اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

فرزند زہرا حضرت امام حسین کی خیموں سے رخصتی اور آپ کی شہادت

فرزند زہرا حضرت امام حسین کی خیموں سے رخصتی اور آپ کی شہادت

عالم امکان میں سب سے بڑی مصیبت جو کربلا میں رونما ہوئی وہ شہادت امام حسین ہے یہی وہ مصیبت ہے جو انس ،جن ،ملائکہ ،زمین ،آسمان ،اور جملہ موجودات پر سب سے زیادہ گراں بار ہے
حضرت امام حسین کے مصائب کو اہلبیت اور آئمہ طاہرین نے بہ صورت زیارت وروایت اورعلماء نے بہ صورت واقعہ کربلا اپنی کتابوں مثلاً ،ارشاد ،مقتل ابو مخنف ،لہوف ،منتھی الآمال ،نفس المہموم ،کامل الزیارات ،میں بیان کیاہے
ایک اہم چیز جو ہر دور میں تمام شیعوں پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اس سے ایک معنوی ورثے کے طور پر استفادہ کریں اور اس کی حفاظت میں حد درجہ کوشاں رہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے سپرد کریں وہ امام حسین کے مصائب پر رونا اور رولانا ہے ،اس امر میں تمام انبیآء کرام ،آئمہ طاہرین ،اولیآء ذوی الاحترام ،اور فرمان امام صادق کے مطابق تمام مخلوقات عالم ،آسمان ،زمین ،جن ،انس،چرند ،پرند اور تمام حیوانات اس رونے میں شریک ہیں
امام صادق فرماتے ہیں :کہ "من ذکرنا عندہ ففاضت عیناہ حرّم اللہ وجھہ علی النّار "اگر کسی شخص کے سامنے نام حسین لیا جائے اور اس کے سبب اس کی آنکھوں سے اشک جاری ہوجائے خداوندمتعال اس چیرے پر آتش جہنم کو حرام کردے گا
مذہبی مقررین ،نوحہ خوان حضرات ،مرثہ گو افراد کو چاہئے کہ اپنی تقریروں کو بغیر ذکر مصیبت حسین کے ختم نہ کریں یہ وہی درس ہے جس کو علماءنے اپنے پر لازم قراردیا ہے اور یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ تمام مراجع کرام اور بزرگ علمآء اس امر پر خاص توجہ دیتے ہیں ۔بعض فقہاء نے یہ فتوی دیاہے کہ تقاریر اور مدح سرائی کرنا ایک مستحب امر ہے اور اگر کوئی شخص اس مستحب کام کرنے کے لئے اقدام کرے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی تقاریر اور اشعارکو ذکر مصیبت امام حسین پر ختم کرے اور بعض دوسرے فقہاء نے جن میں سے ایک مرحوم آیت اللہ العظمی گلپایگانی ہیں اور ان کے علاوہ بعض بزرگ فقہاءجیسے مرحوم حائری مازندرانی جن کے آثار سو جلدوں پر مشتمل ہیں نے فتوی دیا ہے کہ جہاں کہیں بھی امام باڑہ بنایاجائے اس پر وہ تمام احکام لاگو ہوں گے جو مسجد پر جاری ہوتے ہیں یعنی جس طرح قرآن مجید نے بتایا ہے کہ مجنب شخص پر مسجد میں جانا حرام ہے اسی طرح امام باڑے میں بھی جاناحرام ہے
روشن فکر اور غرب زدہ افراد اپنی تحریروں اور تقریروں کےذریعہ امام حسین اور اہل بیت پر رونے کی بہ نسبت جو وسوسے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں ڈال رہے ہیں ان کو شیطانی حربے شمار کرنا چاہئے اور دل کھول کر روئیں اور رولائیں اور اس سنت حسنہ کو محفوظ رکھیں
شیخ طوسی نے امالی میں معاویہ بن وہب کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا :"کل الجزع البکاء مکروہ "ہر طرح کارونا اور فریاد و بکاکرنا مکروہ ہے "سوی الجزع والبکاءعلی الحسین "مگر امام حسین پر رونا اور گریہ و زاری کرنا مکروہ نہیں ہے
شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں کہ امام صادق نے ابو عمّارہ سے فرمایا:ابو عمارہ میرے جد حسین کے مصائب پڑھو !ابو عمارہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور شعر پڑھنا شروع کیا حضرت ؑ رونے لگے میں جیسے جیسے شعر پڑھتا جاتا تھا حضرت کا گریہ بڑھتا گیا ،میں نے شعری سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ اہل حرم کے رونے کی آوازیں آنے لگی
امام صادق نے فرمایا :اگر کوئی شخص امام حسین کے مصائب کاایک ایسا شعر پڑھے جس کے سبب پچاس لوگ رونے لگیں اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے اور اسی طرح اگر کوئی تیس افراد کو رلائے یا بیس افرادکو رلائے یا دس افراد کو رلائے اور پھر فرمایا کہ اگر ایک انسان کو بھی رلائے خداوند عالم اس پر جنت کو واجب قراردے دیتا ہے
البتہ اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ صرف رونا جنت لے جانے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ نماز اور روزہ بھی ہوناچاہئے خمس و زکات بھی اداکرناچاہئے ،فریضہ حج بھی ادا کرناچاہئے اگرچہ سرکار سیّد الشہدآء پر رونا ایک بہت اہم وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسان جنت تک پہونچ سکتا ہے ۔
امام رضا نے ابن شبیب سے فرمایا :"یابن شبیب ان کنت باکیاً علی شئی فابک للحسین ابن علی ابن ابی طالب "ابن شبیب !اگر رونا ہی ہو تو امام حسین پر رو لیا کرو "یابن شبیب ان بکیت علی الحسین حتی تصیر دموعک علی خدّیک "ابن شبیب اگر امام حسین پر روتے روتے آنسو تمہارے رخساروں تک پہونچ جائے "غفر اللہ لک کل ذنب اذنبتہ صغیراً او کبیراً قلیلاً کان او کثیراً"خداوند عالم تمہارے تمام گناہان صغیرا اور کبیرا چاہے تھوڑے ہوں یا زیادہ ۔سب کو بخش دے گا
امام صادق فرماتے ہیں کہ "من ذکر الحسین عندہ " جس شخص کے سامنے امام حسین کاتذکرہ ہو "فخرج من عینیہ من الدموع" اور اس کی آنکھوں سے ایک مکھی کے پر کے برابر آنسو نکل جائیں "کان ثوابہ علی اللہ عزّو جل "اس کا اجر و ثواب صرف خداوند عالم کے ذمہ ہے "و لم یرضیٰ لہ بدون الجنۃ "اور اس رونے والے کے لئے اللہ جنت سے کم پر راضی نہیں ہوگا
علامہ مجلسی بحار الانوار میں نقل کرتے ہیں کہ خود خداوند عالم حضرت آدم ابو البشر ،نوح، ابراہیم ،اسماعیل،موسیٰ،زکریا اور عیسیٰ کو کبھی بالواسطہ کبھی بلاواسطہ امام حسین کے مصائب سناتا تھا اور یہ سب حضرات گریہ و زاری کرتے تھے ،در حقیقت امام حسین پر رونا انبیآء ،آئمہ طاہرین،اور اولیاء کرام کی سیرت کااتباع ہے
امام صادق فرماتے ہیں کہ "انّ زین العابدین بکی علی ابیہ اربعین سنہ "امام زین العابدین اپنے باپ پر چالیس سال روتے رہے جبکہ ہر دن روزہ رکھتے اور تمام رات عبادت اور نماز شب میں مشغول رہتے تھے اور جب افطار کاوقت ہوتاتھا "جاء غلامہ بطعامہ و شرابہ " جب غلام آپ کے سامنے کھانا اور پانی لے کر آتاتھا آپ ہمیشہ یہ جملہ ارشاد فرماتے تھے "قتل ابن رسول اللہ جائعاً"میرے بابا بھوکے شہید کر دئے گئے "قتل ابن رسول اللہ عطشاناً"فرزند رسول پیاسے شہید کردئے گئے ، کئی مرتبہ آپ کے کھانے اور پانی کو تبدیل کیا جاتا تھا تاکہ کچھ کھا،پی سکیں ،اور کبھی تو ایسا ہوتاتھا "اخذ اناءً لیشرب " پانی کا برتن اٹھاتے تھے تاکہ پانی پی لیں "یبکی حتی یبل طعامہ بدموعہ "لیکن پانی دیکھ کر اتنا روتے تھے کہ آنکھوں سے آنسو بہہ کر کھانے میں گر جاتے تھے جس کے سبب کھانا اور پانی مضاف ہوجاتاتھا اور روتے روتے رخساروں پر آنسو بہنے کے سبب خراش ہوجاتی تھی اور آنسو ؤں کے ہمراہ خون آنے لگتاتھا
اس روایت کی بنا پر سرکار سید الشہداء پر رونا ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کی حفاظت کرنا واجب ہے ،نیز امام حسین کے مصائب پر رونا اور رلاناواجب اخلاقی ہے
آپ کی شہادت کاحال اس طرح بیان کیاجاتا ہے کہ آپ جنگ میں مصروف تھے کہ ناگہاں کانوں سے یہ صداٹکرائی خیموں کو جلادیا گیا آپ تیزی کے ساتھ خیموں کی طرف پلٹے تمام مخدرات عصمت وطہارت اور بچے دوڑتے ہوئے آئے اور سب نے آپ کو اپنے گھیرے میں لے لیا بعض اپنی پیاس کااظہار کرکے پانی کے طلبگار ہوئے لیکن جیسے ہی آپ کے جسم نازنیں پر لگے زخموں اور ان سے رستا ہوا خون دیکھا ایک فریاد بلند کی اور اپنا سر وسینہ پیٹنے لگے امام نے سبھی کو تسلی دی اور فرمایا :"مھلاً فان البکاء امامکم "میرے سامنے گریہ نہ کرو کیوںکہ میرے بعد ایسے مواقع آئیں گے کہ جہاں تمہیں قدم قدم پر رونا پڑے گا پھر اس کے بعد سلام آخر پیش کیا "یا سکینہ ،یافاطمہ ،یا زینب ،یا ام کلثوم علیکن منی السلام "میری لاڈلی سکینہ ،میری ماں جائی زینب و ام کلثوم تم پر اس غریب کا آخری سلام
زینب کبری سامنے آئیں اور کہا میرے بھائی کیا آپ راہ خدا میں شہید ہونے کے لئے آمادہ ہو چکے ہیں ؟آپ نے جواب دیا:زینب اب کیسے آمادہ شہادت نہ ہوں ؟ جبکہ میرا کوئی مونس و غمخوار زندہ نہیں رہا زینب کبری نے یہ سن کر اپنا گریبان چاک کر لیا اور اپنے بالوں کو پریشان کر کے اپنے سر کو پیٹنے لگیں آپ چند قدم میدان کارزار کی طرف بڑھے پہچھے مڑ کر دیکھا تمام مخدرات عصمت و طہارت آپ کے پہچھے پہچھے آرہی ہیں آپ واپس پلٹے اور سب کو خیموں کی جانب لوٹایا اب جیسے ہی چاہتے تھے کہ دوبارہ میدان کی طرف چلیں یکایک سکینہ گھوڑے کے سامنے آگئیں حضرت مرکب سے اترے بیٹی سے باتیں کرنے لگے بیٹی نے باپ سے کہا بابا جان! "ردّنا الی حرم جدّنا "بابا ہم لوگوں ! کو مدینہ واپس لوٹا دیجے امام نے فرمایا :"لو ترک القطاۃ لنام " اگر کسی پرندہ کو بھی آزاد کر دیا جائے وہ سو سکتا ہے (یعنی ایک پرندہ کو مہلت مل سکتی ہے ) لیکن یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گیں کہ میں ان کے چنگل سے نکل جاؤں یہ ممکن نہیں میری لاڈلی میں تم کو مدینہ نہیں بھیج سکتا سکینہ میری لخت جگر ! تم نے آخری وقت میں اپنے غریب باپ سے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کیا ہے جس کو میں پورا نہیں کر سکتا لیکن میں تجھ سے ایک چیز کا مطالبہ کرتا ہوں ؟سکینہ ؟ نے عرض کی بابا آپ کی خواہش کیا ہے ؟بیان فرمائیں ،آپ نے ارشاد فرمایا ،"لا تحرقی قلبی بدمعک حسرۃ ً مادام منّی الروح فی جثمانی "میری لاڈلی جب تک میں زندہ ہوں تو آنسو نہ بہانا اس لئے کہ تیرا رونا میرے دل کوتڑپا دیتا ہے
امام صادقفرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت امام حسین میدان میں آئے اور دشمنوں پر بڑا شدید حملہ کیا جنگ کرتے کرتے آپ کے بدن پر ۳۳ زخم نیزے کے اور ۳۴ زخم تلوار کے لگے چونکہ تین روز کے بھوکے اور پیاسے بھی تھے اور دوسری طرف اہل حرم کے گری و زاری کی مسلسل صدائیں ، ان سب کی وجہ سے آپ تھکن محسوس کرنے لگے زین فرس پر نیزے کا سہارا لیکر بیٹھ گئے
شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں فرماتے ہیں کہ اسی اثنا میں ابو الحتوف جعفی نے ایک تیر سے آپ کی پیشانی کو زخمی کردیا ا ٓپ نے خون کو روکنا چاہا لیکن بندش خون کا جب کوئی راستہ نظر نہ آیا جیسے ہی آپ نے اپنے کمر کے پٹکے کو کھولا اور اپنے پیراہن کے دامن کو اوپر کیا تاکہ خون رک جائے ایک تین بھال کا زہر آلود تیر آکر آپ کے سینے میں آلگا یہ وہی تیر تھا جب آپ کی بہن نے قتل گاہ پہونچ کر اس ہولناک منظر کو دیکھا تو فریاد بلند کی اے میرے بھائی ! کاش یہ تیر تیری بہن کے سینہ میں پیوست ہو جاتا اور میری رگ حیات کو کاٹ ڈالتا تاکہ میں تجھے اس حال میں نہ دیکھتی ! سینے میں لگا تیر آپ نے نکالنا چاہا لیکن ہر چند کوشش کے باوجود تیر سامنے کی طرف سے نہ نکل سکا آپ نے کمر کو خم کیا اورپشت کی جانب سے تیر کھینچا اب آپ کے اندر سوار رہنے کی سکت نہ رہی آپ کی زبان الہام بخش سے یہ جملہ نکلا "بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ "خانہ وحی کا تربیت شدہ گھوڑا سمجھ گیا کہ راکب میں اب سوار ی کی ہمت نہیں ہے ایک گھڑے میں آیا اور اپنے دونوں اگلے پیروں کو پہن کیا اور پیچھلے پیروں کو پیچھے کی جانب پھیلایا تاکہ حضرت زمین سے اتنے قریب ہوجائیں کہ پشت سے خاک کربلا تک آسانی سے پہونچ سکے
ابن قولویہ امام صادق سے نقل کرتے ہیں :"انّ رسول اللہ کان حا ضراً فی کربلاء یوم عاشورا الی ان دفن الحسین و معہ علی و فاطمۃ و الحسن "رسول اکرم روز عاشورا تدفین امام حسین تک کربلا میں موجود تھے اور ان کے ہمراہ امیر المؤمنین ،صدیقہ طاہرۃ اور امام حسن مجتبی بھی تھے
سرکار سید الشہداء فرش زمین پر پہونچ چکے تھے زینب کبری اور کچھ بچے قتل گاہ میں آئے اور حضرت کےسرہانے بیٹھ گئے ابھی مولا کی سانسیں چل رہی تھیں اچانک دشمنوں نے حملہ کر دیا "بسوط بین کتفیھا "جناب زینب اور بچوں کی پشت پر تازیانے لگائے اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے "تنحی عنہ "زینب بھائی کے پاس سے چلی جاؤ ورنہ ہم تمہیں بھی ان سے ملحق کر دیں گے
زینب کبری آواز کی طرف متوجہ ہوئیں دیکھا کہ وہ اور کوئی نہیں بلکہ شمر ہے "فاعتقت اخاھا "بھائی کے گلے میں باہیں ڈال دیں اورفریاد کی "لا اتنحی عنہ ان ذبحتہ فاذبحنی معہ "میں اپنے ماں جائے کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی اگر تو انہیں قتل کرنا چاہتا ہے تو مجھے بھی ان کے ساتھ قتل کردے شمر ملعون نے ایک تازیانہ حضرت زینب کبری کے لگایا اور کہا "واللہ ان تقدمت الیہ اضرب عنقک "اگر اس کے بعد حسین کے قریب آئی تو میں تمہاری گردن جسم سے جدا کر دوں گا۔
امام مظلوم غم و اندوہ کے سبب بے حد نڈھال ہوچکے تھے اہل حرم کی طرف اشارہ کیا کہ سب خیموں میں چلے جائیں اہل حرم خیموں کی طرف پلٹ گئے اور امام کا زخمی بدن کربلا کی تپتی زمین پر پڑارہا "وارتقی علی صدرہ الشریف "شمر ملعون آپ کے سینہ اقدس پر سوار ہوگیا آنکھوں کو کھولا تو دیکھا شمر چھری لئے آمادہ قتل ہے اس ملعون سے فرمایا "اللہ اکبر،اللہ اکبر ،صدق اللہ و رسولہ ۔قال رسول اللہ کانّی انظر الی کلب ابقع یلغ فی دم اھل بیتی "اللہ اکبر گویا اپنے جد رسول للہ کے فرمان کے مطابق ایک کتے کو دیکھ رہا ہوں کہ جو میرے اہل بیت کے خون میں اپنے پنجوں کو ڈبو رہا ہے ،شمر یہ سن کر تیش میں آگیا حضرت کے جسم نازنیں کو پلٹا اور پشت گردن پر اتنی ضربیں لگائیں کہ مولا کا سر جسم سے جدا ہوگیا اپنی فتح کا اعلان عام اور یہ عیاں کرنے کے لئے کہ حسین شہید ہوگئے عمر سعد نے یہ فرمان بھیجا کہ کٹے ہوئے سر کو نیزے پر اٹھایا جائے اور تمام میدان میں پھرایا
امام محمد باقر ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے جد مظلوم کو اس طریقے سے ذبح کیاگیا جس طریقہ کو پیغمبر اکرم نے ممنوع قرار دیا "ولقد قتلوہ قتلۃ نھی رسول اللہ ان یقتل بھا "میرے جد کو رک رک کر قتل کیا گیا ،ہر ایک جانور کو ایک خاص طریقے اور ایک خاص چیز کے ذریعے ذبح کیاجاتا ہے مثلاً اونٹ کو نیزے کے ذریعے نحر کیاجاتاہے ،بھیڑ بکری کو چھری کے ذریعے ذبح کیاجاتاہے "ولقد قتل بالسیف و السنان ،وبالحجارۃ و بالخشب ،وبالعصا و لقد اوطئو ہ الحیل بعد ذلک "لیکن میرے جد حضرت ابی عبداللہ الحسین کو تلوار سے ،نیزوں سے ،پتھروں سے اور لاٹھی ڈنڈوں سے شہید کیاگیااور اس کے بعد ان کے پاک بدن پر گھوڑے دوڑائے گئے
"بکی امرالمؤمنین علی الحسین فی عبورہ بکربلاء "امر المؤمنین نے کربلا سے گذرتے ہوئے امام حسین پر گریہ کیا "و حیث قد غشی علیہ طویلاً "اور روتے روتے آپ پر ایسا غش طاری ہوئی کہ آپ کے اصحاب بمشکل تمام آپ کو ہوش میں لاسکے
"السلام علیک یاابااعبد اللہ ،السلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ"
[1] اس بارے نیں آئمہ طاہرین سے بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں جیسا کہ امام محمد باقر سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا: امام حسین پر انسان ،جنّات ،چرند ،پرند نے گریہ کیا اور ایک دوسری روایت میں بیان ہواہے اے ذرارہ آسمان چالیس دن تک امام حسین پر خون کے آنسو بہائے اور زمین نے چالیس دن تک لرز کر امام حسین پر اظہار غم کیا ،مزید معلوت کے لئے رجوع کریں کامل الزیارات،ص۷۹ اور اسی کتابکے ۲۶۔۲۹ ویں باب میں ،بحار الانوار،ج۴۵،ص۲۰۱، اور اس کے بعد ۴۰ ویں باب میں
[1] الارشاد ،المفید،ج۲،ص۱۲۷
[۲] وقعۃ الطف،ابو مخنف،ص۲۵۰۔۲۵۵
[۳] الملہوف علی قتلی الطفوف،ص۱۲۶۔۱۳۰
[۴] منتھی الآمال ،القمی ،ج۲ ص۸۸۷ اور اس کے بعد
[۵] نفس المہموم،القمّی ،ص۱۶۴۔۱۷۳
[۶] کامل الزیارات،ص۱۹۹،باب ۳۱۔۳۶
[۷] کامل الزیارات ،ص۱۶۵ ،باب ۲۶ ح ۱/۲۱۱ ،اور ۱۸۱ صفحہ کے بعد
[۸] کامل الزیارات ،ص۲۰۷ باب۳۲، ح۱۲/۲۹۶
[۹] الامالی ،الطوسی ،ص۱۶۲ ،المجلس،،۶ ح۲۰/۲۶۸ ،بحار الانوار ،ج۴۴ ص۲۸۰، باب ۳۴،ح۹،
۱۰] الامالی الصدوق،ص۱۴۱،المجلس ۲۹،ح۶ بحارالانوار ج۴۴ ،ص۲۸۲
[۱۱] امالی الصدوق،ص۱۲۹ ،المجلس،۲۷ح ۵ ،عیون اخبار الرضا،ج۱ ،ص۲۶۸۔۲۶۹ ،باب ۲۸ ،بحار الانوار،ج۴۴ ص۲۸۵
[۱۲] بحار الانوار ،ج۴۴ ص۲۴۲
[۱۳] الملہوف علی قتلی الطفوف ،السید ابن طاووس ،ص۲۳۳۔۔۲۳۴ ،بحار الانوار ،ج۴،ص۲۴۹ ،الباب،۳۹ ،العوالم ،عبد اللہ البحرانی ،ص ،۴۴۸
[۱۴] ینابیع المؤدۃ ،القندوذی ،ج۳ ص ۷۹ ،بحارالانوار ج ۴۵ ص ۴۷ اور ۵۸الباب ۳۹،العوالم ہاشم البحرانی ،ج۱۷ ،ص۲۸۹۔۲۹۰
[۱۵] مدینۃ المعاجز ،ہاشم االبحرانی ،ج۴ ص۷۷ الرقم ۱۲۹ ،ج۱۴۶/۱۰۹۳ ،بحار الانوار، ج۴۵ ،ص۵۷ الباب ،۳۷ ،العوالم ،عبد اللہ البحرانی ،ص۳۰۱ ،لواعج الاشجان ،السید محسن الامین ،ص۱۴۷
[۱۶] الارشاد ،المفید ،ج۲ بحار الانوار ،ج۴۵ ،ص۵۳ الباب ۳۸ ،منتھی الامال ،ج۲ ص۹۰۰۔۹۰۱
[۱۷] العوالم عبدا للہ البحرانی ،ص۳۱۷ ،ح۹ ،بحار الانوار،ج۴۵ ص۹۱ ح۳۰
[۱۸] العوالم ،عبد اللہ البحرانی ،ج۱۷ ص ۱۴۴ ،فوائد المشاھد ،ج۲ ص ۳۷۴ ،المجلس ۵


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اولوا الامر سے مراد کون ھیں؟
فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
حضرت امام علی علیہ السلام
حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ
قرآن امام سجاد (ع) کے کلام ميں
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
رسول اﷲ ۖ کی معاشی زندگی پر ایک نظر
علی جو آئے تو دیوارِ کعبہ بھی مسکرائی تھی یا علی ...

 
user comment