خود انسان میں مختلف پھلو پائے جاتے ھیں: ایک طرف تو نظری (تھیوری) اور عملی (پریکٹیکل) پھلو اس میں موجود ھے اور دوسری طرف اس میں ذاتی اور اجتماعی پھلو بھی پایا جاتا ھے، اور ایک دوسرے رخ سے جسمانی پھلو کے ساتھ روحی اور نفسیاتی پھلو بھی اس میں موجود ھے، جبکہ اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ مذکورہ پھلوؤں کے لئے مخصوص قوانین کی ضرورت ھے، تاکہ ان کے تحت انسان کے لئے زندگی کا صحیح راستہ کھل جائے، اور منحرف اور گمراہ کن راستہ بند ھوجائے۔
امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظھور کا انتظار، منتظر کے تمام پھلوؤں پر موثر ھے، انسان کے فکری اور نظری پھلو جو انسان کے اعمال و کردار کا بنیادی پھلو ھے ، انسانی زندگی کے بنیادی عقائد پر اپنے حصار کے ذریعہ حفاظت کرتا ھے۔ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ صحیح انتظار اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ منتظر اپنی اعتقادی اور فکری بنیادوں کو مضبوط کرے تاکہ گمراہ کرنے والے مذاھب کے جال میں نہ پھنس جائے یا امام مھدی علیہ السلام کی طولانی غیبت کی وجہ سے یاس و ناامیدی کے دلدل میں نہ پھنس جائے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
”لوگوں پر ایک زمانہ وہ آئے گا کہ جب ان کا امام غائب ھوگا، خوش نصیب ھے وہ شخص جو اس زمانہ میں ھمارے امر (یعنی ولایت) پر ثابت قدم رھے“۔
یعنی غیبت کے زمانہ میں دشمن نے مختلف شبھات کے ذریعہ یہ کوشش کی ھے کہ شیعوں کے صحیح عقائد کو ختم کردیا جائے، لیکن ھمیں انتظار کے زمانہ میں اپنے عقائد کی حفاظت کرنا چاہئے۔
انتظار ، عملی پھلو میں انسان کے اعمال اور کردار کو راستہ دیتا ھے، ایک حقیقی منتظر کو عملی میدان میں کوشش کرنا چاہئے کہ امام مھدی علیہ السلام کی حکومت حق کا راستہ فراھم ھوجائے، لہٰذا منتظر کو اس سلسلہ میں اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے کمرِ ھمت باندھنا چاہئے، نیز اپنی ذاتی زندگی میں اپنی روحی اور نفسیاتی حیات اور اخلاقی فضائل کو کسب کرنے کی طرف مائل ھو اور اپنے جسم و بدن کو مضبوط کرے تاکہ ایک کار آمد طاقت کے لحاظ سے نورانی مورچہ کے لئے تیار رھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
”جو شخص امام قائم علیہ السلام کے ناصر و مددگار میں شامل ھونا چاھتا ھے اسے انتظار کرنا چاہئے اور انتظار کی حالت میں تقویٰ و پرھیزگاری کا راستہ اپنانا چاہئے اور نیک اخلاق سے مزین ھونا چاہئے“۔
اس ”انتظار“ کی خصوصیت یہ ھے کہ یہ انسان کو اپنی ذات سے بلند کرتا ھے اور اس کو معاشرہ کے ھر شخص سے جوڑ دیتا ھے، یعنی انتظار نہ صرف انسان کی ذاتی زندگی میں موٴثر ھوتا ھے بلکھ معاشرہ میں انسان کے لئے مخصوص منصوبہ بھی پیش کرتا ھے اور معاشرہ میں مثبت قدم اٹھانے کی رغبت بھی دلاتا ھے، اور چونکہ حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت اجتماعی حیثیت رکھتی ھے، لہٰذا ھر انسان اپنے لحاظ سے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کوشش کرے اور معاشرہ میں پھیلی برائیوں کے سامنے خاموش اور بے توجہ نہ رھے، کیونکہ عالمی اصلاح کرنے والے کے منتظر کو فکر و عمل کے لحاظ سے اصلاح اور خیر کے راستہ کو اپنانا چاہئے۔
مختصر یہ ھے کہ ”انتظار“ ایک ایسا مبارک چشمہ ھے جس کا آب حیات انسان اور معاشرہ کی رگوں میں جاری ھے، اور زندگی کے تمام پھلوؤں میں انسان کو الٰھی رنگ اور حیات عطا کرتا ھے، اور خدائی رنگ سے بھتر اور ھمیشگی رنگ اور کونسا ھو سکتا ھے؟!
قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:
”رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ھے اور اس سے بھتر کس کا رنگ ھوسکتا ھے اور ھم سب اسی کے عبادت گزار ھیں “۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر "مصلح کل" حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے منتظرین کی ذمّہ داری ”الٰھی رنگ اپنانے“ کے علاوہ کچھ نھیں ھے جو انتظار کی برکت سے انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پھلوؤں میں جلوہ گر ھوتا ھے، جس کے پیش نظر ھماری وہ ذمّہ داریاں ھمارے لئے مشکل نھیں ھوں گی، بلکہ ایک خوشگوار واقعہ کے عنوان سے ھماری زندگی کے ھر پھلو میں ایک بھترین معنی و مفھوم عطا کرے گی۔ واقعاً اگر ملک کا مھربان حاکم اور محبوب امیر قافلہ ھمیں ایک شائستہ سپاھی کے لحاظ سے ایمان کے خیمہ میں بلائے اور حق و حقیقت کے مورچہ پر ھمارے آنے کا انتظار کرے تو پھر ھمیں کیسا لگے گا؟ کیا پھر ھمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی پریشانی ھوگی کہ یہ کام کرو اور ایسا بنو، یا ھم خود چونکہ انتظار کے راستہ کو پہچان کر اپنے منتخب مقصد کی طرف قدم بڑھاتے ھوئے نظر آئیں گے؟!
source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=77956