اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حضرت سلمان فارسی

حضرت سلمان فارسی کے بارے مورخین وصاحبان تراجم میں اختلاف ہے کہ ایران میں کہاںاور کس شہر میں متولد ہوئے ؟علامہ شوشتری قاموس الرجال میں چند شہروں کانام ذکر کرتے ہیں:شیراز، رامہرمز،خوزستان ،شوشتر یا اصفہان کے جی دیہات میں متولد ہوئے(١) 

بعض نے شیرازی کہاہے(١)اور اہل اصطخر فارس میں ایک گروہ کازرونی کہتے ہیں(٢)اور اہل جندی اسے شاپور (٣) یااھواز ی کہاہے(٢)

لیکن علماء نے اصفہان کے دہیات جی کہ جو زایندہ نہر کے دونوں طرف واقع ہے۔ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت سلمان اصفہانی تھے (٣) ابن حجر عسقلانی رامہمرز ذکر کیا ہے (٤) محمد بن عبد البر حضرت سلمان فارسی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اصل میں رامھرمز کے تھے (٥) ابن اسحاق ،ابن ہشام اور ابن سعد معتدد احادیث حضرت سلما ن سے نقل کرتے ہیں؛ کہ میں اصفہان کے دہیات جیان کا ہوں میرا باپ کسان ہے (٦)

البتہ تینوں اقوال حضرت سلمان فارسی کے بارے میں درست ہیں یوں کہ حضرت سلمان فارسی کے والدین اصفہان کے دہیات جیان کے تھے اور خود رامھر مز میں متولد ہوئے کہ جب ان کے والدین وہاں منتقل ہوئے تھے نیز بعد میں وہ کازرون چلے گئے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی کے نام جو خط لکھا وہ کازرون کی طرف بھیجا تھا (7) حضرت سلمان فارسی کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے بعض نے٢٥٠ سال لکھی ہے کہ جو اکثر علما نے مورد اتفاق قرار دیاہے (8)بعض چار سو سال بھی نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی نے حضرت عیسی کا زمانہ یا ان کے وصی کازمانہ درک کیاہے(9)

حضرت سلمان اور ان کے والد کانام

قبل از اسلام حضرت سلمان کانام روزبہ تھا (10)ور ان کے والد کانام بدخشان ہے (11)

نسب ،لقب اور کنیت

ان کا نسب بعض منوچھر سے ملاتے ہیں کہ جو زمان حضرت موسی میں بادشاہ تھے (12) 

بہرحال آپ درحقیت ایرانی تھے ،اسلام سے پہلے آپ کا اصل نام روزبہ تھا اور آپ ایران کے بادشاہ سلطان آب کے نواسے ہیں ،آپ آزاد شدہ اصحاب پیغمبر اسلام ۖہیں (13

آپ ہمشہ سے خدا پرست تھے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے میں آپ نے بہت زیادہ زحمت اٹھائی اور شاید اسلام تک پہنچنے میں آپ کی طرح بہت کم افراد نے سختی ومصیبت برداشت کی،یہاں تک کہ پیغمبر اسلام ۖکی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ایمان لے آئے اور ہمشہ قوانین اسلام پر فخر کرتے تھے ،جب بھی کوئی آپ کانام ونسب پوچھتا تھا تو آپ کہتے تھے: میں اسلام کا فرزند اور اولاد آدم ہوں (14)

حضرت سلمان اسلام قبول کرنے کے بعد رسول خدا ۖکی قربت واطاعت وفرمانبرداری ، عبادت واخلاص ،زہد وتقوی اور جہاد کی بناپر آنحضرت ۖکے قریبی ولائق ترین صحابی قرار پائے اور عظمت وفضیلت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام ۖ نے فرمایا: سلمان ہم اہلبیت سے ہے ۔

امام صادق نے منصور بزرج سے کہ جو سلمان فارسی کے سلسلہ میں سوال کررہاتھا فرمایا: لاتقل سلمان الفارسی ولکن قل سلمان المحمدی۔(15)

حضرت سلمان (ایمان لانے کے بعد) جنگ خندق میں شرکت کی اور مدینہ کے اطراف میں خندق کھودنے کا مشورہ دیا جسے پیغمبر اور اصحاب نے قبول کیا یہ خندق مشرکین کے مدینہ داخل نہ ہونے اور مسلمانوں کی کامیابی کا باعث بنی حضرت سلمان فارسی رحلت پیغمبر اسلام ۖکے بعد حضرت علی کے مخلص ترین شیعہ قرار پائے آپ ان چار افراد میں سے ہیں کہ جو سر منڈ واکر تلوار حمائل کی اور امام کی مدد کے لیے بیعت کی اور ابو بکر کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوئے۔

اسلام قبول کرنا

ابن عباس اور محدثین کی ایک جماعت نقل کرتی ہے کہ حضرت سلمان نے اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں اس طرح نقل کیاہے:

میں اصفہان کے اطراف میں ایک گائوں میں رہتاتھا ،میرے والد مجھ سے اس درجہ محبت کرتے تھے کہ دوشیزہ کی طرح مجھے گھر میں رکھتے تھے لیکن میں نے مجوسی مذہب کے آداب ورسوم انجام دینے میں اس درجہ کوشش کی کہ آتش کدہ کا خادم بن گیا ،ایک دن میرے والد نے مجھے ایک جگہ پر بھیجا ،راستہ میں عیسائیوں کا معبد تھا ان کی عبادت مجھے اچھی لگی ،میں نے پوچھا عیسائیوں کا اصل مرکز کہاں ہے؟

لوگوں نے کہا شام میں ہے میں سوچتا رہتا تھا یہاں تک کہ ایک دن باپ کے پاس سے فرار کرکے شام چلاگیا اور اسقف نامی شخص کے پاس تعلیم حاصل کی ،ایک دن میں نے ان سے پوچھا :آپ مجھے اپنے بعد کس کے پاس جانے کی نصیحت کرتے ہیں؟ 

اس نے کہا موصل میں ایک شخص ہے اس کے پاس چلے جانا میں اس کے انتقال کے بعد موصل چلاگیا جب اس کے مرنے کا وقت نذدیک آیا تو اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا: نصیبین میں ایک شخص ہے اس کے پاس جانا اس کے بعد میں اس کے پاس چلاگیا اور جب اس کے ایام حیات ختم ہوئے تو اس نے عموریہ کے ایک شخص کا پتہ دیا جو روم میں رہتاتھا ۔

بالآخر میں اس کے پاس پہنچ گیا اس نے بھی آخری وقت میں گذشتہ افراد کی طرح کہا: لوگ اپنے دین کو چھوڑ چکے ہیں اور کوئی حق پر باقی نہیں ہے البتہ سرزمین عرب میں دین ابراہیم پر ایک پیغمبر مبعوث ہوگا جس کا وقت نذدیک ہے ،میں نے پوچھا اس پیغمبر کی پہنچان کیاہے؟

اس نے کہا: جو چیز اسے ہدیہ دی جائے اسے کھائیگا اور جو چیز صدقہ دے اسے نہیں کھائیگا اور اس کے بازئوں کے درمیان مہر نبوت موجود ہوگی۔حضرت سلمان کہتے ہیں :ایک دن قبیلہ کلیب کا ایک قافلہ عموریہ پہنچا میں ان کے ساتھ باہر نکل گیا لیکن انہوں نے میرے ساتھ بد سلوکی کی اور مجھے غلام کے طور پر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیا جس کے کھیت اور کھجور کے باغ میں میں نے کام کیا اسی دوران اس کا ایک چچا زاد بھائی آیا اور مجھے خرید کر مدینہ لے گیا ،خدا کی قسم جیسے ہی اس شہر میں داخل ہوا تو پہنچان گیا اس وقت پیغمبر اسلام ۖمدینہ تشریف لائے ۔

البتہ میں پیغمبر کے مبعوث ہونے کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھا ،یہاں تک کہ ایک دن کھجور کے درخت پر کام کررہاتھا کہ میرے مالکوں کے ایک چچازاد بھائی نے آکر کہا:

خدا بنی قریظہ کو غارت کرے کہ قبا کے علاقہ میں ایک شخص مکہ سے آیاہے لوگ اس کے اطراف میں جمع ہوگئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ پیغمبر خداہے جیسے ہی میں نے پیغمبر کانام سنا فورا درخت سے نیچے اترا اور اس کے بارے میں سوال کرنے لگا۔

لیکن میرے مالک نے مجھے کچھ نہیں بتایا اور اشارہ کیا کہ اپنا کام کرو اور جو تم سے متعلق نہیں اسے چھوڑدو ،جس وقت شام ہوئی تو میرے پاس جو تھوڑے سے کھجور تھے انہیں لے کر اس شخص کے پاس پہنچا جسے پیغمبر بتایاگیا تھا میں نے کہا:

میں نے سنا ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے پاس کچھ ضرورت مند غریب افراد ہیں میرے پاس صدقہ کی کھجور ہیں میں نے آپ کو دوسروں کی نسبت بہتر پایاہے لھذا آپ کھا لیجئے لیکن پیغمبر نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

کھالو لیکن خود نہیں کھایا میں نے خود سے کہا یہ پیغمبر ہونے کی پہلی نشانی ہے کہ جو پہلے سنی تھی کہ وہ صدقہ کا مال نہیں کھائیگا اس کے بعد گھر واپس آگیا اور دوسرے دن جو کھجور میرے پاس تھے انہیں پیغمبر کے پاس لے گیا اور کہا چونکہ آپ صدقہ نہیں کھاتے لھذا یہ کھجور ہدیہ ہیں حضور نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:کھائیے اور خود بھی کھانے لگے میں نے خود سے کہا یہ نبوت کی دوسری نشانی ہے جو یہودی عالم نے تعلیم دی تھی۔

حضرت سلمان تیسری علامت کی تلاش میں رہے تاکہ دلیل کے ساتھ اسلام قبول کرے یہاں تک کہ ایک دن پیغمبر ایک شخص کے تشیع جنازہ میں بقیع کی طرف جارہے تھے اور اصحاب آپ کے اطراف میں حلقہ کئے ہوئے تھے میں نے ان کی تعظیم کی اور پیچھے پیچھے چل دیا اور میری پوری سعی وکوشش تھی کہ مہر نبوت دیکھ لوں اچانک کاندھے سے عبا ہٹی میں نے مہر نبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ،میں نے فورا بوسہ دیا اور گریہ کرتے ہوئے حضور کے قدموں پر گر کر بوسے لینے لگا ۔

حضور اکرم ۖنے مجھے کھڑا کرکے فرمایا:

اے سلمان کیا ہوا ؟ میں نے اپنا پورا واقعہ بیان کیا آنحضرت ۖنے بڑا تعجب کیا اور فرمایا: اے سلمان !اپنے مالک سے آزادی کی بات کرو جس قیمت پر بھی راضی ہوجائے لکھوالو تاکہ ہم تمہیں آزاد کرائیں میں نے کافی کوشش کی بالآخر اصرار کے بعد وہ تین سو کھجور کے درخت لگانے اور دوسو اسی مثقال سونے پر راضی ہوگیا ۔

میں نے رسول خدا ۖکو اطلاع دی ۔آنحضرت نے انصار سے فرمایا: 

اعینوا اخاکم۔اپنے بھائی کی مدد کرو انہوں نے مدد کی پھر ایک جنگ میں کچھ مال پیغمبر کو وصول ہوا جس میں سے آپ نے کچھ دیا اور فرمایا: اپنے معاہدہ کوپورا کرو چنانچہ میں نے اپنے معاہدہ پورا کیا اور خود کو آزاد کرایا (16) پس اس طرح حضرت سلمان رسول خدا ۖکی عنایت سے یہودی مالک سے آزاد ہوئے۔

حضرت سلمان پیغمبر اسلام ۖکی نظر میں

پیغمبر اسلام اپنے سبھی اصحاب کودوست رکھتے تھے البتہ چند اصحاب مثلاحضرت سلمان ابوذروغیرہ سے خاص محبت ودوستی رکھتے تھے اور آپ ۖنے بعض مواقع پر اظہار بھی فرمایا:

١۔ جنگ خندق کے موقع پر جب حضرت سلمان نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا اور اسے پیغمبر نے قبول کیا تو مہاجرین وانصار سمجھ رہے تھے اور باقاعدہ اعلان کیا کہ سلمان ہم سے ہیں لیکن پیغمبر اسلام ۖنے فرمایا: السلمان منا اہل البیت ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں ( 17)

٢۔ ایک دن حضرت سلمان پیغمبر اسلام ۖکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت نے کافی اکرام واحترام کیا اور یہ بات عمر کو ناگوار گزری لھذا انہوں نے فرمایا: یہ عجمی جو اہل عرب سے آگے بیٹھاہے کون ہے؟ پیغمبر ان کی بات سے ناراض ہوئے اور فرمایا:

ان الناس من عھد آدم الی یومنا ھذا مثل اسنان المشط ،لافضل لعربی علی العجمی ولا للاحمر علی الاسود الا بالتقوی سلمان بحر لایندف وکنز لاینفد سلمان منا اہل البیت سلسل یمنح الحکمة ویوتی البرھان۔

لوگ حضرت آدم سے لے کر اب تک کنکھے کی شاخ کی مانند ہیں ،کوئی عربی عجمی پر ،اور سرخ ،گورا ،سیاہ پوست، کالے پر فضیلت وبرتری نہیں رکھتا سوائے تقوی کے سلمان بے پایان سمندر اور ختم نہ ہونے والا خزانہ ہیں ،سلمان ہم اہل بیت سے ہیں وہ ایسا چشمہ ہیں جس سے علم وحکمت ظاہر ہوتاہے اور اس سے دلیل وبرھان وجود میں آتی ہے (18)

٣۔ ابن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں: کہ رسول خدا ۖنے فرمایا:امرنی ربی بحب اربعة واخبرنی انہ یحبھم :علی وابوذر ومقداد وسلمان ۔خدا تعالی نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیاہے کہ وہ خود بھی انہیں دوست رکھتے ہیں :

علی ،ابوذر مقداد اور سلمان(19)

٤۔ حضرت سلمان کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ سب لوگ جنت کے مشتاق ہیں اور جنت ان کی مشتاق ہے۔

انس بن مالک نقل کرتے ہیں: کہ رسول خدا ۖنے فرمایا: ان الجنة تشتاق الی ثلاثة علی وعمار وسلمان ،یقینا جنت تین لوگوں کی مشتاق ہے حضرت علی ،عمار اور سلمان (20)

ولایت ِعلی سے دفاع

حضرت سلمان خدا کے اولیاء اور پیغمبر اسلام کے بڑے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں نیز آپ حضرت علی کے اصحاب اور ارکان اربعہ میں سے ہیں(21)

وفات پیغمبر اسلام ۖکے بعد حضرت علی کی ولایت پر باقی رہے اورآپ کو پیغمبر ۖکا خلیفہ بلافصل قبول کیا اور اس حقیقت کو ثابت کرنے میں پوری سعی وکوشش کی اور بیعت ابوبکر کی واضح طور پر مخالفت کی ۔

نزول رزق ورحمت

امام باقر اپنے جد حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ۖنے فرمایا:

ضاقت الارض بسبعة بھم ترزقون وبھم تمطرون منھم علی و فاطمةوسلمان والمقداد وابوذر وعمار حذیفہ وکان علی یقول :انا امامھم وھم الذی صلوا علی فاطمة علیھا السلام۔

امت پیغمبر میں سات افراد ایسے ہیں کہ زمین ان کی گنجائش وظرفیت نہیں رکھتی ان کے ذریعہ لوگوں کو روزی دی جاتی ہے جن کے ذریعہ آسمان سے بارش ہوتی ہے وہ علی ،فاطمہ، سلمان،مقداد،ابوذر،عمار اور حذیفہ ہیں اور فرمایا میں ان کا امام ہوں اور انہیں افراد نے حضرت فاطمہ پر نماز پڑھی۔(22)

محبت علی 

ایک آدمی نے حضرت سلمان سے کہا :حضرت علی سے آپ بہت محبت کرتے ہیں؟آپ نے فرمایا: اس لئے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایاہے:

من احب علیا فقد احبینی ومن ابغض علیا فقد ابغضنی۔جو علی سے محبت کرے اس نے مجھ سے کی اور جو ان سے بغض رکھے اس نے مجھ سے بغض رکھا(23)

حضرت علی کی حمایت

جس وقت حضرت علی نے حضرت زہرا ۖکو اونٹ پر سوار کیا اور امام حسن اور امام حسین کو ساتھ لے کر مہاجرین وانصار کے گھر گئے ...اور ان سے مدد کا مطالبہ کیا تو صرف چالیس لوگوں نے مدد کا وعدہ کیا ،امام نے فرمایا: کل سر منڈواکر اسلحہ کے ساتھ میرے پاس آنا۔

لیکن چالیس افراد میں سے صرف چار لوگ امام کے حکم پر عمل کرکے حاضر ہوئے اورآخری دم تک باقی رہے جن کے نام اس طرح ہیں :حضرت سلمان ،ابوذر،مقداد اور زبیر تین دن تک ،امام نے اسی طرح عمل انجام دیا ،صرف چار افراد کے سوا امام کی آواز پر کسی نے لبیک نہیں کہااور امام کو یکہ و تنہا چھوڑ دیا ،جب امام نے لوگوں کی اس درجہ بے وفائی دیکھی تو اپنے حق سے کنارہ کشی کی ، خانہ نشین ہوگئے اور قرآن جمع کرنے میں مشغول ہوگئے۔

امام علی کی حمایت میں سلمان کا کردار

حضرت سلمان نے حضرت علی کی حقانیت کو ثابت کرنے میں ہر ممکن کوشش کی جس کا ایک نمونہ بطور خلاصہ نقل کرتے ہیں :

ایک مرتبہ حضرت سلمان نے کہا: اے لوگو! یاد رکھو! تم ایسی آرزو رکھتے ہو جو سختی اور رنج وبلا کے درپے ہے جان لو کہ علی معدن علم ومعلومات کا خزانہ ہیں ،ان کا کلام فصل الخطاب ہوتاہے ،ان کا راستہ ہارون بن عمران کا راستہ ہے ،رسول خدا ۖنے ان سے فرمایا:

تم میرے اہلبیت کے درمیان میرے وصی وخلیفہ ہو تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی لیکن تم نے گذشتہ (زمانہ جاہلیت کے ) لوگوں کی رسومات کو زندہ کیا اور غلط راستہ پر چلے گئے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عہد شکنی اور وصیت پیغمبر اسلام ۖپر عمل نہ کرنے کی بنا پر تمہاری حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی اور تم قوم بنی اسرائیل کی سرنوشت میں مبتلا ہوجائوگے۔

یاد رکھو اگر علی کو ولی وخلیفہ تسلیم کروگے تو خدا کی قسم !زمین وآسمان کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونگے اور عدل وانصاف کی برکت سے روزی حاصل کروگے ،پھر آگاہ کررہاہوں کہ تمہاری سعادت وآرزو کا دروازہ بند ہوجائے گا اور اب اس کے بعد تمہیں چھوڑ دونگا اور اپنے اورتمہارے درمیان سے دینی بھائی چارگی اور دوستی کا رشتہ ختم کرتاہوں (24)

فضائل حضرت سلمان 

آپ کے بہت زیادہ فضائل ومناقب ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ ہوچکا ہے اور بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔ ایمان

حضرت امام صادق فرماتے ہیں:الایمان عشر درجات فالمقداد فی الثامنة والابوذر فی التاسعة وسلمان فی العاشر ۔ایمان کے دس درجہ ہیں مقداد آٹھویں درجہ پر ہیں ،ابوذر نویں درجہ میں اور سلمان دسویں درجہ میں ہیں(25)

٢۔ زہد

منقول ہے کہ حضرت سلمان کی درآمد پانچ ہزار درہم تھی ،آپ انہیں صدقہ میں دے دیتے اور خود تنگی کی زندگی بسر کرتے تھے ،آپ کے پاس ایک عبا تھی آپ اس کا نصف حصہ بچھاتے تھے اور نصف دیگر اوڑھتے تھے( 26)ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں: حضرت سلمان کے پاس گھر نہیں تھا اور آپ دوسروں کے گھروں کے سایہ میں زندگی بسر کرتے تھے ،ایک شخص نے آپ سے کہا:

آپ کے لئے گھر تعمیر کردیتاہوں ،آپ نے جواب دیا مجھے گھر کی ضرورت نہیں ہے بالآخر اس شخص نے آپ کے لئے گھر تعمیر کرایا جو آپ کے قد سے زیادہ بڑا نہیں تھا اور آپ کی غذا خشک روٹی اور پانی تھا(27)

٣۔ خوف قیامت

مسعودی نقل کرتے ہیں:حضرت سلمان پشمی کپڑے پہنتے تھے ،بغیر کجاوہ کے اونٹ پر سوار ہوتے تھے ،جو کی روٹی کھاتے تھے اور بڑے زاہد وعبادت گزار تھے ،جب آپ کاوقت آخر قریب آیا تو سعد بن وقاص نے آپ سے کہا : 

مجھے نیک کام کی وصیت کیجئے ،حضرت سلمان نے کہا: خدا کو یادکرو ،اگر کسی کام کا پختہ ارادہ کرو تو خدا کو یاد رکھو، اگر کوئی فیصلہ کرو تو خدا کو یاد کرو ،جب مال تقسیم کرو تو خدا کو یادکرو، اس کے بعد سلمان گریہ کرنے لگے ،سعد بن وقاص نے پوچھا: گریہ کیوں کررہے ہو؟ سلمان نے کہا: 

میں نے رسول خدا ۖسے سنا ہے آپ نے فرمایا:

ان فی الآخرة عقبة لایقطعھا الاالمخفون، واری ھذہ الاساودةحولی۔

قیامت کے دن ایک راستہ ہے جس سے صرف وہی لوگ عبور کریں گے جن کے پاس بوجھ کم ہوگا اور میں دیکھ رہاہوں کہ میرے اطراف میں بہت سی چیزیں ہیں۔سعد کہتے ہیں: میں نے حضرت سلمان کے اطراف میں دیکھا تو صرف سیاہ دوات اور ایک لوٹا تھا(28) 

٤۔ عبادت 

آپ راتوں میں بیدار رہ کر عبادت کرتے اور دن میں روزہ رکھتے تھے گویا آپ کی حرکات وسکنات اپنے مولاوآقا کی طرح عبادت وبندگی خدا میں بسر ہوتی تھی۔

یاد رہے کہ اسلام میں جو چیز زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ معرفت کے ساتھ صحیح عبادت ہے جو حضرت سلمان کو حاصل تھی۔

٥۔ علم ودانش

پیغمبر اسلام ۖکے اصحاب اور حضرت علی کے شیعوں میں کوئی بھی علم میں حضرت سلمان کے برابر نہیں تھا،کیونکہ آپ نے اپنی زندگی میں علم حاصل کیا اور اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اسلام ۖکی نشستوں میں آپ کے علم میں بیشتر اضافہ ہوا ،یہاں تک کہ ہمارے یہاں بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت سلمان (دوسرے)لقمان حکیم ہیں حتی لوگ آپ کو گذشتہ وآیندہ کا علم رکھنے والامحدث کہتے ہیں۔(29)

حسن بن منصور کہتے ہیں :

میں نے امام صادق سے عرض کی:کیا حضرت سلمان محدث تھے ؟ فرمایا: ہاں میں نے کہا کس نے انہیں حدیث کی تعلیم دی ؟ فرمایا: فرشتہ نے(30)

٦۔ خبر غیب

رسول خدا ۖاور حضرت علی کے مخلص اصحاب میں جو آپ کا مرتبہ ہے کسی کا نہیں ہے، سرچشمہ وحی پیغمبر اور حضرت علی کی خاص نشستوں میں آپ نے علم ومعرفت واسرار کی تعلیم حاصل کی۔

١۔ امام صادق فرماتے ہیں: سلمان کو اول وآخر کا علم تھا اور وہ بے پایان علم کے دریا تھے اور ہم اہلبیت میں شمار ہوتے تھے اس کے بعد فرمایا: ایک دن سلمان نے ایک جماعت سے ملاقات کی اور ان میں سے ایک آدمی نے کہا: رات اپنے گھر میں جو گناہ کیاہے اس سے توبہ کرو اور خدا کی طرف پلٹ آئو ،سلمان یہ کہہ کر چل دئیے ،اس شخص کے ساتھیوں نے کہا:

اس نے تم پر گناہ کی تہمت لگائی اور تم چپ رہے اور کوئی اعتراض نہیں کیا؟ اس شخص نے کہا :خدا کی قسم اس نے اس کام کی خبر دی ہے جسے میرے اور خدا کے سواکوئی نہیں جانتا (31) اس طرح اس شخص نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔

٢۔ ایک دن حضرت ابوذر حضرت سلمان کے گھر گئے اور کھانا بنانے سے متعلق غیر عادی چیز کا مشاہدہ کیا ،جسے ابوذر تحمل نہ کرسکے لھذا حضرت علی سے جاکر بیان اور اظہار تعجب کیا حضرت علی نے فرمایا:

یا اباذر !ان سلمان لوحدثک بما یعلم ،لقلت :رحم اللہ قاتل سلمان،یااباذر !ان سلمان باب اللہ فی الارض ومن عرفہ کان مومنا ومن انکرہ کان کافرا وان سلمان منا اہل البیت(32)۔

اے ابوذر! جو کچھ جانتے ہیں اگر اس کا اظہارکریں تو تم کہوگے کہ خدا سلمان کو قتل کرنے والے پر رحمت کرے ،سلمان روئے زمین پر جنت کا دروازہ ہے جو بھی ان کی معرفت حاصل کرے وہ مومن ہے اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے،سلمان ہم اہل بیت سے ہیں۔ 

٧۔ ملک الموت سے خطاب

کتاب رجال کشی میں ہے ایک دن سلمان کوفہ میں لوہا روں کے بازار سے گزررہے تھے ، ایک جوان کودیکھا کہ اس نے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا ،لوگ اس کے اطراف میں جمع ہوگئے اور سلمان سے کہا: 

اسے دیوانگی کی بیماری ہے دعا پڑھ دیجئے تاکہ ٹھیک ہوجائے ،سلمان نے آگے بڑھ کر دعا پڑھی وہ جوان ٹھیک ہوگیا اس نے سلمان سے کہا: لوگ میرے بارے میں جس بیماری کا گمان کرتے ہیں مجھے نہیں ہے ،بلکہ لوہاروں کے اس پگھلے ہوئے سرخ لوہے کو دیکھ کر مجھے آیت یاد آگئی :ولھم مقامع من حدید (33)

چنانچہ عذاب خدا سے ڈر کی بنا پر میرے عقل وحواس جاتے رہے اور یہ حالت پیش آئی!

یہ سن کر سلمان بڑے خوش ہوئے اور اس سے دوستی کرلی اور اسے اپنا دینی بھائی قراردیا اور اس کے پاس رفت وآمد شروع کردی یہاں تک کہ وہ جوان بیمار ہوگیا جس کی بناپر کئی دن سلمان سے ملاقات نہیں ہوئی جب آپ کو معلوم ہوا تو اس کے پاس گئے دیکھا وہ جان کنی کی حالت میں ہے، آپ نے فرشتہ سے کہا: یاملک الموت ! ارفق باخی ۔

میرے بھائی کی روح آسانی سے قبض کرنا ،ملک الموت نے کہا: یاعبد اللہ انی بکل مومن رفیق ۔میں ہر مومن کی روح آسانی سے ہی قبض کرتاہوں ۔(34)

پیغمبر اکرم ۖکے عظیم المرتبت صحابی اور حضرت علی کے مخلص شیعہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری بیان کرتے ہیں:ایک دن حضرت علی نے صبح کی نماز مدینہ میں ہمارے ساتھ پڑھی ،اس وقت مجمع کی طرف رخ کرکے فرمایا:

یامعشر الناس!اعظم اللہ اجرکم فی اخیکم سلمان۔اے لوگو! سلمان دعوت الہی کو لبیک کہہ چکے ہیں ،خدا تمہیں اجردے اس کے بعد رسول خدا ۖ کا عمامہ اور کپڑے زیب تن کئے اور حضور کی تلوار اور تازیانہ اٹھا کرنا قہ غضبا پر سوار ہوگئے اور قنبر کے ساتھ مدائن کی طرف روانہ ہوتے وقت قنبر سے کہتے ہیں،دس تک شمار کرو، جیسے ہی دس تک پہنچا تو خود کو سلمان کے گھر کے سامنے پایا۔ 

زاذان جو آخری عمر تک حضرت سلمان کے ساتھ رہے انہوں نے پوچھا:تمہیں غسل کون دے گا؟ سلمان نے کہا: 

جس نے رسول خدا ا ۖکو غسل دیا ہے زاذان نے کہا :آنحضرت ۖکو حضرت علی نے غسل دیا تھا اور وہ مدینہ میں ہیں اور تم مدائن میں کس طرح ممکن ہے کہ ہزار فرسخ دوری کے فاصلہ کے باوجود وہ تمہیں غسل دیں؟

حضرت سلمان نے کہا: اس کی خبر مجھے رسول خدا ۖنے دی ہے ،زاذان کہتے ہیں: جان کنی کے وقت میں سلمان کے پاس موجود تھا جیسے ہی انہوں نے دعوت اجل کو لبیک کہا تو دیکھا کہ حضرت امیر المومنین قنبر کے ساتھ گھوڑے سے پیادہ ہوئے امام نے غسل وکفن دیا اور نماز پڑھی اور دفن کیا (35)

آپ کی وفات ٢٥٠ سال کی عمر میں اور بقول دیگر ٣٥٠ سال کی عمر میں ہوئی آپ کا مزار بغداد کے پاس مدائن میں ہے۔ بے شک خدا کے نیک بندے جو محبان اہل بیت ہیں آخری وقت تک راہ حق سے جدا نہیں ہوتے اور ان کے لئے خوشخبری ہے کہ ائمہ جان کنی کے وقت ان کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور جنت کی بشارت دیتے ہیں۔

1. ۔بحار ج٢٢ص٣٥٥

2. ۔بحار ج٢٢ص ٣٦٨

3. ۔سیر اعلام النبلاء ج١ص ٣٧٨

4. ۔تنقیح المقال ج٢ص ٤٥

5. ۔حلیة الاولیاء ج١ص ١٩٠ 

6. ۔اسد الغابہ ج٢ص ٣٢٨

7. ۔تاریخ گزیدہ ص٢٣١ بحار ج٢٢ص ٣٦٣ 

8. ۔سیر اعلام النبلاء ج١ص ٤٠٤

9. ۔طبقات ج٤ص ٥٧ الاصابہ ج٢ص ٦٢ اسد الغابہ ج٢ص ٣٣٢

10. ۔ تاریخ طبری ج٢ص ٨٩٤

11. ۔سیر اعلام النبلاء ص٤٠٤

12. ۔سیر اعلام النبلاء ص١٠٤ الاستیعاب ج٢ص ٥٧

13. ۔اسد الغابہ ج٢ص ٣٢٨ تھذیب التھذیب ج٣ص ٤٢٣،رجال طوسی ص٤٤تنقیح المقال ج٢ص ٤٤ 

14. ۔شرح ابن ابی الحدید ج١٨ص٣٤

15. ۔بحار ج ٢٢ص ٣٢٧

16. ۔اسد الغابہ ج٢ص ٣٢٨ طبقات ج ٤ص ٧٥ سیرہ ابن ہشام ج١ص ٢٢٨

17. ۔اسد الغابہ ج٢ص ٣٣١ طبقات ج٤ص ٨٣

18. ۔ الاختصاص ص٣٤١ بحار ج ٢٢ص ٣٤٩

19. ۔بحار ج١٨ ص٣٦ وج٢٢ص ٣٤٩

20. ۔اسد الغابہ ج٢ص ٣٣١بحار ج٢٢ص ٣٣١

21. ۔رجال طوسی ص٤٢ 

22. ۔ رجال کشی ص٦ح١٣

23. ۔المستدرک علی الصحیحین ج٣ ص١٤١ ح ٤٦٤٨

24. ۔رجال کشی ص٢٠۔٢٤

25. ۔بحار ج٣٢ ص٣٤١

26. ۔شرح ابن ابی الحدید ج١٨ ص٣٥ اسد الغابہ ج٢ص ٣٣١

27. ۔ بحار ج ٢٢ص ٣٢١

28. ۔ مروج الذہب ج٢ص ٣٤١

29. ۔ اسد الغابہ ج٢ص ٣٣١ ،رجال کشی ص١٦ ح٢٧ وص ١٢ ،٢٥بحار ج٢٢ ص ٣٤٧ الاختصاص ص١١

30. ۔ رجال کشی ص ١٩ ح٤٤

31. ۔رجال کشی ص١٢ ح٢٥

32. ۔رجال کشی ص١٤ح٣٣الاختصاس ص١١،١٢ 

33. ۔سورہ حج آیت ٢١

34. ۔رجال کشی ص١٨ ح ٤٣بحار ج٢٢ ص ٢٨٥ 

35. ۔ بحار ج٢٢ص ٣٧٢ ۔٣٨٠

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت
جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن
اسوہ حسینی
امام جعفر صادق علیہ السلام کی نصیحتیں
دعاء کمیل اردو ترجمہ کے ساته
اہمیت شہادت؛ قرآن وحدیث کی روشنی میں
امانت اور امانت داری
واقعہ کربلا سے حاصل ہونے والي عبرتيں (حصّہ دوّم )

 
user comment