روایات میں دعاؤں، زیارتوں ، نمازوں اور ذکر پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہے جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ قارئین کے ذہن میں دو سوال پیدا ہوں:
۱۔ کیا ہر مسلمان ایسے سادہ اعمال انجام دینے سے اتنی عظیم جزا کا مستحق ہو گا، یا با عبارت دیگر ان اعمال اور جزاؤں کے درمیان کیا رابطہ ہے؟
۲۔ اگرچہ رحمت الہی لا محدود ہے اور وہ جس قدر بھی اجر و ثواب دے اس کے یہاں کوئی کمی آنے والی نہیں ہے (ولا تزیدہ کثرة العطاء الا جودا و کرما)۔ لیکن کبھی کبھی یہ اجر و ثواب انسان کی آخرت کی زندگی سے بھی بہت زیادہ ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک معنوی اجرکو حاصل کرلینا ہی مومن کی لذت اور آرام کی زندکی کیلئے کافی ہے۔
پہلے سوال کے جواب میںیہ جاننا ضروری ہے کہ اولاً : قرآن اور روایات کے مطابق ان تمام جزاؤں کاحاصل کرنا، ایمان، اخلاص اور تقوی پر متوقف ہے جیسا کہ قرآ ن مجید اعلان کررہا ہے : انما یتقبل اللہ من المتقین۔
امام صادق(علیہ السلام)نے ایک روایت میں فرمایا ہے : من قال لا الہ الا اللہ مخلصا، دخل الجنة، و اخلاصہ ان یحجزہ لا الہ الا اللہ عما حرم اللہ عزوجل۔
جو بھی ”لاالہ الا اللہ“ کو اخلاص کے ساتھ کہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور اخلاص یہ ہے کہ ”لاالہ الا اللہ“اس کو ہر اس چیز سے دور رکھے جس کو خدا وند متعال نے حرام کیا ہے۔
مرحوم علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اس مضمون کی چند حدیثیں نقل کی ہیں۔
بعض روایات میں زیارتوں کے عظیم اجر و ثواب کے متعلق ”عارفاً بحقہ“ کا جملہ ملتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے : امام کو واجب الاطاعت سمجھے اور اس کے حکم پر عمل کرے ، ایک روایت میں امام کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”اذا عرف حقہ و حرمتہ و ولایتہ“--- ۔ جب ان کے حق احترام اور ولایت کو پہچان لے---
ثانیا : ان جزاؤں اور ثواب کو محفوظ کرنا سب سے مہم ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کچھ نیک اعمال انجام دے کرعظیم اجر و ثواب حاصل کرلے لیکن بعد میں برے اعمال اور گناہ کبیرہ انجام دے کر ان کو اپنے نامہ اعمال سے صاف کردے ، پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کی ایک مشہور حدیث میں ملتا ہے : جو شخص بھی لاالہ الا اللہ کہتا ہے خدا وند عالم بہشت میں اس کیلئے ایک درخت لگاتا ہے (آنحضرت نے اسی مطلب کو دوسرے اذکار کے بارے میں بھی فرمایا ہے)وہاں پرایک قریشی موجود تھا اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر تو بہشت میں ہمارے بہت زیادہ درخت ہوگئے ہوں گے ! حضرت نے فرمایا : ”نعم! و لکن ایاکم ان ترسلوا علیھا نیرانا فتحرقوھا“ کیوں نہیں لیکن خبر دار کوئی ایسی آگ نہ بھیج دینا جس سے وہ سب درخت جل جائیں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم نے سورہ محمد کی ۳۳ ویں آیت ”ولا تبطلوا اعمالکم---“ سے استدلال فرمایا۔
دوسرے سوال کے جواب میں اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قیامت کا عظیم اجر و ثواب اس عظیم عالم کیلئے مناسب ہے ، وہ پوری دنیا جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں آخرت کے مقابلے میں اس چھوٹے سے گھر کے مانند ہے جو پورے منظومہ شمسی کے مقابل میں ہویا اس سے بھی چھوٹی۔ اس لئے ان اجر و ثواب کی عظمت پر تعجب نہیں کرنا چاہئے ، اس کے علاوہ خدا وند عالم کا اجر و ثواب اس کے لطف و کرم کے لحاظ سے ہے نہ ہمارے اعمال کے لحاظ سے ، اس سے بھی بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ روایتوں میں بیان شدہ اعداد و ارقام معنوی اجر وثواب کی طرف ایک اشارہ اور کنایہ ہے، جن کو مادی دنیا کی جزاؤں کے پیرایہ میں بیان کیا ہے۔
source : http://www.tebyan.net