حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مسجد نبوی میں تاریخ ساز خطبہ شیعہ وسنی دونوں فریقوں نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے کہ جس کی سند کا سلسلہ زید بن علی تک پهونچتا ہے ، اس طرح کہ انھوں نے اپنے پدر بزرگوار جد اعلیٰ سے نقل کیا ہے، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے، نیز جابر جعفری نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا، اسی طرح جناب عبد اللہ بن حسن نے اپنے والد امام حسن علیہ السلام سے، نیز زید بن علی نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، اسی طرح خاندان بنی ھاشم کے بعض افراد نے زینب بنت علی علیہ السلام سے، نیز عروة بن زبیر نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ، یہ سب کھتے ھیں :
حتیٰ دخلت علی ابي بکر وهو فی حشدٍ من المھاجرین والانصار وغیرھم، فنیطت دونھا ملاء ة، فجلست ثم انّت انّةً اجہش القوم لھا بالبکاء، فارتجّ المجلس، ثم امھلت ہنیہة، حتی اذا سکن نشیج القوم، وھدات فورتھم، افتتحت الکلام بحمدالله فقالت:
” الحمدُ للّٰہ علیٰ ما انعم ولہ الشکر علی ما الھم، والثناء بماقدّم من عموم نِعَمٍ ابتداٴھا،وسبوغ آلاء اٴسداھا وتمام منَن اٴولاھا،جمّ عن الاحصاء عددھا، وناٴیٰ عن الجزاء اٴمدُھا،وتفاوت عن الادراک اْبدھا وندبھم لاِسْتِزادتھا باالشکرلاتّصالھا واستحمد الی الخلائق باجزالھا،وثنّی بالندب الی امثالھا۔
واشھدان لا الہ الّا اللّٰہ وحد ہ لاشریک لہ،کلمةٌجعل الاخلاص تاٴ ویلھا وضمن القلوب موصولھا ،وانار فی
جس وقت ابوبکر نے خلافت کی باغ ڈور سنبھالی اور باغ فدک غصب کرلیا، جناب فاطمہ (س) کو خبر ملی کہ اس نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹا کر اپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اور با پردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد النبی (ص) کی طرف اس طرح چلی کہ نبی (ص) جیسی چال تھی اور چادر زمین پر خط دیتی جا رہی تھی۔
جب آپ مسجد میں وارد هوئیں تو اس وقت جناب ابو بکر، مھاجرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹهے هوئے تهے، آپ پردے کے پیچ ہے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں، دختر رسول کو روتا دیکھ کر تمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا، تسلی و تشفی دینے کے بعد مجمع کو خاموش کیا گیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا:
” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجهے اپنی بے شمار اور بے انتھا نعمتوں سے نوازا، میں شکر بجالاتی هوں اس کی ان توفیقات پرجو اس نے مج ہے عطا کیں، اور خدا کی حمد و ثناء کرتی هوں ان بے شمار نعمتوں پر جن کی کوئی انتھا نھیں، اور نہ ھی ان کا کوئی بدلا هو سکتا ہے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باھر ہے، خدا چاھتا ہے کہ ھم اس کی نعمتوں کی قدر کریں تاکہ وہ ھم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ھمیں شکر کی دعوت دی ہے تا کہ آخرت میں بھی وہ ایسے ھی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔
میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی هوں، وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے هو تا ہے اور اس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل و دماغ روشن هوتے ھیں۔
التّفکّر معقولھا،الممتنع من الا بصار روٴیتہ، ومن الاٴلسن صفتہ، ومن الا وھا م کیفیّتہ ،ابتدع الا شیاء لامن شیء کان قبلھا ،وانشاھا بلااحْتِذاء امثلةٍامْتثلھا،کوّ نھا بقدرتہ، وذراٴھابمشیتہ من غیرحا جةمنہ الی تکو ینھا ،ولا فا ئدة لہ فی تصویر ھا، الا تثبیتا لحکمتہ ،وتنبیھاً علی طاعتہ، واظھاراً لقدرتہ،تعبّداً لبر یتہ و اعزازالدعوتہ۔ ثم جعل الثواب علی طاعتہ ووضع العقاب علی معصیتہ ،زیادةلعبادہ من نقمتہ وحیاشة لھم الی جنتہ۔
واشھد ان ابی محمدا عبدہ و رسولہ، اختارہ قبل ان ارسلہ، (وسمّاہ قبل ان اجتباہ) واصطفاہ قبل ان ابتعثہ، اذ الخلائق بالغیب مکنونة وبسَتْرِ الاھاویل مصونة،وبنھایة العدم مقرونة ،علما من اللّٰہ تعالی بمایل الامُور واحاطة بحوادث الدّهور ومعرفة بمواقع الامور، ابتعثہ اللّٰہ اتما ماً لامرہ وعزیمةعلی امضاء حکمہ وانفاذ اً لمقادیررحمتہ فراٴی الاُ مم فر قاً فی ادیانھا،عُکفَّاًعلی نیرانھا وعابدةً لاٴوثانھا، منکرةللّٰہ مع عر فا نھا ۔
وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھا نھیں جا سکتا، زبان کے ذریعہ اس کی تعریف و توصیف نھیں کی جا سکتی، جو وھم و گمان میں بھی نھیں آ سکتا۔
وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پھلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی ومشٴیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت هو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پهونچتا هو۔
بلکہ کائنات کواس نے اس لئے پیدا کیا تاکہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کرسکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کرسکے، اپنی طاقت وقدرت کا اظھار کرسکے، بندوںکواپنی عبادت کی تر غیب دلاسکے اور اپنی دعوت کی اھمیت جتاسکے؟
اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اورنافرمانی پر سزامعین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔
میں گواھی دیتی هوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پھلے اللہ نے ان کو چنا، (اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا) اور بعثت سے پھلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنھاں تھیں، نیست و نابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اور عدم کی وادیوں میں تھیں ، چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اور قضا و قدر سے مطلع ہے۔
فاناراللّٰہ باٴبی محمد ( صلی الله علیہ وآلہ وسلم)ظلمھا، وکشف عن القلوب بُہَمھا وجلی عن الابصار غُمَمھا وقام فی الناس بالھدایة،وفا نقذ ھم من الغوایة وبصّرھم من العمایة۔ وھداھم الی الدّ ین القویم، ودعا ھم الی الطریق المستقیم ۔
ثم قبضہ اللّٰہ الیہ قبض رافةواختیارور غبةوایثار، فمحمد (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) من تعب ھذہ الدارفی راحة۔
قد حُفّ با لملائکة الابرار،ورضوان الرَّبِّ الغفار،ومجاورة الملک الجبار۔
صلی اللّٰہ علی اٴبی نبیّہ وامینہ، وخیرتہ من الخلق وصفیہ والسلام علیہ ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔
خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کومبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پهونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔
(جب آپ مبعوث ہوئے ) تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے هوئے تهے، کفر و الحاد کی آگ میں جل ر ہے تهے، بتوں اور آگ کی پرستش کرر ہے تهے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تهے۔
source : http://www.tebyan.net