اردو
Tuesday 30th of April 2024
0
نفر 0

فرشتوں کا معصوم ہونا

فرشتوں کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض صفات (اس گروہ کے بارے میں ہیں جس کا کام الله کی عبادت کرنا ہے) کی طرف مذکورہ عبارتوں میں اشارہ ہوا تھا: 

نہ آنکھوں کی نیند انھیں جھکاتی ہے، نہ تسبیح خدا کرنے سے تھکتے ہیں، نہ سہو ونسیان اُن پر عارض ہوتا اور نہ بدن کی سستی ۔

قرآن مجید میں بھی صراحت سے بیان ہوا ہے کہ وہ ہرگز گناہ اور معصیت سے آلودہ نہیں ہوتے: ”بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُونَ، لَایَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُونَ“ (۱)اور عذاب پر مامور فرشتوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ”لایعصون الله ما اٴمرھم؛اس کے حکم کی ہرگز مخالفت نہیں کرتے“(۲) ۔

بعض حضرات تصور کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں معصوم ہونے یا معصوم نہ ہونے کا کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن یہ بات صحیح نظر نہیں آتی، البتہ یہ بات صحیح ہے کہ اُن کے اندر گناہ کرنے کے محرکات اور اشباب جیسے شہوت اور غضب نہیں ہیں (یا بہت ہی کم ہیں؛ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ فاعل مختار (یعنی اپنے اختیار سے کام انجام دیتے) ہیں اور حکم کی مخالفت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ الله کی سزا کے ڈر سے خوفزدہ ہیں: ”وَھُم مِنْ خَشْیَةٍ مُشْفِقُون“(۳) یہ سب عبارتیں نشاندہی کرتی ہیں کہ معصیت پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ معصوم اور گناہوں سے پاک ہیں ۔

یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر بعض روایتوں میں، فرمان پروردگار کی اطاعت میں بعض فرشتوں کی سستی اور اس سستی کی وجہ سے اُن کی تنبیہ کے سلسلے میں کچھ عبارتیں آئی ہیں تو یہ ویسے ہی ہیں جیسے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں ترک اولیٰ کے بارے میں کہا گیا ہے اور یہ بات ہم جانتے یں کہ ترک اولیٰ گناہ کے معنی میں ہرگز نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی ممکن ہے کوئی کام بذات خود مستحب اور اچھا ہو لیکن دوسرے بہتر کام سے مقائسہ کرتے وقت، اس (مستحب کام) کو ترک اولیٰ کہا جائے ۔

اِن مسائل کی تفصیلات کو دوسری جگہ پر مطالعہ کرنا چاہیے ۔

۱۔ سورہٴ انبیاء: آیت۲۶ و۲۷․

۲۔ سورہٴ تحریم’ آیت۶․

۳۔ سورہٴ انبیاء: آیت ۲۸․

ملائکہ کیسے ہوتے ہیں؟!

قرآن مجید کی آیتوں میں، ملائکہ، فرشتے، ان کے صفات، خصوصیات، اعمال، کام اور ان کے حوالہ کی گئیں مختلف ذمہ داریوں کے بارے میں کافی بیانات نظر آتے ہیں کہ اگر انھیں جمع کردیا جائے تو مکمل کتاب ہوجائے گی ۔

اسلامی حدیثوں میں بھی فرشتوں، کے اعمال، صفات اور درجات کے سلسلے میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی ہے؛ لیکن شاید اُن میں سے کسی بھی فرشتوں کی ماہیت اور حقیقت کے بارے میں کوئی صاف اور صریح بیان نظر نہیں آتا، اسی وجہ سے علماء کے درمیان اُن کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں گفتگو جاری ہے ۔

علمائے علم کلام بلکہ اکثر مسلمان علماء، فرشتوں کو (جسم لطیف سے) ایک جسمانی مخلوق سمجھتے ہیں، بعض عبارتوں میں فرشتوں کی تخلیق کے اصل مادّے کے عنوان سے لفظ ”نور“ آیا ہے اور اس مشہور عبارت میں جو بہت سی کتابوں میں تحریر ہے یہ جملہ دیکھنے میں آتا ہے: ”المَلَکُ جِسمٌ نوریّ․․․․“۔

علامہ مجلسی نے تو اس سلسلہ میں یہاں تک کہدیا کہ: ”شیعہ اثتاعشری بلکہ تمام مسلمان البتہ بعض فلسفی جماعتوں کے علاوہ․․․․ معتقد ہیں کہ ملائکہ وجود رکھتے ہیں، ان کے جسم، لطیف اور نورانی ہیں وہ مختلف شکل وشمائل اختیار کرسکتے ہیں․․․․ نیز پیغمبران الٰہی اور ان کے معصوم اوصیاء اُنھیں دیکھتے تھے“۔ (۱)

۱۔ بحارالانوار: ج۵۶، ص۲۰۲ (باب حقیقة الملائکة)

دوسرے لفظوں میں، فرشتے نوری جسم، جنّات ناری جسم اور انسان کثیف (سخت) جسم رکھتے ہیں ۔

دوسرے قول کا تعلق بعض فلسفی حضرات سے ہے جو ملائکہ کو جسم وجسمانیات سے مجرّد و مُبرّاجانتے ہیں آور معتقد ہیں کہ ان میں ایسے صفات پائے جاتے ہیں جو جسم و جسمانیت میں نہیں سماسکتے ۔

شارح نہج البلاغہ مرحوم ”حبیب الله خوئی“ نے ”منہاج البراعة“ میں فرشتوں کے بارے میں دیگر اقوال بھی بیان کئے ہیں، جو سب مل کر چھ قول ہوتے ہیں؛ لیکن ان میں سے بعض اقوال کے ماننے والے بہت ہی کم ہیں ۔

بیشک فرشتوں کا وجود (خصوصاً اُن صفات، درجات اور اعمال کے ساتھ جو اُن کے سلسلے میں قرآن مجید نے بیان کئے ہیں) اُن غیبی امور میں سے ہے جنھیں مذکورہ صفات اور خصوصیات کے ساتھ ثابت کرنے کے لئے منقولہ دلیلوں کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔

قرآن مجید میں ان کے بارے میں کچھ خصوصیات اس طرح بیان ہوئی ہیں:

۱۔ فرشتے عاقل اور باشعور مخلوق ہیں ۔

۲۔ سب کے سب فرمان الٰہی کے سامنے تسلیم اور کبھی بھی معصیت اور نافرمانی نہیں کرتے ۔

۳۔ بعض کے اوپر خداوندعالم کی جانب سے مہم وظائف اور مختلف قسم کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، اُن میں سے بعض حاملانِ عرش الٰہی، بعض مدبرات امر، بعض فرشتے روحوں کو قبض کرنے والے، بعض انسانوں کے اعمال پر نگران، کچھ فرشتے خطرات سے انسان کی خفاظت کرتے ہیں، بعض موٴمنین کے لئے جنگ کے میدان میں الٰہی مددگار ہوتے ہیں، کچھ فرشتے عذاب اور سرکش قوموں کو سزا دینے پر مقرر ہیں اور بعض فرشتے وحی کے مبلّغ، انبیاء کو الٰہی پیغام پہنچاتے اور ان کے لئے آسمانی کتابیں لاتے ہیں ۔

۴۔ فرشتوں کے درجات مختلف ہیں، وہ سب ایک رتبہ میں نہیں ہوتے ۔

۵۔ ہمیشہ تسبیح اور حمد الٰہی بجالاتے ہیں ۔

۶۔ کبھی انسان کی صورت یا دیگر صورتوں میں انبیاء علیہم السلام یا شائستہ انسانوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں، جیسے جناب مریم علیہاالسلام۔

ان کے علاوہ دیگر صفات بھی بیان ہوئے ہیں، اُن سب کی تشریح اس مختصر کتاب میں نہیں سماسکتی ۔

اگرچہ اس بحث وگفتگو کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوتا کہ فرشتے جسم وجسمانیات سے مجرد ہیں یا مجرد نہیں ہیں،لیکن آیات واحادیث (اگر ہم ان کے بارے میں کسی خاص توجیہ یا تفسیر مدنظر نہ رکھیں) سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اس کثیف اور سخت عنصر سے پیدا نہیں ہوئے ہیں، لیکن بہرحال بالکل مجرد بھی نہیں ہیں، اس لئے کہ اُن کے لئے زمان و مکان اور وہ دیگر اوصاف جو جسم وجسمانیت کے لئے لازم اور ضروری ہوتے ہیں، آیات اور احادیث میں بیان ہوئے ہیں ۔

مولا امیرالمومنین علی علیہ السلام کے کلام میں آس حصّہ (اور اسی طرح خطبہ اشباح) میں جو الفاظ بیان ہوئے ہیں وہ اسی نظریہ کی تائید کرتے ہیں ۔

بہرحال اجمالی طور پر ملائکہ کے وجود کے بارے میں عقیدہ رکھنا اُن مسائل میں سے ہے جن پر قرآن مجید تاکید کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ”آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ؛ پیغمبر (صلی الله علیہ وآلہ وسلّم) اُن سب پر ایمان لے آئے ہیں جو اُن کے پروردگار کی جانب سے اُن پر نازل ہوا ہے اور تمام مومنین بھی خدا، فرشتے، الٰہی کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئے ہیں “۔ (۱)

یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ بعض نادان لوگوں نے اُن لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے جو مکمل طور پر عالم غیب کے منکر ہیں، ملائکہ کی ایسی طاقت اور توانائی سے تفسیر کی ہے جو انسانی طبیعت اور دیگر مخلوقات میںپائی جاتی ہے، حالانکہ قرآنی آیات کا ایک اجمالی مطالعہ مکمل طور پر اس طرز کی نفی کردیتا ہے چونکہ ملائکہ اور فرشتوں کے لئے عقل ، شعور، ایمان، اخلاص اور عصمت ثابت ہے ۔

۱۔ سورہٴ بقرہ: آیت۲۸۵․

ملائکہ کی اقسام

ملائکہ میں بہت سی انواع واقسام پائی جاتی ہیں، جن کی طرف آیات اور احادیث میں اشارہ ہوا ہے، ان میں سے عمدہ وہی چار گروہ ہیں جن کا ذکر مولا علی علیہ السلام کے اِس خطبہ میں ہوا ہے (پروردگار کی عبادت کرنے والے، انسانوں کے اعمال کا حساب وکتاب اور ان کی حفاظت اور نگرانی کرنے والے، رسولوں کے لئے پیغام رساں اور حاملان عرش) ۔

لیکن جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں، قرآنی آیات میں ان کی دیگر اقسام کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے، منجملہ ظالم اور سرکش امّتوں پر عذاب کرنے پر مقرر، مومنین کی مدد کرنے کرنے والے، مدبرات امر اورروحوں کوقبض کرنے والے لیکن اُن سب کو مدبرات امر میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے یعنی جو کائنات کے امور کی تدبیر کرتے ہیں ۔

سنّت الٰہی اس پر جاری ہے کہ اپنی قدرت وعظمت اور دیگر اغراض ومقاصد کو ظاہر کرنے کے لئے کائنات کے امور کی ان فرشتوں کے ذریعہ دیکھ بھال کرے جو اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں، اس کی اطاعت میں سُستی، بھول چوک اور کوئی کمی نہیں کرتے، ان میں سے ہر قسم کے فرشتوں کے لئے ایک معیّن اور منظم لائحہٴ عمل پروگرام ہوتا ہے تاکہ وہ الله کے لامحدودنلک کے ذمہ دار ہوجائیں ۔

جس وقت انسان، فرشتوں کی انواع واقسام ان کے کام اور اُن کی عظیم ووسیع مصروفیتوں کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے تو اسے اپنے اندر چھوٹے پن اور حقارت کا احساس ہوتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس وسیع اور حق کے خدمت گزاروں سے بھری ہوئی کائنات میں الله کے لشکر کی صفوں میں اس کے فرمانبردار بندوں کے درمیان میری کیا حیثیت ہوسکتی ہے؟

اگر اطاعت اور عبادت الٰہی وہی ہے جو وہ انجام دیتے ہیں تو میری اطاعت وعبادت کی کیا حقیقت ہے؟ اور اگر قدرت وتوانائی اُسی کو کہا جاتا ہے جو ان کے پاس ہے تو میری طاقت کی قدر وقیمت اور کیا حیثیت ہے؟ مختصر یہ کہ ایک طرف اس کائنات اور اس کے بنانے والے کی عظمت اور دوسری طرف انسان کے چھوٹے پن، حقارت اور اس کی مصروفیات سے آشنائی ہوتی ہے اور یہ بات بذات خود فرشتوں کی خلقت کے فلسفوں میں سے ایک فلسفہ ہے ۔

عرش اور حاملان عرش الٰہی

قرآن مجید کی آیتوں میں تقریباً بیس مرتبہ عرش الٰہی کا تذکرہ ہوا ہے جبکہ اس کے بارے میں اسلامی روایات اور حدیثوں میں اس سے زیادہ تذکرہ ملتا ہے، بعض حدیثوں کے مطابق، عرش الٰہی کی عظمت اس قدر ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے:

تمام آسمان، سب زمینیں اور جو کچھ بھی ان کے اندر موجود ہے، عرش الٰہی کے مقابلہ میں عظیم بیابان میں پڑی ہوئی ایک انگوٹھی کی طرح ہے ۔

اسی طرح بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ الله کے بزرگترین فرشتے اگر قیامت تک تیزی سے پرواز کریں تو بھی ساق عرش تک نہیں پہنچ سکتے ۔

نیز آیا ہے کہ خداوند عالم نے عرش کے لئے ہزار زبانیں خلق کی ہیں اور الله کی تمام صحرائی یا دریائی مخلوق کی صورتیں عرش ان کے اندر موجود ہیں ۔

روایات میں آیا ہے کہ جس وقت عرش کو پیدا کیا گیا تو خداوندعالم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کو اٹھائیں لیکن وہ اسے وہ اُٹھا نہیں سکے، پھر فرشتوں پر فرشتے پیدا کئے، مگر سب کے سب عاجز رہ گئے، خداوندعالم نے اپنی قدرت سے اُسے سنبھالا پھر اُن آٹھ فرشتوں کوحکم دیا جنھیں عرش الٰہی کو اٹھانے پر مقرر کیا گیا تھا کہ اسے اٹھائیں، انھوں نے عرض کیا: جس مقام پر وہ سب فرشتے عاجز ہوجائیں تو پھر ہماری کیا بساط ہے؟ اُس وقت حکم ہوا کہ الله کے نام ”لاحول ولاقوة الّا بالله العلی العظیم“ کے ذکر اور محمد وآل محمد پر درود کے ذریعہ مدد لیں، انھوں نے ایسا ہی کیا اور اُن کے لئے وہ کام آسان ہوگیا۔ (۱)

۱۔ منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ: ج۲، ص۳۲۔۳۵ (مرحوم علامہ مجلسیۺ نے عرش اور کرسی سے متعلق روایتوں کو بحارالانوار کی جلد ۵۵ میں تفصیل سے تحریر کیا ہے منجملہ مذکورہ روایتوں کو صفحہ۵،۱۷، اور ۵۵ پر ذکر کیا ہے) ۔

یہ سب اشارے اور کنائے عرش الٰہی کی عظمت کو بیان کرتے ہیں، اب رہا یہ سوال کہ ”عرش“ کیا ہے؟ تو اس سلسلہ میں دانشمندان کے درمیان ابھی گفتگو باقی ہے، البتہ تفصیل سے اس بحث میں داخل ہونا ہمیں اصل مقصد سے دور کردے گا، اسی وجہ سے ہم ایک مختصر اور گویا اشارے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں:

بادشاہ اور سلاطین کے یہاں دو طرح کے تخت ہوتے تھے، چھوٹا تخت جس پر عام دنوں میں بیٹھتے اور اپنی حکومت کے امور انجام دیتے تھے اور بلند پایوں والا تخت جو خاص دن،عام ملاقات، مہم اور بڑے پرورگراموں سے مخصوص ہوتا تھا، عربی زبان میں پہلے تخت کو ”کرسی“ اور دوسرے کو ”عرش“ کا نام دیا جاتا ہے اور اکثر اوقات لفظ ”عرش“ کو قدرت وطاقت اور مکمل قبضہ کے معنی میں کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اگرچہ حقیقت میں کوئی بلند پایہ تخت بھی موجود نہ ہو، اس مشہور جملہ ”ثَلَّ عَرشُہُ؛اس کا تخت کرگیا“ میں جس میں عرش کے معنی، قدرت کا ہاتھوں سے نکل جانے کے ہیں، کنایہ کے معنی بخوبی دکھائی دیتے ہیں ۔

خداوندعالم جو عالم کون ومکان کا سلطان ہے مذکورہ دوقسم کے تخت حکومت اور حکمران تخت کا مالک ہے (البتہ چونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ جسمانیات کے زمرے میں آتا ہے ، لہٰذا یہاں پر عرش اور کرسی کے کنائی معنی مراد ہیں ۔

بہرحال، یہ الٰہی تخت حکومت کیا ہے؟ منجملہ اس کے لئے جو تفسیر ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ عالم مادہ کا مجموعہ، آسمان، زمینیں، منظومے اور کہکشائیں سب کے سب اس کی کرسی اور چھوٹے تخت کے مانند ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ”وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضَ؛ اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمینوں پر مشتمل ہے“ جبکہ ”عرش الٰہی“ سے مراد ماوراءِ طبیعت (مادہ غلیظ اور سخت) کا عالَم ہے جو فقط یہی نہیں کہ عالم مادہ پر محیط ہے بلکہ مادی کائنات اس کے مقابل میں نہایت چھوٹی اور بے اہمیت ہے ۔

لیکن حاملان عرش، اس معنی میں یقیناً نہیں ہیں کہ کچھ غول پیکر اور قول جثّہ فرشتے اس بلند تخت کے پایوں کو جس پر خداوندعالم نے تکیہ کیا ہے، اپنے کاندھوں پر اٹھارکھا ہے؛ چونکہ عرش کے( اس طرح کے موقعوں پر جیسا کہ اوپر اشارہ ہوچکا ہے) کنائی معنی ہیں نیز وہ عقلی قرائن جو نشاندہی کرتے ہیں کہ خداوندعالم جسم وجسمانیت سے مبّرا ہے، اس بات کے شاہد ہیں ۔

لہٰذا اس بنا پر حاملان عرش، وہ بہت بڑے اور بلند مقام فرشتے ہیں جن کا کوئی مشابہ اور مثل نہیں ہے اور عالم ماوراء طبیعت (جس معنی میں اوپر کہا گیا ہے جو خدا وندعالم کا عظیم عرش ہے) کے امور کی تدبیر اور ہر جگہ اس کے حکم کی تعمیل کرسکتے ہیں اور اگر آپ مولا کے الفاظ میں غور فرمائیں جن میں اُن کی عظمت اور بزرگی اس صورت میں بیان ہوئی ہے کہ اُن کی گردنیں آسمانوں سے باہر نکلی ہوئیں، پیر زمین کے نچلے طبقہ پر ٹھہرے ہوئے، ان کے اعضاء اطراف واقطار عالم سے باہر نکلے ہوئے اور ان کے شانے پروردگار عالم کے عظیم عرش کے ستون کے لئے مناسب ہیں تو یہ سب الفاظ اور عبارتیں اس عظیم کائنات کے امور کی تدبیر پر اُن کی قدرت کو واضح اور نمایاں کردیتی ہیں ۔

صحیح ہے کہ ہمیں الفاظ کو اُن کے حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے لیکن جہاں پر مسلّمعقلی قرائن اور شواہد موجود ہوں وہاں پر کنایہ کے معنی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا بالکل ویسے ہی جیسے ہم ”ید الله فوق ایدیھم“ میں کہتے ہیں ۔

ہاں البتّہ انھوں نے اپنی قدرت وطاقت سے نہیں بلکہ یقیناً الٰہی قوت وطاقت سے اس مہم کام کو اپنے شانوں پر لے رکھا ہے اور اسی حالت میں وہ اس کی تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اور سورہٴ غافر کی ساتویں آیت کے مطابق موٴمنین کے لئے استغفار کرتے ہیں: ”الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُونَ بِہِ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِینَ آمَنُوا“۔

حاملان عرش کی معرفت کا مرتبہ

مذکورہ عبارتوں کے ذیل میں جو عبارتیں آئی ہیں اُن سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر حاملان عر ش الٰہی کو اس عظیم کام کی صلاحیت حاصل ہوئی ہے تو وہ فقط ان کی قوت وقدرت کی خاطر نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی ایک دلیل پروردگار عالم کے بارے میں اُن کی معرفت کی سطح کا بلند ہونا ہے ۔

وہ بلند ترین مرتبہٴ توحید کے حامل اور خداوندعالم کے بارے میں ہر طرح کے شرک اور مثل سے انکار کرتے ہیں، اسی معرفت کی وجہ سے اُن کے اندر اس عظیم ذمہ داری کوقبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے یقیناً تمام بندوں اور آگاہ انسانوں کے لئے یہ ایک درس ہے ۔

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن اور امامت علی ( ع)
رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا زندگی ...
صلح حدییبہ
زندگي نامہ امام علي عليہ السلام
قرآن مجيد اور مالى اصلاحات
اخلاقی حالت
شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام
شہادت امام حسین (ع) کا اصلی مقصد
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
اھل بيت (ع) کي شان ميں کتب

 
user comment