اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

اسلام میں جان کی قیمت

'' حقوق اللہ'' اور'' حقوق العباد'' دونوں ہی کو اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔حقوق اللہ کا تعلق اللہ تبارک و تعالی کی ذات سے ہے ، مثلا اللہ پر ایمان لانا ، اس کی عبادت کرنا اور اس کی اطاعت وفرماں برداری کرناوغیرہ۔ہر انسان پر لازمی ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کرے ۔ چنانچہ صرف اللہ ہی کو عباد ت کے لائق جانے اور جو عبادتیں اس پر فرض کی گئی ہیں ان کی تکمیل کرے اور احکام الہی کو بجالائے ، باری تعالی نے جن چیزوں کے کرنے سے منع کیا ہے ان سے رک جائے ۔اب جوشخص اللہ کے حقوق کو پورا کرے گا ، اسے بہترین اجر کا مستحق قرار دیا جائے گا ، لیکن جو شخص حقوق اللہ کو نظرانداز کرے گا اور ان کی تکمیل نہ کرے گا ، اس کا ٹھکانہ برا ہوگا ، البتہ جو لوگ صاحب ایمان ہونگے ، ان کے لیے اللہ کی ذات سے معافی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ اللہ کی ذات بڑی کریم و رحیم ہے ، وہ بہت زیادہ معاف کر نے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔

جہاں تک حقوق العباد کی بات ہے تو یہ اسی وقت معاف ہونگے ، جب کہ وہ شخص جس کے حقوق مارے گئے ہونگے ، وہ معاف کر دے ، اس اعتبار سے حقوق العباد کی تکمیل کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے ۔ حقوق العباد سے مراد انسانوں کے حقوق ہیں ۔ چاہے وہ والدین کے حقوق ہوں ، ، پڑوسی کے حقوق ہوں یا اعزو اقارب اور دوست و احباب کے حقوق یا محلہ والوں کے حقوق ہوں یا عام انسانوں کے حقوق ہوں ۔ حقوق العباد کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور اس دائرہ میں اپنے اور پرائے ، مسلمان اور غیر مسلمان سبھی آتے ہیں ، یہ ایک الگ بات ہے کہ بعض کے حقوق زیادہ ہیں اور بعض کے نسبتاً کم ، البتہ جو حقوق جس کے لیے متعین کیے گئے ،ان کی تکمیل لازمی ہے اور ان سے غفلت پر سخت گرفت ہے ۔

دین اسلام کے پیش نظر کیونکہ پوری انسایت ہے ، اس لیے وہ اپنے پیروکاروں کو صرف رشتہ داروں یا مسلمانوں کے حقوق تک محدود نہیں رکھتا ، بلکہ تمام انسانوں تک اس دائرہ کو وسیع کر تا ہے ۔ ایسے عام حقوق میں جان کی حفاظت اہم ہے ۔ یعنی جان چاہے مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی حتی الوسع اس کا تحفظ لازم ہے ۔ در اصل انسانی جان کی اللہ کے نزدیک بڑی قد ر وقیمت ہے ، پھر انسا ن کی تخلیق محض اللہ تعالی نے کی ہے ، اس لیے کسی دوسرے شخص کو  ہرگز اس بات کی اجاز ت نہیں دی گئی کہ وہ کسی انسان کی جان لے ۔یہاں تک کہ خود انسان کواپنی جان لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔  انسانی جان کی قدر وقیمت کا انداز ہ قرآن مجید کی اس آیت سے لگا یا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: '' جو شخص کسی ایسی جان کو قتل کر ے ، جس نے کسی کو قتل نہ کیا اور نہ اس نے فساد بر پا کیا تو گو یا اس نے تمام لوگوں کا خون کیا ''۔ غور کیجئے کہ آیت مذکورہ میں ایک جان کے قتل کو تمام جانوں کے قتل سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جس کا مطلب ہے کہ کسی انسان کا قتل کر نا گویا پوری انسانیت کو قتل کر نے کے برابر ہے ۔

کسی انسان کی جان لینا اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے ، اس کا اندازہ نبی علیہ الصلوة والسلام کی اس حدیث سے ہوتا ہے ، آپ نے فرمایا '' قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پر س کی جائے گی اور حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعووں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ کسی انسان جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا کہ '' بڑے گناہوں میںسب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ہے ، پھر کسی انسان کو ہلا ک کر نا ہے ، پھر ماں باپ کی نافرمانی کر نا ہے ، پھر جھوٹ بولنا ہے '' اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان کیا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہوں میں شرک تو سب سے بڑا گناہ ہے ہی ، مگر شرک کے بعد جو بڑے گناہ ہیں ، ان میں کسی انسانی جان کو ہلا ک کرنا سر فہرست ہے ۔

انسانی جان کے اس قدر اہم ہونے کے سبب اسلام نے اس کی حفاظت کی پوری کو شش کی ہے ۔ چنانچہ یہ قانو ن بنا دیا گیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی ہے تو اس بات کا پورا نظم و نسق کیا جائے گا کہ انسانی جان برباد نہ ہوپائے ۔ چاہے وہ مسلم کی جان ہو یا کافر کی جان ۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے ۔ارشاد باری ہے :وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہ'' انسانی جان کو ہلاک نہ کرو ، جسے خدانے حرام قرار دیا ہے '' ( بنی اسرائیل : ٣٣) علماء نے اس متعلق وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ '' ہر امن پسند غیر مسلم کے خون کی قیمت مسلمانوں کے خون کے برابر ہے ، اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی پُرامن غیر مسلم کو قتل کر دیتا ہے تو اس کا قصاص اس طرح لیا جائے گا، جس طرح ایک مسلمان کے قتل کا لیا جاتا ہے '' گویا کہ جان کے تحفظ کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں برابر ہیں ، جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت ضروری ہے ، اسی طرح ایک غیر مسلم کی جان کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔

قتل و قتال سے دین اسلام نے ہرحال میںروکنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ بد امنی اور خوں ریزی کا سلسلہ طویل ہوجاتا ہے ۔ عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص قتل کر دیا جا تا ہے تو مقتول کے خاندان والے بھی اسی طرح کے انتقام کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں ، یہانتک کہ کبھی کبھی کچھ وقت کے بعد سننے کو ملتا ہے کہ قاتل کو مقتول کے خاندان والوں نے قتل کر ڈالا ۔ اس پر دوسرے مقتول کے ورثاء بھی سکون سے نہیں بیٹھتے ، وہ بھی اسی طرح کا معاملہ کر نے کے لیے عام طور سے تیار رہتے ہیں ، نتیجہ یہ کہ لمبے وقت تک خاندانوں کے مابین خوں ریزی کا سلسلہ چلتا رہتاہے ۔ اس خوں ریزی سے نہ صرف جانوں کا اتلاف ہوتا ہے ، بلکہ سکون بھی غارت ہوجاتا ہے ، دونوں خاندان کے لوگوں کو خدشہ لگا رہتا ہے کہ جانے کب کس کو ہلاک کر دیا جائے ۔ اس کشمش اور خوف کے ساتھ ان کی زندگی بسر ہوتی رہتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ قتل کا انجام تباہ کن ہوتا ہے اور اسلام نہیں چاہتا کہ کوئی اس طرح کے حالات کا سامنا کر ے۔ اس لیے وہ قتل وقتال سے سختی کے ساتھ منع کر تا ہے ۔

انسانی جان کی حفاظت کے لیے اسلام فقط اخلاقی طریقہ ہی اختیار نہیں کرتا، بلکہ سزا کے ذریعہ بھی اس کو دبانے کی کوشش کرتا ہے ۔ چنانچہ انسان قتل کی سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق قاتل کی سزا قتل ہے ، بشرطیکہ مقتول کے ورثا ء کے کچھ لے کر معاف نہ کردیں ۔یعنی اگر کسی نے انسان کو قتل کیا تو بدلہ میں اسے بھی قتل کر دیا جائے گا ۔ بظاہر یہ انتہائی سخت سزا ہے جس پر بعض اسلام سے عصبیت رکھنے والے لوگ اعتراض بھی کر تے ہیں ، مگر نتیجہ کے لحاظ سے یہ سزا در اصل نوع انساں کے لیے مفید ہے اور ان کی جانوں کے تحفظ اور امن وسکون کی بقاء کی ضامن ہے ۔ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وہ مقام و ممالک جہاں پر قتل کی سزا قتل نہیں ہے ، وہاں قتل کی وارداتوں میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ، اس کے برعکس جن مقامات پر قاتل کی سزا اسلامی قانوں کے مطابق ہے ، وہاں قتل کے واقعات کی تعداد نا کے برابر ہے ۔ گویا کہ اس سخت سزامیں انسان کے تحفظ کا راز مضمر ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس قدر کوششوں کے باوجود بھی فی زمانہ اسلام کو تاریک اور شدت پسند کہاجا رہا ہے ، جب کہ اس کی تعلیمات امن کے قیام کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں ۔

انسانی جانوں کے تحفظ کے سلسلہ میں اسلام کی مؤثر کن تعلیمات اور جامع نظام دستور اس بات کا متقاضی ہے کہ پورے طور پر مسلمان اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں بسائیں اور ان حقوق کی پابندی کریں ، جن کو اسلام نے متعین کیا ہے ۔ مسلم معاشرے کے لیے عجیب بات یہ ہے کہ جس شے سے اسلام نے سختی سے روکا ہے ، اس کی اکا دکا وارداتیں مسلمانوں میں ہوتی رہتی ہیں ، جو معاشرہ میں فساد کا سبب بنتی ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان قتل کے ارتکاب سے تحفظ کے لیے کوششیں کریں ۔ تاکہ انہیں قیامت کے روز اللہ کے حضور شرمندگی کا سامنا نہ کر نا پڑے ۔ 


source : http://shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خطبات حضرت زینب(سلام اللہ علیہا)
امام مہدی (ع) کے بارے میں علی (ع) کی چالیس حدیثیں
معصوم چھاردھم
جب انسان اشرف المخلوقات ہے تو کیوں جنات کو نہیں ...
حضرت علی اکبر علیہ السلام کی ولادت با سعادت مبارک
ولادت باسعادت امام حسن عسکری (ع) مبارک ہو
آیئے صحیفہ سجادیہ کو پہچانیں
خانه وحی پر آگ (تاریخ اسلام کا حیرت انگیز سوال)
وحی رسالی کی اقسام
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا(دوسری قسط)

 
user comment