وہ کس قدر مبارک و مسعود گھڑی تھی، پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ رہی تھی ۔ رسول اسلام (ص) کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیاتھا ۔ خود نبی اکرم (ص) سفر میں تھے علی ابن ابی طالب نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینےسے لگائے ٹہلتے رہے سب رسول اسلام (ص) کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم (ص) اپنی نواسی کے لئے کیا نام منتخب کرتے ہیں ۔ رسول اسلام (ص) جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر سلام کرکے رخصت ہوئے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آکر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے ۔آج سب ، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ سلام اللہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی ، رسول اسلام (ص) کو دیکھ کر سب تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ روایت میں ہے کہ نبی اکرم (ص) نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا : خدا نے اس بچی کا نام ” زینب ” منتخب کیاہے ۔عزیزان محترم ! ہم ثانی زہرا (س) ، شریکۃ الحسین (ع) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مناسبت سے اپنے تمام سامعین کی خدمت میں تہنیت مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔ فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام (ص) اور علی (ع) و فاطمہ (س) کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگي بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیرمعمولی کردار بن گياہے کیونکہ امام معصوم کے الفاظ میں اس عالمۂ غیر معلمہ اور فہیمۂ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر ،عصمتی ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں ۔ جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں ، جو زندگی کے مختلف حصول پر محیط نظر آتی ہیں ، آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں ہمکتی اور مسکراتی تین چار کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ” عقیلۂ قریش ” ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب کی شریک و پشتپناہ فاتح کوفہ و شام ہو ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہے ۔ روایت کے مطابق ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لئے کھانے کی فرمائش کی ، معصومۂ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لئے رکھ چھوڑی ہے یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا : مادر گرامی ، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے ، میں بعد میں کھالوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگالیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں : ” تم واقعا” زینب ہو ” سچ ہے کہ حادثے کسی سے کہکر نہیں آیا کرتے مگر بعض افراد حادثوں سے متاثر ہوکر اپنا وجود کھو دیتے ہیں مگر محمد عربی کا گھرانہ ، حادثوں کے ہجوم میں بھی اپنے فرائض اور اپنے نورانی وجود کو حالات کی نذر ہونے نہیں دیتا ۔ جناب زینب کو بھی بچپن میں ہی نانا محمد عربی کے سایۂ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصا ئب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کردیا ۔ اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے خطاب عطاکرنے پر مجبور ہوگئی ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر ، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھاتھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی ۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں ۔ حضرت علی (ع) نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری کی شادی اپنے بتھیجے جناب عبداللہ ابن جعفر سےکی تھی ، جن کی کفالت و تربیت ، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم (ص) نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام (ص) کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی اس کے باوجود روایت میں ہے کہ حضرت علی (ع) نے عبداللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے اگر وہ اپنے بھائی امام حسین (ع) کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی ۔ چنانچہ جناب عبداللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی (ع) کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشتپناہی کے عمل میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنےشوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی ، جناب عبداللہ اقتصادی اعتبار سے موفق تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب (س) کے لئے مہیا کر رکھی تھیں ۔ وہ جانتے تھے جناب زینب (س) کو اپنے بھائیوں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے بہت زیادہ مانوس ہیں اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے ۔ خاص طور پر جناب زینب امام حسین (ع) سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پارہی تھی۔چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن معصومۂ عالم نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لئے نہیں دیکھتی تو بے چن ہوجاتی ہے ، اس وقت رسول اسلام (ص) نے فرمایاتھا : بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہوگی ” اسی لئے جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کردی اور جب امام حسین (ع)نے اسلام کی حفاظت اور ملت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے کربلا کا سفر اختیار کیا تو جناب زینب بھی بھائی کے ساتھ ہوگئیں ۔ جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھاہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کررہے ہیں ، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوگئی ظاہر ہے جناب زینب ، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کاپورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا ۔ جناب زینب نے واقعۂ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئےجاوداں بنادیا ۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول (ص) کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتاہے ۔ اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو ، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیازہے صبر ، شجاعت ، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیاہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیاہے جن لوگوں نے نواسۂ رسول (ص) کوایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کرکے ، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹاکرکے پیش کرنے کی جرات کی تھی سردربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کرکے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے ہیں ۔ اور باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملاکرکے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کردیا ۔ہم ایک بار پھر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کا افتخار علی و فاطمہ کی اس شیردل بیٹی کے یوم ولادت کی مناسبت سے اپنے سامعین کو تہنیت و مبارک باد پیش کرتے ہیں اور جناب زینب کے ایک زرین قول پر اپنی یہ گفتگو تمام کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :” خداوند متعال کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے اس کو پیش نظر رکھ کر (گناہ کرنے سے ) شرم کرو
source : http://babulilmlibrary.com