مذہب اہلبیت علیہم السلام کی ایک مہم خصوصیت یہ ہے کہ اس مذہب میں ائمہ علیہم السلام سے ما ثور ایسی دعائیں موجود ہیں جس کے مضامین و محتوی عالی و ارفع اور تربیت آموز ہیں، مثال کے طور پر دعا ے کمیل ، دعاے صباح، دعائے ندبہ دعاے ابو حمزہ و دعاے عرفہ و غیرہ ایسی شاہکار دعائیں جن سے دیگر مذاہب و فرق محروم ہیں، یہ دعائیں اسلام کی تعلیمات کا ، الہام بخش سرچشمہ ہے، یہ دعائیں ہمیں تزکیہ نفس کی روش اور سیروسلوک الٰہی کا طریقہٴ کار بتاتی ہیں، چنانچہ انسان دعا کے وقت، خدا سے مخاطب ہوتا ہے لہٰذا اسقدر بلند پروازی کرتا ہے کہ فکر کی بلندی سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔
بے شک دعائیں انسان کے نفوس کی ترتیب اور انہیں مراتب کمال تک پہنچانے کے لئے موثر ترین نقش ایفاء کرتی ہیں، ممکن ہے کہ بہت سے دعا کا ورد کرنے والے لوگ اس امر سے غافل ہوں۔
خداوند عالم انسان سے بہت نزدیک ہے لیکن انسان ہے جو غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے اس سے دور ہوجاتا ہے اور صرف دعا و اس کا ذکر ہے جو خدائے متعال اور اس کے درمیان سے حجاب اور فاصلہ کو برطرف کرتا ہے اور انسان خدا کی نزدیکی کو پورے وجود سے حس کرتا ہے۔
دعا بالکل باران رحمت کے شبیہ ہے جس طرح باران رحمت زمین کے دلوں کو سیراب اور گل و بوٹوں کو شکوفا کرتی ہے اسی طرح دعا بھی لوگوں کے ایمان اور اخلاص کو تازگی بخشتی ہے اور محبت و عبودیت اس کی روح پر نمایاں ہوجاتی ہے۔
دعا وہ پاکیزہ و روح بخش نسیم ہے کہ حضرت مسیح کی پھونک کی طرح، خدا کے اذن سے بوسیدہ ہڈی کو حیات عطا کرتی ہے۔
دعا وہ موج مارتا سمندر ہے جو اپنے اندر اخلاقی فضائل کے گوہروں کو پرورش دیتا ہے۔ ہر وہ سانس جو دعا کے ہمراہ ہے وہ ضامن حیات و باعث نشاط ذات ہے، اور ہر وہ دل جو نور دعا سے منور ہے تقوائے الٰہی سے مملو ہے، دعا کرنے والا اپنی ذاتی خواہشوں کو خدا سے طلب کرتا ہے اور خدا اس دعا کے ذریعہ اس کی روح کی پرورش و تربیت کرتا ہے اور اس کی نگاہ میں دعا دیگر حاجتوں کو مستجاب کرنے کے لئے صرف ایک بہانہ ہے۔
اب یہ کہنا بجا ہے کہ دعا ایک نایاب گوہر، سعادت کی ضامن، حیات بخش پانی اور عبادت کی روح ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے،”الدعاء مخ العبادہ“یعنی دعا عبادت کی روح ہے،اور تعجب کی بات یہ ہے کہ قرآن کے مطابق، انسان کی اہمیت خدا کی بارگاہ میں، اس کی دعاوٴں کے طفیل میں ہے،”قل یعبنوٴ بکم لولا دعائکم“پیغمبر (ص) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہیں کرتا۔
مختصر یوں عرض کرسکتے ہیں کہ۔ دعا انسان کی روح کی تربیت اور پرورش کے لئے مہم ترین عامل ہے۔ دعا نا امیدی و مایوسی کو مہار اور دل میں امید کے نور کی ضو فشانی کرتی ہے۔ دعا مشکلوں اور پریشانیوں میں قوت بخشتی ہے اور ناگوار حادثات و واقعات میں مقاومت کا درس دیتی ہے۔ دعا روح و دل کی شادابی و نشاط کی ضامن ہے اور انسان کو افسردگی سے نجات بخشتی ہے۔ دعا زندگی کے مصائب و الام پر تحمل کرنے کی قوت عطا کرتی ہے۔
source : http://www.tebyan.net