عظمتوں کی انتہا ہیں شاہ چراغِ موسیٰ کاظم
فضل و کرم کبریا ہیں شاہ چراغِ موسیٰ کاظم
آپ ہمنامِ رسالت ماب، احمد مجتبیٰ
تاجدارِ نما ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
نور کی جلوہ گری ہے آپ کے دربار میں
نوریوں کے پیشوا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
حیدر ِکرّار کے نورِ نظر، شیر خدا
سیدہ کی وہ عطا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
سنت شبیر زندہ کی تھی پھر شیراز میں
عکس شاہِ کربلا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
پاسبان دین ہیں وہ ہیں محافظ راہِ حق
عاصیو! قبلہ نما ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
جن کے دادا پاک ہیں اہل جہاں کے داد رس
میرے وہ مشکل کشا ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
صورت و سیرت میں ہیں وہ ہو بہو شاہ نجف
نائب خیر الوریٰ ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
ہے علی عباس کے دل میں چراغ مرتضٰی
وہ رضائے مصطفٰی ہیں شاہ چراغ موسیٰ کاظم
سیدنا امام موسی کاظم (ع) کی اولاد اطہار میں ہر جلیل المنزلت صاحبزادہ مقام منفرد رکھتا ہے جن کی حیات طیبہ فدا کاری، تبلیغ دین، ایثار اور فلاح انسانی کی باکمال کاوشوں سے لبریز ہے ۔ آٹھویں خلیفہ راشد سیدنا امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کے بعد سیدنا احمد بن امام موسیٰ کاظم، کمال جاہ وجلال، رفیع الدرجات، قدر ومنزلت اور شان و عظمت کے مالک ہیں ۔ آپ سیدنا امام موسیٰ کاظم کے بزرگ ترین فرزندان میں سے ہیں ۔ امام موسیٰ کاظم (ع) آپ سے بیحد محبت فرماتے اور تمام امور میں آپ کو مقدم رکھتے ۔ آپ نے اپنی یُسَیْرَہْ نامی جاگیر اُن کے لئے وقف فرمائی ۔ سیدنا احمد، سیدنا محمد اور سیدنا حمزہ بن امام موسیٰ کاظم ایک والدہ سے ہیں ۔
آپ کی والدہ مکرمہ حضرت ام احمد بزرگ ترین خواتین میں سے تھیں ۔ سیدنا امام موسیٰ کاظم ان مخدومہ پہ خصوصی نگاہ کرم فرماتے ۔ جب آپ مدینہ منورہ سے عازم بغداد ہوئے تو تمام تبرکاتِ امامت آپ کے سپرد کرتے فرمایا:
’’یہ تبرکات امامت آپ کے پاس میری امانت ہیں ۔ میری شہادت کے بعد جب کوئی یہ تبرکات طلب کرے تو دے دینا، وہی خلیفہ اور امام ہوں گے ۔ آپ پر اور دیگر لوگوں پر ان کی اطاعت واجب ہو گی ‘‘۔ حضرت امام علی رضا (ع) کو حضرت ام احمد کے گھر میں بڑے احتیاط سے وصیت فرمائی ۔ اس کے بعد ہارون الرشید عباسی نے سیدنا امام موسیٰ کاظم (ع) کو زہر دلوا کر شہید کر دیا ۔
آپ کی جانگداز شہادت کے بعد سیدنا امام علی رضا(ع)، حضرت ام احمد کے پاس تشریف لائے اور تبرکاتِ امامت کا مطالبہ کیا ۔ سیدتنا ام احمد نے یہ سن کر گریہ زاری فرمائی اور سر کوبی فرماتے پوچھا، ’’سیدی ! کیا آپ کے والد بزرگوار شہید ہو گئے ؟ ‘‘۔فرمایا، ’’ہاں، ابھی ان کے دفن کے بعد مدینہ واپس آیا ہوں ۔ آپ وہ امانتیں مجھے دے دیں جو میرے والد بزرگوار نے بغداد کا سفر اختیار کرتے وقت آپ کے سپرد فرمائی تھیں ۔ میں ان کا خلیفہ اور جن و انس پہ امام برحق ہوں ‘‘۔ مخدومہ پاک نے یہ سن کر شدت سے آہ و زاری کی اور امانتیں واپس کر کے سیدنا امام علی رضا (ع) کی بیعت کی ۔ جب حضرت امام موسیٰ کاظم(ع) کی شہادت کی خبر مدینہ منورہ میں معروف ہوئی تو اہل مدینہ جوق در جوق حضرت بی بی ام احمد کے گھر کے دروازے پر جمع ہونے لگے ۔
سیدنا میراحمد بزرگی، زہد وعبادت، نفوذشریعت، حق گوئی، بے باکی، اطاعت ایزدی، خوارق عادات، کرامات اور شان و عظمت کے باعث بڑے رعب وجلال کے مالک تھے ۔ آپ انتہائی خوشخط اور نفیس رقم تھے ۔ کلام مجید کے ایک ہزار نسخے اپنے مبارک ہاتھوں سے تحریر فرمائے ۔ کلام پاک کی کتابت سے ملنے والی رقم کے عوض ایک ہزار غلام خرید کر راہ خدا میں آزاد فرمادیئے ۔ آپ کے فضائل و محاسن اور بزرگی احاطۂ تحریر و تقریرمیں نہیں آسکتی ۔ سیدنا امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے بعد لوگ آپ ہی کو امام وقت ماننے لگے ۔ مسجد میں لے جا کر امر امامت میں بیعت شروع کر دی ۔ تمام لوگوں سے بیعت لے کر آپ منبر پر تشریف لے گئے اور انتہائی فصاحت و بلاغت سے فرمایا :
’’اے لوگو! اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ ابھی آپ تمام لوگوں نے میری بیعت کی ہے اور آپ میری بیعت میں ہیں اور میں خود اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی بیعت میں ہوں ۔ آپ آگاہ رہیں کہ میرے ابا حضرت امام موسیٰ کاظم کے بعد میرے بھائی حضرت علی بن موسیٰ رضا خلیفہ برحق اور ولی خدا ہیں ۔ مجھ پر اور آپ سب پر خدا اور رسول اکرم (ص) کی طرف سے یہ امر واجب اور فرض ہے کہ ہم سب ان کی اطاعت و فرمانبرداری کریں، جو حکم بھی ان کی طر ف سے جاری ہو‘‘۔ اس اعلان کے بعد سیدنا امام علی رضا (ع) کے کچھ فضائل و مناقب بیان فرمائے ۔
سیدنا میر احمد کے اس اعلان اور حکم پر حاضرین نے سر تسلیم خم کرتے گردنیں جھکا دیں ۔ اس کام سے فارغ ہو کر تمام لوگ حضرت سید احمد کی زیر قیادت امام علی رضا (ع) کے درِ اقدس پہ حاضر ہوئے۔ سیدنا میر احمد نے ہاتھ بڑھا کر بیعت کی اور تمام لوگوں نے آپ کی متابعت میں بیعت کی ۔ امام علی رضا (ع) نے آپ کے حق میں دست دعا بلند فرمائے :
’’خدایا! جس طرح انہوں نے میرے حق کی حفاظت کی ہے تو بھی ان کے حق کی حفاظت فرما ‘‘۔ پھر فرمایا: ’’دنیا و آخرت میں اس سے بڑا کوئی عمل مقام نہ ہو گا کہ آپ نے حق کو حفاظت سے رکھا اور باطل کی آمیزش نہ ہونے پائی ۔ نہ دنیا کے فریب میں آئے اور نہ سرداری کی پرواہ کی اور حق کو حقدار کے سپرد کر کے حق امانت ادا کیا ۔ اس عمل سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ گمراہی سے بچا لئے اور مخلوق خدا کو صراط مستقیم پہ چلنے کی ہدایت فرمائی ‘‘
سیدنا میر احمد اس وقت تک ثَامِنُ الْحُجَّۃْ کی خدمت میں رہے جب تک مامون الرشید نے حضرت امام کو مدینہ سے خراسان نہ بلا لیا ۔امام علی رضا خراسان پہنچے تو مامون نے آپ کو ولی عہد سلطنت مقرر کیا ۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو سیدنا احمد اپنے بھائیوں، بھتیجوں، احباء و عقیدت مندوں کے ساتھ جن کی مجموعی تعداد سات سو تھی مدینہ منورہ سے خراسان روانہ ہوئے اور کویت، بصرہ، اھواز، بوشھر سے ہوتے دروازۂ فارس شیراز کے قریب پہنچے ۔ رستہ سے امام کے عقیدت مند اس قافلہ میں شامل ہوتے گئے اور یہ قافلہ دو ہزار نفوس سے تجاوز کر گیا ۔ شہر شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر تھے کہ آپ نے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنی ۔
مامون الرشید عباسی کو خبر ہوئی کہ امامزادگانِ موسیٰ کاظم خراسان تشریف لا رہے ہیں تو اس نے تمام عمال سلطنت اور حکام کو ایک مراسلہ کے ذریعے حکم دیا کہ امیر المومنین سیدنا امام علی کی اولاد میں سے جو آدمی جس جگہ ملے قتل کر دیا جائے ۔ گورنر شیراز، قتلغ خان کو خصوصی حکم دیا اور سادات عظام کے خلاف بھڑکایا۔ قتلغ خان کو اطلاع ہوئی کہ سیدنا میر احمد شیراز سے تین میل کے فاصلہ پر ہیں تو اس نے فوراً چالیس ہزار سپاہ پہ مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا اور شہر سے باہر آکر سادات عظام کا رستہ روکا ۔
سیدنا میر احمد نے پرشکوہ عباسی لشکر کے سامنے قیام فرمایا ۔ آپ کو علم ہوا کہ دشمن جنگ اور خونریزی پہ آمادہ ہے تو انہوں نے اپنے انصار و معاونین کو جمع کر کے امام علی رضا کی شہادت کی خبر سنائی اور فرمایا:
’’یہ ظالم ہمیں کبھی بھی مدینہ منورہ واپس نہ جانے دیں گے ۔تم میں سے جو بھی مدینہ منورہ واپس جانا چاہتا ہو جلد چلا جائے ۔میں ان شریر ظالموں سے ضرور جہاد کروں گا ‘‘۔
یہ سن کر آپ کے تمام بھائیوں ، بھتیجوں اور دوستوں نے اعلان کیاکہ ہم آپ کی قیادت میں جہاد کریں گے ۔سیدنا میر احمد نے ان سب کو دعائے خیر دیتے فرمایا ،’’اچھا تو جنگ کی تیاری کر لیجئے ‘‘۔ یہ دو سو دو ہجری کا زمانہ تھا ۔
شدت ضربِ شیر خدا اور ہے :
دوسرے روز طرفین کی صف بندی ہوئی اور کُشن کے مقام پر لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس روز سیدنا میر احمد اور دوسرے امامزادوں نے میدان کارزار میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اہل شیراز کو حیدرِ کرار یاد آگئے ۔ سیدنا میر احمد کی تلوار، تیغ ذوالفقار کی عکاس تھی تو آپ کے زورِ بازو میںل َافَتیٰ اِلاّعَلی کے نعرے گونج رہے تھے ۔
علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے. لشکر اسلام کا دباؤ دیکھ کر جماعتِ اشرار نے میدان چھوڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے روز قتلغ خان نے پھر سرکشی کی مگر اہل اسلام نے اسے شکست دے دی ۔ قتلغ خان، فی النار ہونے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے بعد تیسرے دن پھر حملہ آور ہوا مگر شکست خوردگی سے میدان چھوڑنا پڑا۔ جماعت اشرار نے راہ فرار اختیار کی ۔
سیدنا میر احمد اور دوسرے شہزادگان نے میدان جنگ سے لے کر دو میل دور قلعہ شیراز کی پشت تک دشمنان اسلام کا تعاقب کیا ۔ شیر خدا کے بپھرے شیر، عباسی لومڑیوں پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔ جہاں رخ کرتے منافقین کی جماعت متفرق کر دیتے ۔ لڑائی کے آخری روز قلعہ کی پشت تک پہنچ گئے ۔ دشمن شہر میں داخل ہو کر دروازے بند کر کے برجوں پہ چڑھ گئے ۔ سیدنا میر احمد اپنے لشکر کے ہمراہ خیمہ گاہ واپس تشریف لائے ۔ اس روز امام زادوں کو بہت زخم آئے اور لشکر اسلام سے قریبا ًتین سو مجاہدین شہادت رسید ہوئے ۔ اگلے روز سیدنا احمد نے حکم دیا کہ لشکر اسلام شہر کے دروازے کے عقب میں خیمہ زن ہو جائے ۔
اب وقتِ شہادت ہے آیا :
قتلغ خان نے یہ خبر سن کر اپنے افسروں اور شہر کے اکابرین کو جمع کر کے کہا :
’’ہم ان ہاشمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ کسی تدبیر سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ ہم ہر گزرگاہ پہ فوج کا ایک دستہ پوشیدہ رکھیں اور تھوڑی فوج کے ساتھ شہر کے دروازے پر ان کا مقابلہ کریں ۔ ہم شکست خوردہ شکل میں شہر سے بھاگیں، دروازے کھلے چھوڑ دیں، جب ہاشمی تعاقب کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں گے تو شہر میں متفرق ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے ہم شہر میں انہیں آسانی سے قتل کردیں گے ‘‘۔
تمام خارجیوں نے اس رائے کو پسند کیا ۔ دوسرے روز انہوں نے اسی تجویز پہ عمل کیا ۔ امامزادے شہر میں داخل ہو گئے ۔ کفار کی چال کامیاب ہوئی ۔ امامزادگان کو شہر میں جہاں جہاں پایا شہید کردیا گیا ۔ سیدنا میر احمد یکہ و تنہا رہ گئے تو وسط شہر میں تشریف لائے ۔ لوگ آپ کے رعب و جلال سے خوفزدہ تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے ۔ گروہ در گروہ فرار اختیار کرتے ۔ جب آپ سرزدکے محلہ کے قریب پہنچے تو ایک ستمگر نے عقب سے آپ کے سر مبارک پہ وار کیا ۔ تلوار آپ کی ابروؤں تک اتر آئی ۔ آپ کی پشت پر مزید زخم لگائے گئے جن سے آپ ناتواں ہو گئے ۔
خارجی آپ کو بے بس جان کر آپ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ۔ انتہائی زخمی حالت میں بھی آپ اپنا دفاع فرماتے انہیں دھکیل کر سوق الغازان، بازارِ ریسمان تک لے گئے جہاں آپ کا مشہد مقدس ہے ۔ حضرت کو بہت زخم آچکے تھے۔ ناتوانی غالب ہوئی تو خوارج نے مل کر یلغار کردیا اور ان ظالموں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ قدرت خدا کہ آپ کا جسد منور ان ظالمین سے غائب ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ آپ کا جسد پاک کہاں ہے ۔ طویل عرصہ تک یہ مشہد و مدفن عوامی نگاہوں سے مخفی رہا۔
شدت ضربِ شیر خدا اور ہے
دوسرے روز طرفین کی صف بندی ہوئی اور کُشن کے مقام پر لڑائی کا بازار گرم ہوا۔ اس روز سیدنا میر احمد اور دوسرے امامزادوں نے میدان کارزار میں بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اہل شیراز کو حیدرِ کرار یاد آگئے ۔ سیدنا میر احمد کی تلوار، تیغ ذوالفقار کی عکاس تھی تو آپ کے زورِ بازو میں لَافَتیٰ اِلاّعَلی کے نعرے گونج رہے تھے ۔
علی کا گھر بھی وہ گھر ہے کہ اس گھر کا ہر اک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے
لشکر اسلام کا دباؤ دیکھ کر جماعتِ اشرار نے میدان چھوڑنا شروع کر دیا۔ دوسرے روز قتلغ خان نے پھر سرکشی کی مگر اہل اسلام نے اسے شکست دے دی ۔ قتلغ خان، فی النار ہونے والوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے بعد تیسرے دن پھر حملہ آور ہوا مگر شکست خوردگی سے میدان چھوڑنا پڑا۔ جماعت اشرار نے راہ فرار اختیار کی ۔
سیدنا میر احمد اور دوسرے شہزادگان نے میدان جنگ سے لے کر دو میل دور قلعہ شیراز کی پشت تک دشمنان اسلام کا تعاقب کیا ۔ شیر خدا کے بپھرے شیر، عباسی لومڑیوں پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔ جہاں رخ کرتے منافقین کی جماعت متفرق کر دیتے ۔ لڑائی کے آخری روز قلعہ کی پشت تک پہنچ گئے ۔ دشمن شہر میں داخل ہو کر دروازے بند کر کے برجوں پہ چڑھ گئے ۔ سیدنا میر احمد اپنے لشکر کے ہمراہ خیمہ گاہ واپس تشریف لائے ۔ اس روز امام زادوں کو بہت زخم آئے اور لشکر اسلام سے قریباً تین سو مجاہدین شہادت رسید ہوئے ۔ اگلے روز سیدنا احمد نے حکم دیا کہ لشکر اسلام شہر کے دروازے کے عقب میں خیمہ زن ہو جائے ۔
اب وقتِ شہادت ہے آیا
قتلغ خان نے یہ خبر سن کر اپنے افسروں اور شہر کے اکابرین کو جمع کر کے کہا ،’’ہم ان ہاشمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے البتہ کسی تدبیر سے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ تجویز یہ ہے کہ ہم ہر گزرگاہ پہ فوج کا ایک دستہ پوشیدہ رکھیں اور تھوڑی فوج کے ساتھ شہر کے دروازے پر ان کا مقابلہ کریں ۔ ہم شکست خوردہ شکل میں شہر سے بھاگیں، دروازے کھلے چھوڑ دیں، جب ہاشمی تعاقب کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو جائیں گے تو شہر میں متفرق ہو جائیں گے ۔ چونکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے ہم شہر میں انہیں آسانی سے قتل کر دیں گے ‘‘۔
تمام خارجیوں نے اس رائے کو پسند کیا ۔ دوسرے روز انہوں نے اسی تجویز پہ عمل کیا ۔ امامزادے شہر میں داخل ہو گئے ۔ کفار کی چال کامیاب ہوئی ۔ امامزادگان کو شہر میں جہاں جہاں پایا شہید کردیا گیا ۔ سیدنا میر احمد یکہ و تنہا رہ گئے تو وسط شہر میں تشریف لائے ۔ لوگ آپ کے رعب و جلال سے خوفزدہ تھے اور آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے ۔ گروہ در گروہ فرار اختیار کرتے ۔ جب آپ سرزد محلہ کے قریب پہنچے تو ایک ستمگر نے عقب سے آپ کے سر مبارک پہ وار کیا ۔ تلوار آپ کی ابروؤں تک اتر آئی ۔ آپ کی پشت پر مزید زخم لگائے گئے جن سے آپ ناتواں ہو گئے ۔
خارجی آپ کو بے بس جان کر آپ کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ۔ انتہائی زخمی حالت میں بھی آپ اپنا دفاع فرماتے انہیں دھکیل کر سوق الغازان، بازارِ ریسمان تک لے گئے جہاں آپ کا مشہد مقدس ہے ۔ حضرت کو بہت زخم آچکے تھے۔ ناتوانی غالب ہوئی تو خوارج نے مل کر یلغار کردی اور ان ظالموں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ قدرت خدا کہ آپ کا جسد منور ان ظالمین سے غائب ہو گیا اور کسی کو پتہ نہ چلا کہ آپ کا جسد پاک کہاں ہے ۔ طویل عرصہ تک یہ مشہد و مدفن عوامی نگاہوں سے مخفی رہا۔
آپ کی شہادت کے چار سو پچاس سال بعد امیر عضد الدولہ، مقرب الدین، مسعود ابن بدر دیلمی (متوفی ۶۶۵ھ ) کے زمانہ تک کسی کے علم میں نہ تھا کہ کہ آپ کا مزار مقدس کہاں ہے ۔ ا یک پھولدار ٹیلے کے گرد و نواح میں کچھ لوگوں کے مکانات تھے ۔ اس ٹیلے کے دامن میں ایک بزرگ خاتون کا جھونپڑ ا تھا ۔ وہ عورت ہر شب جمعہ کچھ حصہ بیت جانے کے بعد اس پھولوں والے ٹیلے پر بہت روشن چراغ دیکھا کرتی جس کی روشنی صبح تک جاری رہتی ۔ اس خاتون نے چند شب جمعہ باقاعدگی سے اس چراغ کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ اس روشنی کے عمل میں کچھ فرق نہ آیا ۔ بڑھیا نے سوچا کہ شاید اس ٹیلے پر کسی ولی اللہ کا مقبرہ ہو ؟۔ بہتر ہے کہ اس امر کی اطلاع امیر عضد الدولہ دیلمی کو دی جائے ۔ صبح وہ عورت امیر عضدالدولہ کے محل میں گئی اور ساری کیفیت بیان کی ۔ امیر یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ مصاحبین نے کہا: ’’یہ بوڑھی عورت ہے، مختلف خیالات دل میں گزرتے ہیں ۔ بڑھاپے کے سبب اسے نیند نہیں آتی اور نگاہوں میں ایسی چیزیں پھرتی ہیں جن کو حقیقت سمجھتی ہے ‘‘۔ ایک نے کہا ،’’یہ بوڑھی عورت غریب ہے، امیر سے کچھ حاصل کرنے اور سوال کرنے کا ذریعہ تلاش کیا ہے تا کہ اسے کچھ مل سکے ‘‘۔
عضدالدولہ نے ان کی باتیں سن کر کہا ،’’تمہاری باتیں درست نہیں ہیں۔ ایسی باتوں سے دور رہنا بہتر ہے ۔ اس عورت کی باتوں کا میرے دل پہ گہرا اثر ہو چکا ہے، اس لئے کہ اس کا بیان ہے کہ صرف جمعہ کی راتوں کو چراغ نظر آتا ہے ۔ شب جمعہ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ‘‘۔ تسلی کے لئے دوبارہ دریافت کیا ۔ بڑھیا نے کہا ،’’صرف جمعہ کی رات ایسا ہوتا ہے ۔ دوسری راتوں میں نہیں ہوتا ‘‘۔امیر عضدالدولہ نے فیصلہ کیا کہ جمعہ کی رات وہ بڑھیا کے گھر جا کر چراغ کی کیفیت کا خود مشاہدہ کرے گا ۔ شب جمعہ، امیر عضدالدولہ بڑھیا کے گھر پہنچ گیا ۔ محو استراحت ہوا اور بڑھیا سے کہا جب چراغ کی کیفیت ظاہر ہونے لگے تو مجھے بیدار کر دینا تاکہ میں خود اس کا مشاہدہ کروں ۔ رات کا تیسرا پہر گزرا تو اس خاتون نے دیکھا کہ چراغ روشن ہے اور عام دنوں کی نسبت اس کی روشنی بہت زیادہ ہے ۔ بڑھیا بہت خوش ہوئی اور بولی ’’اے شاہ چراغ ‘‘۔
پھر وہ امیر عضد الدولہ کے سرہانے گئی اور بیدار کرتے تین مرتبہ پکاری ’’اے شاہ چراغ ‘‘۔امیر عضدالدولہ نیند سے بیدار ہوا ۔ چراغ پہ نظر پڑی تو حیران ہوا اور اپنے خواص سے کچھ افراد کے ہمراہ ٹیلے پر گیا ۔ ٹیلے پر پہنچا تو انہیں کچھ نظر نہ آیا ۔ نیچے اترے تو چراغ مشعل کی طرح روشن پایا ۔ سات مرتبہ اس عمل کا اعادہ کیا ۔ امیر عضدالدولہ اور اس کے درباریوں میں سے ہر آدمی حیران تھا کہ اس عجیب و غریب چراغ کی حقیقت کیا ہے ؟۔ سب حیران و فکرمند اپنے گھروں کو واپس چل دیئے ۔ اسی سوچ و فکر میں امیر کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب میں ایک بزرگ سید نظر آئے جنہوں نے فرمایا،’’اے عضدالدولہ ! کس خیال میں ہو ؟۔ یہ میرا مدفن ہے اور میں سید احمد بن حضرت امام موسیٰ کاظم ہوں ۔ تسلی رکھو اور کسی معتمد کو میرے مدفن کے پاس بھیجو ۔ میں نے تمہارے لئے ایک انگشتری رکھی ہے ‘‘۔
سیدنا شاہ چراغ سے خوشخبری سن کر عضد الدولہ نیند سے بیدار ہو گیا اور شدت ذوق سے صبح تک جاگتا رہا ۔ صبح امراء و صلحاء، علماء و معززین کو دربار میں جمع کر کے گذشتہ شب کے خواب کا واقعہ بیان کیا اور مشورہ طلب کیا کہ اس بارے میں کیا کرنا چاہئے ؟۔ علماء نے جواب دیا کہ قبر مطہر کا دوبارہ کھولنا حرام ہے ۔ اگر فی الواقع یہ میر احمد کامدفن ہے تو پھر ایسا کرنا امامزادہ کی ہتک عزت کا باعث ہے ۔ تمام لوگ متحیر تھے اور انہیں کچھ نہ سوجھتا تھا کہ کیا کیا جائے ؟۔ اسی سوچ بچار میں تھے کہ کسی نے امیر عضدالدولہ سے کہا کہ اس پہاڑ میں شیراز کی جانب ایک پیر بزرگ ہیں جنہیں عفیف الدین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ طویل مدت سے دنیا جہان سے بے خبر اس پہاڑ میں عبادت الٰہی میں مشغول ہیں ۔ ضرورت کے بغیر کسی سے نہیں ملتے ۔ پیر عفیف الدین کو بلا کر یہ سارا واقعہ ان سے بیان کیا جائے کہ یہ کیا بھید ہے ؟۔
اس شخص کا مشورہ سن کر ارکان دولت اور علمائے اکابر نے کہا کہ یہ بہترین تجویز ہے ۔ ہم میں سے جسے حکم ہو گا انہیں لانے کے لئے حاضر ہیں ۔ امیر عضدالدولہ نے کہا ،’’بہتر ہے کہ ایسے خدا رسیدہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر میں خود احوال واقعی عرض کروں ۔ اس تجویز کے بعد امیر عضد الدولہ چند خاص درباریوں اور علماء سمیت پیر روشن ضمیر کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ۔ سلام و آداب بجا لانے کے بعد چراغ، خواب اور انگشتری کا سارا واقعہ بیان کیا ۔ جناب پیر عفیف الدین نے فرمایا ،’’یہ خواب سچ ہے ۔ گزشتہ رات میں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے ۔ آپ قبر اقدس کھولنے کا حکم دے دیں، اس میں کوئی نقصان نہ ہو گا ۔ دیکھئے کیا ظاہر ہوتا ہے ‘‘۔ یہ سن کر امیر عضدالدولہ باغ باغ ہو گیا ۔ شہر واپس آکر حکم دیا کہ کل اس جگہ کو کھودا جائے ۔
دوسرے روز اس جگہ کو کھودا گیا تو پتھر کی بنی لوح مزار ظاہر ہوئی ۔ امیر کو اطلاع دی گئی ۔ امیر اکابرین شہر، علماء و امراء کے ہمراہ وہاں حاضر ہوا ۔ ان سب نے تختی دیکھی جس پر کوفی رسم الخط میں دو سطریں لکھی تھیں،
’’ اَلْعِزَّۃُلِلّٰہْ ، اَلْسَّیَّدْ مِیْراَحْمَدْ بِنْ مُوْسٰی اَلْکَاظِم ‘‘۔
تختی پر کندہ عبارت اس خواب کے مطابق تھی جو امیر نے دیکھا تھا ۔ سب کو یقین کامل ہو گیا ۔ امیر عضد الدولہ نے حکم دیا کہ قبر شریف پر لکھی ہوئی پتھر کی سل کو ہٹایا جائے ۔ جب پتھر کی سل ہٹائی گئی تو ایک وسیع تہہ خانہ نظر آیا ۔ امیر نے ایک شخص پیر عفیف االدین کی خدمت میں بھیجتے پیغام عرض کیا،’’ اب آپ کی تشریف آور ی کا وقت آن پہنچا ہے ۔ تشریف لائیے کہ حضرت سید میر احمد کی خدمت اقدس میں جا کر انگشتری حاصل کی جا سکے ‘‘۔
source : http://www.tebyan.net