اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

مغربی دنیا میں شیعیت اور شیعہ تعلیمات كے فروغ كا ذریعہ

خلاصہ :

ڈاكٹر ادریس السماوی، ایك امریكی ھدایت یافتہ اسكالر ھیں جو كلارورڈی یونیورسٹی امریكہ میں فلسفہ كے پروفیسر ھیں اور انٹرنیشنل شیعہ اسٹیڈیس میگزین 1 كے ایڈیٹر ھیں جس كا دائرہ كار مغربی دنیا میں شیعہ مذھب كی شناخت كرنا اور امریكی معاشرہ میں شیعہ مكتب فكر كا فروغ ھے ۔ لوگوں كو اس كی طرف جذب كرنا اس كا مقصود نظر ھے یہ تحریر ان كے ساتھ انٹرویو كا خلاصہ ھے جسے قارئیں كے لئے پیش كیا جاریا ھے تا كہ امریكہ میں شیعوں كے حالات سے مطلع ھوسكیں اور مغربی دنیا میں ان كے تبلیغی طریقہ سے آگاہ ھو سكیں !

متن:

با عرض معذرت، آپ اپنا تعارف فرمائیں گے ؟

جی ھاں، میں واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ھوا، میرے والد یوسف مظفر الدین، ایك مرد مجاھد اور شھید مصر سید قطب اور سید اعلم الدوری پاكستانی كے شاگرد تھے انھوں نے امریكہ میں ایك مؤسسہ (ادارہ) كھول ركھا تھا جس كی كوشش تھی كہ مغربی دنیا میں اسلامی معاشرہ قائم ھونے كے اسباب و امكانات پیدا كئے جائیں، وه بهت روشن فكر تھے جس كی بنا پر میں نے بچپن ھی میں شیعوں سے متعلق بھت سی چیزیں سیكھ لی تھیں، میں كچھ مدت، پاكستان، سعودی عرب، اور دوسرے علاقوں میں رھا ھوں، B.A و M.A كی ڈگری فیزیك سے حاصل كی جب كہ ڈاكٹریٹ ((P.H.D فلسفہ سبجكٹ سے كیا اور شیخ احمد الساعی كے سلسلہ میں میرا تخصص ھے ۔ اس وقت انٹرنشیل میگزین جرنل آف شیعہ اسٹیڈیس كا ایڈیٹر ھوں، یہ یونیورسٹی سطح پر سب سے پھلا رسالہ ھے جو شیعه مكتب فكر سے تعلق ركھتا ھے ۔

اگر ھوسكے اپنے شیعہ ھونے سے متعلق كچھ معلومات عنایت فرمائیں!

میرا اپنا عقیدہ، اھل بیت علیھم السلام كی حكمت كے مطالعہ كی بنیاد پر ھے جس كی رو سے تشیع ایك فطری شی ھے، عالم ذر میں اس كا تعین ھوچكا ھے جو اس دنیا میں نمایاں ھوتا ھے ۔ میری زندگی اور میرا شیعہ ھوجانا، یہ خود ایك كھانی ھے، جو تاریخ اور گذشت ایام كے ساتھ ساتھ تدریجاً وجود میں آئی ھے ۔

اپنے پچپن میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ كے سلسلے میں مطالعہ كیا امیرالمومنین(ع) ذات، ھمیشہ میری محبوب شخصیت رهى ھے، جب بڑا ھوا، میرے ان كی طرف جذب ھونے میں اضافہ ھوا، آخر امر، جب صحیفہ سجادیہ پڑھا، میں نے خود سے كھا، اگر اس كتاب كا مؤلف، ان كو حجت خدا كھہ رھا ھے، جھوٹ نھیں ھوسكتا، یہ قصہ بھی تدریجی تھا، اگر آپ كو قصہ سننا ھے اور میرے شیعہ ھونے كی علت جاننا ھے تو وہ میرا صحیفہ سجادیہ پڑھنا ھے، لیكن اس وقت سے آج تك پھر بھی میں تحولات كے ساتھ ساتھ تھا چونكہ اس كتاب كے بعد میں نے زیارت جامعہ كبیرہ پڑھنا شروع كیا اور اس كی شرح میں زیادہ وقت صرف كیا، اس طرح در حقیقت اھل بیت كی ولایت كا مطالعہ ھوا جس كی درجہ بندی مختلف ھے اور ھر روز رشد و تكامل میں اضافہ ھوتا رھا آخر امر میں شیعہ ھوگیا۔

كياآپ مغربی زمین میں شیعه مكتب فكر سے متعلق اپنے تجربات بیان كرسكتے ھیں ۔

ممكن ھے آپ میں سے كچھ مغربی دنیا میں رھے ھوں اور كچھ لوگوں نے نہ دیكھا ھو جو میں كھنا چاھتا ھوں یہ ھے كہ وھاں پر ایك شدید معنوی پیاس ھے، اس علاقہ میں شیعہ تفكر كے حوالہ سے كچھ كھنے سے پھلے اس مقدمہ كی وضاحت ضروری ھے ۔

میرا تجربہ، میری اكیٹوٹیز میرے والد مرحوم، مجاھد، یوسف مظفر الدین سے شروع ھوتی ھے جو سید سعید قطب كے گھرانہ كے شاگرد تھے، انھوں نے اپنی ساری عمر، دین كی تبلیغ اور اسلامی اداروں كی خدمت میں صرف كی جس كے نتیجہ میں اور خود ان كی اور ان كے دوستوں كی كوشش كے زیر اثر سیكڑوں لوگ مسلمان ھوئے اس طرح میں نے ایك انقلابی تبلیغ كے بڑے ماحول میں تربیت پائی۔ ایسا ماحول جس كی میرے والد تعریف كیا كرتے تھے، وہ امام خمینی رحمۃ الله علیہ كی فكر سے بھت متاثر تھے میں نے جنرل اسٹیڈی كی تعلیم كے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا، میرا موضوع فیزیك تھا لیكن درس كے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات كے مطالعہ كا بھت شوق تھا، اس كو بھی جاری ركھا، پھر اسلامی انقلاب سے متعلق بھی بھت مطالعہ كیا، چونكہ آپ نے مجھ سے مطالبہ كیا كہ میں اپنے تجربوں كو پیش كروں اس لئے عرض كرتا ھوں كہ میں نے اب تك كی اپنی زندگی، ایكیڈیمیك ایجوكیشن ماحول، اور دوسری طرف اسلامی عمومی انقلابی ماحول میں گزاری ھے، اس دوران جو میں نے مطالعہ كیا، تجربہ سے سیكھا، بھت كچھ حاصل ھوا، جس میں، ایك یہ ھے كہ وہ كون سی چیز ضروری ھے جس كے ذریعہ ھم وسیع، مضبوط پیمانہ پر شیعہ تبلیغ كا فریضہ پوری دینا میں ادا كرسكتے ھیں ۔

حوزہ علمیہ كے سنتی نظام تعلیم كے سلسلہ میں ھم كو چاھئیے كہ دو چیز میں تفكیك كریں، شكل، مادہ، مضمون اور اس كا طریقہ ۔حوزہ كے مضمون و مادہ سے متعلق كوئی غم نھیں، لیكن اس كے طریقہ، روش، معمول كے سلسلے میں ایك انقلابی تغیر كی سخت ضرورت ھے ۔ جس سے اسلامی حقیقت اور اس كے جوهر كو مغربی دنیا كے سامنے پیش كیا جاسكے، میں جھان بینی(عقیده) اور اس كے طریقہ كے ما بین فرق كا قائل ھوں، ھم جب مغربی دنیا میں دین سے متعلق گفتگو كرتے ھیں، عقیدہ، معنویت اس كے نظام كے سلسلہ میں گفتگو كرتے ھیں حالانكہ مذھب اور دین كے معنى مغرب زمین میں محدود یا كچھ اور ھیں، اس بنا پر كہ یھودیت، عیسائیت، مذھب كے عنوان سے یورپ میں دین كو پھچانا جاتا ھے، لیكن كیپٹالیزم كو مذھب كا عنوان نھیں دیا جاتا ھے، جس نكتہ تك میں پھونچا ھوں یہ ھے كہ ایران اور دوسری جگہ كے علماء اسلام، دین كو اسی طرح دیكھتے ھیں جس طرح یورپ میں، اسی لئے دین كو اس طرح پیش كرتے ھیں جس طرح یھودیت، عیسائیت كو وہ لوگ پیش كرتے ھیں جبكہ سنتی دین یورپی دنیا میں رو بہ زوال ھے، گرچہ ممكن ھے كسی علاقہ میں پھیل رھا ھو لیكن عالمی پیمانہ پر زوال كے قریب ھے، اگر اس مطلب كو دوسرے لفظوں میں كھنا چاھیں اس طرح كھیں گے، یھودیت، عیسائیت جو سنتی طرز پر ھے و زوال كے قریب ھے، پس اسلام بھی اگر اسی طرز پر پیش كیا جائے تو وہ پیش كرنے كے قابل نھیں ھوگا، خصوصاً یونیورسٹی ماحول میں اسٹوڈنس كے درمیان جن كے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا ھے، میں نے دیكھا كہ وہ لوگ دین سے بیزار ھیں جبكہ بھت سے جوان اسٹوڈنٹ روشن فكر ھیں جو بودہ اور دوسرے عرفانی مكتب كی طرف جذب ھوگئے ھیں جو اس طرح كے سنتی مذھب و آئین سے الگ ھیں ۔

جس طرح میں نے كھا۔ سنتی دین یا مذھب، كچھ عقائد معنویات اور ایك نظام كا مجموعہ ھے اگر گذشتہ دور پر نظر ڈالیں تو مسئلہ روشن ھوجاتا ھے ۔ مثلا اسلام تفكر كی دعوت دیتا ھے، تاكید كرتا ھے حتی عقائد كے سلسلہ میں، لیكن عیسائی مذھب، آمادہ عقیدہ آپ كے حوالہ كرتا ھے ۔ ضروری ھے اس كے معتقد رھو، اس كو اپنا عقیدہ اپناؤ، لیكن كیا مسلمان بھی ایسا ھی كرتے ھیں كچھ محدود عقائد دیتے ھوں اور پھر كھیں اس كو اپنا عقیدہ اپناؤ اگر مسلمان رھنا چاھتے ھو جس نكتہ كی طرف میں توجہ دلانا چاھتا ھوں وہ اس كا دوسرا رخ ھے جو تفكر ھے اس سے متعلق گفتگو كی جائے۔

اعتقاد كے كیا معنی ھیں، اس طرح اسلام پیش كرنے كا ایك نیا دروازہ كھلے گا جو سنتی طریقوں سے مختلف ھوگا، اس طرز تفكر كی بنیاد پر ھمارا اسلام جن عقائد كو عرض كرتا ھے اس كے متعلق تفكر كے دروازے ھر ایك كے لئے كھلے ھوئے ھیں، ان كو كسی خاص گروہ سے مختص نھیں كیا جاسكتا۔

دوسرا نكتہ جو میرے لئے قابل توجہ تھا یہ ھے كہ شیعہ مكتب فكر كیا ھے اور ھمارے پاس كوئی ایسی شئے ھے جو دوسروں كے پاس نھیں ھے وہ مفھوم وَلایت ھے یہ مفھوم وِِِِِِِِِلایت

میں مغربی دنیا میں اپنے شاگردوں كو مفھوم ولایت كی وضاحت سے اسلام كی تعریف شروع كرتا ھوں یہ ان مفاھیم میں سے ھے جس كی طرف ھم شیعوں كی اكثر توجہ نھیں ھوتی، جب ولایت كی بحث ھوتی ھے، ھم تصور كرتے ھیں كہ بحث ولایت اھل بیت عصمت و طھارت ھے ۔

جناب استاد! مفھوم ولایت اور ولایت اھل بیت اور ولایت مطلق كی مزید وضاحت فرمائیے!

عرض ھے كہ ولایت اھل بیت خداوند كی ولایت كے بغیر بے معنی ھے، مثلا حدیث میں ذكر ھے كہ اسلام پانچ چیزوں پر مبنی ھے ان میں ایك ولایت ھے 2

يه ولايت كيا شئےھےجب امام صادق عليه السلام اس حديث میں ولايت كو ذكر كرتے ھیں اس میں اسلام كے تمام پھلو كو مد نظر ركھتے ھیں، اس عالم میں هر دوشئے كے درمیان ایك ولائی رابطہ ھے جیسے زمين خورشيد بر ولايت ركهتي هے اور خورشيد زمين بر ولابت ركهتا هے اور جب ولایت مطلق كا تذكرہ ھوتا ھے وہ ولایت در اصل خداوندمتعال سے مختص ھوتی ھے، اور جب مخلوق پر ولایت حق كی گفتگو ھوتی ھے۔مراد ولایت خداوندی ھوتی ھے، اور جب ولایت مخلوق بر حق كی بات ھوتی ھے مراد ولایت بندگی ھوتی ھے ۔

آپ كی توجہ شرط ھے، ھم جب اس موضوع پر گفتگو كرتے ھیں ھماری بحث عقائد سے مربوط نھیں ھوتی، جب اسٹوڈنس اس طرح كی بحثوں كی طرف متوجہ ھوتے ھیں ھم دیكھتے ھیں كہ ان كے چھرہ پر نور تابان ھوجاتا ھے، كوئی چیز ان كے لئے واضح ھوجاتی ھے، وہ لوگ اس طرح كے مباحث كی تلاش میں ھیں، اگر وہ بودّھ یا ھندوئیزم، اور دوسرے سارے اس جیسے مكتب فكر كی طرف جاتے ھیں اس كی یھی وجہ ھے اور سارے مذاھب سے قویتر، كتنا اچھا لگتا ھے جب ھم دیكھتے ھیں كہ طالب علم ان مسائل پر گفتگو كر رھے هوتے ھیں، میں ان سے نھیں كھتا كہ تم لوگ یہ عقیدہ اپناؤ اس كو اختیار كرو، یہ تمھارا عقیدہ ھونا چاھئے، یہ تمھارا عقیدہ ھے بلكہ مسئلہ جھان بینی كا ھے جس كے لئے تفكر اور تدبر ضروری ھے، یہ بھت مھم ھے ۔

پس جب آپ عرفانی نكتہ نظر كو پیش كرتے ھیں نہ كسى عقيد ه كو اس وقت زیادہ توجہ هوتى ھے ۔ اور اگر عرض عقیدہ كا سلسلہ ھو، طالب علم كھتے ھیں، كیا فرق ھے كہ ایك شخص عیسیٰ كا معتقد ھے، عیسائیت اس كا عقیدہ، دوسرا شخص محمد(ص) كا معتقد ھے، عقائد كی بحث میں ان كے لئے بھت زیادہ جاذبیت نھیں ھوتی، لیكن اگر اس طرح شروع كریں تو ان كے دل تك نفوذ كر سكتے ھیں، ان كے لئے اسلام، شیعه مذھب كی طرف بھت زیادہ جذابیت فراھم كرسكتے ھیں، اصول كافی كی پھلی جلد اسی موضوع سے شروع ھوتی ھے ۔

عقیدہ كی بحث نھیں ھے، اور جب ھم تفكر و تعقل سے شروع كرینگے وھیں پھنچیں گے جھاں پھونچنا چاھتے ھیں، میرا عقیدہ ھے كہ ان تمام مسائل و حالات كو نظر میں ركھتے ھوئے سنتی اسلام پیش كرنے كی روش میں اصلاح كی ضرورت ھے، دوسرا فرق اسلام اور سنتی دین میں یہ ھے كہ اسلام، زندگی گزارنے كا كامل طریقہ عطا كرتا ھے ۔ اس مقام پر۔ كیبٹالیزم اور اسلام كے ما بین فرق نمودار ھوتا ھے ۔ مغربی دنیا میں اسلام كی تبلیغ كے لئے مھم نكتہ یہ ھے كہ اسلام كو اس طرح پیش كریں كہ وہ آزادی، آزاد رھنے كا ذریعہ ھے ۔ جب اسلام پیش كریں اس كو دین كے عنوان سے پیش نہ كریں بلكہ زندگی شناسی اور جھان بینی كے عنوان سے پیش كریں، اس عنوان سے پیش كریں كہ اسلام ایك قوی مضبوط زندگی گزارنے كا عملى طریقہ ھے جس سے انسان كو رھائی، آزادی ملتی ھے، بات نہ رہ جائے، اسلام كو بعض لوگ اس طرح پیش كرتے ھیں كہ مسیحت كی طرح نظر آتا ھے، مثلا زنا حرام ھے یا اس سے مھم اور شدیدتر كہ اسلام كھتا ھے: ربا زنا سے زیادہ بدتر ھے، زنا قبیح عمل ھے اور ربا گناہ كبیرہ ۔حدیث میں آیا ھے ۔ربا زنا سے ستر مرتبہ بد تر ھے ۔ 3 اس طرح كی باتیں اور یہ سب پیش كرنے كے بجائے جوانوں كو بتائیں كہ كيو ن ربا زنا سے بدتر ھے، سب جانتے ھیں كہ ربا فقر آور ھے اور فقر سماجی مشكلات ایجاد كرتا ھے: سماجی مشكلات سے اخلاقی مشكلات وجود میں آتی ھیں، مسئلہ كو اس طرح پیش كرنے اور عرفانی نظر كو ساتھ ملانے سے ان كے اندر شوق پیدا ھوتا ھے، اس روش پر اسلام اب تك پیش نھیں كياگیا ھے ۔

اس بنا پر بعض عقائد پیش كرنے كے بجائے اگر اسلام كی اس طرح تصویر دكھائی جائے تو جاذبہ پیدا ھوگا، اور لوگ خود اس كے افكار، اور عقائد كی تلاش میں نكلیں گے، اس توجہ كے ساتھ كہ اسلام ایك سنتی دین كے علاوہ زندہ بن كر سامنے آئے گا۔

-ایسا لگتا ھے كہ آپ كا عقیدہ، تجربہ كی بنیاد پر ھے، اس صورت میں كچھ خطروں كا سامنا ھے جیسے یہ كہ بھر حال هر تحریك اور دینی نھضت اور هر تجربہ گر دین كے لئے كچھ بنیادی عقائد اور اركان ھوتے ھیں، اگر وہ نہ ھوں، حركت شروع نھیں ھو سكتی، اور اگر ھر مرحلہ میں ان اركان كو ذكر كیا جائے مشكلات وجود میں آتی ھیں ان كے حل كے لئے آپ كیا مشورہ دیتے ھیں ۔

امام صادق علیہ السلام سے ایك حدیث ھے، فرماتے ھیں: ھم لوگوں كو ان كے مختلف سطح كے لحاظ سے دیكھتے ھیں، امام علیہ السلام كھنا چاھتے ھیں كہ ھر شخص كے اندر ایك خاص قابلیت ھے اس كو نظر میں ركھتے ھوئے اس سے برتاؤ كرنا چاھئے۔ ایك مرتبہ ھندوستان سے ایك ڈاكٹر امام صادق (ع) كے پاس آیا امام نے اس كو وہ سب كچھ دیا جس كی اسے ضرورت تھی، كچھ بھی اضافی بات نھیں كھی 4 اس طرح امام صادق (ع) جب اپنے شاگردوں كے ساتھ ھوتے ان كے گروہ یا فرقہ كو نظر میں نھین ركھتے تھے، ھر ایك كو اس كی قابلیت لياقت كے مطابق سكھاتے تھے، اس بنا پر اتنی بڑی تعداد میں مختلف فرقے كے لوگوں كو اپنا شاگرد بنایا، ان كو تعیلم دی، تربیت كی، یھی وجہ ھے كہ امام صادق (ع) كو اھل سنت اور شیعہ حتى عیسائی بھی تسلیم كرتے ھیں ۔

آپ كے اس نكتہ نظركو نظر میں ركھنے سے كیا عقائدی، معنوی ھرج و مرج وجود میں آئے گا، اس وقت دنیا میں نئی نئی تحریكیں(تحریك جدید دین، نہضت نوین دینی، دین كی نئی تحریك)جیسے مختلف ناموں سے وجود میں آرھیں ھیں جن میں ایك طرح كی ابتدائی معنویت پائی جارھیں ھے جو دائرہ دین كے اندر نھیں ھے ۔ یہ مشكل حتی اپنى كسی خاص شكل میں امام صادق كے زمانہ میں بھی رونما ھوئی تھی جیسے مغیرہ بن سعید، ابو الخطاب، جس میں غلو اور بے ربط باتیں تھیں، اس طرح كی مشكلات كے لئے ھم كیا كرسكتے ھیں ۔

ابتداً، عرض كرتا چلوں كہ قرآن مجید كے مطابق ھم عوام كے نہ وصی ھیں نہ وكیل، ھمارا فریضہ بیان مطلب ھے، ھم عوام كو مسخر نهیں كرسكتے، اپنے اختیار میں نھیں لے سكتے، جو بھی اس مطلب كو جس طرح چاھے، اخذ كرسكتا ھے اور جھاں چاھے پھونچ سكتا ھے، وھی ھمارے ذمه نھیں ھے ۔دور امام صادق اور ھمارے اس دور كے درمیان فرق یہ ھیكہ اس زمانہ میں عقیدہ محوری اور شریعت محوری مسلمانوں پر غالب تھی، امام صادق روح معنویت كی توسیع كے لئے اسی محوریت كی بنیاد پر تكلم فرماتے تھے تا كہ ان كے دور میں موجود متكلم و فقیہ كی تندرو شریعت محوری، و عقیدہ محوری كی اساس میں تعادل بر قرار رھے عقیدہ و شریعت كو محور بنائے ھوئے تھے، لیكن آج كے اس دور میں، عقیدہ و شریعت كی كوئی قیمت حیثیت نھیں ھے، اور معنوی تمایل حتی مصنوعی و مجازی صورت میں بھی عام ھوچكی ھے جس سے ممكن سے سوء فھم یا انحراف دینی كا سبب بن جائے، یھاں جیسا كہ آپ كھہ رھے ھیں وہ ممكن ھے، اور ھوسكتا ھے لیكن ھمارے پاس اور كوئی راستہ نھیں ھے اور ھم حجت خدا نھیں ھیں ۔امام صادق، پیامبر حجت بالغہ الٰھی تھے، اسی بنا پر جب وہ كوئی بات كرتے تھے حجت تمام ھوجاتی اور كھتے تھے جو اس بات كو نہ مانیں اس پر خدا كی لعنت، لیكن ھم اس طرح نھیں كھہ سكتے اور ھم كھیں گے، یه میں كھہ رھا ھوں اس حد تك كھہ رھا ھوں جو سمجھ رھا ھوں، میرے بس میں ھے جس كے اندر توانائی ھے، سمجھتے ھیں، اگر نتیجہ آور ھوا تو بھتر اور اگر بے نتیجہ رھا، خدا جانے اور وہ جانین۔ جو چیز مسلم ھے یہ ھے كے اسلام تفكر اور تفكر كے مشورے سے شروع ھوتا ھے میں بھی یھی مشورہ دے رھا ھوں، اگر اھل بیت كے صحیح عقیدہ تك میرا تفكر پھونچا تو بھتر، اور اگر نھیں پھونچا تو خدا كے حوالہ، اھل بیت سب كے ولی ھیں نہ صرف شیعوں كے، انشاء اللہ اس نئی تحریك میں بھی حقیقت شیعہ كی جھلك یا اس كی كچھ بوپائی جائے گی، انشاء اللہ ویسی ان كی نجات كا ذریعہ ھوگا ۔

جناب آقای ڈاكٹر آپ شیعہ اور شیعیسم كی كیا تعریف پیش كرتے ھیں؟

اولاً، میں ترجیح دیتا ھوتا ھوں انگریزی زبان میں شیعیسم (SHIISM) كا لفظ استعمال نہ كیا جائے چونكہ ایسم (ISM) انتزاعی معنا پر دلالت كرتا ھے جبكہ تشیع مرحلہ وار تغییر و تحول كی ترجمانی كرتا ھے، جیسا كہ امام صادق(ع) فرماتے ھیں ۔

انما سموا شیعۃ لا نھم خلقوا من شعاع نورنا 5

ان كو شیعہ اس لئے كے كھا گیا كہ ھمارے نور كی شعاع سے پیدا كئے گئے ھیں ۔

تشیع مرحلہ وار تحول كا نتیجہ ھے جو انسان كے ذھن وقلب میں رو نما ھوا ھم اسلام كے بارے میں بھی كھتے اسلامیسم (ISLAMISM) یا محمدیسم (MOHAMMADISM)، صرف اسلام (ISLAM) كھتے ھیں، میرا عقیدہ ھے كہ ھم لوگوں كو شوق دلائیں كه، لفظ تشیع كو انگریزی زبان میں استعمال كریں چونكہ یھی ھمارے مذھب كا نام ھے نہ شیعیسم، جب ایسم كے ساتھ استعمال ھوگا اس كے معنی یہ ھونگے كہ اس میں ایك ضمنی دلالت پائی جاتی ھے جو كہ انتزاعی آیڈیا سے شباھت ركھتا ھے، نہ یہ كہ ایك فكر یا عقیدہ اور مرحلہ وارقلبی اورذهنی تحول اس لئے هم نے اپنے رساله كے پهلے شماره سے هی كسی كو اجازت نھیں دی كہ كسی بھی مقالہ میں شیعیسم كا لفظ استعمال كیا جائے اس كی جگہ لفظ تشیع استعمال كیا گیا،

میری محقیقین سے درخواست ھے كہ جب انگریزی میں شیعوں كے حوالہ سے مقالہ پر ھیں تو ان خاص موارد كو نظر میں ركھیں، اسی كی اصلاح كریں اور صحیح شكل میں، انتقاد كریں یہ خود ایك موضوع بحث ھے تمام قوت كے ساتھ بیان كریں كہ ھمارے مذھب كا نام تشیع ھے ۔

تشیع كی تعریف میں آپ كا اصل جواب یہ ھے، كه تشیع اھل بیت كے ذریعہ اللہ كی ولایت كو قبول كرنا ھے

مذھب تشیع كی وہ صفات جو مغربی اسكالرس كے لئے مورد توجہ قرار پائیں بیان فرمائیں

كلی طور پر زیادہ تر مستشرقین، اھل سنت كی طرح، شیعہ مذھب كو، صحیح مذھب نھیں سمجھتے، یعنی شیعه ایك ایسا مذھب ھے جو ایرانیوں كے عقیدے اور دوسرے عقائد سے تركیب دے كر ایجادكیاگیا ھے، اور اھل سنت كو ایسے مذھب سے جو اسلام سے نزدیك ھے، تصور كرتے ھیں، البتہ استثناء كی صورت بھی پائی جاتی ھے جیسے ویلفر ماد لونگ، جو آكسفورڈیونیورسٹی میں ماهر تاریخ هیں كھتے ھیں:

اوائل اسلام سے مربوط شيعه نتيجه گيری اهل سنت كی بہ نسبت تاریخی واقعیت سے نزدیك تر ھے، اسلامی مختصر دائرŭ المعارف(شارت اسلامی انسائیكلو پیڈیا) جس میں اسلام كے تمام اصلی موارد كا تذكرہ ھے، مضمون نگار، اھل سنت یا صوفیوں كے نظریوں كی تائيدكرتا ھے، اور جب بھی كوئی بحث شیعوں كے متعلق پیش آجاتی ھے اسے اس طرح پیش كرتا ھے كہ گویا وہ اسلامی مسئلہ نھیں ھے، وہ كتاب كے ایك حصه میں شیعوں كے متعلق (شیعیسم) عنوان كے تحت بحث كرتا ھے، ایك دوسرا مقالہ ملاصدرا سے متعلق هے، اس طرح شیعوں سے متعلق متعدد موضوعات پر منفی لهجہ میں تحریر كرتا ھے، یہ كتاب گرچه ايك يادكاري اثر ھے، لیكن اگر كوئی سابقہ اطلاع كے بغیر اس كا مطالعہ كرے، شیعوں كے متعلق منفی تصور بنالے گا

در حقیقت، اسلام سے متعلق دو نقطہ نگاہ ھے، حقیقی اسلام تصوف كی صورت میں یا كوئی شئے وھابیت كی شكل میں، اور اگر واقعي اسلام كی آپ كو تلاش ھو یا تصوف و وھابیت كي مشابھت كي جستجو هو میرا عقیدہ ھےكہ یہ مسئلہ ایك طرح سے سیاسی مقصد ركھتا ھے چونكہ اگر اسلام آئین وھابیت ھو تو پھر كون ھے جسے اسلام سے پیار ھو، اسی لئے پوری كوشش كی جاری ھے كہ وھابیت كو اصل اور واقعی اسلام كے عنوان سے رائج كیا جائے اور اگر اسلام كو صوفی شكل میں پیش كرتے ھیں تو ان كا مقصد یہ ھے كہ اسلام روزمرہ كی زندگی سے بے ربط ھے، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی مسائل سے اس كا كوئی ربط نھیں ھے ۔ اس طرح ایك دوسری مشكل ھے، مثال كے طور پر جب اسلامی تحریكوں و غیرہ كے متعلق گفگتو كرتے ھیں تو به طور معمول اس طرح نتیجہ نكالتے میں كہ یہ لوگ مسلمان نھیں هیں، البتہ بھت ساری جزئی باتیں اور بھی ھیں لیكن عام نظریہ یھی ھے، افسوس یہ ھے كہ تشیع كامل طور پر پھچانا نھیں گیا اور اس كا احترام نھیں كیا گیا آپ تل آبیب یونیورسٹی سے صادر شدہ كتاب اسلام اور شیعہ كا مطالعہ كیجئے، ۱۹۸۰ ع یھودیوں نے بھت سارے لوگوں كو مختص كیا كہ تشیع كی شناخت حاصل كریں، البتہ ایران میں اتفاقی حادثہ ھونے كے سبب اور ابن طاؤوس كی كتاب، ان كی لائبریری، جس كو اتان كھلبرك نے تحریركیا ھےجو قرون وسطا كے دانشمندوں میں سے ھے اس كی یہ كتاب بھت عالی ھے، اس طرح كچھ افراد ھی جو واقعی طور پر شیعوں كے متعلق تحقیقات كرتے ھیں، اتان كھلبرگ، ان بھترین محققیں میں سے ھے جنھوں نے شیعہ پر تحقیق كی ھے فراموش نہ ھوجائے كہ اس تحقیق سے اس كا اپنا خاص مقصد تھا جو شاید منفی اثر و لگاؤ ھے بلكہ ان افراد كے خاتمہ اور كنٹرول كے لئے نھیں بلكہ ان كامقصد شیعہ مكتب كے متعلق اطلاع كشف كرنی تھی، غیروں نے اس كام كو بھت اچھی طرح انجام دیا ھے جب میں نے اس كتاب كو دیكھا شرمندہ ھوگیا كہ كیوں ھمارے مسلمان اس طرح كے كام انجام نھیں دیتے، مراد یہ ھے كہ یہ بھت معیاری كتاب ھے ابن طاووس كی شناخت كے لئے۔

اتان كلبرگ نے كچھ زیادہ ھی مقالات، دایر ۃ المعارف اسلام میں تحریر كئے ھیں!

جی ھاں، بالكل درست ھے، یا درحقیقت یہ كہ اسلامی تحقیقات میں زیادہ تر محققین، یھودی یا مسحیوں میں حتی خود آمریكا میں بھی، كھنا یہ چاھتا ھوں كہ اس انٹرنشنیل شیعہ میگزین كا ایك مثبت پھلو یہ ھے كہ پھلا اور اكیلا نشریہ ھے، مغرب زمین پر جو شیعہ مذھب سے مختص ھے اس كی مدیریت بھی ان لوگوں كے ذمہ ھے جو اسلامی مطالعات پر نظر ركھتے ھیں، اس میں یھودی طور پر نھیں ھیں جب كہ زیادہ تر تحقیقات جو اسلام سے متعلق كی جاتی ھے اس پر یھودی بھائیوں كا كنٹرول ھوتا ھے ۔

اگر آپ شیعہ مكتب كو كسی محقق(جو شاید شیعہ نہ ھو)كے حوالہ سے آسیب شناسی كرنا چاھیں تو ایسی صورت مین كن امور كی طرف اشارھ كرینگے!

آپ كا یہ سوال بھت كلی ھے، یعنی اس كو علمی، یا تحقیقی، یا اجتماعی و غیرہ جیسے نقطہ نظر سے دیكھا جا سكتا ھے اور ھر ایك نقطہ نگاہ سے الگ الگ جواب دیا جا سكتا ھے میں كھہ سكتا ھوں شاید اگر شیعہ مكتب كی كتابوں كی تلاش میں آپ آمریكا میں كتاب فروشی كی دوكان پر جائیں تو آپ كو نظر آئے گا كہ بڑے بك سیلر نے ایك حصہ مخصوص كر ركھا ھے اسلامی كتابوں كے لئے، لیكن كوئی بھی كتاب اھلبیت علیھم السلام سے متعلق نھیں دیكھ سكتے مگر یہ كہ شاذ و نادر كوئی كتاب نظر آجائے، اسلامی كے متعلق ساری كتابیں سنی مكتب فكر یا شیعہ مذھب كے خلاف ھونگی، اس لئے، ایك بڑی مشكل یہ بھی ھے جب كہ تاریخ اسلام میں، تشیع ھمیشہ پیش پیش رھا ھے اور فكری، علمی، تحقیقی توسیع اسلامی تعلیمات كو ترویج میں سب سے آگے رھا ھے ۔

تم نے مغربی دنیا میں كوئی اچھا كام انجام نھیں دیا ھے، بھت ساری كتابوں كا ترجمہ تو كیا ھے لیكن عموماً ان كی سطح، متوسط رھی ھے، اور عرض كتاب كی كیفیت یا سطح متوسط یا اس سے بھی نیچے رھی ھے، ان كتابون كے مخاطبین بھی وہ شیعہ ھی جو مختلف معاشروں میں زندگی كر رھے ھیں، مثال كے طور پر، انتشارات انصاریان، اچھی كتابیں نشر كرتا ھے لیكن اس كی كتاب زیادہ تر ان لوگوں كے لئے ھیں جو پھلے سے مسلمان ھیں، اس نكتھ كی طرف توجہ دلانا بھت ضروری ھے كہ وسیع تر معاشرہ میں نفوذ كے لئے، اھل بیت كی فكر كو نئے طرز پر پیش كرنا لازم ھے، جب كوئی كسی بك سیلر كے پاس جائے تو اس كو ایسی كتاب نظر آئے جو كسی ایك امام كی حدیث پر مشتمل ھو اور نئے و خوبصورت انداز میں پیش كی گئی ھوں، ھم كو چاھیئے كہ زیادہ سے زیادہ تلاش كریں!

دوسرا نكتہ یہ ھے كہ حداكثر مخاطبین كو جذب كرنے كے لئے كوئی ایسا دوسراراستہ اختیار كیا جائے جن سے شیعہ عقائد كے زیادہ سے زیادہ طرفدار پیدا ھوں، خصوصاً مفھوم ولایت، جس پر بھت كچھ كیا جا سكتا ھے، اس كے مفھوم و معنی اور اس كام پر، كتاب بھت جذاب خوبصورت طرز و انداز میں چھاپنا بھت اھم ھے ۔

افسوس كے ساتھ كھنا پڑ رھا ھے كہ اگر كتاب كی كیفیت اچھی ھوتی تو اس رائٹر اھل سنت نھیں ھوتا، اور جب كتاب كا مضمون اچھا ھوتا ھے اس كی ظاھری كیفیت اچھی نھیں ھوتی، یہ ایك اور مشكل ھے، اس لئے ضروری ھے كہ مضمون اور شكل دونوں كی خوبصورتی كو ساتھ ركھ كر كتاب نشر كریں، میں جب كتاب كی دوكان پر، دعوت B.P ھو یا بودہ B.P میں جاتا ھوں، بھت اچھی اچھی خوبصورت كتابیں نظر آتی ھیں جس میں بودھ كے نظریات اور "لادزلو" كنفوسیوس كے نظریات درج ھوئے ھیں، بھت دلكش ھوتے ھیں ۔

آپ صرف حضرت امیر المومنین كی حدیثوں كو انتخاب كریں ان كو نوآوری اور جذاب انداز میں ترجمہ كریں لوگ خود ھی جذب ھونگے، اس كے لئے ممكن ھے كسی ھنرمند سے استفادہ كیا جا ئے جو ھر حدیث سے متعلق كوئی آرٹ بنائے، اس كے ساتھ كتاب پیش كی جائے پھر كسی اچھے ناشر سے رابطہ برقرار كر كے اس كی توزیع، سیلنگ كا كام انجام دیا جائے اس طرح كتاب كو سیریل وار بھی پیش كیا جا سكتا ھے ۔

ایك اچھی كتاب جو پیش كی گئی ھے، مصباح الشریعہ نامی كتاب ھے جو امام صادق (ع) سے منسوب ھے جو قابل قبول روش میں ترجمہ ھوئی ھے، لیكن بھت سے عرصہ سے دوسرا ایڈیشن نھیں آیا ھے، ھم كو اس طرح كی كتابوں كی سخت ضرورت ھے ان كو جذاب صورت میں عوام كے ھاتھ تك پھونچائیں اھل بیت كے نظریات كو واضح كریں!

آپ كن موضوعات و نقطہ نگاہ كو تحقیقات میں مھم جانتے ھیں!

جیسا كہ میں نے اشارہ كیا كوئٰی بھی راستہ مغربی عوام كے دلوں میں نفوذ كرنے كا نھیں ھے سوائے یہ كہ اھلبیت كی ولایت كا صحیح، واقعی مفھوم ان كے لئے بیان كیا جائے، اس وقت میں اسلام كے سلسلے میں ایك كتاب لكھ رھا ھوں جس میں میری تلاش ھے كہ اسلام كے تمام پھلؤوں كو دائرہ ولایت كے ضمن میں توضیح دوں، خصوصاً، اس آیت ضمین میں، ھنالك الولایۃ للہ (كھف ۴۴) عبودیت كے دائرہ ولایت میں تعریف كر سكتے ھیں، قابل ذكر نكتہ یہ ھے كہ ھم جب ولایت كے عملی، معنوی، جھان شناسی كے پھلؤوں پر بحث كرینگے، اسٹوڈنٹس كی توجہ كو جلب كریں گے، یہ صرف اس مطلب كے اظھار كے لئے نھیں ھے، میں فلان مسئلہ كا معتقد ھوں، میں فلان مسئلہ پر عمل كرتا ھوں، بلكہ وہ روح جوان كے ضمن میں مخفی ھے جذاب ھے

صرف یہ كھنا كہ مسلمان ھونا یعنی اس كا عقیدہ ركھنا، فلان عمل انجام دینا كسی كے لئے جذب ھونے كا باعث نھیں ھوگا، یا ممكن ھے چند لوگ جذب ھوں جوانوں كی اكثریت اور اسكالرس، اس طرح جذب نھیں ھونگے، یھی دلیل ھے كہ وہ لوگ مشرقی تھذیب كے نظریات و عرفانیات كی طرف جذب ھوتے ھیں چونكہ ان مكاتب میں اعتقاد اور علم كے علاوہ مزید چیزیں پیش كی جاتی ھیں، در حقیقت اسلام كے پاس بھی یھی ھے، چونكہ وہ تفكر سے شروع ھوتا ھے، میرا خیال ھے كہ جن چیزوں میں جدید تحقیق كی ضرورت ھے وہ قرآنی مفاھیم اور ان كی وضاحت ھے، تفكر، اس كے كیا معنی ھیں ۔تفكر، تدبر میں كیا فرق ھے، اولوا الالباب یعنی كیا۔

آج ھی كل میں، امام صادق علیہ السلام سے ایك بھت اچھی حدیث، اولوالالباب كے معنی میں میری نظر سے گزری، اس طرح كی حدیثوں كو انگریزی میں ترجمہ كریں، چھوٹی چھوٹی كتا بیں ان سے متعلق لكھیں، نشر كریں، یہ كام بھت اچھا اور جذاب ھوگا۔

اس بنا پر، میری نظر میں اسی موضوع اور طریقہ اھل بیت پر، جدید تحقیق كی جائے۔مثال كے طور پر ایك بھت ھی اچھی كتاب جس كا عنوان ھے، الطریق الی للہ، تالیف، شیخ حسین بحرانی، جس میں بھت ھی زیبا انداز میں اھل بیت كے طریقہ عمل كو بیان كیا گیا ھے، میرے ایك استاد نے مجھ سے خواھش ظاھر كی كہ اس كتاب كے مطالب كو انگریزی زبان میں ترجمہ كے لئے تحقیق كردوں چونكہ اس میں وھی مطالب ھیں جن كو عوام كی ضرورت ھے، اور یہ وہ موضوع ھے جس میں تحقیق كی مزید ضرورت ھے ۔

میرے خیال سے لوگ، صرف كلامی یا فقھی مباحث سے زیادہ دلچسپی نھیں ركھتے، حالانكہ بھت مھم ھیں لیكن لوگ جذب نھیں ھوتے، خصوصاً مغربی دنیا میں زیادہ تر لوگ فساد اور دوسرے سارے مسائل كی بناپر سمجھنے كی صلاحیت و قابلیت نھیں ركھتے، اس لئے صرف یہ كھنا كہ كیا كرنا چاھئے كیا نھیں كرنا چاھئے كہ دلوں كو مسخر نھیں كرتا بلكہ اھل بیت كی روش كو بیان كركے دلوں كو مسخر كیا جا سكتا ھے ۔جیسے حسن ظن باللہ، توكل، جو اس كے حقیقی معنا ھیں، ضروری ھے بیان كیۓجائیں مثال كے طور پر اس حدیث كو نظر میں ركھیں جس میں آیا ھے كہ عاشورا كے بعد، كسی دن امام سجاد سفر كررھے تھے، ایك قافلہ سے ملاقات ھوئی جس میں امام حسین كا ایك قاتل بھی تھا۔

بیابانی سفر میں كاروان میں شریك ھر آدمی كے لیۓ پانی نھیں ھوتا ھے۔ اس كا پانی ختم ھوگیا تھا، جب اس نے امام سجاد كو دیكھا ان كے پاس گیا اور پانی مانگا، اس كے قاصد نے كھا یہ كاروان امام سجاد كا ھے۔ تونے ان كے باپ كو كس طرح قتل كیا تھا، وہ تجھے پانی نھیں دینگے، یہ سن كر وہ مایوس بو گیا، لیكن امام نے دیكھا كہ وہ آدمی گھوڑے سے اتر كر پیدل ان كی طرف آرھا ھے، امام نے اس كو اپنے پانی كا حصہ اسے دیدیا، جب وہ شخص متوجہ ھوا كہ یہ تو زین العابدین ھیں ان سے مخاطب ھو كر كھاشاید تم نےمجھے نھیں پھچانا اگر مجھے پھنچانتے تو پانی نھیں دیتے، امام نے جواب دیا، وہ دن تمھارا، دن تھا، و آج یہ ھمارا دن ھے

آپ جب اس داستان كو سنائیں گے، لوگ جذب ھونگے، اور كھیں گے اس میں كوئی حقیقت چھپی ھے كہ اس طرح كا اخلاق ھوتا ھے، عوام كو جذب كرنے كے لیۓ ھمیں اس طرح كے واقعہ كی ضرورت ھے

افسوس ھے كہ زیادہ تر كتابیں جو شیعوں كے بارے میں ھیں یا كلامی ھیں یا فقھی جو مورد نظر جاذبیت ایجاد نھیں كرتیں، اس طرح كی كتابوں سے تصوف و تشیع مخلوط نظر آتے ھیں اور حیرت كا سبب بنتی ھیں۔ اگرھم دقت كے ساتھ، اھل بیت كی تاریخ

مد نطر ركھیں، میرا تصور ھے كہ زیادہ كامیاب ھونگے۔

آپ كی مراد دو چیز سے كیا انسان اور امام ھیں۔

قابل توجہ امر ھے كہ جب ھم كھتے ھیں، ھنا لك الولایۃ للہ الحق، یھاں پر ولایت خداوند سبحان سے مربوط ھے یعنی ربوبیت، عبودیت، البتہ مولا كے معنی محل ولایت ھے، یعنی امام اس بناپر، ھماری جھان بینی ھے، ھمارا عقیدہ ھے، ولایت ایك اقدام ھے فعلیت ھے، نہ صرف احساس یا ایك انتزاعی، امر ولایت، كل عالم ھستی میں پویا عملكرد ھے ۔مثال كے طور پر سورج اور زمین كے ما بین ولایت ھے، پس آیہ، ھنالك الولایۃ الحق، كو دو طرح سے تقسیم كر سكتے ھیں، ولایت من الخلق الی الحق، یا من الحق الی الخلق، خلق كی ولایت حق پر، حق كی ولایت خلق پر ھو سكتی ھے، من الحق الی الخلق كی ولایت، وھی ربوبیت ھے اور من الخلق الی الحق، عبودیت ھے ۔اس طرح پھر بھی ھم اس مطلب كو ولایت كی اساس پر ھی تعریف كرینگے۔

اب ربوبیت كیا ھے، ربوبیت، ایك قسم كی ولایت ھے، عبودیت كیا ھے وہ بھی ایك قسم كی ولایت ھے، ولایت كا دائرہ شمول كیا ھے، ولایت ھمیشہ محبت كے ساتھ ھے اس طرح سے ھم اسٹوڈنس كے لئے بیان كرینگے كہ وھابیت كی پریشانی ان كی مشكل كھاں پر ھے، مشكل یہ ھے كہ وہ ایمان ركھتے ھیں، خدا كے معتقد ھیں لیكن اس نكتہ كو نھیں سمجھتے كہ ولایت ایك قسم كی محبت ھے تمام مخلوقات كے مابین، اسی بنا پر وہ لوگ گروہ مارقین میں ھیں جیسا كہ امیر المومنین فرماتے ھیں، ما یمرقون من الدین كا یمرق السھم من الرمیۃ 6 چونكہ وہ لوگ ولایت كے معنی نھیں سمجھ پا رھے ھیں، جبكہ خدا و رسول كا عقیدہ ركھتے ھیں مگر عشق و محبت كو بھولے پڑے ھیں اور جب محبت نہ ھو، ولایت نہ ھوگی اور ولایت نہ ھوگی دین نہ ھوگا خواہ فقہ اور عقیدہ كے پائبند كیوں نہ ھوں اس لئے ولایت، محور اسلام ھے یھی وہ شئے ھےجو لوگوں كو اپنی طرف جلب كرے گی۔

آپ كے لحاظ سے اس یونیورشل میں تشیع كا كیا مقام ھوگا۔

اسلام كو كلی طور پر دیكھنے اور وہ واقعات جس سے تمام لوگ آگاہ ھیں، اسلام پر مختلف جھت سے سنگین حملے ھو رھے ھیں، یونیورشل كی ایك مشكل یہ ھے كہ وہ پلورال كی تشویق كرتا ھے جس كی بنیاد ھے كہ كسی شخص كو حق حاصل كرنےو تلاش كرنےكا حق نھیں ھے، ھم سب كا كچھ نہ كچھ عقیدہ ھے اور سارے عقیدہ برابر ھیں یہ چیلنج ھے خصوصاً اسلام سے جو پویا زندگی كا ایك نظام دیتا ھے جس میں جھان بینی معنوی، عمل، اور ایدولوژیك ھے، ھاں اسلام، اپنا خاص پروگرام جھان سازی یونیورشل كا ركھتا ھے جو كافی حد تك عصر حاضر كے (یونیورشل) علمبردار كے مد مقابل اور متضاد ھے آج، یونیورشل، لیبرال، كپیٹل اور دوسری طاقتوں كے زیر نفوذ ھے جو تیزی سے بڑھ رھا ھے جس كی بنا پر عالمی تجارت تنظیم اور اس جیسے ادارے، كوشش كر رھے ھیں كہ لیرال كپیٹل كے آرمانوں كی اس دنیا میں تبلیغ و تزویج ھو، جس كی بناپر زیادہ تر لوگ فقر كی طرف كھنچے جا رھے ھیں اور اقلیت ثروت مند ھو رھی ھے، اس جھت سے اسلام كے سامنے ایك چیلنج ھے جس كے لئے ضروری ھے كہ منسجم نقد اس یونیورسل كے لئے دنیا كے سامنے پیش كرے نہ یہ كہ صرف اعتراض كرے مخالفت كرے، بلكہ اصلاح كن تنفیذ اس كا فریضہ ھے، اس طرح توجہ كرنا چاھئے كہ اسلام عالمی وحدت كے لئے كیا نظریہ ركھتا ھے ۔

اسلام لیبرال كپیٹل یا سیكولار و امانیسٹی كے بدلہ كون سا بدل پیش كر رھا ھے، كبھی كبھی میں محسوس كرتا ھوں كہ جو شاید اشتیاق ھو علماء قم حد سے زیادہ مسیحیت، یھودیت كے متلعق تطبیقی مطالعہ كی تاكید كرتے ھیں جبكہ یہ دونوں دین كے عنوان سے اس دنیا سے ناپید و زائل ھونے كے قریب ھیں، اصل ٹكر سیكولارو امانیسم و كاپیٹل سے ھے ۔

یھان پر توجہ كی ضرورت ھے كہ اسلام كس طرح اس چیلنج(لیبرال، كپیٹل، سیكولار، امانیسم)كا صحیح جواب دیتا ھے، یہ بھت بڑا چیلنج ھے ۔

سید محمد باقرالصدر اور دوسرے علماء شیعہ اور سنی نے، اپنے زمانہ میں اپنے طریقہ سے كمیونسٹ كے مسئلہ كو كس طرح حل كیا اور اس سے متعلق نقد آمیز قوی كتابیں لكھیں، لیكن ایسا نقد، لیبرال، كپیٹل كے مد مقبل دیكھنے میں نھیں آرھا ھے، جبكہ عراق افغانستان اور دوسرے سے علاقے میں ان كا یھی پروگرام جاری ھے افسوس اس پر ھے، اس لیۓ ھے كہ علماء، مفكرین، خود حیران ھیں كہ اس مسئلہ سے كیسے نپٹیں۔

آپ كی نظر میں شیعوں كو كس كا چیلنج ھے اپنے كو كس سے مقابلہ كے لئے آمادہ كریں!

یہ سوال بھت وسیع ھے، میرا خیال ھے كہ تشیع كے متعلق، كھا جائے ھم ایك ایسی دنیا میں زندگی گزار رھے ھیں جو ھمیشہ تغییر و تفسیر میں ھے ۔میرا عقیدہ ھے كہ سب سے بڑیٰ مشكل جوانوں كے دلوں كو جذب كرنا ھے، شاید سب سے بڑا چیلنج یہ ھو كہ كس طرح اتنی بڑی تعداد میں جوانوں كو اس طرف جذب كریں، ایك طرف سے لیبرالسیم، اور لیبرال كپیٹل موڈل، مضحكہ اور شیطنت ھے جنھوں نے سالوں سے مختلف طریقے سے تجربہ كیا ھوا ھے، آخر كار اس كو سب سے اچھا راستہ نظر آگیا، سب سے بڑا چیلنج یہ كہ كس طرح اسلام كو جاذبیتی انداز میں پیش كیا جائے اور ھماری بات پھونچے صرف عقیدہ، احكام جیسا اسلحہ اس جنگ میں كافی نھیں ھے ھم مجبور ھیں كہ اس سے بھتر اسلحھ حاصل كریں تا كہ مشرق و مغرب كے جوان ذھنوں كو اپنی طرف جذب كریں!

منبع فارسی: مجله شیعه شناسی / شماره 13

1. International Journal of Shici Studies.

2. امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اسلام پانچ ركن ھیں، نماز، زكات، صوم، حج، ولایت اور جتنی تاكید ولایت كی گئی ھے كسی شی كے لئے نھیں ھے ۔ (محمد بن يعقوب كلينى، الكافى، ج 2، ص 18، روايت 1)

3. امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: سود كا ایك درھم بدتر است ستر زنا سے جو كسی محرم سے كی جائے (محمّد بن حسن طوسى، التهذيب، ج 7، ص 14، روايت 61، باب 22)

4. دیكھیئے: محمّدباقر مجلسى، بحارالانوار، ج 3، ص 153، روايت 1، باب 5.

5. محمّدباقر مجلسى، پيشين، ج 25، ص 23، روايت 39، باب 1

6. ابن ابى الحديد، شرح نهج البلاغه، ج 1، باب 3، ص 201.


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ماہ خدا کی آمد ابنا کے قارئین پر مبارک باد
وسیلہ اور شفاعت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
عیدالفطر
فامّا الشوری للمهاجرین والأنصار فإنْ أجمعوا علی ...
اسلام اور اتحاد مسلمين
امانت اور امانت داری
امام جعفر صادق عليه السلام کي چاليس حديثيں
شیطان کی پہچان قرآن کی نظر میں
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

 
user comment