یہ امر جاذب ِ توجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعجاز قرآن کے نئے جلوے آشکار ہوتے ہیں جن کی طرف گزشتہ زمانے میں توجہ نہیں ہو سکی ان میں سے ایک یہ ہے کہ کمپیوٹرکے ذریعہ الفاظ ِ قرآن، قرآنی جملوں کی بدنش اور ہر سورت کے زمانہٴ نزول سے ان کے ربط کی نئی نئی خصوصیات سامنے آئی ہیں ، اس کا ایک نمونہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں ۔
آج کے محققین اور دانشوروں نے تحقیق و جستجو اور چھان بین سے آیاتِ قرآن اور سورتوں کے نہایت پیچیدہ باہمی روابط معلوم کیئے ہیں اور اس سلسلے میں حیرت انگیز حتمی فامولے معلوم کئے ہیں ۔ اس امر کے یقین کے ساتھ ایسا عملی نظم و نسق قرآن کی عمارت میں موجود ہے کہ اعداد شمار کی تحقیق و مطالعہ سے اور ریاضی کے دقیق قواعد کے ذریعہ آیاتِ قرآن میں ریاضی کے فامولوں کے مطابق حسابات اور کامل منحنی خطوط(complete cur ves)اور پیچیدہ اصول معلوم ہوئے اور یہ دریافت اتنی اہم ہے کہ زمین کی کشش کے بارے میں نیوٹن کے قانون کی دریافت کی یاد تازہ ہو گئی ہے ۔
ایک عظیم قرآن شناس نے اپنے کام کا آغاز اس معمولی مسئلہ سے کیا ہے کہ مکہ میں نازل ہونے والی آیات چھوٹی چھوٹی ہیں جبکہ مدینہ میں نازل ہونے والی آیات طویل ہیں ۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ ہر لکھنے اور بولنے والااپنے جملوں کی طوالت او رالفاظ کا آہنگ موضوع سخن کے اعتبار سے بدلتا ہے ۔
توصیفی اور تعریفی مسائل چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان ہوتے ہیں اور تحلیلی و استدلالی مسائل طویل جملوں میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ جہاں گفتگو تحریک کے لئے ہو یا انتقادی اور تنقیدی حوالے سے عمومی اصول سے متعلق ہو یا اعتقاد کے حوالے سے کلی اصول بیان کرنا مقصودہوتو لب و لہجہ شعار اور نعرے کا اختیار کیا جاتا ہے اور عبارتیں چھوٹی چھوٹی ہو تی ہیں لیکن جہاں کوئی داستان بیان کرنا ہو ، کوئی واقعہ ذکر کرنا ہو ، یا اخلاقی حولاے سے کوئی نتیجہ نکالتان ہو تو لب و لہجہ میں ٹھہراوٴ ہوتا ہے اور عبارتیں لمبی ہوتی ہیں اور آہنگ میں نرمی ہوتی ہے ۔
مکہ میں جو مسائل در پیش تھے وہ پہلی قسم کے تھے اور مدینہ میں پیش آنے والے معاملات دوسری قسم کے تھے ۔کیونکہ مکہ میں ایک تحریک اور انقلاب کی ابتداء تھی ۔ وہاں بات اعتقادی اور انتقادی حوالے سے کلی اصول کے مطابق کرنا تھی ۔ لیکن مدینہ میں ایک معاشرہ کی بنیاد پڑ گئی تھی ۔ یہا ں حقوق و اخلاق سے متعلق بات کرنا تھی ، تاریخی واقعاتبیان کرنا تھے اور ان سے فکری و علمی نتائج اخذ کرنا تھے ۔
قرآن ایک فطری کلام ہے لہٰذا یہ امرنا گزیرہے کہ یہ آسان ، خوبصورت اور بلیغ طریقے کے مطابق ہو اور ا سکے نتیجے میں آیات کے اختصار اور طوالت میں بھی مفاہیم کی مناسبت کو ملحوظ رکھے ۔ اگر ہم قبول کرلیں کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فطرت کے بھی مطابق ہے تو پھر اس کا یہ اختصار اور طوالت بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہوسکتا ایک دقیق علمی قاعدہ کے مطابق اس کی ابتداء مختصر آیات سے ہوئی ہے اور آہستہ آہستہ آیات طویل ہو تی گئی ہیں لہٰذا ہر آیت اگلے برس نازل ہونے والی آیت سے چھوٹی ہے او ر کسی ایک برس میں نازل ہو نے والی آیت گزشتہ برس نازل ہونے والی آیت سے طویل تر ہے اس طرح سے ۲۳/ سال کی مدت میں جو وحی نازل ہوئی ہے آیات کی اوسط طوالت کے لحاظ سے اسے تیئس حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
اس قاعدہ کی بناء پر تیئس کا لم ہونے چاہئیں کہ جن میں ان آیات کو ان کی طوالت کے لحاظ سے تقسیم کیاجا سکے ۔ اب ہمیں کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ تقسیم بندی صحیح ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ بعض آیاتِ قرآن کی شان ِ نزول معلوم ہے ۔ بعض کے سال ِ نزول کو تاریخی روایات نے معین کیا ہے اور صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ کس سال میں نازل ہوئی ہیں اور بعض کو ان کے مفاہیم کے ذریعے معین کیا جا سکتا ہے مثلاً قبلہ کی تبدیلی ، حرمت ِ شراب حجاب اور احکام خمس و زکوٰة کے بارے میں جو آیا ت ہیں جن میں ہجرت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
ہم انتہائی تعجب سے دیکھتے ہیں کہ یہ آیات کہ جن کا سال ِ نزول معلو م ہے ٹھیک انہی کالموں میں آتی ہیں جو آیات کی اوسط طوالت کے جدول میں ہر سال کے لحاظ سے خاص طور پر معین کئے گئے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس سلسلے میں دو تین استثنائی مواقع پیدا ہو ئے ہیں مثلاً:
سورہٴ مائدہ نازل ہونے والی آخری بڑی سورت ہے جب کہ اس کی چند آیات کو فار مولے کے مطابق پہلے سالوں میں نازل ہونا چاہئیے تھا۔ تفاسیرتاور اسلامی روایات کی تحقیق کے بعد ہمیں معتبر مفسرین کے اقوال ملتے ہیں کہ جنہوں نے کہا ہے کہ یہ چند آیات ابتداء میں نازل ہوئی تھیں لیکن تدوین کے لحاظ سے پیغمبر کے حکم سے سورہ مائدہ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا اس طریقے سے ہر آیت کے سال نزول کو ریاضی کے قاعدے سے معین کیا جا سکتا ہے اور قرآن کی تدوین سال ِ نزول کے حساب سے بھی کی جاسکتی ہے ۔
دنیا میں کون ایسا خطیب ہے جس کی عبارت کی طوالت سے اس کے ہر جملے کی دائیگی کے سال کو معین کیا جا سکے خصوصاً جب کہ وہ کسی موٴلف کے علمی یا ادبی کتاب کا متن نہ ہو کہ جسے اس نے ایک معین مدت میں تسلسل کے ساتھ تحریر کیا ہو اور پھر اس کی زبان پر جاری ہو ئی ہو ۔ خصوصاً جب کہ وہ ایسی کتاب نہ ہو جسے لکھنے والے نے کسی ایک موضوع یا حتی کہ معین شدہ مضامین میں تالیف کیا ہو۔ بلکہ اس میں گو نا گوں مسائل ہوں کہ جو تدریجاً معاشرے کی ضرورت کے مطابق اور پیش آنے والے سوالات کے جواب میں بیان کیے گئے ہوں ، ایسے مسائل جو ایک طویل جد و جہد اور مقابلے کے دوران پیدا ہوئے ہوں اور ایک رہبر کے ذریعے بیان ہوئے ہوں اور پھر انھیں جمع کرکے منظم کیا گیا ہو او رکتابی شکل دی گئی ہو ۔ ۱
۱۔ نشریہ فلق ( یونیورسٹی طلبہ کا نشریہ )
بلکہ بعض مفسرین کے بقول قرآن کے مخصوص لغات و الفاظ کی طرز بھی اپنی نوع میں ایک معجزہ ہے ۔ انھوںنے اس کے لئے مختلف اور جاذب نظر شواہد پیش کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک وہ واقعہ ہے جو مشہور مفسر سید قطب کو پیش آیا ۔ زیربحث آیت کے ذیل میں وہ کہتے ہیں ، میں ان حوادث و واقعات ک ےبارے میں بات نہیں کرتا جو دوسروں کو پیش آئے صرف وہ واقعہ بیان کرتا ہوں جو خود مجھے پیش آیا اور میرے علاوہ اسے دیکھنے والے پانچ افراد تھے ۔ہم چھ مسلمان ایک مصری بحری جہاز میں سوار تھے ۔ بحری جہاز نیو یارک جانے کے لئے اوقیانوس اطلس کو عبور کررہا تھا جہاں میں کل ۱۲۰ مسافر تھے جن میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی تھے اور ہمارے سوا مسافروں میں سے کوئی مسلمان نہ تھا ۔ جمعہ کے روز ہم نے سوچا کہ نما جمعہ وسط سمندر میں جہاز کے اوپر کی جائے ہم چاہتے تھے کہ مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے علاوہ ایک عیسائی مبلغ کے سامنے اسلامی جراٴت کا مظاہرہ کیا جائے جس نے کشتی میں اپنا تبلیغی پر گرام ترک نہیں کیا تھا اور پھر خصوصاً جب کہ وہ ہمیں بھی مسیحیت کی تبلیغ کرنا چاہتاتھا ۔ جہاز کا کپتان ایک انگریز تھا اس نے جہاز کے اوپر نماز باجماعت کی ہمیں اجازت دے دی ۔ نیز جہاز پ رکام کرنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ نماز نماز پڑھنے کی اجازت دے دی جو کہ سب افریقی مسلمان تھے ۔ وہ بھی اس واقعہ سے بڑے خوش ہوئے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ نماز جمعہ انجام پا رہی تھی ۔
میں نماز جمعہ کا خطبہ پڑھنے لگا اور امامت کے لئے تیار ہوا ۔ یہ بات جاذبِ توجہ ہے کہ تمام غیر مسلم مسافر ہمارے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہوئے گئی اور بڑے غور سے اس اسلامی فریضے کی انجام دہی دیکھتے رہے ۔
نماز کے اختتام پر ان میں سے بہت سے لوگ ہمارے پاس آئے اور ہمارے ا س کام کی تعریف کی ۔ ان میں سے ایک خاتون تھی کہ جس کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ یو گوسلاویہ کی ایک عیسائی عورت تھی جو ٹیٹو اور اس کے کمیونزم کے جہنم سے فرار کیے ہوئے تھی ۔ وہ ہماری نماز سے بے حد متاثر ہوئی اس ھد تک کہ اس کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے او روہ اپنے او پر کنٹرول نہیں کر پارہی تھی ۔
وہ اپنی عام انگریزی زبان میں جو شدید تاثیر او رایک خاص خضوع و خشوع میں ملی ہو ئی تھی ، گفتگو کر رہی تھی ، اس کی گفتگو کے کچھ الفاظ یہ تھے :
بتاوٴ کہ میں دیکھوں تمہارا کشیش کس زبان میں باتیں کرتا تھا ( اس کا خیال تھا کہ یقینا ایسی نماز فقط کشیش یا کوئی عالم ہی قائم کرسکتا ہے جیسا کہ عیسائیوں کے ہاں نماز ہو تی ہے لیکن ہم نے اسے جلد ہی سمجھا دیا کہ اس اسلامی پروگرام کو ہر صاحب ایمان مسلمان انجام دے سکتا ہے )
آخر میں ہم نے اس سے کہ: ہم تو عربی زبان میں بو ل رہے تھے ۔
وہ کہنے لگی : میں اگر چہ تمہارے مطالب میں سے ایک لفظ بھی نہ سمجھ پائی تھی تا ہم میں سے ایک صراحت سے دیکھا کہ تمہارے الفاظ عجیب و غریب طرز کے تھے ۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا : اور اس کی وہ بات وجو زیادہ اہم ہے اور جس نے مجھے بہت زیادہ متوجہ کیا یہ تھی ، کہ تمہارے پیش نماز کے خطبے کے دوران کچھ جملے ایسے تھے جو باقی جملوں سے ممتاز تھے وہ بہت زیادہ موٴثر تھے اور گہرے معلوم ہوتے تھے یہاں تک کہ انھوں نے مجھے لرزہ بر اندام کردیا ۔ یقینا ان جملوں میں کچھ اور مطالب تھے ۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ تمہارا پیش نماز جب ان جملوں کو ادا کرتا ہے تو وہ روح القدس سے ملا ہوتا ہے ۔
ہم نے تھوڑا سا غور و فکر کیا تو متوجہ ہوئے کہ یہ جملے آیاتِ قرآن ہی تھیں جو میں نے خطبے کے دوران او رنماز میں پڑھی تھی ۔
اس بات نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا اور اس نکتے کی طرف متوجہ کیا کہ قرآن کی مخصوص طرز اس قدر موٴثر ہے کہ حتیٰ کہ ایک ایسی خاتون جو اس کے ایک لفظ کا مفہوم نہیں سمجھتی وہ بھی اس سے شدید متا ثر ہو جاتی ہے ۔ ( تفسیر فی ظلال جلد ۴ صفحہ ۴۴۲)
بعد والی آیت میں مشرکین کی مخالفتوں کی ایک بنیادی علت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کا انکار اشکالات اور اعتراضات کی بناء پر نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی تکذیب اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کے مضامین سے آگاہ نہیں تھے ( بَلْ کَذَّبُوا بِمَا لَمْ یُحِیطُوا بِعِلْمِہِ) ۔در حقیقت ازن کے انکار کا عامل اور سبب ان کی عدم آگہی اور جہا لت تھی ۔
رہا یہ سوال کہ اس سے مراد کن امور کے بارےان کی جہا لت تھی اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات ذکر کیے ہیں کہ جو سب کے سب آیت میں مراد ہوسکتے ہیں ، منجملہ ان کے :
معارفدینی او رمبداء و معاد سے جہا لت ․․․․․ جیسا کہ قرآن معبودِ حقیقی․․․․․ اللہ ․․․․․ کے بارے میں مشرکین کا قول نقل کرتا ہے کہ وہ کہتے تھے :
اجعل الالٰھة الھا واحداً ان ھٰذا الشی عجاب ۔
کیا اس نے ہمارے خدا وٴں کو ایک معبود میں بدل دیا ہے، عجیب و غریب چیز ہے (ص․․․․․․۵)یا پھر وہ معاد کے بارے میں کہتے تھے:
ھل ندلُّکم علیٰ رجل ینبئکم اذا مزّ قتم کل ّ ممزّ ق انکم لفی خلق جدید افتری علیٰ اللہ کذباً امر بہ جنة ٌ( سبا ،۷۔۸)
کیا تمہیں اسے شخص کے بارے میں بتائیں جو تم سے بیان کرے گا کہ جب تم ( مرکر گل سڑ جاوٴ گے اور ) بالک ریزہ ریزہ ہو جاوٴ گے تو تم ایک نیا جنم لو گے کیا اس شخص ( محمد) نے خد اپر جھوٹ باندھا ہے یا اسے جنون ( ہو گیا ) ہے ۔
در حقیقت ان لوگوں کے پاس مبداء و معاد کی نفی کے لئے کوئی دلیل نہیں تھی صرف جہا لت اور بے خبری خرا فات اور بڑے بوڑھوں کے مذہب کے عادی ہوجانے سے ، ان کے لئے سدّ راہ تھی ۔
پھر وہ احکام کے اسرار سے جاہل تھے اسی طرح آیات متشابہ کے مفہوم سے جاہل تھے یا حروف ، مقطعات کے مفہوم سے نابلد تھے ۔
یہی سب جہالتیں انھیں تکذیب اور انکار پر ابھارتی تھیں جب کہ ابھی تک مسائل ِ مجہولہ کی تاویل ، تفسیر اور حقیقت ان پر واضح نہیں ہوئی تھی ۔ ( وَلَمَّا یَاٴْتِھِمْ تَاٴْوِیلُہُ ) ۔
”تاویل “ اصل لغت میں کسی چیز کو لوٹا نے کے معنی میں ہے لہٰذا کوئی کام او ربات اپنے اصۺی مقصد تک پہنچ جائے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی تاویل آگئی ہے ۔ اس بناء پر کسی اقدام کے اصلی ہدف کا بیان ، کسی بات کی حقیقی تشریح یا کسی خواب کی تعبیر اور نتیجہ یا کسی بات کا عملی صورت اختیار کرجانا ، سب کو تاویل کہاجاتا ہے ( اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد دوم ص ۲۵۴۔ ار دو ترجمہ پر ہم تفصیل سے گفتگو کر آئے ہیں ) ۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ یہ غلط روش صرف زمانہ جاہلیت کے مشرکین میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ گزشتہ گرماہ قومیں بھی اسی ابتلاء میں مبتلاتھیں ، وہ بھی حقائق کی پہچان اور تحقیق کے بغیر اور ان کے تحقق کی انتظار کے بغیر ان کا انکار اور تکذیب کرتے تھے (کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ) ۔
سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۳۔ اور ۱۱۸۔ میں گذشتہ امتوں کی کیفیر کی طرف اس حوالے سے اشارہ کیا گیا ہے ۔ در حقیقت ان سب کا عذر ان کی جہالت ہی تھی اور حقائق کے بارے میں تحقیق نہ کرنا ان کی بد بختی کا باعث تھا جبکہ عقل و منطق کا تقاضا ہے کہ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا ہر گز انکار نہ کرے بلکہ اس کی جستجو اور تحقیق کرے ۔
آخر میں روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : دیکھو کہ ان ستم گروں کا انجام کار کیا ہوا ( فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِینَ ) ۔یعنی وہ بھی اسی انجام سے دو چار ہوں گے ۔
زیر بحث آخری آیت میں مشرکین کے دو بڑے گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے : یہ سب کے سب اسی حالت میں باقی نہہیں رہیں گے بلکہ ” ان میں سے ایک گروہ جس میں حق طلبی کی روح مردہ نہیں ہوئی ، آخر کار اس قرآن پر ایمان لے آئے گا جب کہ دوسرا گروہ اس ی طرح اپنی جہا لت اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے گا اور ایمان نہیں لائے گا “(وَمِنْھُمْ مَنْ یُؤْمِنُ بِہِ وَمِنھُمْ مَنْ لاَیُؤْمِنُ بِہِ) ۔
واضح ہے کہ یہ دوسرا گروہ فاسد اور مفسد ہے اسی وجہ سے آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : تیرا پر وردگار مفسدین کو بہتر جانتا ہے ( وَرَبُّکَ اٴَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِینَ۔
یہاس طرف اشارہ ہے کہ جو افراد حق قبول نہیں کرتے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اور معاشرے کے نظام کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
جہالت اور انکار
جیسا کہ مندر جہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر زیادہ تر حق کی مخالفتوں ، دشمنیوں اور حق کے خلاف جنگ کا سر چشمہ جہا لت اور نادانی ہے ۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جہالت کا انجام کفر ہے ۔
پہلا فریضہ جو ہر حق طلب انسان کے ذمہ ہے یہ ہے کہ جسے وہ جانتا اس کے بارے میں سکوت اور خاموشی اختیار کرے ، انتظار کرے اور تحقیق و سجتجو کے لئے اٹھ کھڑا ہو، جس مطلب کو نہیں جانتا اس کے تمام پہلووٴ کا مطالعہ کرے تحقیق کرے ۔ جب تک اس کی نفی پر کوئی قطعی دلیل نہ مل جائے اس کی نفی نہ کرے جیسا کہ بغیر قطعی دلیل کے اثبات بھی نہ کرے ۔
مر حوم طبری نے مجمع البیان میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس سلسلے میں ایک نہایت عمدہ حدیث نقل کی ہے ۔ آپ نے فرمایا :
اللہ نے قرآں کی دو آیات میں اس امت کو دو اہم درس دئیے ہیں ۔ پہلا یہ کہ جسے جانتے ہو اس کے سوا کوئی بات نہ کہو اور دوسرا یہ کہ جسے جانتے نہیں ہو اس کا انکار نہ کرو۔
اس کے بعد آپ نے یہ دو آیات تلاوت کیں :
الم لیوٴخذ علیھم میثاق الکتاب ان لا یقولوا علی اللہ الا الحق ۔
کیا خدا نے ان سے آسمانی کتاب کا عہد وپیمان نہیں لیا کہ خدا کے بارے میں حق کے سواکچھ نہ کہیں ۔
بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ۔
مشرکین نے ایسی چیزوں کا انکار کیا کہ جن آگاہی نہیں رکھتے تھے جب کہ جہالت کسی چیز کے انکار کے لئے دلیل نہیں ہے ۔
source : http://www.taghrib.ir