انسان و انسانیت کا حامی، وہ عظیم رہبر جس نے آزادی کا نعرہ بلندکیا اور ساری دنیا کو آزادی کی طرف دعوت دی۔ جس نے انسانی وجدان و غیرت کو جگایا اور آواز دی :” لاَ تَکُن±عَبدَ غَیرِکَ وَ قَد جَعَلَکَ اللّٰہُ حُرّاً “تم دوسروں کے غلام نہ بنو !کیوں کہ خدا وند عالم نے تم کو آزاد پیدا کیاہے ۔
امام حسین علیہ السلام صلح و صفا کے حامی و طرفدار تھے لہٰذا مسلمانوں کے درمیان صلح و صفا اور امنیت بر قرار کرنا چاہتے تھے اور اپنے عہد میں پھیلی ہوئی ظلم و جہالت کی تاریکی کو دور کرنا چاہتے تھے۔جیسا کہ خود آپ فرماتے ہیں : ” اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلاٰحِ فِی ±اُمَّۃِ جَدِّی ±“ میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلاہوں ۔
امام حسین علیہ السلام کی نظر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت زیادہ تھی ،امر بالمعروف و نہی عن المنکرسے ا سلام کی طرف دعوت دینا ہے اور ستمگروںو ظالموں سے مقابلہ کرنا ہے ۔
امام حسین علیہ السلام ہمیشہ ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے رہے اور ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ زندگی گزارنا ذلت سمجھتے تھے ۔ جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :
” اِنِّی ± لاٰ اَرَی المَوتَ اِلَّا سَعَادَۃً وَ لاَ الحَیٰاۃ مَعَ الظَّالِمِینَ اِلاَّ بَرَماً“ میں موت کو خوشبختی اور ستمگروں کے ساتھ زندگی کو ذلت و رسوائی سمجھتاہوں۔
امام حسین علیہ السلام پاک طینت ،آزاد اور راہ خدا میں نصرت کرنے والوں کے پیشوا و امام تھے وہ ایثار و قربانی پیش کرنے والوں کے رہبر کامل تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ معظمہ سے کربلا کی سمت حرکت کے وقت اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
”مَن ± کَانَ فِینَا بَاذِلاً مُھجَتَہُ ،مُوَطَّناً عَلیٰ لِقَاء اللّٰہِ نَفسَہُ فَل ±یَرحَل ± مَعَنٰا ،فَاِنِّی رَاحِل µ مُصبِحاً اِن ± شَاءَ اللّٰہ “ جو چاہتا ہے اپنے خون کو میری راہ میں بہائے اور خدا وند عالم کی بارگاہ میں حاضر ہو نے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ پائے وہ ہمارے ساتھ آئے ۔انشاءاللہ میں صبح سویرے ہی روانہ ہونے والاہوں۔
امام جعفر صادق ،امام حسین علیہمالسلام کو خطاب کرکے فرماتے ہیں :
” ضَمَّنَ ال ±اَر ±ضُ وَمَن ± عَلَی ±ھَا دَمَکَ وَ ثٰارَکَ “ خد ا وند عالم نے زمین اورزمین والوں کو آپ کے خون کا ضامن اورآپ کے خون کا منتقم قراردیا ہے ۔
امام علیہ السلام کے اس مختصر جملہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خدا وند عالم کی طرف سے زمین اور زمین پر زندگی بسر کرنے والوں کو امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لیناایک فریضہ اور وظیفہ قرار دیا ہے ۔
زمین ضامن ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟زمین ضامن ہے اس کی وضاحت کے لئے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور یہاں اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے ۔فقط ہم یہاں زمین والے ضامن ہیں اس کو مختصر و خلاصہ بیان کررہے ہیں۔
۱)۔یہ ضمانت خدا وند عالم کی طرف سے زمین پر رہنے والوں پر ہے۔
۲)۔یہ ضمانت تمام بنی نوع انسان سے مربوط ہے وہ چاہے جس مذہب و ملت کے ہوں ۔
۳۔یہ ضمانت ہر دور اور ہر زمانہ سے متعلق ہے ۔
۴۔اس ضمانت کاموضوع خون امام حسین علیہ السلام اور انتقام خون امام حسین علیہ السلام ہے ۔
اب اس بیان کے مطابق ہر دور اور ہر زمانہ کے انسانوں کے ذمہ انتقام خون امام حسین علیہ السلام سے متعلق دو اہم فریضے ہیں۔
۱۔ یہ کہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اس کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
۲۔ ہم لوگوں کو چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام کے پیغام اور امام حسین علیہ السلام کے مقصد کودنیا کے ہر گوشہ میں پہچائیں، اور ان کے دشمنوں سے دفاع کریں۔
لہٰذا ان پر عمل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل راستوں کو اپنانا پڑے گا۔
۱)۔امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزا برپا کرنا۔
۲)۔تحریک عاشورا کی تبلیغ اور مراسم حسینی میں شرکت کرنا۔
۳)۔عشرہ محرم کو اعلیٰ پیمانے پر برپا کرنا۔
۴)۔امام حسین علیہ السلام کے انقلاب کا مقصد کیا تھا اس پر غور کرنا۔
۵)۔امام حسین علیہ السلام کے مقاصد کوسمجھنا۔
۶)۔عاشور اکے مقاصد کو تقریروں اور اعلامیہ کے ذریعہ عام کرنا۔
۷)۔ہر زمانہ کی طاغوتی اور ظالم حکومتوں سے مقابلہ کرنا۔
۸)۔ امام حسین علیہ السلام کے ہر اوامر و نواہی پر صدق دل سے عمل کرنا۔
۹)۔دنیا کے ہر گوشہ و کنارسے قبر مطہر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جانا۔
۱۰)۔انسانی خدمت گزاری جو مختلف شکلوں میں ہے مثلا مسجد بنوانا،امام باڑہ بنوانا ،آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کے چراغ روشن کرنے کے لئے درسگاہیں قائم کرن، کتب خانہ کھولنا، اسپتال بنوانا،مومنین کوقرض الحسنہ دیناوغیرہ وغیرہ۔
کربلا میں روز عاشورا امام مظلوم کے بیانات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے :
عاشورا :۔ہر زمانے کے مظلوم انسانوں کی آواز ہے ۔
عاشورا :۔ تمام ستم دیدہ انسانوں سے ہمدردی کی سب سے بلند آواز ہے ۔
عاشورا :۔کا میابی کی وہ بلند آواز ہے جوانسانی آبادی کے گوش وکنار سے آتی ہے۔
عاشورا :۔ تما م انسانو ں کی گردن پر ایک بڑی ذمہ داری ہے ۔
عاشورا :۔ زندگی کے کاروان کے لئے ایک روشن رہنما ہے ۔
عاشورا :۔ زمین کے سینہ میںخورشید کے قلب کی دھڑکن ہے۔
عاشورا :۔ ایمان کی جلوہ گاہ ہے جس سے انسان کی شجاعت عیاں ہوتی ہے۔
عاشورا :۔تمام زمانوں کے لئے دین کی بقا کا راز ہے۔۔
پوری تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جنگ ہارنے والا فاتح کہلایا ہو ۔مگر کربلا کی جنگ دنیائے انسانیت میں ایسی لڑی گئی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔
source : http://www.mahdimission.com