوع دوّم: كفار
قرآن كي نظر ميں مومنين كے دشمنوں ميں ايك دشمن كفار ھيں۔
(انّ الكافرين كانوا لكم عدوا مبينا)۵
كفار تمھارے آشكار و عياں دشمن ھيں۔
نوع سوم: بعض اھل كتاب
صاحبان ايمان و اسلام كے دشمنوں ميں بعض اھل كتاب خصوصاً يھودي دشمن ھيں، شھادت قرآن كے مطابق، صدر اسلام سے اب تك اسلام و مسلمان كے كينہ توز، عناد پسند دشمن يھودي رھے ھيں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار كرنے كو منع كرتا ھے۔
(لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذين آمنوا اليھود)۶
يقيناً آپ مومنين كے سلسلہ ميں شديد ترين دشمن يھود كو پائيں گے۔
نوع چھارم: منافقين
قرآن مجيد نے منافقين كے اصلي خدو خال اور خصوصيت نيز ان كي خطرناك حركتوں كو اجاگر كرنے كے سلسلہ ميں بھت زيادہ اھتمام اور بندوبست كيا ھے، تين سو سے زيادہ آيات ميں ان كے طرز عمل كو افشا كرتے ھوئے مقابلہ كرنے كي راہ اور طريقہ كو پيش كيا گيا ھے۔
يہ قرآني آيتيں جو تيرہ سوروں كے ذيل ميں بيان كي گئي ھيں بحث حاضر، قرآن ميں چھرۂ نفاق كا اصلي محور و موضوع ھيں۔
گرچہ اھل بيت اطھار عليہم السلام ارواحنا لھم الفداء كے زرين اقوال بھي روايات و احاديث كي شكل ميں تناسب مباحث كے اعتبار سے پيش كئے جائيں گے۔
قرآن ميں نفاق و منافقين
منافقين كي خصوصيت و صفات كي شناخت كے سلسلہ ميں، قرآن اكثر مقام پر جو تاكيد كر رھا ھے وہ تاكيد كفار كے سلسلہ ميں نظر نھيں آتى، اس كي وجہ يہ ھے كہ كفار علي الاعلان، مومنين كے مد مقابل ھيں، اور اپني عداوت خصوصيت كا اعلانيہ اظھار بھي كرتے ھيں، ليكن منافقين وہ دشمن ھيں جو دوستي كا لباس پھن كر اپني ھي صف ميں مستقر ھوتے ھيں، اور اس طريقہ سے وہ شديد ترين نقصان اسلام اور مسلمين پر وارد كرتے ھيں، منافقين كا مخفيانہ و شاطرانہ طرز عمل ايك طرف، ظواھر كي آراستگي دوسري طرف، اس بات كا موجب بنتي ھے كہ سب سے پہلے ان كي شناخت كے لئے خاص بينايي و بصيرت چاھئے، دوسرے ان كا خطرہ و خوف آشكار دشمن سے كھيں زيادہ ھوتا ھے۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں:
"كن للعدو المكاتم اشدّ حذر منك للعدو المبارز" ۷
آشكار و ظاھر دشمن كي بہ نسبت باطن و مخفي دشمن سے بھت زيادہ ڈرو۔
آيت اللہ شھيد مطھرى، معاشرہ ميں نفاق كے شديد خطرے نيز نفاق شناسي كي اھميت كے سلسلہ ميں لكھتے ھيں۔
ميں نھيں سمجھتا كہ كوئي نفاق كے خطرے اور نقصان جو كفر كے خطرے اور ضرر سے كھيں زيادہ شديد تر ھے، ترديد كا شكار ھو، اس لئے كہ نفاق ايك قسم كا كفر ھي ھے، جو حجاب كے اندر ھے جب تك حجاب كي چلمن اٹھے اور اس كا مكروہ و زشت چھرہ عياں ھو، تب تك نہ جانے كتنے لوگ دھوكے و فريب كے شكار اور گمراہ ھوچكے ھوں گے، كيوں مولائے كائنات امير المومنين علي عليہ السلام كي پيش قدمي كي حالت، رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے فرق ركھتي ھے، ھم شيعوں كے عقيدہ كے مطابق امير المومنين علي عليہ السلام كا طريقۂ كار، رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے جدا نھيں ھے، كيوں پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي پيش قدمي اتني سريع ھے كہ ايك كے بعد ايك دشمن شكست سے دوچار ھوتے جارھے ھيں، ليكن جب مولائے كائنات امير المومنين علي عليہ السلام دشمنوں كے مد مقابل آتے ھيں، تو بھت ھي فشار و مشكلات ميں گرفتار ھوجاتے ھيں، ان كو رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم جيسي پيش رفت حاصل نھيں ھوتى، صرف يہي نھيں بلكہ بعض مواقع پر آپ كو دشمنوں سے شكست كا بھي سامنا كرنا پڑتا ھے، ايسا كيوں ھے؟!
صرف اس لئے كہ پيامبر عظيم الشان كا مقابلہ كافروں سے تھا اور امير المومنين عليہ السلام كا مقابلہ منافقين گروہ سے تھا۸
سورۂ توبہ كي آيت نمبر 101 سے استفادہ ھوتا ھے كہ كبھي چھرۂ نفاق اس قدر غازۂ ايمان سے آراستہ ھوتا ھے كہ پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے بھي عادي علم كے ذريعہ اس كي شناخت مشكل ھوجاتي ھے، اللہ ھے جو وحي كے وسليہ سے اس جماعت كا تعارف كراتا ھے۔
(وممّن حولكم من الاعراب منافقون و من اھل المدينۃ مردوا علي النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعذّبھم مرّتين يردّون الي عذاب عظيم) ۹
اور تمھارے گرد ديھاتيوں ميں بھي منافقين ھيں اور اھل مدينہ ميں تو وہ بھي ھيں جو نفاق ميں ماھر اور سركش ھيں تم ان كو نھيں جانتے ھو ليكن ھم خوب جانتے ھيں ھم عنقريب ان پر دھرا عذاب كريں گے اس كے بعد وہ عذاب عظيم كي طرف پلٹادئے جائيں گے۔
مولائے كائنات امير المومنين حضرت علي عليہ السلام، اسلامي معاشرہ ميں نفاق كے آفات و خطرات كا اظھار كرتے ھوئے نھج البلاغہ ميں فرماتے ھيں:
((ولقد قال لي رسول اللہ: اني لا اخاف علي امتي مومنا ولا مشركا امّا المؤمن فيمنعہ اللہ بايمانہ و امّا المشرك فيقمعہ اللہ بشركہ ولكني اخاف عليكم كل منافق الجنان، عالم اللسان يقول ما تعرفون و يفعل ما تنكرون)) ۱۰
رسول اكرم حضرت محمد مصطفيٰ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمايا ھے: ميں اپني امت كے سلسلہ ميں نہ كسي مومن سے خوف زدہ ھوں اور نہ مشرك سے، مومن كو اللہ اس كے ايمان كي بنا پر برائي سے روك دے گا اور مشرك كو اس كے شرك كي بنا پر مغلوب كر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ھے جو زبان كے عالم اور دل كے منافق ھيں كھتے وھي ھيں، جو تم سب پہچانتے ھو اور كرتے وہ ھيں جسے تم برا سمجھتے ھو۔
اسي نفاق كے خدو خال كي پيچيدگي كي بنا پر حضرت علي عليہ السلام كي زمام داري كي پانچ سال كي مدت ميں دشمنوں سے جنگ كي مشكلات كھيں زيادہ پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ آلہ وسلم كي مشكلات و زحمات سے تھيں۔
پيامبر عظيم الشان ان افراد سے بر سر پيكار تھے جن كا نعرہ تھا بت زندہ باد ليكن امير المومنين حضرت علي عليہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن كي پيشانيوں پر كثرت سجدہ كي بنا پر نشان پڑے ھوئے تھے۔
حضرت علي عليہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال كر رھے تھے جن كي رات گئے تلاوت قرآن كي صداء دلسوز حضرت كميل جيسي فرد پر بھي اثر انداز ھوگئي تھى۱۱
آپ كا مقابلہ ايسے صاحبان اجتھاد سے تھا جو قرآن سے استنباط كرتے ھوئے آپ سے لڑ رھے تھے۱۲
وہ افراد جو راہ خدا ميں معركہ و جھاد كے اعتبار سے درخشاں ماضي ركھتے تھے يھاں تك كہ بعض كو تمغہ جانبازي و فدا كاري بھي حاصل تھا، ليكن دنيا پرستي نے ان صاحبان صفات و كردار كو حق كے مقابل لاكھڑا كيا۔
پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے زبير كو (سابقہ، فداكاري و معركہ آرائي ديكھتے ھوئے) سيف الاسلام كے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد كے جانباز و دلير تھے، ايسے رونما ھونے والے حالات و حادثات كا مقابلہ كرنا علوي بصيرت ھي كا كام ھے۔
قابل توجہ يہ ھے كہ مولائے كائنات نے نھج البلاغہ ميں ايسے افراد سے جنگ كرنے كي بصيرت و بينائي پر افتخار كرتے ھوئے فرماتے ھيں ميرے علاوہ كسي بھي فرد كے اندر يہ صلاحيت نہ تھي جو ان سے مقابلہ و مبارزہ كرتا۔
((ايھا الناس اني فقات عين الفتنۃ ولم يكن ليجتري عليھا احد غيري)) ۱۳
لوگو! ياد ركھو ميں نے فتنہ كي آنكھ كو پھوڑ ديا ھے اور يہ كام ميرے علاوہ كوئي دوسرا انجام نھيں دے سكتا ھے۔
قرآن مجيد حكم دے رھا ھے كے اپنے آشكار و مخفي دشمنوں كو خوفزدہ كرنے كے لئے پوري طاقت سے مستعدر ھو اور طاقت حاصل كرو تاكہ تمھاري قدرت و اقتداران كي خلاف ورزي روكنے كا ذريعہ ھوجائے۔
(واعدّوا لھم ما استتطعتم من قوۃ و من رباط الخيل ترھبون بہ عدّو اللہ و عدوكم آخرين من دونھم لا تعلمونھم اللہ يعلمھم) ۱۴
اور تم سب ان كے مقابلہ كے لئے امكاني قوت اور گھوڑوں كي صف بندي كا انتظام كرو جس سے اللہ كے دشمن اپنے دشمن اور ان كے علاوہ جن كو تم نھيں جانتے ھو اور اللہ جانتا ھے (منافقين) سب كو خوفزدہ كردو۔
اس آيت سے استفادہ ھوتا ھے كہ اسلامي نظام ميں طاقت و قدرت كا حصول تجاوز و قانون كي خلاف ورزي روكنے كا وسيلہ ھے نہ تجاوز گري كا ذريعہ۔
منافقين ان افراد ميں سے ھيں جو ھميشہ اسلامي نظام و سر زمين پر تعرض و تجاوز كا خيال ركھتے ھيں لھذا نظامي و انتظامي اعتبار سے آمادگي اور معاشرہ كا صاحب بصارت و دانائي ھونا سبب ھوگا كہ وہ اپنے خيال خام سے باز رھيں، اس نكتہ كا بيان بھي ضروري ھے كہ قوت و قدرت كا حصول (آمادگي) صرف جنگ و معركہ آرائي پر منحصر نہ ھو اگر چہ جنگ ورزم ميں مستعد ھونا، اس كے ايك روشن و واضح مصاديق ميں سے ھے، ليكن دشمن كي خصوصيت، اس كے حملہ آور وسائل كي شناخت و پھچان كے لئے بصيرت كا وجود، حصول قدرت و اقتدار كے اركان ميں سے ھے۔
جب كہ منافقين كا شمار خطرناك ترين دشمنوں مں ھوتا ھے لھذا، نفاق اور اس كي خصوصيت و صفات كي شناخت ان چند ضرورتوں ميں سے ايك ھے جسے عالم اسلام ھميشہ قابل توجہ قرار دے۔
اس لئے كہ ممكن ھے ھزار چھرے والے دشمن (منافق) سے غفلت ورزى، شايد اسلامي نظام و مسلمانوں كے لئے ايسي كاري ضرب ثابت ھو جو التيام و بھبود كے قابل ھي نہ ھو۔
نفاق كے لغوي و اصطلاحي معانى
لفظ نفاق كا ريشہ اور اس كے اصل
لفظ نفاق كے معنى، كفر كو پوشيدہ، اور ايمان كا ظاھر كرنا ھے، نفاق كا استعمال اس معني ميں پہلي مرتبہ قرآن ميں ھوا ھے، عرب ميں اسلام سے قبل اس معني كا استعمال نھيں تھا، ابن اثير تحرير كرتے ھيں:
((وھو اسم لم يعرفہ العرب بالمعني المخصوص وھو الذي يستر كفرہ و يظھرہ ايمانہ)) ۱۵
لفظ نفاق كا اس خاص معني ميں استعمال لغت كے اعتبار سے چار احتمال ھوسكتا ھے:
پہلا احتمال: يہ ھے كہ نفاق بمعني اذھاب و اھلاك كے ھيں، جيسے (نفقت الدّابۃ) كہ حيوان كے برباد و ھلاك ھوجانے كے معني ميں ھے۔
نفاق كا اس معني سے تناسب يہ ھے كہ منافق اپنے نفاق كي بنا پر اس ميت كے مثل ھے جو برباد و تباہ ھوجاتي ھے۔
دوسرا احتمال: نفاق ذيل عبارت سے اخذ كيا گيا ھے:
((نفقت لسلعۃ اذا راجت و كثرت طلابھا))
وہ سامان جو بھت زيادہ رائج ھو اور اس كے طلب گار بھي زيادہ ھوں تو يہاں پر لفظ "نفق" كا استعمال ھوتا ھے، اس بنا پر اھل لغت كا اصطلاحي مفھوم سے مرتبط ھوتے ھوئے، نفاق يہ ھے كہ منافق ظاھر ميں اسلام كو رواج ديتا ھے، كيوں كہ اسلام كے طلب گار زيادہ ھوتے ھيں۔
تيسرا احتمال: نفاق، زمين دوز راستہ كے معني ميں استعمال ھوا ھے۔
((النفق سرب في الارض لہ مخلص الي المكان))
اس اصل كے مطابق منافق ان افراد كے مثل ھے جو خطرات كي بنا پر زمين دوز راستہ (سرنگ) ميں مخفي ھوجائے، يعني منافق بھي اسلام كے لباس كو زيب تن كركے خود كو محفوظ كرليتا ھے اگر چہ مسلمان نھيں ھوتا ھے۔
چوتھا احتمال: نفاق كا ريشہ "نافقاء" ھے، صحرائي چوھے اپنے گھر كے لئے دو راستہ بناتے ھيں ايك ظاھر و آشكار راستہ، اس كا نام "قاصعاء" ھے، دوسرا مخفي و پوشيدہ راستہ، اس كا نام "نافقاء" ھے، جب صحرائي چوھا خطرہ كا احساس كرتا ھے تو، قاصعاء سے داخل ھوكر نافقاء سے فرار كرتا ھے۔
اس احتمال كي بنا پر، منافق ھميشہ خروج كے لئے دو راستہ اپناتا ھے، ايمان پر كبھي بھي ثابت قدم نھيں رھتا اگر چہ اس كا حقيقي راستہ كفر ھے ليكن اسلام كا ظاھر كر كے اپنے كو خطرے سے بچا ليتا ھے۔
ابتدا ميں دو احتمال يعنى، نفاق بمعني ھلاك ھونے اور ترويج پانے كے سلسلے ميں علماء لغت كي طرف سے كوئي تائيد نھيں ملتي ھے، لھذا ان معاني سے اعراض كرنا چاھئے، ليكن تيسرے اور چوتھے احتمال ميں سے كون سا احتمال اساسي و بنيادي ھے اس كے لئے مزيد بحث و مباحثہ كي ضرورت ھے۔
تمام مجموعي احتمالات سے ايك نكتہ ضرور سامنے آتا ھے، وہ يہ كہ نفاق كے معاني ميں دو عنصر قطعاً موجود ھے، 1: عنصر دورخى، 2:عنصر پوشيدہ كارى
اس بنا پر نفاق كے معاني ميں دو رخي و پوشيدہ كاري كا بھي اضافہ كردينا چاھئے، منافق وہ ھے جو دو روئي كا حامل ھوتا ھے، اور اپني صفت كو پوشيدہ بھي ركھتا ھے۔
قرآن و احاديث ميں نفاق كے معانى
روايات و قرآن ميں نفاق دو معاني اور دو عنوان سے استعمال ھوا ھے:
1۔ اعتقادي نفاق
قرآن و حديث ميں نفاق كا پہلا عنوان اسلام كا ظاھر كرنا، اور باطن ميں كافر ھونا، اس نفاق كو اعتقادي نفاق سے تعبير كيا جاتا ھے۔
قرآن ميں جس مقام پر بھي نفاق كا لفظ استعمال ھوا ھے يہي معني منظور نظر ھے، يعني كسي فرد كا ظاھر ميں اسلام كا دم بھرنا، ليكن باطن ميں كفر كا شيدائي ھونا۔
سورہ منافق كي پہلي آيت اسي معني كو بيان كر رھي ھے۔
(اذا جاءك المنافقون قالوا نشھد انك لرسول اللہ واللہ يعلم انك لرسولہ واللہ يشھد ان المنافقون لكاذبون)
پيغمبر! يہ منافقين آپ كے پاس آتے ھيں، تو كھتے ھيں كہ ھم گواھي ديتے ھيں كہ آپ اللہ كے رسول ھيں، اور اللہ بھي جانتا ھے كہ آپ اس كے رسول ھيں ليكن اللہ گواھي ديتا ھے كے يہ منافقين اپنے قول ميں جھوٹے ھيں۔
سورہ نساء ميں منافقين كي باطني وضعيت اس طريقہ سے بيان كي گئي ھے۔
(و دّو لو تكفرون كما كفروا فتكونون سواء) ۱۶
يہ منافقين چاھتے ھيں كہ تم بھي ان كي طرح كافر ھوجاؤ اور سب برابر ھوجائيں۔
اس بنياد پر امكان ھے كہ مسلمانوں ميں بعض افراد ايسے ھوں جو اسلام كا اظھار كرتے ھوں اور باطن ميں دين اور اس كي حقانيت پر اعتقاد نہ ركھتے ھوں۔
ليكن ان كے اس فعل كا محرك كيا ھے؟ اس كا ذكر تاريخ نفاق كي فصل ميں بيان ھوگا، اس نوعيت كے افراد كا فعل نفاق ھے اور ان كو منافق كھا جاتا ھے۔
يقيناً بعض افراد كا اسلام، جو فتح مكہ كے وقت مسلمان ھوئے تھے اسي زمرہ ميں آتا ھے، مثال كے طور پر ابوسفيان كا اسلام، پيامبر عظيم الشان كے بعد كے واقعات، خصوصاً عثمان كے دورہ خلافت ميں ظاھر ھوجاتا ھے كہ، ان كا اسلام چال بازي اور مكاري سے لبريز تھا، آھستہ آھستہ خلافتي ڈھانچے ميں اثر و رسوخ بڑھاتے ھوئے اسلام كے پردے ميں كفر ھي كي پيروي كرتے تھے، يھاں تك كہ عثمان كے عصر خلافت ميں ابوسفيان، سيد الشھدا حضرت حمزہ كي قبر كے پاس آكر كھتا ھے، اے حمزہ! كل جس اسلام كے لئے تم جنگ كر رھے تھے، آج وہ اسلام گيند كے مثل ميري اولاد ميں دست بدست ھو رھا ھے۱۷
ابوسفيان، خلافت عثمان كے ابتدائي ايام ميں خاندان بني اميہ كے اجتماع ميں اپنے نفاق كا اظھار يوں كرتا ھے، خاندان تميم وعدي (ابوبكر و عمر كے بعد) خلافت تم كو نصيب ھوئي اس سے گيند كي طرح كھيلتے رھو اور اس گيند (خلافت) كے لئے قدم، بني اميہ سے انتخاب كرو، يہ خلافت صرف سلطنت و بشر كي سرداري ھے اور جان لو كہ ميں ھر گز جنت و جھنم پر ايمان نھيں ركھتا ھوں ۱۸
جس وقت ابوبكر نے امور خلافت كو اپنے ھاتھ ميں ليا ابوسفيان چاھتا تھا كہ مسلمانوں كے درميان اختلاف و تفرقہ پيدا ھوجائے اور اسي غرض كے تحت مولائے كائنات علي ابن ابي طالب عليہ السلام سے حمايت و مساعدت كي پيشكش كرتا ھے ليكن حضرت علي عليہ السلام اس كو اچھے طريقہ سے پہچانتے تھے، پيشكش كو ٹھكراتے ھوئے فرمايا: تم اور حق كے طرفدار؟! تم تو روز اوّل ھي سے اسلام و مسلمان كے دشمن تھے آپ نے اس كي منافقانہ بيعت كے دراز شدہ دست كو رد كرتے ھوئے چھرہ كو موڑ ليا۱۹
بھر حال اس ميں كوئي شك نھيں كہ ابوسفيان ان افراد ميں سے تھا جن كے جسم و روح، اسلام سے بيگانے تھے اور صرف اسلام كا اظھار كرتا تھا۔
2۔ اخلاقي نفاق
نفاق كا دوسرا عنوان اور معني جو بعض روايات ميں استعمال ھوا ھے اخلاقي نفاق ھے، يعني دينداري كا نعرہ بلند كرنا، ليكن دين كے قانون پر عمل نہ كرنا، اس كو اخلاقي نفاق سے تعبير كيا گيا ھے۲۰
البتہ اخلاقي نفاق كبھي فردى اور كبھي اجتماعي پہلوؤں ميں رونما ھوتا ھے، وہ فرد جو اسلام كے فردى احكام و قوانين اور اس كي حيثيت كو پامال كر رھا ھو وہ فردى اخلاقي نفاق ميں مبتلا ھے اور وہ شخص جو معاشرے كے حقوق و اجتماعي احكام كو جيسا كہ اسلام نے حكم ديا ھے نہ بجالاتا ھو تو، وہ نفاق اخلاق اجتماعي سے دوچار ھے۔
فردى، نفاق اخلاق كي چند قسميں، ائمہ حضرات كي احاديث كے ذريعہ پيش كي جارھي ھيں، حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں:
((اظھر الناس نفاقاً من امر با لطاعۃ ولم يعمل بھا ونھي عن المعصيۃ ولم ينتہ عنھا))۲۱
كسي فرد كا سب سے واضح و نماياں نفاق يہ ھے كہ اطاعت (خداوند متعال) كا حكم دے ليكن خود مطيع و فرمان بردار نہ ھو، گناہ و عصيان كو منع كرتا ھے ليكن خود كو اس سے باز نھيں ركھتا۔
حضرت امام صادق عليہ السلام مرسل اعظم سے نقل كرتے ھوئے فرماتے ھيں:
((ما زاد خشوع الجسد علي ما في القلب فھو عندنا نفاق)) ۲۲
جب كبھي جسم (ظاھر) كا خشوع، خشوع قلب (باطن) سے زيادہ ھو تو ايسي حالت ھمارے نزديك نفاق ھے۔
حضرت امام زين العابدين عليہ السلام اخلاقي نفاق كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں:
((ان المنافق ينھي ولا ينتھي و يامر بما لا ياتي ...... يمسي وھمہ العشا وھو مفطر و يصبح وھمہ النوم ولم يسھر)) ۲۳
يقيناً منافق وہ شخص ھے جو لوگوں كو منع كرتا ھے ليكن خود اس كام سے پرھيز نھيں كرتا ھے، اور ايسے كام كا حكم ديتا ھے جس كو خود انجام نھيں ديتا، اور جب شب ھوتي ھے تو سواء شام كے كھانے كے اسے كسي چيز كي فكر نھيں ھوتي حالانكہ وہ روزہ سے بھي نھيں ھوتا، اور جب صبح كو بيدار ھوتا ھے تو سونے كي فكر ميں رھتا ھے، حالانكہ شب بيداري بھي نھيں كرتا (يعني ھدف و مقصد صرف خواب و خوراك ھے)۔
ذكر شدہ روايات اور اس كے علاوہ ديگر احاديث جو ان مضامين پر دلالت كرتي ھيں ان كي روشني ميں بے عمل عالم اور ريا كار شخص كا شمار انھيں لوگوں ميں سے ھے جو فردى اخلاقي نفاق سے دوچار ھوتے ھيں۔
نفاق اخلاقي اجتماعي كے سلسلہ ميں معصومين عليہ السلام سے بھت سي احاديث صادر ھوئي ھيں، چند عدد پيش كي جارھي ھيں۔
امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:
((ان المنافق...... ان حدثك كذبك و ان ائتمنہ خانك وان غبت اغتابك وان وعدك اخلفك)) ۲۴
منافق جب تم سے گفتگو كرے تو جھوٹ بولتا ھے، اگر اس كے پاس امانت ركھو تو خيانت كرتا ھے، اگر اس كي نظروں سے اوجھل رھو تو غيبت كرتا ھے، اگر تم سے وعدہ كرے تو وفا نھيں كرتا ھے۔
پيامبر عظيم الشان (ص) نفاق اخلاقي كے صفات كو بيان كرتے ھوئے فرماتے ھيں:
((اربع من كن فيہ فھو منافق وان كانت فيہ واحدة منھن كانت فيہ خصلۃ من النفاق من اذا حدّث كذب واذا وعد اخلف واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر)) ۲۵
چار چيزيں ايسي ھيں كہ اگر ان ميں سے ايك بھي كسي ميں پائي جائيں تو وہ منافق ھے، جب گفتگو كرے تو جھوٹ بولے، وعدہ كرے تو پورا نہ كرے، اگر عھد و پيمان كرے تو اس پر عمل نہ كرے، جب پيروز و كامياب ھوجائے تو برے اعمال كے ارتكاب سے پرھيز نہ كرے۔
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں:
((كثرة الوفاق نفاق)) ۲۶
كسي شخصي كا زيادہ ھي وفاقي اور سازگاري مزاج و طبيعت كا ھونا يہ اس كے نفاق كي علامت ھے۔
ظاھر سي بات ھے كہ صاحب ايمان ھميشہ حق كا طرف دار ھوتا ھے اور حق كا مزاج ركھنے والا كبھي بھي سب سے خاص كر ان لوگوں سے جو باطل پرست ھيں سازگار و ھمراہ نھيں ھوتا، دوسرے الفاظ ميں يوں كھا جائے، صاحب ايمان ابن الوقت نھيں ھوتا۔
نفاق اجتماعي كا آشكار ترين نمونہ اجتماعي زندگي و معاشرے ميں دور روئي اور دو زبان كا ھونا ھے، يعني انسان كا كسي كے حضور ميں تعريف و تمجيد كرنا ليكن پس پشت مذمت و برائي كرنا۔
صاف و شفاف گفتگو، حق و صداقت كي پرستارى، صاحب ايمان كے صفات ميں سے ھيں، صرف چند ايسے خاص مواقع ميں جھاں اھم حكمت اس بات كا اقتضا كرتي ھے جيسے جنگ اور اس كے اسرار كي حفاظت، افراد اور جماعت ميں صلح و مصالحت كي خاطر صدق گوئي سے اعراض كيا جاسكتا ھے۲۷
پيامبر اكرم حضرت محمد مصطفے صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس نوعيت كے نفاق كے انجام و نتيجہ كے سلسلہ ميں فرماتے ھيں:
((من كان لہ وجھان في الدنيا كان لہ لسانان من نار يوم القيامۃ)) ۲۸
جو شخص بھي دنيا ميں دو چھرے والا ھوگا، آخرت ميں اسے دو آتشي زبان دي جائے گي۔
امام حضرت محمد باقر عليہ السلام بھي اخلاقي نفاق كے خدو خال كي مذمت كرتے ھوئے فرماتے ھيں:
((بئس العبد يكون ذاوجھين و ذالسانين يطري اخاہ شاھداً و يأكلہ غائباً ان اعطي حسدہ وان ابتلي خذلہ)) ۲۹
بھت بدبخت و بد سرشت ھے، وہ بندہ جو دو چھرے اور دو زبان والا ھے، اپنے ديني بھائي كے سامنے توتعريف و تمجيد كرتا ھے اور اس كي غيبت ميں اس كو ناسزا كھتا ھے، اگر اللہ اس كے ديني بھائي كو كچھ عطا كرتا ھے تو حسدكرتا ھے، اگر كسي مشكل ميںگرفتار ھوتا ھے تو اس كي اھانت كرتا ھے۔
اسلام ميں وجود نفاق كي تاريخ
مشھورنظريہ
مشھورو معروف نظريہ، نفاق كے وجود و آغاز كے سلسلہ ميں يہ ھے كہ نفاق كي بنياد مدينہ ميں پڑى، اسفكر و نظر كي دليل يہ ھے كہ مكہ ميں مسلمين بھت كم تعداد اور فشار ميں تھے، لھذا كم تعداد افراد سے مقابلے كےلئے، كفار كي طرف سے منافقانہو مخفيانہ حركت كي كوئي ضرورت نھيں تھى، مكہ كے كفار ومشركين علي الاعلان آزار و اذيت، شكنجہ دياكرتے تھے۔
عظيم الشان پيامبر اسلام حضرت محمد مصطفي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مدينہ ھجرت كرنے كي بنا پراسلام نے ايك نئي كروٹ لى، روز بروز اسلام كے اقتدار و طاقت، شان و شوكت ميں اضافہ ھونے لگا، لھذا اس موقع پر بعضاسلام كے دشمنوں نے اسلامكي نقاب اوڑھ كر دينداري كا اظھار كرتے ھوئے اسلام كو تباہ و نابود كرنے كي كوشش شروع كردى، اسلام كااظھار اس لئے كرتے تھے تاكہ اسلام كي حكومت و طاقت سے محفوظ رہ سكيں، ليكن باطن ميں اسلام كے جگر خوار و جانيدشمن تھے، يہ نفاق كا نقطہ آغازتھا، خاص كر ان افراد كے لئے جن كي علمداري اور سرداري كو شديد جھٹكا لگا تھا، وہ كچھ زيادہ ھي پيامبراكرم اور ان كے مشن سے عناد و كينہ ركھنے لگے تھے۔
عبداللہ ابن ابي انھي منافقين ميں سے تھا، رسول اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے مدينہ ھجرتكرنے سے قبل اوس و خزرج مدينہ كے دو طاقتور قبيلہ كي سرداري اسے نصيب ھوني تھى، ليكن بد نصيبي سے واقعۂھجرت پيش آنے كي بنا بر سرداري كےيہ تمام پروگرام خاكستر ھوكر رہ گئے، بعد ميں گر چہ اس نے ظاھراً اسلام قبول كرليا، ليكن رفتار و گفتاركے ذريعہ، اپنے بغض و كينہ، عناد و عداوت كا ھميشہ اظھار كرتا رھا، يہ مدينہ ميں جماعت نفاق كا رئيس و افسر تھا،قرآن مجيد كي بعض آيات ميں اسكي منافقانہ اعمال و حركات كي نشاندھي كي گئي ھے۔
جب پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مدينہ ميں وارد ھوئے۔ اس نے پيامبر عظيم الشان (ص) سےكھا: ھم فريب ميں پڑنے والے نھيں، ان كے پاس جاؤ جو تم كو يھاں لائے ھيں اور تم كو فريب ديا ھے، عبد اللہ ابن ابي كياس ناسزا گفتگو كے فوراً بعدھي سعد بن عبادہ رسول اسلام كي خدمت ميں حاضر ھوئے عرض كي آپ غمگين و رنجيدہ خاطر نہ ھوں، اوس و خزرج كاارادہ تھا كہ اس كو اپنے اپنے قبيلہ كا سردار بنائيں گے، ليكن آپ كے آنے سے حالات يكسر تبديل ھوچكے ھيں، اس كيفرمان روائي سلب ھوچكي ھے،آپ ھمارے قبيلے خزرج ميں تشريف لائيں، ھم صاحب قدرت اور باوقار افراد ھيں۳۰
اسميں كوئي شك نھيں كہ نفاق كا مبدا ايك اجتماعي و معاشرتي پروگرام كے تحت مدينہ ھے، نفاقِاجتماعي كے پروگرام كي شكل گيري كا اصل عامل حق كي حاكميت و حكومت ھے، جو پہلي مرتبہ مدينہ ميں تشكيل ھوئى، پيامبرعظيم الشان كا مدينہ ميں واردھونا و اسلام كا روز بروز قوي و مستحكم ھونا باعث ھوا كہ منافقين كي مرموز حركات وجود ميں آئيں، البتہمنافقين كي يہ خيانت كارانہ حركتيں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي جنگوں ميں زيادہ قابل لمس ھيں۔
قرآن مجيد ميں بطور صريح جنگ بدر، احد، بني نظير، خندق و تبوك نيز مسجد ضرار كے سلسلہ ميں منافقينكي سازشيں بيان كي گئي ھيں۔
مدينہ ميں جماعت نفاق كے منظّم و مرتب پروگرام كے نمونے، غزوہ تبوك كے سلسلہ ميں پيامبر اكرم صلياللہ عليہ وآلہ وسلم كے لئے مشكلات كھڑي كرنا، مسجد ضرار كي تعمير كے لئے، چال بازي و شعبدہ بازي كا استعمال كرنا۔
پيامبراسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا غزوۂ تبوك كے لئے اعلان كرنا تھا كہ منافقين كي حركاتميں شدت آگئى، غزوہ تبوك كے سلسلہ ميں منافقانہ حركتيں اپنے عروج پر پھنچ چكي تھيں، مدينہ سے تبوك كا فاصلہ تقريباً ايك ھزار كيلو ميٹر تھا،موسم بھي گرم تھا، محصول زراعت و باغات كے ايام تھے، اس جنگ ميں مسلمانوں كي مدّ مقابل روم كي سوپر پاورحكومت تھى، يہ تمام حالات منافقين كے فيور (موافق) ميں تھے، تاكہ زيادہ سے زيادہ افراد كو جنگ پر جانے سے روكسكيں، اور انھوں نے ايسا ھي كيا۔
منافقين كے ايك اجتماع ميں جو سويلم يھودي كے يھاں برپا ھوا تھا، جس ميں منافق جماعت كے بلند پايہاركان موجود تھے، طے يہ ھوا كہ مسلمانوں كو روم كي طاقت و قوت كا خوف دلايا جائے، ان كے دلوں ميں روم كي ناقابلتسخير فوجي طاقت كا رعب بٹھاياجائے۔
اس جلسہ اور اھداف كي خبر پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو پھنچى، آپ نے اسلام كے خلافاس سازشي مركز كو ختم نيز دوسروں كي عبرت كے لئے حكم ديا، سويلم كے گھر كو جلاديا جائے آپ نے اس طريقہ سے ايكسازشي جلسہ نيز ان كے اركانكو متفرق كر كے ركھ ديا ۳۱
مسجدضرار كي تعمير كے سلسلہ ميں نقل كيا جاتا ھے كہ منافقين ميں سے كچھ افراد رسول اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي خدمت ميں حاضر ھوئے، ايك مسجد قبيلۂ بني سالم كے درميان مسجدقبا كے نزديك بنانے كي اجازت چاھى، تاكہ بوڑھے، بيمار اور وہ جو مسجد قبا جانے سے معذور ھيں خصوصاً باراني راتوں ميں،وہ اس مسجد ميں اسلامي فريضہاور عبادت الھي كو انجام دے سكيں، ان لوگوں نے تعمير مسجد كي اجازت حاصل كرنے كے بعد رسول اكرم صلي اللہعليہ وآلہ وسلم سے افتتاح مسجد كي درخواست بھي كى، آپ نے فرمايا: ميں ابھي عازم تبوك ھوں واپسي پر انشاء اللہ اسكام كو انجام دوں گا، تبوك سےواپسي پر ابھي آپ مدينہ ميں داخل بھي نہ ھوئے تھے كہ منافقين آپ كي خدمت ميں حاضر ھوئے اور مسجد ميںنماز پڑھنے كي خواھش ظاھر كى، اس موقع پر وحي كا نزول ھوا۳۲ جس نے ان كے افعال و اسرار كي پول كھول كر ركھدى، پيامبر اكرمصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے مسجد ميںنماز پڑھنے كے بجائے تخريب كا حكم ديا تخريب شدہ مكان كو شھر كے كوڑے اور گندگي ڈالنے كي جگہ قرارديا۔
اگراس جماعت كے فعل كي ظاھري صورت كا مشاھدہ كريں تو پيامبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ايسے حكمسے حيرت ھوتي ھے ليكن جب اس قضيہ كے باطني مسئلہ كي تحقيق و جستجو كريں تو حقيقت سامنے آتي ھے، يہ مسجد جوخراب ھونے كے بعد مسجد ضرار كےنام سے مشھور ھوئى، ابو عامر كے حكم سے بنائي گئي تھى، يہ مسجد نھيں بلكہ جاسوسي اور سازشي مركز تھا، اسلامكے خلاف جاسوسي و تبليغ اور مسلمانوں كے درميان تفرقہ ايجاد كرنا اس كے اھداف و مقاصد تھے۔
ابوعامر مسيحي عالم تھا زمانۂ جاھليت ميں عبّاد و زھّاد ميں شمار ھوتا تھا اور قبيلۂ خزرجميں وسيع عمل و دخل ركھتا تھا، جب مرسل اعظم نے مدينہ ھجرت فرمائي مسلمان آپ كے گرد جمع ھوگئے خصوصاً جنگ بدر ميںمسلمانوں كي مشركوں پر كاميابيكے بعد اسلام ترقي كرتا چلا گيا، ابو عامر جو پھلے ظھور پيامبر (ص) كا مژدہ سناتا تھا جب اس نے اپنےاطراف و جوانب كو خالي ھوتے ديكھا تو اسلام كے خلاف اقدام كرنا شروع كرديا، مدينہ سے بھاگ كر كفار مكہ اور ديگرقبائل عرب سے، پيامبر اسلام صلياللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف مدد حاصل كرني چاھى، جنگ احد ميں مسلمانوں كے خلاف پروگرام مرتب كرنے ميں اسكا بڑا ھاتھ تھا، دونوں لشكر كي صفوں كے درميان ميں خندق كے بنائے جانے كا حكم اسي كي طرف سے تھا، جس ميں پيامبراكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلمگر پڑے آپ كي پيشاني مجروح ھوگئي دندان مبارك ٹوٹ گئے، جنگ احد كے تمام ھونے كے بعد، باوجود اس كے كہ مسلمان اس جنگ ميں كافي مشكلات و زحمات سے دوچار تھے، اسلام مزيد ارتقاء كي منزليں طے كرنے لگا صدائے اسلام پھلےسے كھيں زيادہ بلند ھونے لگيابو عامر، يہ كاميابي و كامراني ديكھ كر مدينہ سے بادشاہ روم ھرقل كے پاس گيا تاكہ اس كي مدد سے اسلام كيپيش رفت كو روك سكے، ليكن موت نے فرصت نہ دي كہ اپني آرزو و خواھش كو عملي جامہ پھنا سكے، ليكن بعض كتب كےحوالہ سے كھا جاتا ھے، كہ وہ بادشاہروم سے ملا اور اس نے حوصلہ افزا وعدے بھي كئے۔
اسنكتہ كو بيان كر دينا بھي ضروري ھے كہ اس كي تخريبي حركتيں اور عناد پسند طبيعت كي بنا پرپيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اسے فاسد كا لقب دے ركھا تھا، بھر حال اس كے قبل كہ وہ واصل جھنم ھوا، ايك خطمدينہ كے منافقين كے نام تحريركيا جس ميں لشكر روم كي آمد اور ايك ايسے مكان و مقام كي تعمير كا حكم تھا جو اسلام كے خلاف سازشي مركزھو، ليكن چونكہ ايسا مركز منافقين كے بنانا چنداں آسان نھيں تھا لھذا انھوں نے مصلحتاً معذوروں، بيماروں، بوڑھوںكي آڑ ميں مسجد كي بنياد ڈالكر ابو عامر كے حكم كي تعميل كى، مركز نفاق مسجد كي شكل ميں بنايا گيا، مسجد كا امام جماعت ايك نيك سيرتجوان بنام مجمع بن حارثہ كو معين كيا گيا، تاكہ مسجد قبا كے نماز گزاروں كي توجہ اس مسجد كي طرف مبذول كي جاسكے،اور وہ اس ميں كسي حد تك كامياببھي رھے، ليكن اس مسجد كے سلسلہ ميں آيات قرآن كے نزول كے بعد پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نےاس مركز نفاق كو خراب كرنے كا حكم دے ديا ۳۳،تاريخ كا يہ نمونہجسے قرآن بھي ذكر كر رھا ھے منافقين كي مدينہ ميں منظّم كار كردگي كا واضح ثبوت ھے۔
مشھورنظريہ كي تحقيق
مشھورنظريہ كے مطابق نفاق كا آغاز مدينہ ھے، اور نفاق كا وجود، حكومت و قدرت سے خوف و ھراس كي بناپر ھوتا ھے، اس لئے كہ مكہ كے مسلمانوں ميں قدرت و طاقت والے تھے ھي نھيں، لھذا وھاں نفاق كا وجود ميں آنا بے معنيتھا، صرف مدينہ ميں مسلمانصاحب قدرت و حكومت تھے لھذا نفاق كا مبداء مدينہ ھے۔
ليكن نفاق كي بنياد صرف حكومت سے خوف و وحشت كي بنا پر جو اس كے لئے كوئي دليل نھيں ھے، بلكہاسلام ميں منصب و قدرت كے حصول كي طمع بھي نفاق كے وجود ميں آنے كا عامل ھوسكتي ھے، لھذا، نفاق كي دو قسم ھونيچاھئے:
1۔ نفاقِ خوف: ان افراد كا نفاق جواسلام كي قدرت و اقتدار سے خوف زدہ ھوكراظھار اسلام كرتے ھوئے اسلام كے خلاف كام كيا كرتے تھے۔
2۔ نفاقِ طمع: ان افراد كا نفاق جو اسلالچ ميں اسلام كا دم بھرتے تھے كہاگر ايك روز اسلام صاحب قدرت و سطوت ھوا، تو اس كي زعامت و مناصب پر قابض ھوجائيں يا اس كے حصّہ داربن جائيں۔
نفاقبر بناء خوف كا سر چشمہ مدينہ ھے، اس لئے كہ اھل اسلام نے قدرت و اقتدار كي باگ ڈور مدينہميں حاصل كيا۔
ليكن نفق بر بناء طمع و حرص كا مبداء و عنصر مكہ ھونا چاھئے، عقل و فكر كي بنا پر بعيد نھيں ھے كہبعض افراد روز بروز اسلام كي ترقى، اقتصادي اور سماجي بائيكاٹ كے باجود اسلام كي كاميابى، مكرر رسول اعظم صلياللہ عليہ وآلہ وسلم كي طرف سےاسلام كے عالمي ھونے والي خوش خبري وغيرہ كو ديكھتے ھوئے دور انديش ھوں، كہ آج كا ضعيف اسلام كل قوت وطاقت ميں تبديل ھوجائے گا، اسي دور انديشي و طمع كي بنا پر اسلام لائے ھوں، تاكہ آئندہ اپنے اسلام كے ذريعہ اسلام كےمنصب و قدرت كے حق دار بن جائيں۔
اس مطلب كا ذكر ضروري ھے كہ منافق طمع كے افعال و كاركردگي منافق خوف كي فعاليت و كاركردگي سے كافيجدا ھے، منافق خوف كي خصوصيت خراب كارى، كار شكنى، بيخ كنى، اذيت و تكليف سے دوچار كرنا ھے، جب كہ منافق طمع ايسانھيں كرتا، بلكہ وہ ايك تحريككي كاميابي كے سلسلہ ميں كوشش كرتے ھيں، تاكہ وہ تحريك ايك شكل و صورت ميں تبديل ھوجائے، اور يہ قدرتكي نبض اور دھڑكن كو اپنے ھاتھوں ميں لے سكيں، منافق طمع صرف وھاں تخريبي حركات كو انجام ديتے ھيں جھاں ان كےبنيادي منافع خطرے ميں پڑجائيں۔
اگرھم نفاق طمع كے وجود كو مكہ قبول كريں، تو اس كي كوئي ضرورت نھيں كہ نفاق كا وجود اور اس كےآغاز كو مدينہ تسليم كيا جائے۔
جيساكہ مفسر قرآن علامہ طباطبائي (رح) اس نظريہ كو پيش كرتے ھيں۳۴، آپايك سوال كے ذريعہكو مذكورہ مضمون كي تائيد كرتے ھوئے فرماتے ھيں، باوجوديكہ اس قدر منافقين كے سلسلہ ميں آيات، قرآن ميںموجود ھيں، كيوں پيامبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كے بعد منافقين كا چرچا نھيں ھوتا، منافقين كے بارےميں كوئي گفتگو اور مذاكراتنھيں ھوتے، كيا وہ صفحہ ھستي سے محو ھوگئے تھے؟ كيا پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفات كيبنا پر منتشر اور پراكندہ ھوگئے تھے؟ يا اپنے نفاق سے توبہ كرلي تھى؟ يا اس كي وجہ يہ تھي كہ پيامبر اسلام صلياللہ عليہ وآلہ وسلم كي وفاتكے بعد صاحبان نفاق طمع، صاحبان نفاق خوف كا تال ميل ھوگيا تھا، اپني خواھشات و حكمت عملي كو جامۂعمل پھنا چكے تھے، اسلام كي حكومت و ثروت پر قبضہ كر چكے تھے اور بہ بانگ دھل يہ شعر پڑھ رھے تھے:
((لعبت ھاشم بالملك فلا خبرجاء ولا وحي نزل))
خلاصہ ٔبحث يہ ھے كہ نفاق اجتماعي ايك منظّم تحريك كے عنوان سے مدينہ ميں ظھور پذير ھوا، ليكننفاق فردى جو بر بناء طمع و حرص عالم وجود ميں آيا ھو اس كو انكار كرنے كي كوئي دليل نھيں، اس لئے كہ اس نوعيت كانفاق مكہ ميں بھي ظاھر ھوسكتاتھا، وہ افراد جو پيامبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دستور و حكم سے سر پيچي كرتے تھے، ان ميںبعض وہ تھے جو مكہ ميں مسلمان ھوئے تھے، يہ وھي منافق تھے جو طمع و حرص كي بنا پر اسلام كا اظھار كرتے تھے۔
مرض نفاق اور اس كے آثار
نفاق،قلب اور دل كي بيماري ھے، قرآن كي آيات اس باريكي كي طرف توجہ دلاتي ھيں، پاكيزہ قلب خداكا عرش اور اللہ كا حرم ھے۳۵، اسميں اللہ كے علاوہكسي اور كا گذر نھيں ھے، ليكن مريض و عيب دار دل، غير خدا كي جگہ ھے ھوا و ھوس سے پر دل شيطان كا عرشھے، قرآن مجيد صريح الفاظ ميں منافقين كو عيب دار اور مريض دل سمجھتا ھے:
(في قلوبھم مرض) ۳۶
نفاق جيسي پُر خطر بيماري ميں مبتلا افراد، بزرگترين نقصان و ضرر سے دوچار ھوتے ھيں، اس لئے كہآخرت ميں نجات صرف قلب سليم (پاكيزہ) كے ذريعہ ھي ميسر ھے، ھوا و ھوس سے پر، غير خدا كا محبّ و غير خدا سے وابستہدل نجات كا سبب نھيں۔
(يوم لا ينفع مال ولا بنونالا من اتي اللہ بقلب سليم) ۳۷
اس دن مال اور اولاد كام نھيں آئيں گے۔ مگر وہ جو قلب سليم كے ساتھ اللہ كي بارگاہ ميں حاضرھو۔
قرآن مجيد اس مرض و بيماري كي شناخت و واقفيت كے سلسلہ ميں كچھ مفيد نكات كا ذكر كر رھا ھے،تمام مسلمانوں كو ان نكات كي طرف توجہ ديني چھاھئے تاكہ اپنے قلب و دل كي صحت و سلامتي و نيز مرض كو تشخيص دےسكيں، نيز ان نكات كے ذريعہ معاشرےكے غير سليم و نادرست قلوب كي شناسائي كرتے ھوئے ان كے مراكز فساد و فتنہ سے مبارزہ كرسكيں۔
ايك سرسري جائزہ ليتے ھوئے آياتِ قرآني جو منافقين كي شناخت ميں نازل ھوئي ھيں ان كو چند نوع ميں تقسيم كيا جاسكتا ھے۔
وہآيات جو اسلامي معاشرے ميں منافقين كي سياسي و اجتماعي روش و طرز كو بيان كرتي ھيں، وہ آيات جومنافقين كي فردى خصوصيت نيز ان كي نفسياتي شخصيت و عادت كو رونما كرتي ھيں، وہ آيات جو منافقين كي ثقافتي روش وطرز عمل كو اجاگر كرتي ھيں، وہآيات جو منافقين سے مبارزہ و رفتار كے طور و طريقہ كو پيش كرتي ھيں۔
پھلي نوع كي آيات ميں منافقين كي سياسي و معاشرتي اسلوب، اور دوسري نوع كي آيات ميں منافقين كيانفرادي و نفسياتي بيماري كي علامات كا ذكر ھے اور تيسري نوع كي آيات ميں منافقين كي كفر و نفاق كے مرض كو وسعتدينے نيز اسلام كو تباہ و بربادكرنے كے طريقے كو بيان كيا گيا ھے، چوتھي نوع كي آيات ميں منافقين كي كار كردگي كو بے اثر بنانے كےطريقۂ كار كو پيش كيا گيا ھے، اگر چہ قرآن ميں جو آيات منافقين كے سلسلہ ميں آئيھيں وہ ان كي اعتقادي نفاق كو بيان كرتي ھيں، مگر جو آيات منافقين كي خصوصيت و صفات كو بيان كرتي ھيں وہ ان كيمنافقانہ رفتار و گفتار كو پيش كررھي ھيں خواہ اعتقادي ھوں يا نہ ھوں منافقين كے جو خصائص بيان كئے گئے ھيں، منافقانہ رفتار و گفتار كيشناخت كے لئے معيار و پيمانہ قرار دئے گئے ھيں، اس كے مطابق جو فرد يا جماعت بھي اس نوع و طرز كي رفتار و روش كيحامل ھوگي اس كا شمار منافقينميں ھوگا۔
۱ اصول كافى، ج1، ص43۔
۲. سورہ ممتحنہ/ 1۔
۳. سورہ فاطر/ 6۔
۴. سورہ نور/ 21۔
۵. سورہ نساء/ 101۔
۶. سورہ مائدہ/ 82۔
۷. شرح نھج البلاغہ، ابن ابي الحديد، ج20ص311۔
۸. مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق يا كفرپنھان، ص52۔
۹. سورہ توبہ/ 101۔
۱۰. نھج البلاغہ، نامہ27۔
۱۱. بحار الانوار، ج33، ص399۔
۱۲. سفينۃ البحار، ج1، ص380۔
۱۳. نھج البلاغہ، خطبہ93۔
۱۴. سورہ انفال/60۔
۱۵. نھايۃ، ابن اثير، بحث "نفق" و نيز: لسان العرب، ج10، ص359۔
۱۶. سورہ نساء/ 89۔
۱۷. قاموس الرجال، ج10، ص89۔
۱۸. الاصابہ، ج4، ص88۔
۱۹. تفسير سورہ توبہ و منافقون۔
۲۰. يقيناً اخلاق كي يہ حالتيں، رذائل كےاجزا ميں سے ھے ليكن يہ كہ عادت رذيلہ روايات ميں نفاق پر اطلاق ھوتي ھے يا نھيں يہ وہ موضوع ھے جسےاجاگر ھونا چاھئے علامہ مجلسيبحار الانوار ج72 ص108 ميں اس نظريہ كي تائيد كرتے ھيں كہ روايات ميں اسي معني ميں استعمال ھوا ھے،اصول كافى ج2 ميں ايك باب صفت النفاق و المنافق ھے اس باب كي اكثر احاديث انفرادي، اجتماعي اخلاقي نفاق كے سلسلہ ميںبيان كي گئي ھے يہ خود دليلھے كہ نفاق روايات ميں اس خاص معني (نفاق اخلاقي) جس كا ميں نے اشارہ كيا ھے استعمال ھوا ھے۔
۲۱. غرور الحكم، حديث 3214۔
۲۲. اصول كافى، ج2، ص396۔
۲۳. اصول كافى، ج2، ص396۔
۲۴. المحجۃ البيضاء، ج5، ص282۔
۲۵. خصال شيخ صدوق، ص254۔
۲۶. ميزان الحكمت، ج8، ص3343۔
۲۷. غيبت و كذب سے مستثنٰي موارد كےسلسلہ ميں اخلاقي و فقھي كتب جيسے جامع السعادات اور مكاسب كي طرف مراجعہ كريں۔
۲۸. المحجۃ البيضاء، ج5، ص280۔
۲۹. المحجۃ البيضاء، ج5، ص282۔
۳۰. علام الورى، ص44، بحار الانوار، ج19 ص108۔
۳۱. سيرت ابن حشام، ج2، ص517، منشور جاويدقرآن، ج4، ص112۔
۳۲. سورہ توبہ، 107 كے بعد كي آيتيں۔
۳۳. مجمع البيان، ج3، ص72۔
۳۴. تفسير الميزان، ج19 ص287 تا 290، سورہمنافقون كي آيات 1/ 8 كے ذيل ميں۔
۳۵. "قلب المؤمن عرش الرحمن" بحارالانوار، ج58، ص39۔ "لقلب حرم اللہ فلا تسكن حرم اللہ غير اللہ" بحار الانوار، ج70، ص25۔
۳۶. سورہ بقرہ/ 10، مائدہ/52 ، توبہ/ 125،محمد/ 20۔ 29: بعض آيات ميں (في قلوبھم مرض) كے ھمراہ منافقون كا بھي ذكر كيا گيا ھے، جيسے سورہ انفالكي آيت نمبر 49 و سورہ احزابكي آيت نمبر 12 (اذا يقول المنافقون والذين في قلوبھم مرض) يھاں يہ سوال سامنے آتا ھے كہ بيمار دلوالے منافق ھي ھيں يا ان كے علاوہ دوسرے افراد، علامہ طباطبائي (رح) تفسير الميزان، ج15، ص286، ج9، ص99، ميں اندونوں كو الگ الگ شمار كرتےھيں، آپ كا كھنا ھے كہ بيمار دل والوں سے مراد ضعيف الاعتقاد مسلمان ھيں، اور منافقين وہ ھيں جو ايمان واسلام كا اظھار كرتے ھيں ليكن باطن ميں كافر ھيں، بعض مفسرين كي نظر ميں، بيمار دل صفت والے افراد منافق ھي ھيں،نفاق كے درجات ھيں، نفاق كاآغاز قلب و دل كي كجي اور روح كي بيماري سے شروع ھوتا ھے، اور آھستہ آھستہ پايۂ تكميل كو پھنچتا ھے، ليكن ميرے خيال ميں منافقون، و (والذين في قلوبھم مرض) دو مترادف الفاظ كے مثل ھيںجيسے فقير و مسكين، اگر يہ دو لفظ ساتھ ميں استعمال ھو تو ھر لفظ ايك مخصوص معني كا حامل ھوگا، ليكن اگر جدا استعمالھوتو دونوں كے معني ايك ھيھوں گے، اس بنا پر وہ آيات جس ميں لفظ منافقون و (في قلوبھم مرض) ايك ساتھ استعمال ھوئے ھيں، دونوں كےمستقل معني ھيں، منافقون يعني اسلام كا اظھار و كفر كا پوشيدہ ركھنا، و (في قلوبھم مرض) يعني ضعيف الايمان ياآغاز نفاق، ليكن جب (في قلوبھممرض) كا استعمال جدا ھو تو اس سے مراد منافقين ھيں، كيوں كہ منافقين وھي ھيں جو (في قلوبھم مرض) كےمصداق ھيں،
۳۷. سورہ شعراء/ 88 و 89۔
source : http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=105