بے شک ھمارے اسلامی نظام اور انقلاب کے ثمرات میں سے ایک نماز جمعہ بھی ھے جس کے امت اسلامی کے لئے بھت سے فوائد ھیں مثلاً جس کا ایک ضمنی فائدہ مومنین کو ضروری چیزوں سے آگاہ کرنا ھے ، نماز جمعہ کے خطبوں سے قبل یا نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان تقاریر کا سلسلہ لوگوں کے لئے بھت مفید ھے ، چنانچہ شروع انقلاب سے آج تک مختلف اساتید دانشمندان اور خطباء کے ذریعہ مختلف موضوعات منجملہ اعتقادی ‘تربیتی ‘ اقتصادی‘ وغیرہ جیسے عظیم اور مھم مسائل پرنماز جمعہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ گفتگو ھوتی رھی ھے اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ بھی دوسرے لوگوں تک یہ آواز پھونچتی رھی ھے۔
ھم نے بھی ”اعتقادی نظام اور ارزش اسلام میں توحید کی اھمیت“ کے موضوع پر تقریریں کیں ھیں، جو الحمد للہ چھپ کر قارئین کرام تک پھونچ چکی ھیں، فی الحال بعض احباب اور دوستوں کی فرمایش اور ان کے اصرار پر” اسلام کے سیاسی نظریات “ کے عنوان کے تحت چند جلسہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیںاور امیدوار ھیں کہ خداوند عالم اس سلسلہ میں ھماری مدد فرمائے، او رجو بھی اس کی مرضی ھو اور امت اسلام کے لئے مفید ھو وہ ھمیں الھام کرے ، او ر ھماری زبان پر جاری کرے ، تاکہ شھید پرور اور حزب اللٰھی امت تک ھم اس کو پھونچا سکیں ، ھماری اس بحث کا عنوان بھت وسیع ھے ، اس کے اندر مختلف موضوعات کی بحثیں کی جاسکتی ھیںچاھے وہ عمیق ھوں یا سادی اور رواں۔
مقدمہ
بے شک ھمارے اسلامی نظام اور انقلاب کے ثمرات میں سے ایک نماز جمعہ بھی ھے جس کے امت اسلامی کے لئے بھت سے فوائد ھیں مثلاً جس کا ایک ضمنی فائدہ مومنین کو ضروری چیزوں سے آگاہ کرنا ھے ، نماز جمعہ کے خطبوں سے قبل یا نماز جمعہ اور نماز عصر کے درمیان تقاریر کا سلسلہ لوگوں کے لئے بھت مفید ھے ، چنانچہ شروع انقلاب سے آج تک مختلف اساتید دانشمندان اور خطباء کے ذریعہ مختلف موضوعات منجملہ اعتقادی ‘تربیتی ‘ اقتصادی‘ وغیرہ جیسے عظیم اور مھم مسائل پرنماز جمعہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ گفتگو ھوتی رھی ھے اور ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ بھی دوسرے لوگوں تک یہ آواز پھونچتی رھی ھے۔
ھم نے بھی ”اعتقادی نظام اور ارزش اسلام میں توحید کی اھمیت“ کے موضوع پر تقریریں کیں ھیں، جو الحمد للہ چھپ کر قارئین کرام تک پھونچ چکی ھیں، فی الحال بعض احباب اور دوستوں کی فرمایش اور ان کے اصرار پر” اسلام کے سیاسی نظریات “ کے عنوان کے تحت چند جلسہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ھیںاور امیدوار ھیں کہ خداوند عالم اس سلسلہ میں ھماری مدد فرمائے، او رجو بھی اس کی مرضی ھو اور امت اسلام کے لئے مفید ھو وہ ھمیں الھام کرے ، او ر ھماری زبان پر جاری کرے ، تاکہ شھید پرور اور حزب اللٰھی امت تک ھم اس کو پھونچا سکیں ، ھماری اس بحث کا عنوان بھت وسیع ھے ، اس کے اندر مختلف موضوعات کی بحثیں کی جاسکتی ھیںچاھے وہ عمیق ھوں یا سادی اور رواں۔
اگرچہ اس سلسلہ میں امام خمینی کی تحریک کے آغاز (یعنی1341ھجری شمشی )سے لے کر آج تک بھت سی گفتگو ھوتی رھی ھے اور مضامین و کتابیں بھی لکھی گئی ھیں، اس طرح بھت سی تقاریر بھی ھوتی رھیں ھیں ، لیکن معاشرہ کے متوسط فھم لوگوں کے لئے بھت ھی کم اس طرح کے منظم مطالب بیان کئے گئے ھیں ، بھرحال احباب کا اصرا ر تھا کہ ان مطالب کو اس ترتیب سے بیان کیا جائے تاکہ سبھی لوگ اس سے استفادہ کرسکیں ،اور مختلف لوگوں کی خصوصا جوان طبقہ کی ضرورت کو پورا کرسکے ، الحمد للہ ھماری قوم تمدن کے لحاظ سے بھت عمدہ ھے ، خصوصاً آخری چند سالوں میں ھمارے معاشرے اور ماحول نے بھت زیادہ ترقی کی ھے ، اور بھت سے دقیق و عمیق مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ھیں ، بھر حال علمی او ر ادبی زبان ، علمی مراکز ( یونیورسٹی اور حوزات علمیہ )سے مخصوص ھے ، اور اگر عوام کے لئے گفتگو کرنا ھو تی ھے تو حتی المقدور علمی اصطلاحات نھیں ھونی چاھیئے تاکہ اکثر لوگ (چونکہ مطالعہ نھیں ھے ) ان ابحاث سے فائدہ اٹھا سکیں ، البتہ اس بات کی توجہ رکھنی چاھیے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کے تحت جو گفتگو کی جائے گی اتنی مفصل بحث ھے جس کو 1۰۰ جلسوں میں بھی بیان کرنا مشکل کام ھے ، اس وجہ سے ھم اپنے وقت اور جلسات کی محدودیت کی بنا پر کچھ منتخب مسائل کو چھیڑیں گے ، او ر جن مسائل کی زیادہ ضرورھے، اور جن کے سلسلہ میں سوالات اور شبھات کئے جاتے ھیں ،ان کے بارے میں بحث کریں گے۔
یہ توجہ رھے کہ ھمارا موضوع بنام”اسلام کا سیاسی فلسفہ “ تین کلموں سے مرکب ھے جس کے ھر ایک کلمہ کے لئے مفصل بحث درکار ھے اور سیاسی فلسفہ کی متعدداصطلاح ھیں (مثلاًعلم سیاست کا فلسفہ وعلم سیاست کے مقابل میں فلسفہ ٴ سیاسی) لیکن فلسفہ سیاسی سے ھماری یھاں مراد حکومت و سیاست کے بارے میں اسلامی نظریات کی توضیح وتفسیر ھے جو خاص اصولوں پر قائم ھے ، اور اسلامی حکومت کے سیاسی افکار بھی انھیں اصولوں کی بنیاد پرقابل وضاحت ھیں ۔
اسلام اور اس کا سیاسی نظریہ
جس وقت ھم یہ بحث کرتے ھیں کہ اسلام ”سیاست اور حکومت“ کے سلسلہ میں ایک خاص نظریہ رکھتا ھے ، جواسلامی اصول و ضوابط پر مبتنی ھے توسب سے پھلے یہ سوال ھوتاھے کہ کیا دین سیاست و حکومت کے بارے میں کوئی خاص نظریہ رکھتا ھے تاکہ اسلام اس سیاسی نظریہ کو بیان کرے ؟ یہ ایک ایسا مشھور سوال ھے جو صدیوں سے مختلف ممالک اور مختلف معاشرہ میں ھوتا آیا ھے ، ھمارے ملک میں بھی یہ سوال مورد بحث چلا آیا ھے خصوصا مشروطیت کے زمانے سے آج تک اس سوال پر کافی زور دیا گیا ھے ،اور اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بحث بھی ھوچکی ھے ،البتہ امام خمینی ۻ کے بیانات کے پیش نظر اور مرحوم شھید مدرس کے مشھور و معروف جملہ کہ ”ھمارا دین عین سیاست اور ھماری سیاست عین دین ھے“ جس نے ھمارے ذھن میں نقش بنا لیا ھے ، اور یہ مسئلہ ھم لوگوں کے لئے واضح اور روشن ھوچکا ھے، اور ھم اپنے لئے اس سوال کا واضح جواب رکھتے ھیں ، لیکن اسلام کے سیاسی نظریہ اور دین کی سیاست میں دخالت جیسے مسائل پر تحقیق اور بررسی کی ضرورت ھے ۔
مغربی تمدن میں دین کو جامعیت نھیں دی گئی ھے اور اس کو محدود کرکے پیش کیا گیا ھے کہ دین کا تعلق اجتماعی وسیاسی مسائل سے نھیں ھے ، فقط دین کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ ھونا چاھئے اور فرد کا رابطہ خدا سے کیا ھے اس اس چیز کو دین کے اندر مغربی تمدن کے نزدیک بیان کیا جاتا ھے، لھٰذا سیاسی، اجتماعی ، بین الاقوامی، حکومت اور لوگوں کے درمیان روابط اور حکومتوں کے آپسی روابط یہ سب انسان اور خدا کے رابطہ سے جداگانہ چیزیں ھیں، یعنی ان کا دین سے کوئی ربط نھیں ھے، لیکن اسلامی نقطہ نگاہ سے دین ایک وسیع مفھوم رکھتا ھے کہ جس کے اندر انسان کے فردی مسائل اجتماعی مسائل شامل ھیں اور اس کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ اور انسان کا آپس میں رابطہ اور دیگر سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی روابط بھی شامل ھیں یعنی دین کے اندر یہ ساری باتیں پائی جاتی ھیں، کیونکہ اسلام کے اعتبار سے خداوندعالم تمام دنیا پر حاکم ھے لھٰذا سیاست، اقتصاد (معاش) تعلیم وتربیت، مدیریت ارو وہ تمام مسائل جو انسانی زندگی سے متعلق ھیں وہ سب دینی احکام میں شامل ھیں۔
۔اسلامی سیاسی نظریہ کا بنیادی ھونا
اب جبکہ ھم نے قبول کرلیا کہ اسلام حکومت اور سیاست کے سلسلے میں اپنا ایک نظریہ رکھتا ھے ، اور حکومت و سیاست کے بارے میں اسلام کی طرف ایک خاص نظریہ کی نسبت دی جاسکتی ھے ،اس نظریہ کی ماھیت و کیفیت کے بارے میں چند سوال پیدا ھوتے ھیں۔
کیا اسلام کا سیاسی نظریہ ایک بنیادی نظریہ ھے یا کسی نظریہ کی تقلید ھے ؟یعنی کیا اسلام نے یہ نظریہ اختراع اور ایجاد کیا ھے اور خدا کے نازل شدہ تمام احکام تعبدی کی طرح اس نظریہ کو پیش کیا ھے یا یہ کہ اسلام نے کسی ایک نظریہ کو لے کر اس کی تائید کرکے پیش کیا ھے؟ اس سوال کے جواب میں ھم یہ عرض کرتے ھیں کہ اسلام نے بھت سے مسائل میں سیرت عقلاء کی تائید کی ھے ، جسے اصطلاحاً اسلام میں ”امضاء روش عقلاء“ کھا جاتا ھے، مثال کے طور پر عام انسان جس طرح کے معاملات کرتے ھیں مثلا خرید وفروخت ،کرایہ ،بیمہ وغیرہ ان کو سیرت عقلائی کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ، کہ لوگوں نے ان کو ایجاد کیا ھے اور شارع مقدس نے ان کی تائید فرمائی ھے ۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا حکومت ا ور سیاست کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ اسی طرح ھے کہ عقلاء نے کچھ حکومت و سیاست کے بارے میں نظریہ قائم کیئے اور ان کو قبول کیا ، اور شارع مقدس نے بھی ان نظریات کی تائید کرنے کے بعد قبول کرلیا ھے؟ یا یہ کہ خود اسلام نے اس سلسلے میں اپنا ایک خاص اور اختراعی نظریہ پیش کیا ھے ؟ اور دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں ا سلامی حکومت کے بارے میں پیش کیا ھے ؟ حقیقت یہ ھے کہ اسلام نے حکومت اور سیاست کے بارے میں سیاسی و اجتماعی زندگی کے لئے بنیادی و اختراعی اصولوں پر مشتمل ایک مجموعہ پیش کیاھے ، نہ یہ کہ اسلام کے نظریات تقلید ی اور تائیدی ھیںجو حضرات حکومت کے مختلف اشکالات اور سیاسی فلسفہ سے آگاھی رکھتے ھیں وہ جانتے ھیں کہ اس سلسلے میں مختلف نظریات موجود ھیں جن میں سے ایک نظریہ ” تئوکراسی“ (الھٰی حکومت ) بھی ھے یہ نظریہ عیسوی صدی کے وسط میں یعنی تقریباً ایک ھزار سال پھلے یورپ میں کلیسا (عیسائی کی عبادتگاہ) کی طرف سے پیش کیا گیا مخصوصاً کیتھولک عیسائیوں کے کلیسا کا کھنا یہ تھا کہ ھم لوگ خدا کی طرف سے لوگوں پر حاکم ھیں ، اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کا دوسرا فرقہ یہ کھتا ھے تھا کہ حضرت عیسی مسیح (ع) کا دین سیاست سے جدا ھے ، یعنی دین اور سیاست میں کوئی ربط نھیں ھے۔
بھر حال دوسرے فرقے کا اعتقاد یہ تھا کہ پاپ کو حکومت کا حق ھے، اور خدا کی طرف سے کلیسا کو ایسا صاحب اقتدار ھونا چاھئے جو لوگوں پر خدا کی طرف سے حکومت کر سکے ، اور لوگوں کو بھی خدا کے حکم سے پاپ کی اطاعت کرنا چاھئے اس نظریہ کو تئو لوکراسی حکومت نام دیا گیا ۔
جب یہ کھاجاتا ھے کہ اسلام عام لوگوں کی ایجاد شدہ حکومت کے علاوہ اپنے خاص نظریہ کے تحت اسلامی اور الھٰی حکومت کوپیش کرتاھے تو کیا اس سے یھی تئوکراسی حکومت مراد ھوتی ھے جسے مغرب اور یورپ میں سمجھا جاتاھے اور الٰھی حکومت ان کے تمدن میں اسی معنی میں پھچانی جاتی ھے ؟ اور جس طرح تئوکراسی حکومت میں خدا وند عالم نے حاکم کو وسیع پیمانے پر اختیار ات دیئے ھیں اور وہ اپنی مرضی کے مطابق لوگوں پر حکومت کرسکتا ھے اور لوگوں پربھی واجب ھے کہ اس حاکم کی مرضی کے مطابق عمل کریں ؟کیا حکومت الھٰی و ولایی کے مطابق بھی جس کا ھم دعوی کرتے ھیں اور اسلام کے ولایت فقیہ کے نظریہ کے تحت کیا ولی فقیہ اپنی مرضی کے مطابق لوگوں پر حکومت کا حق رکھتا ھے اور کیا اس کو یہ بھی حق ھے کہ جس طرح وہ چاھے قوانین بنا کر ان کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کرے ، اور لوگوں پر بھی اس کی اطاعت واجب ھے ؟
یہ سوال بھت اھم ھے اور ضروری ھے کہ اس سلسلے میں ایک مناسب بحث اور تحلیل کی ضرورت ھے تاکہ اس سلسلہ میں جو غلط فھمی پائی جاتی ھے وہ دور ھوجائے ۔
مذکورہ سوال کے جواب کا خلاصہ یہ ھے کہ جس الھی حکومت کے ھم معتقد ھیںاور وہ تئوکراسی حکومت (جو مغرب اور یورپ میں معروف ھے ) زمین تا آسمان فرق رکھتی ھے ، یہ غلط فھمی نھیں ھونی چاھئے کہ الھی حکومت اسلام کی نظرمیں وھی حکومت ھے کہ جس کے عیسائی خصوصا ًفرقہ کیتھولک خدا اور پاپ بارے میں قائل ھیں۔
سیاسی صاحب نظرافراد نے حکومت کے نظریات کی کثرت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ھے :
(1) ڈکٹیٹری حکومت(شھنشاھی حکومت)
(2)ڈیموکراٹک (جمھوری حکومت) اگرچہ ان دونوں کی بھت سی قسمیں موجود ھیں لیکن کلی طور پر حکومت کی دو قسمیں ھیں ۔
پھلی قسم ایسی حکومت جس میں حاکم اپنی مرضی سے حکومت کرتا ھے اور خود فرمان جاری کرتا ھے اور مختلف طریقوں سے اپنی حکومت کو چلاتا ھے اور اپنی فوجی طاقت کے ذریعہ لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ھے ۔
دوسری قسم ایسی حکومت جس میں لوگوں کی رائے دخالت رکھتی ھے اور لوگ اپنی مرضی سے اپنے حاکم کو چنتے ھیں اور حاکم بھی لوگوں کی خواھشات کے مطابق عمل کرنے کے پابند ھوتے ھیں یعنی ان کی حکومت لوگوں کے ارادے اور ان کی چاھت پر موقوف ھوتی ھے۔
۔اسلامی حکومت کی حقیقت اور اس کے ارکان
جن لوگوں نے حکومت کے سلسلہ میں مغربی تقسیم کو قبول کیا ھے اور معتقد ھیں کہ حکومت دو حال سے خالی نھیں ھے حکومت یا ڈکٹیٹری ھے یا ڈیموکراٹک اور جمھوریت ، اب یھاں یہ سوال ھوتا ھے کہ اسلامی حکومت ڈکٹیٹری حکومت ھے یعنی جو بھی حکومت پر ھو مختار ھے مثلا ًھمارے زمانہ میں ولی فقیہ اپنی طاقت و قدرت اور اسلحہ کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کرتا ھے اور اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ھے یا اسلامی حکومت کا کوئی نیا اندازھے ؟ یا اسلامی حکومت کی کوئی تیسری شکل ھے کہ نہ ڈکٹیٹری ھے اور نہ جمھوریت ؟
بھر حال حکومت کی دوگانہ تقسیم ایسی ھیں جن کو تمام لوگوں نے قبول کیا ھے لھٰذا اسلامی حکومت مذکورہ تقسیم سے خارج نھیں ھے یا یہ حکومت ڈکٹیٹری ھے یا جمھوری اگر اسلامی حکومت جمھوری ھے تو اسلامی حکومت کو یورپی حکومت میں پائے جانے والے طور طریقے اپنانا چاھئیں، اگر ایسا نھیں ھے تو پھر اسلامی حکومت ڈکٹیٹری حکومت ھوگی جو صرف خاص فرد کی مرضی پر تکیہ زن ھوتی ھے اور اس سلسلہ میں تیسر ے نظریہ کو انتخاب کرنے کی ضرورت نھیںھے،لھٰذا ضرورت ھے اس چیز کی کہ اس اھم سوال کا جواب دیں اور بیان کریں کہ اسلامی حکومت ڈکٹیٹری ھے یا جمھوری یا کوئی تیسری قسم انھیں سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی ھوتاھے کہ اسلامی حکومت کے مقدمات اور اس کے ارکان کیا ھیں ؟ وہ کون سے ارکان ھیں کہ جن پر حکومت اسلامی کو توجہ رکھنی چاھئے تاکہ واقعی طور پر حکومت اسلامی ھوسکے ؟ جو حضرات ھمارے مذھب اور فقہ کے بارے میں معلومات رکھتے ھیں ان کو معلوم ھے کہ اگر نماز کے ارکان میں کوئی ایک بھی رکن چھوٹ جائے چاھے عمداًطور پر چھوڑا جائے یا سھواً چھوٹ جائے اس کی نماز باطل ھوجائیگی در حقیقت ارکان نماز سے ھی نماز ھے اسی طرح اسلامی حکومت کے ارکان ھونا چاھئیے کہ اگر وہ ارکان موجود ھوں تو اس حکومت کو اسلامی حکومت کھا جائے گا اوراگر وہ ارکان نھیں ھیں یا اگر ان میںخلل (کمی و زیادتی ) پائی جائے تو اس کو حکومت اسلامی نھیں کھا جائے گا ۔
انھیں ارکان کی اھمیت کے پیش نظر جن پر اسلامی حکومت موقوف ھوتی ھے، ھم ان ارکان سے آگاہ ھونے کی خاطر ان کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ھیں، کیونکہ جب ھم ان ارکان کو پھچان لیں گے تو اسلامی حکومت کا معیار و ملاک ھمارے ھاتہ میں آجائے گا کہ جس کے ذریعہ سے ھم اسلامی اور غیر اسلامی حکومت کے فرق کو مکمل طریقہ سے پھچان لیں گے اسی وجہ سے اس اھم سوال کا جواب بھت ضروری ھے ۔
۔اسلامی حکومت کا ڈھانچہ ، اس کے اختیارات اور وظایف کی وسعت
اس سلسلہ کا ایک دوسرا سوال یہ ھے کہ کیا اسلام نے حکومتِ اسلامی کی ایک خاص شکل وصورت معین کی ھے؟ جیساکہ آپ حضرات کو معلوم ھے کہ آج کی اس دنیا میں حکومت کے کیا ڈھانچے اور طور طریقے ھیں اور قدیم زمانے میں بھی حکومت کی شکل وصورت ھوتی تھی جو اس وقت نھیں ھے۔
موجودہ حکومتوں کی بعض قسمیں اس طرح ھیں:
1۔بادشاھی حکومت،مشروطہ ومطلق۔
2۔ جمھوری حکومت (ریاستی یا پارلیمینٹ کی حکومت)۔
3۔ الھٰی حکومت۔
کیا اسلام نے حکومت کی ان شکلوں میں سے کسی ایک کو قبول کیا ھے یا اسلام نے خود ایک خاص شکل معین کی ھے جو مذکورہ شکلوں سے فرق رکھتی ھے یا یہ کہ اسلام نے حکومت کے لئے کو ئی خاص طریقہ کو نھیں اپنایا ، اور فقط حکومت کے لئے چند معیار معین کئے ھیں جن کا ھر طرح کی حکومت میں لحاظ کرنا ضروری ھے؟ مثال کے طور پر اسلام کا حکم ھے کہ حکومت میں عدالت کا لحاظ رکھا جائے لیکن عدالت کا کس طرح لحاظ رکھا جائے؟ کیا عدالت زمان ومکان کے اعتبار سے لحاظ کی جائے؟ چنانچہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی بھی وقت زمان ومکان کے اعتبار سے اس طرح کی عدالت لحاظ کیا جاسکتا اور اسلام نے ایک خاص شکل وصورت کی عدالت برتنے پر اصرار نھیں کیا ھے؟! اور اسلام کی نظر میں حکومت کی مناسب شکل اس کے معیار کی رعایت پر ھے ۔
اور اگر اسلام نے حکومت کے لئے کسی خاص شکل وصورت کا انتخاب کیا ھے تو کیا اسلام کی نظر میں اس حکومت کا ڈھانچہ ایک ثابت اور پائیدار ڈھانچہ ھے ؟ یا یہ کہ اس کا ڈھانچہ غیر پائیدار ھے کہ جس میں اکثر و بیشتر تبدیلی و تغیر ھوسکتی ھے ؟
اس طرح کے سوالات اسلامی حکومت کے ڈھانچے اور شکل وصورت کے بازے میں ھوتے رھتے ھیں اس لئے ضروری ھے کہ ان کے جوابات بھی دئے جائیں ۔ فلسفہٴ حکومت کے سلسلے میں ایک دوسرا سوال یہ ھوتا ھے کہ اسلامی حاکم اور رئیس چاھے وہ کوئی ایک فرد ھو یا ایک گروہ یا ایک مجلس وانجمن کی شکل میں ھو، یعنی اسلامی حکومت کے اختیارات کیا کیا ھیں ؟ اور اسی طرح حکومت کی ذمہ داریاں کیا کیا ھیں ؟ کیو نکہ گذشتہ زمانے اور عصر حاضر کی حکومتوں میں ذمہ داریوں کے لحاظ سے کافی فرق نظر آتا ھے بعض حکومتیں اختیارات اور وظایف کے لحاظ سے کافی محدود ھوتی ھیں مثلا ًیہ کہ بعض حکومتیں فقط لوگوں کی عام حفاظت کی ذمہ دارھوتی ھیں جو اھم ھوتے ھیں، اور اکثر کاموں میں خود لوگوں کی اپنی ذمہ داری ھوتی ھے لیکن بعض حکومتوں کے اختیارات بھت وسیع ھوتے ھیں جس کے نتیجہ میں اس کے وظایف اور ذمہ داریاں بھی وسیع ھوتی ھیں اس حکومت کی ذمہ داریاں بھت مھم اور خطر ناک ھوتی ھیں کہ جن کے بارے میں اسے جواب دہ ھونا ھوتا ھے اور ان ذمہ داریوں کو تمام لوگوں پر نھیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ لوگوں کو حق ھے کہ وہ حکومت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں مطالبہ کریں ۔
اسی طرح یہ بھی روشن ھونا چاھیے کہ اسلام کے سیاسی فلسفہ کے تحت اسلامی حکومت نے کیا کیا اختیارات و ذمہ داریاں معین کی ھیں اور بلا شبہ یہ اختیارات و ذمہ داریاں مناسب اور متعادل ھونی چاھئیں، جن مقدمات پر کوئی کام موقوف ھو ان مقدمات کو فراھم نہ کرکے کسی کے سپرد کوئی ذمہ داری کی جائے تو یہ صحیح نھیں ھے ۔
بھر حال اسلامی حکومت کے اختیارات اور اس کی ذمہ داریاں کیاکیا ھیں ؟ اس اھم سوال کے بارے میں ھم گفتگو کریں گے۔
۔اسلامی حکومت میں لوگوں کا کردار اور چند دیگر سوالات آج کے انھیں اھم سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ھے کہ حکومت اسلامی میں لوگوں کا کردار کیا ھے ؟ لوگوں کے اختیارات اور ان کی ذمہ داریاں کیا کیا ھیں؟انھیں سوالوں میں ایک سوال یہ بھی ھے کہ صدر اسلام میں حضرت رسول خدا ، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام حسن علیہ السلام کی حکومتوں کی کیاشکل تھیں؟ اسی طرح بنی امیہ و بنی عباس وغیرہ کی حکومتیں کس حد تک اسلامی تھیں؟
اور جس وقت ھم اسلامی حکومت کی گفتگو کرتے ھیں تو اس سے مراد مذکورہ حکومتوں سے کون سی حکومت مراد ھوتی ھے؟ اور تاریخ میں اسلامی حکومت کی تشکیل کس طرح ھوتی آئی ھے کہ نتیجةً اسلامی حکومت کی یہ شکل اسلامی انقلاب کے ذریعہ ایران میں بھی وجود میں آئی؟
البتہ مذکورہ سوالات کے ضمن میں دوسرے جزئی سوال بھی ھوتے ھیں منجملہ یہ سوال کہ کیا ھماری یہ حکومت سو فی صد اسلامی حکومت ھے؟ اور کیا اس میں اسلامی حکومت کے تمام معیار و ضوابط موجود ھیں؟ اور اگر اس میں وہ تمام معیار وضوابط موجود ھیں تو کیا اس حکومت نے ان کی رعایت کی ھے؟ اسی طرح یہ سوال کہ اس حکومت میں کیا کیا نقص ھیں؟
اسلام کے سیاسی نظریہ کو پھچاننے کے طریقے
قبل اس کے کہ ھم مذکورہ سوالات اور شبھات کا جواب دیں اور فلسفہ سیاسی اسلام میں وارد ھوں اس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ھیں اس روش وطریقے کو پھلے بیان کردیں جس کو مذکورہ بحث کی تحقیق اور بر رسی میں اپنائیں گے اس بحث کی متدلوژی ( طوروطریقہ) کیا ھے ، بھر حال یہ ایک مقدماتی بحث ھے کہ جس کو شروع میں بیان کردینا چاھئے، کیا یہ ھماری بحث کا طریقہ اور عقلی روش ھے؟یعنی کیا ھم عقلی دلیلوں کے ذریعہ اسلام کے نظریات کو بیان کریں گے ؟ یا ھماری روش اور شیوہ بحث تعبدی اور نقلی ھوگا یعنی قرآن وسنت کے تابع ھے؟ گویا اس حکومت کے اصول وضوابط قرآن وروایات سے اخذ کئیے جائیں گے؟
یا یہ کہ اسلامی سیاست ایک تجربہ کی طرح ھے؟ کہ جس کے درست اور غیر درست ھونے کو تجربہ ھی ثابت کرسکتا ھے؟ اس صورت میں ھماری گفتگو کا شیوہ تجربہ ھوگا اور فیصلہ کرنے کا معیار بھی تجربہ ھوگا ۔
بھر حال چونکہ ھماری بحث عقلانی پھلو رکھتی ھے اسی وجہ سے اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ عقلی بحث کی کم از کم دو قسمیں ھیں:
(1) جَدَلی طریقہ ۔
(2) برھانی اور دلائل کا طریقہ ۔
جس وقت ھم کسی گفتگو کو شروع کرتے ھیں اور عقلی لحاظ سے کسی ایک موضوع کی تحقیق کرتے ھیں تو کبھی ایسے اصول ومقدمات سے بحث کرکے مجھول نتیجہ تک پھنچتے ھیں کہ جن مقدمات اور اصول کوھم اور ھمارا مخالف قبول کرتا ھے اس کے مقابلہ میں وہ برھانی راہ وروش ھے کہ جس میں تمام مقدمات بھی مورد بحث قرار پاتے ھیں گویا بحث خودقضایا اولیہ ویقینیات وبدیھیات سے ھوتی ھے تاکہ ان کے ذریعہ ھمارا استدلال اور برھان یقینی اور قطعی قرار پائے، اور ظاھر ھے اگر ھم اس راستہ کو اختیار کریں تو بحث طولانی ھوجائے گی۔
مثال کے طور پر اگر ھم برھان کے ذریعہ ثابت کرنا چاھیں کہ حکومت اسلامی میں عدل وانصاف رعایت ھونا چاھئے تو سب سے پھلے ھمیں عدل کے مفھوم اور معنی کو واضح کرنا ھوگا اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں کہ عدالت کا کس طرح لحاظ رکھا جائے؟ اسی طرح یہ سوال کہ عدالت اور آزادی ایک جگہ جمع ھوسکتی ھیں یا نھیں نیز اسی طرح یہ سوال کہ عدالت کے معیار کو کون معین کرے؟کیا عدالت کے معیار کو خدا وندعالم معین کرے یا عقل؟
مذکورہ سوالات کے حل ھونے کے بعد یہ سوال ھوتاھے کہ اس سلسلہ میں عقل کس حد تک فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ھے؟ کیا عقل کی قضاوت ایک خاص مقدار میں ھے یا مطلق طور پر اس طرح یہ بحث طول پکڑجاتی ھے یھاں تک کہ اصول اولیہ اور مسائل معرفت شناسی کے بارے میں مورد سوال قرار پاتے ھیں بھرحال ان کو بھی واضح وروشن ھونا چاھئیے، خلاصہ یہ عقل کیا ھے؟ اور اس کی دلالت کس طرح کی ھے؟ عقل کس طرح استدلال کرتی ھے؟ اور عقل کا اعتبار اور اس کا حکم کس حد تک قابل قبول ھے؟ اور ظاھر ھے کہ اگر ھم اس طرح کے مسائل پر تحقیق کریں تو مختلف علوم سے بحث کرنی پڑے گی ، جو ایک طولانی مدت چاھتی ھے جو مفقود ھے۔
بھر حال برھانی بحث کرنا اپنی جگہ مقدس اور محترم ھے لیکن جیسا کہ ھم نے اس سے پھلے بھی اشارہ کیا کہ برھانی و استدلالی بحث کرنے کے لئے بھت سے علوم کا سھارا لینا پڑتا ھے اور بھت کم افراد ھی ان علوم میں مھارت رکھتے ھیں اور علم کے ماھر انسان اس کے محدود مسائل تک ھی رسائی رکھتے ھیں خلاصہ یہ کہ یہ کام کافی مشکل ھے اور اس طرح کے مسائل کو واقعاً حل کرنے ایک طویل مدت درکار ھے ھم بھی اپنی گفتگو میں اگر اسی برھانی راستہ کو اپنائیں اور الگ الگ مسائل سے بحث کرکے بدیھی اصول اور مبنا تک پھنچیں تو ھمارے پاس وقت بھت کم ھے،لھٰذا اپنی بحث کو منزل مقصود تک نھیں پھچا سکتے، اسی وجہ سے جھاں برھانی بحث سادہ اور غیر پیچیدہ ھے وھاں برھانی اور استدلالی بحث کریںگے اور اس کے علاوہ تمام موارد میں جدلی بحث کریں گے کیونکہ جدلی بحث کا مناسب ترین طریقہ ھے۔
در حقیقت یہ ھدف اور نتیجہ تک پھنچنے کے لئے یہ راستہ درمیانی راستہ ھے ،یعنی یہ راستہ دوسروں کو قانع کرنے کے لئے عام راستہ ھے ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں بارھا دشمن کو قانع کرنے کے لئے اور اپنی طرف سے اتمام حجت کے لئے اس کو بیان کیا ھے ، اور ھمیں بھی حکم دیا ھے کہ ھم بھی اس راستہ کو اپنائیں او ردوسروں سے اسی کے ذریعہ بحث اور گفتگوکریں،ارشاد باری تعالیٰ ھوتا ھے :
( اٴُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوٴعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْھمْ
بِالَّتِی ھیَ اٴَحْسَن۔۔۔) (1)
”حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دو، اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث وجدل کرو۔“
حوالہ
1 سورہٴ نحل آیت 125
source : http://shiastudies.com