امام علی بن موسیٰ (رضا) علیہ السلام، ساتویں امام(ع) کے بیٹے ھیں (مشھور تواریخ کے حوالے سے) ۱۴۸ ھ میں آپ کی ولادت ھوئی اور ۲۰۳ھ میں شھادت ھوئی۔(۱)
امام ھشتم اپنے والد ماجد کی شھادت کے بعد خدا کے حکم اور اپنے بزرگوں کے تعارف سے عھدہ امامت پر فائز ھوئے۔ اپنی امامت کا کچھ حصہ ھارون الرشید عباسی خلیفہ کے زمانے میں گزارا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے امین عباسی اور پھر مامون عباسی کے ھم عصر بھی رھے۔
آپ کی امامت کی مدت تقریباً ۲۰/ سال ھے کہ جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے:
(۱)پھلے دس سال جو ھارون رشید کی حکومت کا زمانہ تھا۔
(۲)اس کے بعد پانچ سال جو ھارون کے لڑکے امین کی حکومت کا زمانہ تھا۔
(۳)آخری پانچ سال کہ یہ مامون کی حکومت کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں سارے جھان اسلام میں آپ کے علم و تقویٰ کے چرچے تھے نیز لوگوں کے دلوں پر آپ ھی کی حکومت تھی۔
امام علیہ السلام نے اپنی عمر مبارک کے ان تینوں حصوں میں اس وقت کے پیچیدہ اور سخت حالات کو دیکھتے ھوئے مختلف انداز سے تبلیغ اسلام کی تھی۔
امام علیہ السلام سے جھاں تک ممکن تھا آپ نے اپنی عمر کے آخری تین سالوں میں لوگوں کو بیدار کرنے اور اسلام کی طرف متوجہ کرنے پر مخصوص روش اپنائی تھی کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ کو کسی قدر آسودگی اور خلیفہ کی طرف سے تھوڑی بھت آزادی مل گئی تھی لیکن جیسے ھی آپ اپنے مشن پر آگے بڑھے اور لوگوں نے آپ کی طرف جوق در جوق آنا شروع کیا، خلیفہ مامون رشید سے رھا نہ گیا کیونکہ اس کی رعایا اس کے حاکم ھونے کے باوجود امام علیہ السلام کی گرویدہ ھو رھی تھی
ھارون الرشید کی وفات کے بعد اس کے بیٹے مامون اور امین میں اختلافات پیدا ھوگئے جس کے نتیجہ میں خونریز جنگیں شروع ھوگئیں اور آخر کار امین مارا گیا اور مامون نے خلافت پر قبضہ کر لیا۔(۲)
اس وقت تک علوی سادات کے لئے بنو عباس کی سیاست بڑی سخت اور خونی تھی جو کہ روز بروز سخت تر ھوتی جا رھی تھی۔ جب بھی علویوں میں سے کوئی شخص اپنی تحریک شروع کرتا تو خونریز جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ھو جاتا تھا اور یہ امر خلافت کے لئے سخت مشکلات پیدا کردیتا تھا۔
اگر چہ اھل بیت علیھم السلام کے شیعہ رھنما اور امام اس زمانے تک تحریک اور انقلاب شروع کرنے والوں کے ساتھ تعاون اور مداخلت نھیں کیا کرتے تھے لیکن شیعہ جن کی تعداد اس زمانے میں بھی قابل توجہ تھی ھمیشہ اھل بیت علیھم السلام کے ائمہ کو اپنا دینی رھنما اور واجب الاطاعت جانتے تھے اور ان کو ھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی خلفاء مانتے تھے کیونکہ خلافت اور دار الخلافہ قیصر و کسریٰ کے درباروں کا نمونہ بن چکے تھے اور ایک لاابالی عیاش گروہ کے ذریعے ملکی امور انجام پاتے تھے۔ شیعہ ان حکومتوں کو ناپاک اور اپنے ائمہ کی شان کے خلاف جانتے تھے۔ لھذا اس حالت کا جاری رھنا اور ترقی کرنا بھی حکومت اور خلافت کے لئے سخت خطرناک تھا اور یہ خطرہ ھمیشہ در پیش تھا۔
مامون نے سوچا کہ ان مشکلات کو اس کے آباء و اجداد کی سترسالہ پرانی سیاست حل نہ کرسکی تھی۔ لھذا وہ چاھتا تھا کہ ایک نئی سیاسی چال کے ذریعے ان مشکلات کو ختم کردے اور وہ یہ تھی کہ امام ھشتم کو اپنا ولی عھد (جانشین) بنالے اور اس طرح آئندہ کے لئے ھر ایسی مشکل کا حل تلاش کرلے، کیونکہ جب علوی سادات اپنے آپ کو خلافت کا حصہ دار سمجھ لیں گے، اس کے علاوہ شیعہ بھی اپنے امام کو خلافت کا جانشین دیکھ لیں گے جس کو وہ ھمیشہ ناپاک اور پلید کھتے آئے ھیں تو اس وقت وہ معنوی اخلاص و ارادت جو وہ ائمہ اھل بیت(ع) کے بارے میں رکھتے ھیں آھستہ آھستہ زائل ھو جائے گی اور اس طرح ان کے مذھبی عقائد بھی مٹ جائیں گے اور اس کے ساتھ ھی وہ خطرہ بھی خود بخود مٹ جائے گا جو ان کو خلافت اور سیاست سے رھتا ھے۔(۳)
ظاھر ھے کہ اصل مقصد حاصل ھو جانے کے بعد مامون کے لئے امام(ع) کو ختم کردینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ مامون نے اپنے اس فیصلے اور عزم کو عملی جامہ پھنانے کے لئے امام(ع) کو مدینہ سے مَرو میں بلایا۔ سب سے پھلے آپ کو خلافت کی اور اس کے بعد جانشینی کی پیش کش کی لیکن آپ نے مختلف طریقوں سے معذرت کرکے اس پیش کش کو قبول نہ کیا۔ آخر کار مامون نے بڑے اصرار سے جانشینی پر آپ کو راضی کرلیا اور امام نے بھی مجبوراً اس شرط پر یہ عھدہ قبول کرلیا کہ حکومت کے کاروبار یا کسی کو منصب دینے یا معزول کرنے میں کوئی مداخلت نھیں کریں گے۔(۴)
یہ واقعہ ۲۰۰ ھ میں پیش آیا مگر تھوڑے ھی عرصے بعد مامون کو شیعوں کی بڑھتی ھوئی تعداد اور ترقی اور اپنے امام سے بھت زیادہ محبت اور عوام کے استقبال اور حتی کہ خود اس کے سپاھیوں اور اعلیٰ عھدیداروں کی توجہ امام(ع) کی طرف زیادہ ھوجانے سے اپنی غلطی کا احساس ھو گیا اور وہ اس کا سد باب کرنے پر آمادہ ھوا۔ اسی وجہ سے اس نے آپ کو زھر دلوا کر شھید کروادیا۔
شھادت کے بعد امام ھشتم کو ایران کے شھر طوس میں جس کو اب مشھد کھتے ھیں دفن کیا گیا۔
مامون الرشید عقلی علوم کی طرف بھت زیادہ مائل تھا اس سلسلے میں اس سے علوم عقلی کے عربی میں ترجمے کرائے۔ وہ علمی مجالس بھی منعقد کیا کرتا تھا جن میں مختلف مذاھب کے علماء اور دانشور جمع ھوتے تھے۔ اس طرح وھاں علمی مناظرے ھوا کرتے تھے۔ امام ھشتم(ع) بھی ان مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے اور دوسرے مذاھب کے علماء کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ ان مجالس اور مناظروں کو بھت سے شیعہ احادیث میں نقل کیا گیا ھے۔(۵)
حواله جات:
۱۔اصول کافی ج/ ۱ ص ۴۸۶ ، ارشاد مفید ص ۲۸۴۔ ۲۹۶، دلائل الامامت ص / ۱۷۵ ۔ ۱۷۷ ، فصول المہمہ ص / ۲۲۵۔۲۲۶ ، تاریخ یعقوبی ج/ ۳ ص / ۱۵۰
۲۔اصول کافی ج/ ۱ ص/۴۸۸، فصول المہمہ ص / ۲۳۷
۳۔دلائل الامامت ص / ۱۹۷، مناقب ابن شہر آشوب ج/ ۴ ص ۳۶۳
۴۔ اصول کافی ج / ۱ ص / ۴۸۹، ارشاد مفید ص / ۲۹۰ ، فصول المہمہ ص / ۲۳۷ ، تذکرة الخواص ص / ۳۵۲ ، مناقب ابن شہر آشوب ج / ۴ ص / ۳۶۳
۵۔مناقب ابن شہر آشوب ج/ ۴ ص / ۳۵۱ ، کتاب احتجاج تالیف احمد بن علی بن ابیطالب الطبری طبع نجف ۱۳۸۵ھء ج/ ۲ ص / ۱۷۰ ۔۲۳۷
source : http://www.sadeqeen.com