جب تک ہم روشنی اور خو شحالی میں ہوتے ہیں ،اس کی قدر و قیمت کا کم اندازہ ہوتا ہے ہمیں اس وقت اس کی حقیقی قدرو قیمت معلوم ہو گی جب ہم ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گھر جائیں گے ۔
جب سورج افق آسمان پر درخشاں ہوتا ہے ہم اس کی طرف کم توجہ دیتے ہیں ، لیکن جب بادل میں چھپ جاتاہے اور ایک مدت تک اپنی نورانیت و حرارت سے محروم کر دیتا ہے تو اس کی ارزش کا اندازہ ہونے لگتا ہے ۔
ظہورآفتاب ولایت کے لازمی ہونے کا ہمیں اس وقت احساس ہو گاجب ظہور سے پہلے بے سرو سا مانی اور نا امنی کے ماحول سے با خبر ہوں ،اور اس وقت کے نا گفتہ بہ حالات کو درک کرلیں۔
اس زمانے کی کلی طور پر نقشہ کشی ،جو روایات سے ماخوذہے ،درج ذیل ہے ۔
امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور سے قبل فتنہ و فساد ،ہرج ومرج ،بے سرو سامانی، ناامنی، ظلم و استبداد ،عدم مساوات،غارتگری ،قتل و کشتار ،اورتجاوز تمام عالم کو محیط ہوگا اور زمین ظلم و ستم اور ناانصافی سے لبریز ہوگی ۔
خونین جنگ کا آغاز ملتوں اور ممالک کے درمیان ہو چکا ہوگا ،زمین کشتوں سے بھری ہوگی، قتل ناحق اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں ہوگا جسکے ایک یا چند عزیز قتل نہ ہوئے ہوں گے۔ مرد و جوان جنگوں کے اثر سے ختم ہو چکے ہوں گے یہاں تک کہ ہر ۳/ آدمی میں ۲/ آدمی قتل ہو چکا ہو گا ۔
قوم و ملت کے درمیان جان ومال بے وقعت، راستے غیر محفو ظ ہوں گے ، خوف، وحشت ہر انسان کے دل میں بیٹھی ہوگی ،ناگہانی اورحادثاتی موتوں کی کثرت ہو گی، معصوم بچے بد ترین شکنجوں کے ذریعہ ظالم وجابر حکام کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے، سڑکوں اور چوراہوں پر حاملہ عورتوں کے ساتھ تجاوز ہوگا، جان لیوا بیماریاں لاشوں کی بد بو یا انواع و اقسام ہتھیار کے استعمال سے عام ہو جائیں گی ، کھانے پینے کی اشیاء میں کمی ہو گی ، مہنگائی و قحط سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو جائے گی،زمین بیج قبول کرنے نیزاُسے اگانے سے انکار کردے گی، بارش نہیں ہوگی ،یا اگر ہوگی بھی تو بے وقت اور ضرر رساں ہوگی قحط ایسا پڑے گا کہ لوگوں کی زندگی اتنی دشوار و مشکل ہو جائے گی کہ بعض لوگ قوت لایموت فراہم نہ کرنے کی وجہ سے، اپنی عورتوں اور بچیوں کو معمولی غذا کے مقابل دوسرے کے حوالے کر دیں گے ۔
ایسے مشکل و نا ساز گار ماحول میں انسان نا امیدی و قنو طیت کا شکار ہو جائے گا اور اس وقت موت اللہ کا بہترین ہدیہ سمجھی جائے گی،اور صرف و صرف لوگو ں کی آرزو موت بن جائے گی نیز ایسے ماحول میں جب کوئی شخص لاشوں کے درمیان یا قبر ستان سے گذر رہا ہوگا تو اس کی آرزو بس یہی ہوگی کہ کاش میں بھی انھیں میں سے ایک ہوتا تاکہ ذلت کی زندگی سے آسودہ خاطر ہوتا۔
اس وقت کوئی طاقت ،پارٹی ،انجمن نہ ہوگی جو اس بے سرو سامانی،تجاوز ، غارتگری کا سد باب کرے اور ستمگروں و طاقتوروں کو ان کی بد کر داری کی سزا دے۔لوگوں کے کانوں سے کوئی نجات کی آواز نہیں ٹکرائے گی،سارے جھوٹے دعویدار انسان کی نجات کا جھوٹا نعرہ لگانے والے خائن اور جھوٹے ہوں گے اور انسان صرف ایک مصلح الٰہی ،خدائی معجزہ کا انتظار کرے گا اور بس، اس وقت جب کہ یاس و ناامیدی تمام عالم کو محیط ہوگی، خداوند عالم اپنے لطف و رحمت سے مہدی موعود (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )، کو مدتوں غیبت و انتظار کے بعد بشریت کی نجات کے لئے ظاہر کرے گا اور ہاتف غیبی کی آسمان سے ایسی نداآئے گی جو ہرایک انسان کے کان سے ٹکرائے گی،”کہ اے دنیا والو! ستمگروں کی حاکمیت کا زمانہ ختم ہو گیا ہے، اور اب عدل الٰہی سے پرُ حکومت کا دور ہے، اور مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) ظہور کر چکے ہیں۔یہ آسمانی آواز، انسان کے بے جان قالب میں امید کی روح پھونک دے گی اور محرومین ومظلومین کو نجات کا مژدہ سنائے گی۔
یقینا مذکورہ بالا ماحول کا ادراک کرنے کے بعد مصلح الٰہی کے ظہور کی ضرورت کا احساس کر سکتے ہیں نیز حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی عادلانہ حکومت کی وسعت کا اندا زہ لگا سکتے ہیں۔
یہاں پر امام علیہ السلام کے ظہور سے قبل نا سازگار حالات کو روایات کی نظر میں پانچ فصلوں میں ذکر کریں گے۔
حکومت
ادیان و مکاتب کے قوانین، معاشرے میں اس وقت اجرا ہو سکتے ہیں جب حکومت اس کی پشت پناہی کرے ۔اس لئے کہ ہر گروہ حکومت کا طالب ہے تاکہ اپنے مقاصد کا اجرا کر سکے، اسلام بھی جب کہ تمام آسمانی آئین میں بالا تر ہے ،اسلامی حکومت کا خواہاں رہا ہے حکومت حق کا وجود اورا س کی حفاظت اپناسب سے بڑا فریضہ جانتا ہے ۔پیغمبر اسلام نے اپنی تمام کوشش اسلامی حکومت کی تشکیل میں صرف کر دی اور شہر مدینہ میں اس کی بنیاد ڈالی ،لیکن آنحضرت کی وفات کے بعد،اگر چہ معصومین و علماء، حکومت اسلامی کی آرزو رکھتے تھے معدودہ چندکے علاوہ ، حکومت الٰہی نہیں تھی اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور تک اکثر باطل حکومتیں ہوں گی۔
جو روایات پیغمبر و ائمہ (علیہم السلام )سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں حکومتوں کا عام نقشہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے قیام سے قبل بیان کیا گیا ہے ، ہم ان چند موارد کی طرف اشار ہ کریں گے:
الف)حکومتوں کا ظلم
ظہور سے پہلے من جملہ مسائل میں ایک مسئلہ جو انسان کی اذیت کا باعث ہوگا ،وہ حکومتوں کی طرف سے لوگوں پر ہونے والا ظلم و ستم ہے ، رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” زمین ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی حدیہ ہے کہ ہر گھر میں خوف ودہشت کی حکمرانی ہوگی “ (۱)
(۱)ابن ابی شیبہ،المصنف ،ج۱۵،ص۸۹ ؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” زمین ظلم و استبداد سے پر ہوگی؛ یہاں تک کہ خوف و اندوہ ہر گھر میں داخل ہوچکاہوگا “(۱)امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) خوف و دہشت کے دور میں ظہور کریں گے “(۲)یہ خوف و ہراس وہی ہے جو اکثر ستمگرو خود سر حاکموں سے وجود میں آتا ہے ؛ اس لئے کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے ،ظالم دنیا کے حاکم ہو ں گے۔امام محمد باقر (علیہ السلام)فرماتے ہیں :” مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) اس وقت قیام کریں گے جب معاشرے کی رہبری ستمگروں کے ہاتھ میں ہو گی “(۳)
ابن عمر کہتے ہیں :غیر تمند، ذی حیثیت اور صاحب ثروت انسان آخر زمانہ میں اس شکنجے اور اندوہ سے جو حاکموں سے پہنچیں گے مرنے کی آرزوکرےگا۔ ( ۴)
قابل توجہ بات یہ ہے کہ رسول خدا کے ماننے والے صرف اجنبی حکومتوں سے رنجورنہیں ہوں گے، بلکہ اپنی خود مختار ظالم حکومت سے بھی انھیں تکلیف ہوگی ؛اس درجہ کہ زمین اپنی تمام وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو جائے گی ، اور آزادی کے احساس کے بجائے، خود کو قید خانہ میں محسوس کریں گے۔ جیسا کہ فی الحال ایران کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک مسلمانوں کے ساتھ اچھا بر تاوٴ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اجنبی بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں روایات میں اس طرح آیا ہے :
(۱)کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۴؛احقاق الحق، ج ۱۳،ص۳۱۷
(۲)شجری ،امالی، ج۲،ص۱۵۶
ملاحظہ ہو:نعمانی ،غیبة، ص۲۵۳؛طوسی، غیبة، ص۲۷۴،اعلام الوری، ص۴۲۸؛مختصر بصائر الدرجات، ص۲۱۲اثبات الہداة،ج۳، ص۵۴۰؛حلیةالابرار،ج۳،ص۶۲۶؛بحارالانوار، ج۵۲، ص۲۳؛بشارة الاسلام ،ص۸۲؛عقد الدرر، ص۶۴؛القول المختصر ،ص۲۶ ؛متقی ہندی، برہان ص۷۴؛سفارینی لوائح، ج۳ ،ص۸
(۳)ابن طاووس، ملاحم، ص۷۷
(۴)عقد الدرر ،ص۳۳۳
رسول خدا فرماتے ہیں :” آخر زمانہ میں شدید مصیبت ،کہ اس سے سخت ترین مصیبت سنی نہ ہو گی،اسلامی حُکاّم کی طرف سے میری امت پر آئے گی ؛اس طرح سے کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہو جائے گی ،اور ظلم و ستم سے ایسی لبریز ہو گی ، کہ مومن ظلم سے چھٹکارے کے لئے ،پناہ کا طا لب ہو گا لیکن کوئی جائے پناہ نہ ہوگی “(۱)
بعض روایتوں میں اپنے رہبروں کے توسط مسلمانوں کے ابتلا کی تصریح ہوتی ہے ان ظالم حکام کے پیچھے ایک مصلح کل کے ظہور کی نوید دی گئی ہے ،ان روایات میں تین قسم کی حکومت کا، جو رسول خدا کے بعد قائم ہوتی ہے ذکر آیا ہے ۔جویہ ہیں تین قسم کی حکومتیں ہیں :خلافت ،امارت و ملوکیت ،اس کے بعد جابر حاکم ہوں گے ، رسول خدا فرماتے ہیں :” میرے بعد خلفاء ہوں گے خلفاء کے بعد امراء اور امراء کے بعد بادشاہ ان کے بعد جابر و ستمگر حاکم ہوں گے؛ پھر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) ظہور کریں گے “(۲)
ب)حکومتوں کی تشکیل
لوگ اس وقت عیش و عشرت کی زندگی گذار سکتے ہیں جب حکومت کا کار گذار با شعور و نیک ہو۔ لیکن اگر غیر مناسب افراد لوگوں کے حاکم ہو جائیں گے تو فطری بات ہے کہ انسان رنج و الم میں مبتلاء ہوگا؛ بالکل وہی صورت حال ہو گی جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )کے ظہور سے قبل کے زمانے میں حکومتیں خائن اور فاسق و فاجر ستمگر کے ہاتھ میں ہوں گی رسول خدا فرماتے ہیں: ”ایک زمانہ آئے گا کہ حکام ستم پرور ،فرمانروا خائن قاضی،فاسق اور وزراء ستمگر ہوں گے“ ( ۳(
ج)حکومتوں میں عورتوں کا نفوذ
آخر زمانہ سے متعلق حکومتوں کے مسائل میں ایک مسئلہ ،عورتوں کا تسلط اور ان کا نفوذ ہے
(۱)حاکم ،مستدرک ،ج ۴،ص۴۶۵؛عقد الدرر، ص۴۳؛احقاق الحق ،ج ۱۹، ص ۶۶۴
(۲)المعجم الکبیر ،ج۲۲،ص۳۷۵؛الا ستیعاب ،ج۱،ص۲۲۱؛فردوس الاخبار ،ج۵،ص۴۵۶؛کشف الغمہ،ج۳، ص۲۶۴؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۹۶
(۳)شجری ،امالی ،ج ۲،ص۲۲۸
یاوہ ڈائریکٹ لوگوں کی حاکم ہوں گی (جیسا کہ بعض ممالک میں عورتیں حاکم ہیں)یا حکام ان کے ماتحت ہوں گے اس مطلب میں ناگوار حالات کی عکاسی ہے ، حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ فاسد و زنا کار لوگ ناز و نعمت سے بہرہ مند ہوں گے اور پست و ذلیل افراد پوسٹ و مقام حاصل کریں گے ،اور انصاف پرور افراد ناتواںو کمزور ہوں گے“ پوچھا گیا : یہ دور کب آئے گا؟ تو امام (علیہ السلام)نے فرمایا: ”ایسا اس وقت ہوگا جب عورتیں اور کنیزیں لوگوں کے امور پر مسلط ہوں اور بچے حاکم ہو جائیں “(۱)
د)بچوں کی فرمانروائی
حاکم کو تجربہ کا ر اور مدیر ہونا چاہئے تاکہ لوگ سکون و اطمینان سے زندگی گذار سکیں ۔اگر ان کے بجائے، بچے یا کوتاہ نظر، امور کی ذمہ داری لے لیں، تو رونما ہونے والے فتنہ سے خدا وند عالم سے پناہ مانگنی چاہئے ۔
اس سلسلے میں دو روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں :رسول خدا نے فرمایا:”۷۰ ویں سال کے آغاز اور بچوں کی حکومت سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے“( ۲)
سعید بن مسیب کہتے ہیں :” ایک ایسا فتنہ رونما ہوگا۔ جس کی ابتداء بچوں کی بازی ہے“(۳)
ھ)حکومت کی نا پایداری
وہ حکومت اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت پرقادر ہے جو سیاسی دوا م رکھتی ہو ؛اس لئے کہ اگر تغییر پذیر ہو جائے تو بڑے کاموں کے انجام دینے پر قادر نہ ہوگی ۔
(۱)کافی، ج۸، ص۶۹؛بحارلانوار، ج۵۲،ص۲۶۵
(۲)احمد ،مسند،ج۲،ص۳۲۶،۳۵۵،۴۴۸
(۳)ابن طاوٴس،ملاحم، ص۶۰
آخر زمانہ میں حکومتیں پایدار نہیں ہوں گی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ صبح کو حکومت تشکیل پائے تو غروب کے وقت زوال پذیر ہوجائے اس سلسلے میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”تم کیسے ہوگے جب تم لوگ کسی امام ہادی اور علم و دانش کے بغیر زندگی گذار رہے ہو گے اور ایک دوسرے سے نفرت و بیزاری کے طالب ہو گے ؟ اور یہ اس وقت ہوگا جب تم آزمائے جاوٴ اور تمہارے اچھے بُرے لوگو ں کی پہچان ہو جائے اور خوب اُبال آجائے اس وقت جب تلواریں کبھی غلاف میںتو کبھی باہر ہو ں گی ۔جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں ایک حکومت دن کی ابتداء میں تشکیل پائے گی اور آخر روز میں زوال پذیر ہوجائے گی “(گر جائے گی ) (۱)
و)ملک کا ادارہ کرنے سے حکومتیں بے بس و مجبور
امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کے ظہور سے قبل ظا لم حکومتیں ناتواں ہو جائیں گی اور یہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) کی عالمی حکومت کے قیام کا مقدمہ ہو گا ۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) آیہٴ شریفہ <حَتّٰی اِذَارَاٴَواْ مَایُوْعَدُ وْنَ فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ اَضْعَفُ نَاصِراً وَ اقلّ عَدداً>(۲)جب اس وقت دیکھیں گے کہ وہ کیا وعدہ ہے جو اس آیت میں کیا گیا ہے بہت جلد ہی وہ جان لیں گے کہ کس کے پا س ناصر کم اور ناتوان ہیں،حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ) اصحاب و یاوراور آپ کے دشمنوں سے متعلق ہے جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ )قیام کریں گے تو آپ کے دشمن سب سے کمزور و ناتواں دشمن ہوں گے نیز سب سے کم فوج و اسلحے رکھتے ہوں گے “(۳)
(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۳۴۸
(۲)سورہٴ جن آیت ۲۴
(۲)کافی،ج۱،ص۴۳۱؛نورالثقلین،ج۵،ص۴۴۱؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۲۹؛ینابیع المودة، ص۴۲۹؛المحجہّ، ص۱۳۲
لوگوں کی دینی حالت
اس فصل میں ظہور سے قبل لوگوں کی دینی حالت کے بارے میں بحث کریں گے ۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اسلام و قرآن کا صرف نام باقی رہ جائے گا، مسلمان صرف نام نہاد، مسلمان ہوں گے۔ مسجدیں اس وقت ارشاد و موعظہ کی جگہ نہیں رہ جائیں گی۔ اس زمانے کے فقہاء روئے زمین کے بد ترین فقہاء ہوں گے دین کا معمولی اور بے ارزش چیزوں کے مقابل معاوضہ ہو گا ۔
الف)اسلام اورمسلمان
اسلام دستورات الٰہی اور قانون خدا وندی کے سامنے تسلیم ہونے کے معنی میں ہے۔ اسلام سب سے اچھا اور غالب دین ہے جو انسان کی دینی اور دنیاوی سعادت کا ضامن ہے؛ لیکن جو چیز قابل اہمیت ہے وہ اسلام و قرآن کے احکام پر عمل کرنا ہے ۔
آخر زمانہ میں ہر چیز بر عکس ہوگی؛یعنی اسلام کاصرف نام رہ جائے گا۔ قرآن معاشرہ میں موجود ہوگا؛ لیکن تنہا تحریر ہوگی جو اوراق پر پائی جائے گی۔ اور مسلمان بس نام کے مسلمان رہ جائیں گے اسلام کی کوئی علامت نہیں پائی جائے گی ۔رسول خدا فرماتے ہیں :” میری امت پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ صرف اسلام کا نام ہوگا اور قرآن کا نقش و تحریر کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا مسلمان، صرف مسلمان پکارے جائیں گے ؛لیکن اسلام کی بہ نسبت دیگرا دیان والوں سے بھی زیادہ اجنبی ہوں گے “(۱)
(۱)ثواب الاعمال، ص۳۰۱؛جامع الاخبار، ص۱۲۹؛بحا رالانوار،ج۵۲ ،ص۱۹۰
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” عنقریب وہ زمانہ آئے گا کہ لوگ خدا کو نہیں پہچانیں گے اور توحید کے معنی نہیں جانیں گے پھر دجال خروج کرےگا “(۱)
ب) مساجد
مسجد خدا وندعالم کی عبادت اور تبلیغ دین، لوگوں کی ہدایت و ارشاد کی جگہ ہے صدر اسلام، میں حکومت کے اہم کام بھی مسجد میں انجام دئے جاتے تھے جہاد کا پروگرام مسجد میں بنتا تھا اور انسان مسجد سے معراج پر گیا؛ لیکن آخر زمانہ میں مسجد یں اپنی اہمیت کھوبیٹھیں گی اور دینی راہنمائی ،و ہدایت و تعلیم کے بجائے مسجدوں کی تعداد اور خوبصورتیوں میں اضافہ ہو گا جب کہ مساجد مومنین سے خالی ہوں گی رسول خدا فرماتے ہیں :” اس زمانے میں مسجدیں آبادو خوبصورت ہوں گی؛ لیکن ہدایت و ارشاد کی کوئی خبر نہیں ہوگی“(۲)
ج)فقہاء
علماء، اسلامی دانشور ،دین خدا کی حفاظت کرنے والے روئے زمین پر موجود ہیں اور لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی ان کے ہاتھ میں ہے وہ زحمتیں بر داشت کر کے دینی منابع سے شرعی مسائل کا استخراج کر کے، لوگوں کے حوالہ کرتے ہیں؛ لیکن آخر زمانہ میں حالت دگر گون ہوجائے گی اس زمانہ کے عالم بد تر ین عالم ہوں گے رسول خدا فرماتے ہیں :” اس زمانہ کے فقہاء، بدترین فقہاء ہوں گے جو آسمان کے زیر سایہ زندگی گذار رہے ہوں گے ۔فتنہ و فساد ان سے پھیلے گا نیز اس کی باز گشت بھی انھیں کی طرف ہوگی “یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے مرادوہ درباری علماء ہیں جو ظالم و جابر بادشاہوں کے جرم کی توجیہ کرتے اور اسے اسلامی رنگ دیتے ہیں؛ ایسے لوگ ہر مجرم
(۱)تفسیر فرات، ص۴۴
(۲)بحار الانوار، ج۲،ص۱۹۰
سے ہاتھ ملانے کے لئے آمادہ ہیں؛ جیسے سلاطین کے واعظ جو وہابیت سے وابستہ ہیں اور امریکہ و اسرائیل سے جنگ کرنا شرع کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اسرئیلی جرائم کے مقابلے میں سانس تک نہیں لی اور وہابیوں کے جرائم خانہ ٴخداکے زائرین کے قتل کے بارے میں توجیہ کر دی اور اس کے لئے آیت و روایت پیش کی ہاں، ایسے افراد کے لئے کہنا صحیح ہوگا یہ لوگ بد ترین فقہاء ہیں جن سے فتنہ و فساد کا آغاز یافتنوں کی باز گشت ان کی طرف ہوگی ۔(۱)
د)دین سے خروج
آخر زمانہ کی علامتوں میں ایک علامت یہ بھی ہے کہ لوگ دین سے خار ج ہو جائیں گے ۔ ایک روز امام حسین (علیہ السلام) حضرت امیر الموٴمنین (علیہ السلام) کے پاس آئے۔ ایک گروہ آپ کے ارد گرد بیٹھا ہوا تھا ۔آپ نے ان سے کہا:” حسین (علیہ السلام) تمہارے پیشوا ہیں رسول خدا نے انھیں سید و سردار کہا ہے۔ ان کی نسل سے ایک مرد ظہور کرے گا جو اخلاق و صورت میں میری شبیہ ہوگا۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا؛ جیسا کہ دنیا اس سے قبل ظلم و جور سے بھری ہوگی“ پوچھا گیا کہ یہ قیام کب ہوگا ؟ تو آپ نے کہا: افسوس ! جب تم لوگ دین سے خارج ہو جاوٴ گے ؛ بالکل اسی طرح جیسے عورت مرد کے لئے لباس اتار دیتی ہے “(۲)
ھ)دین فروشی
مکلف انسان کا وظیفہ ہے کہ اگر اس کی جان کو خطرہ ہو، تو مال کی پرواہ نہ کرے تاکہ جان بچ جائے اور اگر دین خطرہ میں پڑ جائے، تو جان قربان کر کے دین پر آنے والے خطرہ کا سد باب کردے۔؛
(۱)ثواب الاعمال ،ص۳۰۱؛جامع الاخبار ،ص۱۲۹؛بحا رالانوار،ج۵۲ ،ص۱۹۰
(۲)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۴۴
لیکن افسوس کہ آخر زمانہ میں دین معمولی و گھٹیا قیمت پر فروخت کیا جائے گا اور جو لوگ صبح مومن تھے توظہر کے بعد کافر ہو جائیں گے ۔
رسول خدا نے اس کے متعلق فرمایا ہے: ”عرب پر وائے ہو اس شر و برائی سے جو ان کے نزدیک ہو چکی ہے فتنے تاریک راتوں کی مانند ہیں انسان صبح کو مومن تھے تو غروب کے وقت کافربعض لوگ اپنا دین معمولی قیمت پر بیچ ڈالیں گے جو اس زمانہ میں اپنے دین کو بچالے اور اس پر عامل بھی ہو، تو وہ اس شخص کے مانند ہے جو آتشی بندوقوں کو اپنے ہاتھ میں لئے ہو یا کانٹوں کاگٹھر اپنے ہاتھوں سے نچوڑ رہاہو“(۱)
(۱)احمد، مسند ،ج۲ ،ص۳۹۰
ظہو ر سے قبل اخلاقی حالت
آخر زمانہ کی نشانیوں میں بارزنشانی خاندانی بنیاد کاکمزور ہونا ،رشتہ داری ، دوستی، انسانی عواطف کا ٹھنڈا پڑنا اورمہر و وفا کا نہ ہونا ہے ۔
الف)انسانی جذبات کا سرد پڑجانا
رسول خدا اس زمانے کی عاطفی(شفقت کے)اعتبار سے حالت یوں بیان فرماتے ہیں: ”اس زمانہ میں،بزرگ اپنے چھوٹوں اور ماتحت افراد پر رحم نہیں کریں گے نیز قوی ناتواں پر رحم نہیں کرے گا اس وقت خدا وند عالم اسے (مہدی کو)قیام و ظہور کی اجازت دے گا“(۱)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت نہیں آئے گی جب وہ دور نہ آئے کہ ایک شخص فقر و فاقہ کی شدت سے اپنے رشتہ داروں اور قرابتداروں سے رجوع کرے گا اور انھیں اپنی رشتہ داری کہ قسم دے گا تاکہ لوگ اس کی مدد کریں؛ لیکن لوگ اسے کچھ نہیں دیں گے پڑوسی اپنے پڑوسی سے مدد مانگے گا اور اسے ہمسایہ ہونے کی قسم دے گا لیکن ہمسایہ اس کی مدد نہیں کرے گا “(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت کی علامتوں میں ایک علامت پڑوسی سے بد رفتاری اور رشتہ داری کو ختم کر دینا ہے “(۳)
(۱)بحار الانوار، ج۵۲ ،ص۳۸۰ و ج۳۶ ،ص۳۳۵
(۲)شجری ،امالی، ج۲،ص۲۷۱
(۳)اخبار اصفہان، ج۱، ص۲۷۴؛؛فردوس الاخبار، ج۴ ،ص۵؛الدرالمنثور، ج۶، ص۵۰ ؛جمع الجوامع ،ج۱، ص۸۴۵ ؛ کنزل العمال، ج۱۴، ص۲۴۰
بعض روایات میں ((الساعة))کی تاویل حضرت کے ظہور سے کی گئی ہے اور روایات ((اشراط الساعة))ظہور کی علامتوں سے تفسیر کی گئی ہیں۔(۱)
ب)اخلاقی فساد
جنسی فساد کے علاوہ ہر طرح کے فساد پر تحمل کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ جنسی فساد غیر ت مند اور شرفاء کے لئے بہت ہی ناگوار اور ناقابل تحمل ہے ۔
ظہور سے پہلے بد ترین انحراف و فساد جس سے سماج دوچار ہو گا ۔ناموس اور خانوادگی ناامنی ہے ،اس وقت اخلاقی گراوٹ اور فساد وسیع پیمانہ پر پھیلاہوا ہوگااخلاقی برائیوں کی زیادتی اور ان کی تکرار کی وجہ سے انسان نما افراد کے حیوانی کردار کی برائی ختم ہو چکی ہو گی،اور یہ عام بات ہو چکی ہوگی، فساد اس درجہ پھیلا ہوگا کہ بہت کم ہی لوگ اسے روکنے کی طاقت یا تمنا رکھیں گے ۔
محمد رضا پہلوی کے دور حکومت ۱۳۵۰ ئشمسی میں ۲۵۰۰ /سو سالہ جشن منایا گیا،جس میں حیوانی زندگی کی بد ترین نمایش ہوئی، اور اسے ہنر شیراز کا نام دیا گیاتو ایران کے اسلامی سماج نے غیض و غضب کے ساتھ اعتراض بھی کیا ،لیکن ظہور سے پہلے ایسے اعتراض کی کوئی خبر نہیں ہے فقط اعتراض ،یہ ہوگا کہ کیوں ایسے برُے افعال چوراہوں پر ہو رہے ہیں یہ سب سے بڑا نہی از منکر ہے جس پر عمل ہوگا ۔ایسا شخص، اپنے زمانہ کا سب سے بڑا عابد ہے۔
اب روایات پر نظر ڈالیں تاکہ اسلامی اقدارکا خاتمہ اور اس عمیق فاجعہ اور وسعت فساد کو اس زمانے میں در ک کریں ۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” قیامت نہیں آئے گی مگر جب روز روشن میں عورتوں کو
(۱)تفسیر قمی،ج۲، ص۳۴۰؛کمال الدین،ج۲، ص۴۶۵؛تفسیر صافی،ج۵، ص۹۹؛نور الثقلین، ج۵، ص۱۷۵؛ اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵۳؛کشف الغمہ، ج۳، ص ۲۸۰؛شافعی ،البیان، ص۵۲۸؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۲کلمہ ۔یوم الظہور، یوم الکرّہ ،یوم القیامة کی تحقیق کے لئے تفسیر المیزان ،ج۲،ص۱۰۸ ملاحظہ ہو
ان کے شوہر سے چھین کر کھلم کھلا ( لوگوں کے مجمع میں)راستوں میں تعدی نہ کی جائے، لیکن کوئی اس کام کو برا نہیں کہے گا اورنہ ہی اس کی روک تھام کرے گا اس وقت لوگوں میں سب سے اچھا انسان وہ ہوگا جو کہے گا کہ کاش بیچ راستے سے ہٹ کر ایسا کام کرتے“(۱)
اسی طرح حضرت فرماتے ہیں : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ،یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک مرد عورتوں کے راستے میں نہ بیٹھیں اور درندہ شیر کی طرح تجاوز نہ کریں لوگوں میں سب سے اچھا انسان وہ ہوگا جو کہے کہ کاش اسے اس دیوار کے پیچھے انجام دیتے اور ملاء عام میں ایسا نہ کرتے “(۲)
دوسرے بیان میں فرماتے ہیں :” وہ لوگ حیوانوں کی طرح وسط راہ میں ایک دوسرے پر حملہ کریں گے، اور آپس میں جنگ کریں گے، اس وقت ان میں سے کوئی ایک ماں ،بہن، بیٹی کے ساتھ بیچ راہ میں سب کے سامنے تجاوزکریں گے، پھر انھیں دوسرے لوگوں کو تعدی و تجاوز کا موقع دیں گے، اور یکے بعد دیگر اس بد فعلی کا شکار ہوگا؛ لیکن کوئی اس بد کرداری کی ملامت نہیں کرے گا ،اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا ان میں سب سے بہتر وہی ہوگا جو کہے گا کہ اگرراستے سے ہٹ کر لوگوں کی نگاہوں سے بچ کر ایسا کرتے تو اچھا تھا“(۳)
ج)بد اعمالیوں کا رواج
محمد بن مسلم کہتے ہیں:امام محمدباقرعلیہ السلام سے عرض کیا : اے فرزند رسول خدا آپ کے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کب ظہور کریں گے ؟ تو امام نے کہا!”اس وقت جب مرد خود کو عورتوں کے
(۱)عقد الدرر، ص۳۳۳؛حاکم مستدرک ،ج۴،ص۴۹۵
(۲)المعجم الکبیر، ج۹، ص۱۱۹؛فردوس الاخبار،ج ۵، ص۹۱؛مجمع الزوائد ،ج۷ ،ص۲۱۷
(۳)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۰۱
مشابہ اور عورتیں مردوں کے مشابہ بنالیں۔ اس وقت جب مرد مرد پہ اکتفاء کرے (یعنی لو اط) اور عورتیں عورتوں پہ“(۱)
امام صادق علیہ السلام سے اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے۔ (۲) اور ابو ہریرہ نے بھی رسول خدا سے نقل کی ہے۔” اس وقت قیامت آئے گی جب مرد بد اعمالی پرا یک دوسرے پر سبقت حاصل کریں جیسا کہ عورتوں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کرتے ہیں“( ۳)
اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بھی ہے۔(۴)
د)اولا دکم ہونے کی آرزو
رسول خدا فرماتے ہیں :” اس وقت قیامت آئے گی جب پانچ فرزند والے چار فرزند اور چار فر زند والے تین فر زند کی آرزو کرنے لگیں،تین والے دو کی اور دو والے، ایک اور
(۱)کمال الدین ،ج۱، ص۳۳۱
(۲)مختصر اثبات الرجعہ، ص۲۱۶؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۷۰؛مستدرک الوسائل، ج۱۲،ص۳۳۵
(۳)فردوس الاخبار ،ج۵، ص۲۲۶؛کنزالعمال، ج۱۴، ص ۲۴۹
(۴)الف )عن الصادق علیہ السلام ”اذا رایت الرجل یعیر علی اتیان النساء “کافی ،ج۸ ،ص۳۹ ؛بحارالانوار ،ج۵۲، ص۲۵۷؛بشارة الاسلام، ص۱۳۳
ب)”اذا صار الغلام یعطی کما تعطی المراة و یعطی قفاہ لمن ابتغی “کافی، ج۸، ص ۳۸ ؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۵۷
ج)”یزف الرجل للرجال کما تزف المراة لزوجھا “بشارة الاسلام ،ص۷۶؛الزام الناصب ،ص۱۲۱
د)قال الصادق علیہ السلام :”یتمشط الرجل کما تتمشط المراة لزوجھا ،و یعطی الرجال الاموال علی فروجھم و یتنافس فی الرجل و یغار علیہ من الرجال ،و یبذل فی سبیل النفس والمال “کافی ،ج۸، ص۳۸؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۴۵۷
ھ)قال الصادق علیہ السلام :”تکون معیشة الرجل من دبرہ ، ومعیشة المراة من فرجھا “کافی ج۸ ص۳۸
و)”قال الصادق علیہ السلام :”عندما یغار علی الغلام کما یغار علی الجاریة (الشابة) فی بیت اھلھا “بشارة الاسلام، ص۳۶،۷۶،۱۳۳
ز)قال النبی :کاٴنک بالدنیا لم تکن اذا ضیعت امتی الصلاة و اتبعت الشھوات و غلت الاسعار و کثراللواط “بشار ة الاسلام ،ص۲۳؛الزام الناصب، ص۱۸۱
اورفرزند والا آرزو کرنے لگے کہ کاش صاحب فرزند نہ ہوتے“(۱)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں : ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تم لوگ کم فرزند والے سے رشک کروگے جس طرح کہ آج اولاد و مال میں اضافہ کی آرزو کرتے ہو ،حد یہ ہو گی کہ جب تم میں سے کوئی، اپنے بھائی کی قبر سے گذرے گا تو اس کی قبر پر لوٹنے لگے گا؛ جس طرح حیوانات اپنی چراگاہوں کی خاک پر لوٹتے ہیں ۔اور کہے گا: اے کاش اس کی جگہ میں ہوتا اور یہ بات خدا وند عالم کے دیدار کے شوق میں ہوگی اور نہ ہی ان نیک اعما ل کی بنیاد پر ہوگی جو اس نے انجام دیئے ہیں ؛ بلکہ اس مصیبت و بلاء کی وجہ سے ایسا کہے گا جو اس پر نازل ہو رہی ہوں گی “(۲)
نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” قیامت اس وقت آئے گی جب اولاد کم ہونے لگے گی“(۳) اس روایت میں ”الولد غیضا “آیا ہے جس کے معنی بچوں کے ساقط کرنے اور حمل نہ ٹھہرنے کے معنی ہیں؛ لیکن کلمہ ”غیضا “دوسری روایت میں؛غم و اندوہ ، زحمت و مشقت اور غضب کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
یعنی لوگ اس زمانے میں(Abortion )سقط اور افزایش فرزند اور ان کی زیادتی سے مانع ہوں گے یا فرزند کا وجود غم و اندوہ کا باعث ہوگا شاید اس کی علت اقتصادی مشکل ہو، یا بچوں میں بیماریوں کی وسعت اور آبادی کے کنٹرول کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ و تبلیغ اثر اندازنہ ہوں یا کوئی اور وجہ ۔
ھ)بے سر پر ست خانوا دوں کی زیادتی
رسو ل خدا فرماتے ہیں :” قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ مرد کم ہوں گے اور
(۱)فردوس الاخبار، ج۵ ،ص۲۲۷
(۲)المعجم الکبیر ،ج۱۰، ص۱۲
(۳)الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۵۱؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۱؛المعجم الکبیر ،ج۱۰، ص۲۸۱؛بحار الانوار ،ج۳۴، ص۲۴۱
عورتیں زیادہ ہوں گی حد یہ ہے کہ ہر ۵۰/عورت پرایک مرد سر پرست ہوگا“(۱)
شاید یہ حالت مردوں کے جانی نقصان سے ہو جو لگا تار اور طولانی جنگوں میں ہوا ہوگا.
نیز آنحضرت فرماتے ہیں:” اس وقت قیامت آئے گی جب ایک مرد کے پیچھے تقریبا ۳۰/ عورتیں لگ جائیں گی اور ہرا یک اس سے شادی کی در خواست کریں گی“(۲)
حضرت دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” خدا وند عالم اپنے دوستوں اور منتخب افراد کو دوسرے لوگوں سے جدا کر دے گا تاکہ زمین منافقین و گمراہوں نیزان کے فرزندوں سے پاک ہو جائےایسا زمانہ آئے گا کہ پچاس پچاس عورتیں ایک مر د سے کہیں گی اے بندہٴ خدا یا تم مجھے خرید لو یا مجھے پناہ دو“(۳)
انس کہتے ہیں کہ رسول خدا فرماتے ہیں :” قیامت اس وقت آئے گی جب مردوں کی کمی اور عورتوں کی زیادتی ہو گی۔اگر کوئی عورت راستے میں کوئی جوتا ،چپل دیکھے گی تو بے دریغ افسوس سے کہے گی: یہ فلاں مرد کی ہے؛ اس زمانہ میں، ہر ۵۰/ عورت پر، ایک مرد سر پر ست ہوگا“(۴)
انس کہتے ہیں کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ جو رسول خدا سے حدیث سنی ہے ،بیان کروں؟ رسول خدا نے فرمایا :” مردوں کاخاتمہ ہو جائے گا اور عورتیں باقی رہ جائیں گی“(۵)
(۱)طیالسی ،مسند ،ج ۸،ص۲۶۶؛احمد مسند ،ج۳،ص ۱۲۰؛ترمذی ،سنن، ج۴، ص۴۹۱؛ابو یعلی ،مسند ،ج۵، ص ۲۷۳؛حلیة الاولیاء، ج۶، ص۲۸۰ دلائل النبوة، ج۶، ص ۵۴۳؛الدر المنثور، ج۶، ص۵۰
(۲)فردوس الاخبار ،ج۵، ص۵۰۹
(۳)مفید ،امالی، ص۱۴۴؛بحارالانوار، ج۵۲،ص۲۵۰
(۴)عقد الدرر ،ص۲۳۲؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۵
(۵)احمد، مسند، ج۳، ص۳۷۷
ظہور سے پہلے امن وامان
الف)ھرج و مرج اور ناامنی
بڑی طاقتوں کی زیادتی و تجاوز کے سبب، چھوٹی چھوٹی حکومتوں اور ناتواں اقوام کے درمیان امنیت کا خاتمہ ہو جائے گا اس کے علاوہ آزادی و امنیت کا کوئی مفہوم نہیں رہ جائے گا ۔
(SUPER POWER)سوپر پاور حکومتیں ناتواں ملتوں ا ور ضعیف اقوام پر اس درجہ دباوٴ ڈالیں گی اور ملتوں کے حقوق سے اتنا تجاوزکریں گی کہ لوگوں کو سانس لینے کی بھی مہلت نہیں ملے گی ۔
رسول خدا اس زمانہ کی اس طرح تصویر کشی کرتے ہیں :”عنقریب امتیں (دیگر آئین و مکاتب کے پیرو)تمہارے خلاف اقدام کریں گی ؛جس طرح بھوکے کھانے کے برتنوں پر حملہ بولتے “(ٹوٹ پڑتے )ہیں ایک شخص نے کہا: کیا اس وجہ سے ایسا ہوگا کہ ہم اس وقت اقلیت میں ہوں گے، کہ ایسے حملہ کا نشانہ بنیں گے؟ رسول خدا نے کہا:” تمہاری تعداد اس وقت زیادہ ہوگی، لیکن خس و خاشاک کے مانند باڑھ میں سطح آب پر ہو گے خدا وند عالم تمہاری ہیبت و عظمت تمہارے دشمنوں کے دلوں سے نکال دے گا ،اور تمہارے دلوں پرسستی چھا جائے گی “کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ! یہ سستی کس وجہ سے ہوگی؟آپ نے فرمایا : ”دنیا کی محبت اور موت کو اچھا نہ سمجھنے سے“(۱)
(۱)طیالسی ،مسند ،ص۱۳۳؛ابی داوٴد ،سنن ،ج۴ ،ص۱۱۱؛المعجم الکبیر ،ج۲، ص۱۰۱
یہ دو بری خصلتیں جسے رسول خدا نے یاد دلائی ہیں، ملتوں کے آزادی حاصل کرنے اور اپنے اقدار کا دفاع کرنے سے مانع ہونے کے لئے کافی ہیں اور انھیں ذلت آمیز زندگی جو ہر شرائط کے ساتھ ہو مانوس کرے ؛ہر چند ایسادین و اصول مکتب کے گنوا دینے سے ہو۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا ظہور اس وقت ہوگا جب دنیا پر آشوب اور ھرج مرج سے بھر جائے گی۔(۱) ایک گروہ دوسرے گروہ کے خلاف یورش کرنے لگے گا، اور نہ بڑا چھوٹے پر اور نہ ہی قوی، ناتواں پر رحم کرے گا تو ایسے موقع پر خدا وند عالم انھیں قیام کی اجازت دےگا“(۲)
ب)راستوں کا غیر محفوظ ہونا
ہرج و مرج اور ناامنی کا دائرہ راستوں تک ہوگا بے رحمی وسیع ہو جائے گی اس وقت خداوندعالم حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو بھیجے گا اور ان کے دست زبردست سے گمراہیوں کے باب کی فتح ہوگی ۔
مہدی موعود (عجل اللہ تعالی فرجہ) تنہا کشادہ استوار قلعوں کی جانب توجہ نہیں دلائیں گے بلکہ حقائق و معنویت سے غافل دلوں کوکھول دیں گے اور حقائق کے قبول کرنے کے لئے آمادہ کر دیں گے ۔
رسول خدا اپنی بیٹی سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” اس خدا کی قسم جس نے مجھے مبعوث کیا ہے حقیقتاً اس امت کا مہدی حسین کی نسل سے ہے، جب دنیا میں ھرج و مرج اور بے سروسامانی ہوگی ۔ اور فتنے (یکے بعد دیگرے) آشکار ہوں گے راستے ،سڑکیں ناامن ہو جائیں گی اور بعض کچھ لوگوں پر حملہ کریں گے؛ نہ بڑا چھوٹے پر رحم کرے گا اور نہ چھوٹا بڑے کا
(۱)بحار الانوار، ج۳۶،ص ۳۳۵؛؛ج۵۲،ص۳۸۰
(۲)وہی، ج۵۲،ص۱۵۴
احترام کرے گا ؛ایسے ہنگام میں خدا وند عالم حسن و حسین علیہماالسلام کی نسل سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا گمراہی کے قلعوں کو درھم و برھم کردے اور اسے فتح کرے ۔ اور ایسے دلوں کو جن پر جہالت ونادانی کا پردہ پڑا ہوا ہے اور حقائق کے درک سے عاجز ہیں بے نقاب کردیگا وہ آخر زمانہ میں قیام کریگا اسی طرح جیسے ہم نے اول میں قیام کیا ہے اوروہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر د ےگا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہو گی۔“(۱)
ج)خوفناک جرائم
ستمگروں اورجلادوں کے جرائم تاریخ میں نہایت خوفناک اور ڈراوٴنے رہے ہیں۔ تاریخی صفحات جرائم وظلم و استبداد سے بھرے پڑے ہیں ظالم و جابر اورخون کے پیاسے حکام اقوام عالم کو محروم رکھے ہوئے ہیں، جس کے نمونے چنگیز ،ہٹلر ، اورآٹیلاہیں۔
رہا سوال ان جرائم کا جو امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل رونما ہوں گے، خطرناک ترین جرائم ہیں جس کا تصور کیا جا سکتا ہے لکڑی کے دار پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو پھانسی دینا ،انھیں آگ میں جلانا ،پانی میں ڈبونا، انسانوں کوفولادی ہتھیار آرہ سے ٹکڑے ٹکڑے کرنا،چکیوں میں پیس دیناوغیرہ ۔
تاریخ کے تلخ حادثات، ہیں جو حکومت عدل جہانی کے قیام سے پہلے دفاع بشر کی دعویدار حکومتوں سے رونما ہوں گے ایسی درندگی کے ظہور سے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو جائے گا جس کے بارے میں روایات کہتی ہیں کہ محرومین کی پناہ ہوگی ۔
(۱)عقد الدرر، ص۱۵۲؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۵۴؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۱۱۶؛الاربعون حدیثاً (ابو نعیم) ذخائر العقبی، ص۱۳۵؛ینابیع المودة، ص۴۲۶
حضرت علی (علیہ السلام)ایسے تلخ ایام کی منظر کشی یوں فرماتے ہیں : ”اس وقت سفیانی ایک پارٹی کو مامور کرے گا تاکہ وہ لوگ بچوں کو ایک جگہ جمع کریں ؛اس گھڑی انھیں جلانے کے لئے تیل کھولا یا جائے گا ؛بچے کہیں گے : اگر ہمارے آباوٴ اجداد نے تمہاری مخالفت کی ہے، تو میرا کیا گناہ ہے “کہ ہم ضرو رجلائے جائیں، پھروہ ان بچوں کے درمیان حسن و حسین نامی بچوں کو باہر لاکر دار پر لٹکائے گا ،اس کے بعد کوفہ کی سمت روانہ ہوگا اور وہی (پہلے کی وحشت ناک)حرکت وہاں کے بچوں کے ساتھ بھی انجام دے گا اور اسی نام کے دو بچوں کو مسجد کوفہ کے دروازہ پر دار پر لٹکائے گا۔ اور وہاں سے باہر نکل کر پھر ظلم و جنایت کرے گا، اور ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے حاملہ عورتوں کو قید کرے گا، اور انھیں اپنے کسی ایک چاہنے والے کے حوالے کر دے گا، اور اسے حکم دے گا کہ بیچ راستے میں اس کے ساتھ تجاوز (عصمت دری)کرو اور تجازو کے بعد عورت کا پیٹ چاک کرکے بچے کو باہر نکال لے گا کوئی اس ہولناک حالت کو نہیں بدل سکتا “(۵)
امام جعفر صادق علیہ السلام لوح کی خبر میں فرماتے ہیں : ”خدا وند عالم اپنی رحمت رسول خدا کی بیٹی کے فرزند کے ذریعہ کامل کرے گا، وہی شخص جو موسی علیہ السلام کا کمال، عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہیبت ،ایوب پیغمبر( علیہ السلام) کا صبر و استقامت رکھتا ہے ہمارے چاہنے والے، (ظہور سے قبل) خوارو ذلیل ہوں گے اور ان کے سر ترک ودیلم کے رہنے والوں کی مانند (ظالموں و حکام)کے لئے ھدیہ کئے جائیں گے، وہ قتل کئے جائیں گے ،جلائے جائیں گے ،اور ان پر خوف و ہراس طاری ہوگا، زمین ان کے خون سے رنگین ہوجائے گی، نالہ و فریاد عورتوں کے
(۵)عقد الدرر ،ص۹۴؛الشیعہ والرجعہ، ج۱ ،ص۱۵۵
درمیان بڑھ جائے گی وہ لوگ ہمارے سچے و واقعی دوست ہیں وہ ان کے ذریعہ ہر اندھے و تاریک فتنے کا دفاع کریں گے زلزلے اور بے چینی کو بر طرف کریں گے اور قید وبند کی زندگی سے انھیں آزاد کردیں گے خدا وند عالم کا ان پر درود ہو کہ وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔“(۱)
ابن عباس کہتے ہیں: ”سفیانی و فلانی خروج کرکے آپس میں جنگ کریں گے اس طرح سے کہ (سفیانی) عورتوں کے شکم چاک کرکے بچوں کو نکال لے گااور بڑے دیگ میں جلاڈالے گا“ ( ۲)
ارطات کہتا ہے :سفیانی اپنے مخالف کو قتل کرے گا، آرہ سے اپنے مخالفین کو دو آدھا کردے گا انھیں دیگ میں ڈال کرنابود کر دے گااور یہ ظلم و ستم ۶/ ماہ تک رہے گا۔(۳)
د)زندوں کو موت کی آرزو
رسول خدا فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہونے پائے گی کہ وہ وقت آجائے گا کہ جب کوئی مرد قبر ستان سے گذرے گا ،تو خود کو قبر پر گرا دے گا، اور کہے گا: کاش اس کی جگہ میں ہوتا، جب کہ اس کی مشکل قرض نہیں ہوگی، بلکہ زمانے کی مصیبت ،ظلم و جور ہوگی“(۴)
روایت میں کلمہ ”رجل“(رد)کے ذکر سے دو بات کا استفاد ہوتا ہے: اول یہ کہ یہ مصیبت و مشکلات اور اس وقت مو ت کی آرزو کرنا، کسی گروہ،قوم اورطائفہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سبھی اس ناگوار حادثات کا شکا ر ہوں گے ۔
(۱)کما ل الدین ،ج۱، ص۳۱۱؛ابن شہر آشوب ،مناقب، ج۲، ص۲۹۷؛ اعلام الوری، ص۳۷۱ ؛اثبات الوصیہ، ص ۶ ۲ ۲
(۲)ابن حماد، فتن، ص۸۳؛ابن طاوٴس، ملاحم، ص۵۱
(۳)حاکم، مستدرک، ج۴ ،ص۵۲۰الحاوی للفتاوی، ج۲ ،ص ۶۵؛متخب کنزل العمال، ج۶، ص۳۱(حاشیہ مسند احمد)؛ احقا ق الحق، ج۱۳، ص۲۹۳
(۴)احمد، مسند، ج۲، ص۶۳۶؛مسلم ،صحیح، ج۴، ص۲۲۳۱؛المعجم الکبیر، ج۹، ص۴۱۰؛مصابیح السنہ، ج۲، ص۱۳۹؛عقد الدرر، ص۲۳۶
دوم یہ کہ مرد کے ذریعہ تعبیر کرنا، اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس وقت دباوٴ و سختی زیادہ بڑھی ہوگی؛اس لئے کہ مر د اکثر مشکلات و شدائد میں عورت سے زیادہ مقا ومت کرتا ہے ،اس بات سے کہ مردوں کو اس زمانے کی سختیاںنا قابل بر داشت ہوں گی، استفادہ ہوتا ہے کہ مشکل بہت بڑی اور کمر شکن ہے ۔
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا : اے ابو حمزہ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت قیام کریں گے جب خوف و ہراس ، مصیبتیں ،اورفتنے معاشرہ میں حاکم ہوں گے ۔گرفتاری و بلاء لوگوں کے دامن گیر ہوگی، اور اس سے پہلے طاعون ،کی بیماری پھیلی ہوگی عرب کے مابین شدید اختلاف و نزاع واقع ہوگا ،اور لوگوں کے درمیان سخت اختلاف حاکم ہوگا، اور ایسا،دین اور اس کے آئین سے دوری کی بنیاد پر ہوگا ۔ لوگوں کی حالت اس حد تک بدل جائے گی کہ ہر شخص شب و روزجو اس نے لوگوں کی درندگی اور ایک دوسرے کے حق سے تجاوز دیکھاہے، مرنے کی آرزو کرےگا۔(۱)
حذیفہ صحابی ،رسو ل خدا سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :” یقینا تم پر ایک ایسا وقت آئے گاکہ انسان اس وقت مرنے کی آرزو کرے گا؛اور یہ آرزو فقر و تنگدستی کے سبب نہیں ہوگی“( ۲)
ابن عمر کہتے ہیں کہ یقینا لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن زمین کی مصیبت، اور شدتِ گرفتاری کی وجہ سے آرزو کرے گا کہ کاش میں اپنے خانوادہ (اہل و عیال) سمیت کشتی پر سوار ہوتا اور دریا میں غرق ہو جاتا ۔(۳)
(۱۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۵؛طوسی ،غیبة، ص۲۴۷؛اعلام الوری، ص۴۲۸؛بحار الانوار، ج۲،۵ ص۳۴۸؛اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۴۰؛حلیة الا برار، ج۲، ص۶۲۶؛بشارة الاسلام ،ص۸۲
(۲)ابن ابی شیبہ ،مصنف ،ج۱۵،ص۹۱؛مالک ،موطا، ج۱، ص۲۴۱؛مسلم ،صحیح، ج۸، ص۱۸۲؛احمد، مسند،ج۲، ص۲۳۶ ؛ بخاری، ج۹، ص۷۳؛فردوس الاخبار، ج۵، ص۲۲۱
(۳)عقد الدرر، ص۳۳۴
ھ)مسلمانوں کا اسیر ہونا
حذیفہ بن یمانی کہتے ہیں کہ رسول خدا نے ان مشکلات کے بیان کرتے ہوئے جن سے مسلمان دوچار ہوں گے فرمایا: دباوٴ کی وجہ سے آزاد افراد کوفروخت کریں گے اور عورتیں و مردغلامی کا اقرار کریں گے مشرکین مسلمانوں کو اپنی مزدوری و نوکری کے لئے استعمال کریں گے اور انھیں شہروں میں فروخت کریں گے اور کوئی ہمدرد ودلگیر نہیں ہوگا، نہ مومن اور نہ بد کار و فاجر ۔ اے حذیفہ! گرفتاری اس زمانے کے لوگو ں پر قائم رہے گی، اور اس درجہ مایوس ہوں گے کہ ظہور کشایش(فرج) سے بد گمان ہوجائیں گے ،اس وقت خدا وندعالم میری پاکیزہ عترت نیک فرزندوں میں سے جو عادل ،مبارک اور پاکیزہ ہوگا ،ایک شخص کو بھیجے گاوہ ذرا بھی چشم پوشی اور چھوٹ سے کام نہیں لے گا ۔خدا وند عالم دین،قرآن ،اسلام اور اس کے اہل کو اس کی مدد سے عزیز اور شرک کو ذلیل کرے گا ،وہ ہمیشہ خدا سے ڈرتا ہے اور کبھی مجھ سے اپنی رشتہ پر ناز نہیں کرتا ؛پتھر کو پتھر پر نہیں رکھے گا اور کسی کو کوڑے نہیں مارے گا، سوائے یہ کہ حق ہو یا حد کا اجراء ہو خدا وند عالم اس کے ذریعہ بد عتوں کا خاتمہ اور فتنوں کو نابود کردے گا اور حق کے دروازوں کو کھول دے گا نیز باطل کے دروازے بند کردے گا اور مسلمان اسیروں کو جہاں کہیں بھی ہوں گے ان کے وطن لوٹا دے گا“(۱)
و)زمین میں دھسنا
رسو ل خدا فرماتے ہیں:” یقینا اس امت پر وہ زمانہ آئے گا کہ دن کو رات بنادے گا، جب کہ ہر ایک دوسرے سے سوال کرے گا، آج رات زمین کس کو کھاگئی، جس طرح لو گ ایک دوسرے سے سوال کریں گے کہ فلاںخاندان و قبیلہ سے کون زندہ ہے کیا کوئی اس خاندان سے زندہ ہے؟“(۲)
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۲
(۲)المطالب العالیہ، ج۴، ص۳۴۸
شاید یہ کنایہ ہو آخر زمانہ کی کشت وکشتارا ور جنگ و جدال سے کہ جدید و نئے اسلحوں کے استعمال سے ہر روزلوگوں کی خاصی تعداد ماری جائے گی اور شاید زمین گناہ کی زیادتی سے، اپنے رہنے والوں کو کھاجائے ۔
ز)ناگہانی (اچانک)اموات کی زیادتی
رسول خدا فرماتے ہیں:”قیامت کی ایک علامت فالج کی بیماری اور ناگہانی موت ہے“(۱)
نیز فرماتے ہیں -:”قیامت اس وقت آئے گی جب سفید موت ہونے لگے لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ!سفید موت کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا: ”ناگہانی موت“(۲)
امیر الموٴ منین علیہ السلام فرماتے ہیں ”حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے سرخ و سفید موت ہوگی سفید موت، طاعون ہے‘‘(۳)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ایسے زمانے میں قیام کریں گے کہ جب خوف و ہراس کا غلبہ ہوگا اور اس سے پہلے طاعون کا مرض عام ہوگا “ ( ۴)
ح)دنیا والے نجات سے نا امید ہوں گے
رسول خدا فرماتے ہیں :”اے علی! حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے، جب شہر دگر گون ہو جائیں گے، اور خدا کے بندے ضعیف اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے فرج و ظہور سے مایوس ہو چکے ہوں گے، ایسے وقت میں مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ) قائم میرے فرزندوں کی نسل سے ظاہر ہوں گے“( ۵)
.....................................................................
(۱)شجری ،امالی، ج۲ ،ص۲۷۷
(۲)الفائق ،ج۱، ص۱۴۱
(۳)نعمانی ،غیبة، ص۲۷۷؛طوسی، غیبة، ص۲۶۷؛اعلام الوری ،ص۴۲۷؛خرائج ،ج۳ ،ص۱۵۲؛عقد الدرر،ص۶۵؛ الفصول المہمہ، ص۳۰۱؛الصراط المستقیم ،ج۲ ،ص۲۴۹؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۲۱۱
(۴)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۸
(۵)ینابیع المودة، ص۴۴۰؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۱۲۵
ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام فرمایا:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا قیام اس وقت ہو گا جب لوگ اپنے کاموں میں کشادگی اور حضرت کے فرج سے مایوس ہو چکے ہوں گے“ ( ۱)
حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”یقینا میرے اہل بیت سے ایک شخص میرا جانشین ہوگا،اور ایسا اس وقت ہوگا جب زمانہ مصیبتوں اور سختیوں کا شکار ہوگا ؛اس وقت جب کہ مصیبتیں سخت وشوار اور امیدیں منقطع ہوں گی“(۲)
ط)مدد گاروں کا فقدان
رسول خدا فرماتے ہیں:”اس امت پر اس قدر بلائیں نازل ہوں گی کہ انسان کو ظلم سے بچنے کے لئے کوئی پناہ نہیں ملے گی“(۳)
نیز فرماتے ہیں :آخر زمانہ میں ہماری امت پر ان کی حکومتوں کی جانب سے مصیبتیں نازل ہوں گی اس طرح سے کہ مومن کو ظلم سے نجات کے لئے کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا ‘ ‘ (۴)
دوسری روایت میں فرماتے ہیں:” تمہیں مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) فرزند فاطمہ(س) کی خوشخبری ہے کہ آپ مغرب سے ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے “کہا گیا: یارسول اللہ! (یہ ظہور) کس وقت ہوگا ؟ تو حضرت نے فرمایا:” ایسا اس وقت ہوگا جب قاضی رشوت لینے لگیں اور لوگ فاجر ہو جائیں “عرض کیا گیا :مہدی کس طرح ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا : اپنے
(۱)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۸
(۲)ابن المنادی ،ملاحم ،ص۶۴؛ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،ج۱، ص۲۷۶؛ المسترشد، ص۷۵؛ مفید ،ارشاد، ص۱۲۸؛ کنزل العمال، ج۱۴، ص۵۹۲؛غایة المرام، ص۲۰۸بحار الانوار، ج ۳ ۲ ، ص۹؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۳۱۴؛منتخب کنزل العمال، ج۶، ص۳۵
(۳)شافعی، بیان، ص۱۰۸
(۴)عقد الدرر، ص۴۳
اہل و عیال اورخاندان سے علیحدگی اختیار کریں گے نیز وطن سے دور عالم مسافرت میں زندگی گذاریں گے “ ( ۱)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :تم لوگ جس کے انتظار میں ہو اسے دیکھ نہیں پاوٴ گے مگر اس وقت کہ جب تم بکریوں کی طرح جو درندوں کے چنگل میں پھنس گئی اور سے کوئی چارہ جوئی کا راستہ نہ مل رہا ہو اس وقت تجاوز و تعدی سے محفو ظ رہنے کا کوئی ٹھکانا نہ پاوٴگے اور نہ ہی کوئی ایسی بلند جگہ کہ اس پر چڑھ کر اپنا بچا وٴ کر سکو۔(۲)
ی)جنگ ،قتل،اور فتنے
روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام سے پہلے سارے عالم میں قتل وخون ہوگا ۔بعض روایتیں فتنے کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ،کچھ روایتیں پئے در پئے جنگ کی خبر دیتی ہیں، کچھ روایتیں انسان کے قتل اور جنگ اور طاعون، سے پیدا شدہ بیماریو ں کی خبر دیتی ہیں ۔
رسول خدا فرماتے ہیں :” میرے بعد تمہیں چار فتنوں کا سامنا ہوگا:پہلے فتنے میں ، خون مباح سمجھا جائے گا اور قتل کی زیادتی ہوگی ۔ دوسرے فتنے میں، خون اور مال حلا ل سمجھا جائے گا، اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگا ۔تیسرے فتنے، میں لوگوں کے خون و اموال اورعزتیں مباح سمجھی جائیں گی اور قتل و غارت گری کے علاوہ انسان کی ناموس بھی محفوظ نہیں رہے گی ۔ چوتھے فتنے میں، اندھیرے کا راج ہوگا، اور ایسا سخت زمانہ آئے گا جیسے دریامیں کشتی تلاطم و اضطراب کا شکار ہو ۔ جس کی وجہ سے کسی کو پناہ گاہ نصیب نہیں ہوگی ۔شام سے فتنے اٹھیں گے اور عراق پر محیط
(۱)احقاق الحق، ج۱۹، ص۶۷۹
(۲)کافی، ج۸، ص۲۱۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۶
ہو جائیں گے اور جزیرہ حجاز کا اس میں ہاتھ خون آلود ہوگا ،مصیبتیں لوگوں کو ہلاکے رکھ دیں گی، اور ایسا ہو جائے گا کہ کسی کو چوں و چرا کی گنجائش نہیں رہ جائے گی، اور اگر کسی طرف سے فتنے کی آگ خاموش بھی ہو گی تو دوسری طرف سے بھڑک جائے گی “(۱)
دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :” میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ انسان کو اس سے راہ نجات نہیں ملے گی، اس میں جنگ ،فرار اور آوارگی ہوگی، اس کے بعد ایسے فتنے اٹھیں گے کہ ہر فتنہ پہلے فتنہ سے سخت تر ہوگا، ابھی ایک فتنہ خاموش نہیں ہونے پائے گا کہ دوسرا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا ۔ حدیہ ہو گی کہ عرب کا کوئی گھر اس فتنے کی آگ سے محفوظ نہیں رہ پائے گا ۔اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو اس فتنے سے امان میں ہو اس وقت میرے خاندان سے ایک شخص ظہور کرے گا “(۲)
نیز فرماتے ہیں : ”عنقریب میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ اگر ایک طرف سے امن ہوگا تو دوسر ی طرف سے نا امنی کی آواز آئے گی ، یہاں تک کہ آسمان سے منادی ندا کرے گا: تمہارا امیر و سردار مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)ہے“(۳)
ان روایات میں ان فتنوں سے متعلق گفتگو ہے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے رونما ہوں گے، لیکن دوسری روایتوں میں ان خانہ سوز جنگوں کا تذکرہ ہے جسے ابھی بیان کروں گا ۔
عمار یاسر فرماتے ہیں : تمہارے پیغمبر کے اہل بیت کی دعوت آخر زمانہ میں یہ ہے کہ جب تک ہمارے اہل بیت سے اپنے رہبر کو نہ دیکھ لو ہر طرح کی نزاع سے پر ہیز کرو۔
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۲۱؛کمال الدین ،ج۲، ص۳۷۱
(۲)عقد الدرر، ص۵۰
(۳)احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۹۵؛احمد ،مسند ،ج۲، ص۳۷۱
اس وقت ترک ،رومیوں کی مخالفت کریں گے، اور زمین پر جنگ چھڑ جائے گی “ (۱)
کچھ روایتیں، ظہورمہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے پہلے قتل و کشتار کی خبر دیتی ہیں ،ان میں سے بعض روایات میں صرف کشتار کا تذ کر ہ ہے، اور بعض قتل و غارت گری کے عالمگیر ہونے کی خبر دیتی ہیں ۔
اس سلسلے میں امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے پئے در پئے اور بدون وقفہ قتل ہوں گے “(۲)
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ شہر مدینہ میں اس درجہ قتل و غارت گری ہوگی کہ اس میں ”احجار الزیت“(۳) نامی علاقہ درہم و برہم ہو جائے گا اور ”حرہ“(۴)کا حادثہ اس کے سامنے ایک تازیانہ کی چوٹ سے زیادہ نہیں سمجھاجائے گا ؛اس وقت کشتار کے بعد تقریباً دو فر سخ مدینہ سے دور ، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی بیعت کی جائے گی ۔(۵)
ابوقبیل کہتا ہے کہ بنی ہاشم کا ایک شخص سر براہ حکومت ہوگا، اور صرف بنی امیہ کا قتل عام کرے گا؛ اس طرح سے کہ معدود چند کے سوا ،کوئی باقی نہیں بچے گا۔ اس کے بعد بنی امیہ کا ایک شخص خروج کرے گا اور ہر فرد کے مقابل ،دو آدمی کو قتل کرے گا؛ اس طرح سے کہ عورتوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا۔(۶)
(۱)طوسی، غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۲
(۲)قرب الاسناد، ص۱۷۰؛نعمانی ،غیبة، ص۲۷۱
(۳)مدینہ شہرمیں ایک محلہ ہے جو نماز استسقاء پڑھنے کی جگہ ہے معجم البلدان ،ج۱،ص۱۰۹
(۴)امام حسین کی شہادت اور مدینہ والوں کے یزید کے خلاف قیام کے بعد مدینے کے لوگ یزیدی حکم سے قتل عام ہوئے اور اس واقعہ میں دس ہزار سے زیادہ افر اد مارے گئے یہ جگہ وہی (حرةو اقم)ہے معجم البلدان ،ج۲،ص۲۴۹
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم ،ص۵۸
(۶)وہی ص۵۹
رسول خدا اس طرح فرماتے ہیں :”قسم اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، دنیا کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ زمانہ نہ آجائے جس میں قاتل کو اپنے قتل کرنے کی اور مقتول کے قتل ہونے کی علت معلوم نہ ہو جائے ۔ اور ھرج ومرج (اضطراب و بے چینی) سارے عالم پر محیط ہوگا ایسے وقت میں، قاتل و مقتول دونوں ہی جہنم میں جائیں گے “(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ظہور سے پہلے دنیا دو طرح کی موت سے دو چار ہوگی: سفید و سرخ ۔سرخ موت تلوار (اسلحوں) سے ہوگی اور سفید موت طاعون کے ذریعہ“(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے دو غیبتیں ہیں اس میں سے ایک دوسری سے دراز مدت ہے ،اس وقت لوگوں کو موت و قتل کا سامنا ہوگا“(۳)
جابر کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کس وقت یہ بات (قیام مہدی عج) وقوع پذیر ہوگی؟(۴) امام (علیہ السلام) نے جواب میں کہا: کیسے اس کا تحقق ہو جب کہ ابھی ”حیرہ“ اور کوفہ کے درمیان کشتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوئی ہے ۔(۵)
(۱)فردوس الاخبار، ج۵، ص۹۱
(۲)نعمانی ،غیبة، ص۲۷۷؛مفید، ارشاد، ص۳۵۹؛طوسی، غیبة، ص۲۶۷ ؛صراط المستقیم ،ج۲، ص۲۴۹بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۱
(۳)نعمانی، غیبة، ص۱۷۳؛دلائل الامامہ ،ص۲۹۳؛تقریب المعارف ،ص۱۸۷؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۱۵۶
(۴)(کوفہ سے (۶ کیلو میٹر ) دور ایک شہر ہے؛معجم البلدان، ج۲،ص۳۲۸
(۵)طوسی ،غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۷۲۸؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۲۰۹
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے دو طرح کی موت آئے گی سرخ اور سفید، اور اس درجہ انسان قتل کئے جائیں گے کہ ہر ۷/ آدمی میں دو آدمی باقی بچیں گے“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)اس وقت ظہور کریں گے جب ایک تہائی انسان قتل کر دئے جائیں گے، اور ایک تہائی مر جائیں اور ایک تہائی باقی بچیں گے “(۲)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا:” آیا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کی کوئی علامت و پہچان بھی ہے؟ تو آپ نے فرمایا :”درد ناک قتل، اچانک موت ، اور دہشت آمیزطاعون“(۳)
کتاب ارشاد قلوب کی نقل کے مطابق ۔(۴)”قتل ذریع“یعنی اچانک و عالمگیر۔
اورکتاب مدینة المعاجز کے(۵) مطابق ۔”قتل رضیع“یعنی لئیم و پست۔
اورحلیة الابرار کے مطابق۔(۶)”قتل فضیع“یعنی ناگوار۔
روایت کے معنی یہ ہیں ”ہاں ،حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کی علامتیں ہیں، من جملہ عالمگیر ،ناگوار ،پست قتل،اچانک موتیں پئے در پئے اور ،طاعون کا رواج“
(۱)کمال الدین، ج۲،ص۶۶۵؛العدد القویہ، ص۶۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۰۷
(۲)ابن طاوٴوس، ملاحم، ص۵۸؛احقاق الحق، ج ۱۳،ص۲۹
(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱
(۴)ارشاد القلوب ،ص۲۸۶
(۵)مدینة المعاجز ،ص۱۳۳
(۶)حلیة الابرار، ص۶۰۱
محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب دوتہائی آبادی ختم ہو جائے گی “کہا گیا:کہ اگر دوتہائی قتل ہو جائیں گے تو پھر کتنی تعداد باقی بچے گی؟ تو آپ نے فرمایا :کیا تم راضی نہیں ہو (اور دوست نہیں رکھتے) کہ ایک تہائی باقی رہنے والوں میں تم ایک رہو۔(۱)
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ظہوراس وقت ہوگا جب (۱۰/۹)آبادی ختم ہو جائے گی ۔(۲)
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” اس زمانے میں ایک تہائی کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا“(۳)
رسول خدا فرماتے ہیں :” ہر دس ہزار کی تعداد میں نو ہزار نو سوافراد قتل ہو جائیں گے جز معدود چند افراد کے“(۴)
ابن سیرین کہتے ہیں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب ہر نو آدمی پر مشتمل جماعت کے سات آدمی قتل ہو جائیں ۔(۵)
(۱)طوسی ،غیبة،چاپ جدید، ص۳۳۹؛کمال الدین، ج۲ ،ص۶۵۵؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۰؛ بحار الانوار، ج۵۲،ص۷ا۲۰؛الزام الناصب ،ج۲ ،ص۱۳۶؛ابن حماد، فتن ،ص۹۱؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۷؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۱۱
(۲)الزام الناصب، ج۲، ص۱۳۶،۱۸۷؛عقد الدرر، ص۵۴،۵۹،۶۳،۶۵،۲۳۷؛نعمانی، غیبة، ص۲۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۲
(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱؛ارشاد القلوب، ص۲۸۶
(۴)مجمع الزوائد، ج۵، ص۱۸۸
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۷۸
محترم قارئین! مذکورہ تمام روایات سے مندرجہ ذیل نکات نکلتے ہیں :
۱۔حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے کشت و کشتار ہوگی ،اور اکثر انسان قتل ہو جائیں گے ،اور جو لوگ بچ جائیں گے ان کی تعداد مقتولین سے کم ہوگی۔
۲۔کچھ افراد جنگ کی وجہ سے قتل ہوں گے، اور کچھ لوگ سرایت کرنے والی بیماری کی وجہ سے، (جو احتمال قوی )کی بناء پر لاشوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی ۔اسی طرح احتمال ہے کہ کیمیائی اسلحوں اور خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی وجہ سے بیماری وجود میں آئے گی، اور لوگ جان بحق ہوں گے ۔
۳۔اس اقلیت کے درمیان امام کے چاہنے والے شیعہ ہوں گے؛ اس لئے کہ وہی لوگ ہیں جو امام کی بیعت کریں گے نیز امام صادق (علیہ السلام) کی حدیث میں آیا ہے کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ اس باقی رہنے والی ایک سوم آبادی میں تم رہو۔؟
دنیا کی اقتصادی حالت ظہور کے وقت
اس فصل کی روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے، کہ فساد و تباہی کے پھیلاوٴ ا ورعطوفت صلہٴ رحمی کے ختم ہوجانے اور جنگ وغیرہ سے دنیا اقتصادی اعتبار سے انحطاطی کیفیت سے دو چار ہوگی؛ اس طرح سے کہ آسمان بھی ان پر رحم نہیں کرے گا، اور بارش کانزول جو کہ رحمت الٰہی ہے غضب میں تبدیل ہو جائے گا، اور ایک تباہ کن حالت ہو گی۔
ہاں، آخر زمانہ میں بارش کم ہو گی، یاپھر بے موسم ہو گی جو کھیتیوں کی نابودی کا سبب قرار پائے گی، چھوٹے چھوٹے دریا اور جھیلیں خشک ہوجائیں گی، اور کھیتیاں سود مند ثابت نہیں ہوں گی، اور تجارت کی آب و تاب ختم اور بھوک مری عام ہو جائے گی، اس درجہ کہ لوگ پیٹ بھرنے کے لئے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو بازار میں لے آئیں گے، اور انھیں تھوڑی سی غذا کے بدلے بدل ڈالیں گے ۔
الف) بارش کی کمی اور بے موقع بارش
رسول خدا فرماتے ہیں : ”لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ خدا وند عالم بارش سے انھیں محروم کر دے گا ۔ اور بارش نہیں ہوگی اور اگر ہوگی تو بے موسم ہوگی“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”گرمی کے موسم میں بارش ہوگی “(۲)
(۱)جامع الاخبار،ص ۱۵۰؛مستدر ک الوسائل، ج۱۱،ص ۳۷۵
(۲)دوحة الا نوار، ص۱۵۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۵۱؛کنز ل العمال ،ج۱۴،ص۲۴۱
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے ایک سال ایسا ہوگا کہ خوب بارش ہوگی جس سے میوہ خراب اور کھجوریں درخت پر ہی فاسد ہوجائیں گی لہٰذا اس وقت شک و شبہ میں مبتلا نہ ہونا( ۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” بارش اتنی کم ہوگی کہ نہ زمین پودا اگاسکے گی اور نہ ہی آسمان سے بارش ہوگی ایسے موقع پر حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے“(۲)
عطا بن یسار کہتے ہیں:”روز قیامت کی نشانیوں میں ایک۔یہ ہے کہ بارش تو ہوگی لیکن زراعت نہیں ہو پائے گی“
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:” جس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے اصحاب قیام کریں گے تو پانی زمین پر نایاب ہوجائے گا، موٴ منین خدا وند عالم سے گریہ و زاری، نالہ و فریاد کے ذریعہ بارش کی در خواست کریں گے، تاکہ خدا وند عالم پانی بر سائے اور لوگ سیراب ہوں“(۳)
ب) چھوٹی چھوٹی (ندیوں، جھیلوں کا خشک ہو نا)
رسول خدا فرماتے ہیں :” مصر کے شہر؛ دریائے نیل کے خشک ہو جانے کی وجہ سے تباہ ہوجائیں گے “(۴)
ارطات کہتے ہیں :”اس وقت،دریائے فرات ،نہریں،اورچشمے خشک ہو جائیں گے“( ۵)
(۱)شیخ مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛شیخ طوسی، غیبة، ص۲۷۲؛اعلام الوری، ص۴۲۸؛خرائج ج۳،ص۱۱۶۴؛ابن طاوٴ س، ملاحم، ص۱۲۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۱۴
(۲)ابن طاوٴس ،ملاحم ،ص۱۳۴
(۳)عبد الرزاق ،مصنف ،ج۳ ،ص۱۵۵
(۴)دلائل الامامہ، ص۲۴۵
(۵)بشارة الاسلام ،ص۲۸
نیز روایت میں آیا ہے ”طبرستان کے چھوٹے چھوٹے دریا خشک ہو جائیں گے، کھجور کے درخت بار آور نہیں ہوں گے اور ”زعر“(جو شام میں واقع ہے)چشمہ کا پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے گا ‘ ‘(۱)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے : نہریں خشک ہو جائیں گی،اور مہنگائی اور خشک سالی تین سال تک بر قرار رہے گی ۔(۲)
ج)قحط،فقرو کساد بازاری
ایک شخص نے رسول خدا سے سوال کیا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے کہا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ (رسولخدا) سوال کرنے والے سے زیادہ باخبر نہیں ہے، مگر قیامت کی نشانیاں ہیں: ان میں سے ایک تقارب بازار ی ہے، سوال کیا گیا: تقارب بازار کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا مندا بازاری و بارش کا نہ ہونا کہ جس میں گھاس و محصول اپج نہ سکے“(۳)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) نے ابن عباس سے کہا: ”تجارت و معاملات زیادہ ہوں گے، لیکن لوگوں کو اس سے فائدہ کم نصیب ہوگا ۔اس کے بعد شدید قحط پڑے گا “(۴)
محمد بن مسلم کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو کہتے سنا :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خدا وند عالم کی جانب سے موٴمنین کے لئے علامتیں ہیں “میں نے کہا خدا مجھے آپ کا فدیہ قراردے ؛وہ علامتیں کیا ہیں ؟
آپ نے جواب دیا ”وہ خدا وند عالم کے قول کے مطابق ہیں۔
<وَلِنَبْلُوَنَّکُمْ بِشْیءٍ مِنَ الْخَوْفِ والجوعِ و نقصٍ من الاموال والانفس
(۱)ابن حماد ،فتن ،ص۱۴۸
(۲)بشارة الاسلام ،ص۱۹۱؛الزام الناصب ،ص۱۶۱
(۳)بشارة الاسلام ،ص۹۸
(۴)الترغیب و الترہیب ،ج۳، ص۴۴۲
والثمراتِ وبَشّر الصابرین>؛(۱)
تمہیں (مو منین ) حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خوف ، بھوک، جان و مال،اورمیووں کی کمی سے آزمائیں گے لہٰذا صبر کرنے والوں کو مژدہ سناوٴ“
اس وقت فرمایا:خدا وند عالم موٴمنین کو بنی فلاں کے بادشاہوں کے خوف سے ان کے اختتامی حکومت کے زمانے میں آزمائے گا۔
گر سنگی سے مراد ،قیمت کی گرانی ہے اور”کمی دارایھا“سے مراد( Income) آمدنی کی کمی اور مندا بازاری ہے۔نقصان جان سے مراد، موتوں کی زیادتی اور اس کاپئے در پئے واقع ہونا ہے اور میووٴں کی کمی سے مراد، کاشت کی منفعت میں کمی ہے ۔لہٰذا صبر کرنے والوں کو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا اس وقت مژدہ سناوٴ “(۲)
کتاب”اعلام الوریٰ“ کی نقل کے مطابق ”قلة المعاملات“سے مراد کساد بازاری ، اورعدل و انصاف کی کمی کے معنی میں ہے۔(۳)
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب سفیانی خروج کرے گا، تو اشیاء خورد و نوش میں کمی آچکی ہوگی ،لوگوں کو قحط کا سامنا ہو گا بارش کم ہوگی “(۴)
ابن مسعود کہتا ہے:جب تجارتیں ختم ہو جائیں گی،اور راستے خراب ہو جائیں گے، تو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور فرمائیں گے۔(۵)
(۱)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۲۵
(۲)سورہ ٴ بقرہ، آیت ۱۵۵
(۳)کمال الدین ،ج۲،ص۶۵۰؛نعمانی، غیبة، ص۲۵۰؛مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛اعلام الوری، ص۴۶۵؛عیاشی ،تفسیر، ج۱ ، ص۶۸
(۴)اعلام الوری ،ص۴۵۶
(۵)ابن طاوٴس، ملاحم، ص۱۳۳
شاید مندہ بازاری کی وجہ صنعتی وپیداوار مراکز کی ویرانی اور انسانی طاقتوں کی کمی ،خریدنے کی طاقت کا نہ ہونا ،قحط اور راستوں کا غیر محفوظ ہونا وغیرہ ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں مذکورہے: حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل لوگ تین سال تک شدید خشک سالی میں مبتلا ہوں گے۔(۱)
ابو ہریرہ کہتے ہیں : اس شر سے جو اُ ن سے نزدیک ہو رہا ہے عرب پر وائے ہو؛ سخت بھوک مری کا سامنا ہوگا، مائیں اپنے بچوں کی بھوک کی وجہ سے، گریہ و زاری کریں گی ۔(۲)
د)غذاکے بدلے عورتوں کا تبادلہ
ظہور سے پہلے قحط اور بھوک مری کا حادثہ اس درجہ دردناک ہوگا کہ کچھ لوگ اپنی لڑکیوں کا معمولی غذا کے عوض معاملہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ابو محمد، مغربی شخص سے روایت کرتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے کہ انسان (فقر فاقہ کی شدت اور بھوک مری سے) اپنی خوبصورت کنیزوں اور لڑکیوں کو بازار میں لائے گا ،اور کہے گا: کون ہے جو مجھ سے اس لڑکی کو خرید لے اور اس کے بدلے خوراک دیدے ؟ایسے شرائط میں حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے ۔(۳)
(۱)الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۰؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۲؛عقد الدرر،ص۱۳۲
(۲)ابن ماجہ، سنن، ج۲، ص۱۳۶۳
(۳)کنزل العمال ،ج۱۱،ص۲۴۹
امید کے دریچے
گذشتہ بحثوں میں روایات کے سہارے امام عصر( (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہورسے قبل، دنیا کے حالات سے آگاہ ہوئے اگر چہ اِن روایات میں بے سر و سامانی اور اس درجہ مشکلات کا تذکرہ ہے کہ انسان مایوس و ناامید ہو جائے۔ لیکن دیگر روایات میں شیعوں اور موٴ منین کے لئے امید کی جھلکیں اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔
بعض روایات تو بس ان مومنین کے بارے میں ہیں کہ کبھی زمین ان سے خالی نہیں رہے گی ،اور وہ لوگ ظہورسے قبل کے سخت ترین شرائط کے باوجود عالم میں پائے جائیں گے ۔
کچھ روایتیں دوران غیبت علماء اور اسلامی دانشوروں کے کردار کی جانب اشارہ کرتی ہیں خواہ کتنا ہی معاشرہ کی بد حالی کا باعث ہوں انھیں محافظ دین کے عنوان سے متعارف کراتی ہیں ۔
معصومین (علیہم السلام) کی بعض تقریروں میں ظہور سے قبل شہر قم کے کردار کا تذکرہ ہے ۔
روایتیں ظہور سے قبل و بعد ایرانیوں کی فعالیت و کار کردگی کی خبر دیتی ہیں ۔
الف)حقیقی مومنین
کبھی ایسی روایتوں سے بھی سابقہ ہوتا ہے جو کسی کے جواب میں بیان کی گئی ہیں، جن سے گمان ہوتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو مومن انسان کے وجود سے خالی ہوگا ۔ امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) نے اس گمان کی نفی کی اور ہر زمانہ میں مومنین کے وجود کی خبردی۔زراد کہتے ہیں :کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا : میں ڈرتا ہوں کہ مومنین میں نہ رہوں امام نے کہا :”کیوں ایسا سوچ رہے ہو؟“میں نے کہا: اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے بھائی کو درہم و دینا رپر مقدم کرے؛ لیکن یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ درھم و دینار کو برادر دینی(جسے ولایت علی علیہ السلام نے ہم سب کو ایک جگہ جمع کیا ہے) پرترجیح دیتا ہے، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے کہا:ایسا نہیں ہے جیسا تم کہہ رہے ہوتم لوگ صاحبان ایمان ہولیکن تمہاراایمان حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت کامل ہو گا، اس وقت خداو ند عالم تمہاری عقلوں کو کامل کرے گا ،اور تم لوگ مکمل مومن بن جاوٴ گے ۔
اس خدا کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، سارے جہان میں، ایسے انسان پائے جاتے ہیں جن کی نگاہ میں ساری دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے“(۱)
ب)شیعہ علماء و دانشوروں کا کردار
ہر زمانے میں جہالت و ظلمت نے اپنا سایہ انسانی سماج پر ڈال رکھا ہے یہ علماء و دانشور افراد ہیں جنھوں نے ہمیشہ جہل و نادانی کو دور کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے، اوراپنی سالم فکر سے انھیں دور کرتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان فساد و تباہی کو بحسن و خوبی ختم کرتے ہیں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر زمانہ میں علماء اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیں گے۔
امام ہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” اگر قائم آل محمد کی غیبت کے زمانے میں علماء و دانشور نہ ہوتے اور لوگوں کو ان کی طرف ہدایت و رہنمائی نہ کرتے اورحجت الٰہی کے ذریعہ دین کا دفاع نہ کرتے اور ضعیف شیعوں کو شیطانی جالوں اوران کے بہی خواہوں سے نجات نہیں دیتے، اور ناصبی (دشمن اہل بیت ) کے شر سے محفوظ نہ رکھتے تو کوئی اپنے دین پر ثابت نہ رہتا،اور سب مر تد ہوجاتے؛ لیکن وہ لوگ جو شیعوں کے ضعیف دلوں کی رہبری اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے حفاظت کرتے ہیں؛جس طرح کشتی کا ناخدا کشتی پر سوار افراد اور کشتی کے قانون کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا، وہ خدا وند عالم کے نزدیک ،بلند ترین انسان ہیں“(۱)(۱)بحارالانوار، ج۶۷،ص۳۵۱
رسول خدا ہر صدی میں دین کو زندہ کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں : ”خدا وندبزرگ و بر تر امت اسلام کے لئے ہر صدی کے آغاز میں ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ دین کو زندہ رکھے“(۲)
خصوصاً یہ دو روایتیں اوراس طرح کی دیگر روایات، علماء کے کردار کو غیبت کے زمانہ میں با صراحت بیان کرتی ہیں ۔اور شیطانی مکر و فریب کی نابودی ، اوردین کو حیات نو ملنا دانشوروں کا صدقہ سمجھتی ہیں ۔
البتہ اس مطلب کا اثبات اس زمانے میں دلیل و برہان کا طالب نہیں ہے اس لئے کہ امام خمینی ۺ کا کردار دشمنوں کی ناپاک سازشوں کے بے کار بنا نے میں جنھوں نے اس دور میں اساس دین کو خطرہ میں ڈال رکھا تھا ،کسی پر پو شیدہ نہیں ہے۔
بے شک جو آج اسلام کو عزت و سر بلندی ملی ہے وہ ایران کے اسلامی انقلاب اور اس کے بانی امام خمینی ۺ کی برکت سے ہے ۔
ج)شہر قم کا آخر زمانہ میں کردار
اس زمانے میں انسانی جب کہ سماج؛ انحطاط و پستی ،تباہی اوربربادی کی طرف گامزن
(۱)تفسیر امام حسن علیہ السلام :ص۳۴۴؛احتجاج ،ج۲ ،ص۲۶۰؛منیة المرید،ص۳۵؛ محجة البیضاء، ج۱، ص۳۲؛حلیة الابرار، ج۲، ص۵ ۴۵؛بحار الانوار، ج۲، ص۶؛العوالم ،ج۳، ص۲۹۵
(۲)عن النبی :”ان اللّٰہ تعالیٰ یبعث لھذہ الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لھا دینھا “ ابی داوٴدسنن، ج۴ ،ص۱۰۹؛حاکم مستدرک ،ج۴ ،ص۵۲۲؛تاریخ بغداد، ج۲، ص۶۱؛جامع الاصول، ج۱۲، ص۶۳؛کنزل العما ل، ج۱۲، ص۱۹۳اوراس روایت کا مدرک جہاں تک میں نے کوشش کی شیعہ کی کسی کتاب میں نہیں پایاہوگا ،توامید کیجھلک ظاہر ہوگی اور نور کے پر چم دار اس تاریکی کے دل میں جگہ بنالیں گے آخر زمانہ میں شہر قم اس ذمہ داری کو نبھائے گا ۔
روایات بہت ہیں جو اس مقدس شہر اور لائق افراد جومکتب اہل بیت(علیہم السلام) کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب ہوئے اور پیام رسانی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں ،کی ستائش کرتی ہیں ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کی مختلف تقریر یں ہیں جو قم اورثقافتی انقلاب سے متعلق عصر غیبت میں پائی جاتی ہے ہیںجن میں سے آیندہ۔
قم اہل بیت علیہم السلام کا حرم
بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ قم اور اہل قم ولایت اور شیعت کے لئے نمونہ اور اس کا راز و رمز ہیں اس لئے، جسے چاہا کہ دوستدار اہل بیت اور ان کے چاہنے والے کا خطاب دیں ،تو قمی سے خطاب کیا۔
ایک گروہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں مشرف ہوا اور اس نے کہا : ہم رے کے رہنے والے ہیں، حضرت نے فرمایا: ”ہمارے قمی بھائیوں کو مبارک ہو“ان لوگوں نے چند بار تکرار کی، کہ ہم اہل رے ہیں اور رے سے آئے ہیں لیکن حضرت نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی اس وقت کہا: خداوندعالم کا حرم مکہ ہے رسول خدا کا حرم مدینہ اور کوفہ امیر الموٴ منین کا حرم ہے اور ہم اہل بیت کا حرم شہر قم ہے، عنقریب میرے فرزندوں میں فاطمہ نامی بیٹی وہاں دفن ہوگی، جو بھی اس کی (معرفت کے ساتھ) زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوگی ۔
راوی کہتا ہے :امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے یہ بات اس وقت کہی جب امام کاظم (علیہ السلام) ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔(۱)
(۱)بحار الانوار، ج۶۰،ص۲۱۷
صفوان کہتے ہیں : ایک دن میں ابو الحسن ۔امام کاظم (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ قمیوں اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے ان کے لگاوٴ کی بات نکل گئی؛ تو امام ہفتم (علیہ السلام) نے فرمایا :
”خداوندسبحان ان پر رحمت نازل کرے، اور ان سے راضی رہے اس کے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اس کا ایک دروازہ قم والوں کے لئے ہے، ملکوں اور شہروں کے درمیان و ہ لوگ ( اہل قم) نیک اور بر گزیدہ افراد میں ہمارے شیعہ ہیں خداوندعالم نے ہماری ولایت اور دوستی ان کی طینت اورسرشت سے ملا دی ہے “(۱)
اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے شہر قم کو اہل بیت علیہم السلام اورحضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عاشقوں کی مرکزسمجھاہے ،شاید وہ بہشتی دروازہ جو شہر قم سے مخصوص ہے ،باب المجاہدین یا باب الاخیار (نیکوں کا دروازہ)ہو جیسا کہ روایت میں بھی اہل قم کو نیکو کار شیعوں سے یاد کیا گیا ہے ۔
شہر قم دوسرے افراد پر حجت ہے
خدا وند عالم کے ہر زمانے میں ایسے افرا د پائے جاتے ہیں جو دوسروں پر حجت ودلیل ہوں،اور جب وہ لوگ راہ خدا میں قدم اٹھاتے ہیں، اور کلمة اللہ کی بلندی کے لئے مبارزہ کرتے ہیں، تو خدا وندعالم ان کا ناصر و مدد گار ہوتاہے اور ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتاہےغیبت کے زمانے میں شہر قم اور اس کے باشندے دوسروں پر حجت ہیں
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مشکلات و گرفتاریاں قم اور اس کے باشندوں سے دور ہیں، اورایک دن آئے گا کہ قم کے باشندے تمام لوگوں پر حجت ہوں گے، اوریہ زمانہ
(۱)وہی ص۲۱۶
ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی غیبت اور ظہور کازمانہ ہوگا اگر ایسا نہ ہو، تو زمین اپنے باشندہ کو نگل جائے گی یقینا فرشتے بلاوٴں کو قم و اہل قم سے دور رکھتے، اور کوئی ستمگر قم کا ارادہ نہیں کرتا، مگر یہ کہ خداوند عالم اس کی کمر توڑ دیتا ہے ،اور اسے درد و الم ، یا دشمنوں سے گرفتار کر دیتا ہے، خدا وند عالم قم اور اہل قم کا نام ستمگروں کے حافظہ سے اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ہے “
قم؛اسلامی تہذیب و ثقافت کے نشر کا مر کز
روایات میں گذشتہ باتوں کے علاوہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ غیبت کے دوران شہر قم اسلامی پیغام رسانی کا مر کز بنے گا ،اور یہاں سے زمین کے کمزور طبقوں کے کانوں تک اسلام کی بات پہنچے گی، نیز وہاں کے علماء دین اور دانشور حضرات دنیا پر حجت قرار پائیں گے۔
امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :“عنقریب شہر کوفہ مومنین سے خالی ہو جائے گا، اور علم و دانش وہاں سے رخصت ہو جائے گا، اور سانپ کے مانند جو اپنی بل میں محدود رہتا ہے، محدود ہو جائے گا ،اور شہر قم سے ظاہر ہوگا پھر وہ جگہ علم و دانش اور فضل و کمال کامرکز بن جائے گی، اس درجہ کہ روئے زمین پر کوئی فکری اعتبار سے کمزور باقی نہیں بچے گا جو دین کے بارے میں جانتا نہ ہو، حدیہ ہے کہ پر دہ نشین خواتین بھی ،اورایسا ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے نزدیک زمانہ میں ہوگا۔
خدا وندعالم قم اور اہل قم کو حضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا جانشین قرار دے گا ،اگر ایسا نہ ہوا تو زمین اپنے رہنے والوں کو نگل جائے گی اور روئے زمین پر کوئی حجت نہیں رہ جائے گی لہٰذا شرق و غرب عالم میں قم سے علم و دانش کی اشاعت ہوگی ،اور عالم پر حجت تمام ہوگی ،اس طرح سے کہ کوئی ایسا نہیں باقی بچے گا جو علم و دانش سے محروم ہو،اوراس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، اور کافروں پر خدا کا عذاب ان کے ذریعہ نازل ہوگا؛ اس لئے کہ خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس وقت تک انتقام نہیں لیتا ،جب تک کہ ان پر حجت نہ تمام ہوئی ہو“(۱)
دوسری روایت میں اس طرح آیاہے : ”اگر قم کے رہنے والے نہ ہوتے تو دین مٹ چکا ہوتا “(۲)
قم کی فکری روش کی تائید
بعض روایات سے استفادہ ہوتاہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے علماء قم کی تائید کی ہے ۔
چنانچہ امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”قم کی بلندی پر ایک فرشتہ ہے جو اپنے دونوں پروں کو ہلاتا رہتا ہے ،اور کوئی ظالم سوء ارادہ نہیں کرپاتا ؛مگر اسے خدا وند عالم نمک کی طرح پانی میں گھلا دیتا ہے۔
پھر اس وقت حضرت نے عیسیٰ بن عبدا للہ قمی کی طرف اشارہ کرکے کہا: قم پر خداو ندعالم کا درود ہو،خدا وند عالم ان کی سر زمین کو بارش سے سیراب کرے گا، اور ان پر اپنی بر کتیں نازل کرے گا، اورگناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا ،وہ لوگ رکوع ، سجود،قیام اور قعود والے ہیں؛ جس طرح وہ لوگ فقیہ ، دانشمند،اور صاحب درک و فہم ہیں، وہ لوگ اہل درایت و روایت ،اور نیک اور عبادت گذار وں کی بصیرت رکھنے والے ہیں “
اس طرح امام (علیہ السلام) نے اس شخص کے جواب میں جس نے کہا :میں چاہتا ہوں آپ سے وہ سوال کروں کہ مجھ سے پہلے کسی نے نہ پوچھا ہو ،اور نہ میرے بعد پوچھے گا ،کہتے ہیں : شاید تم حشر و نشر سے متعلق سوال کرنا چاہتے ہو ؟“اس نے کہا:ہاں ،اس ذات کی قسم جس نے
(۱)وہی،، ص۲۱۳
(۲)وہی ،ج،۶۰،ص۲۱۳؛سفینة البحار، ج۷، ص۳۵۶
محمدکو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ،حضرت نے کہا: تمام افراد کا حشر بیت المقدس کی سمت ہے؛سرزمین جبل کہ ٹکڑے کی موت جسے قم کہتے ہیں بخشش الٰہی ان کے شامل حال ہے اس شخص نے اونگھتی ہوئی حالت میں کہا : اے فرزند رسول !کیا یہ قم والوں سے مخصوص ہے؟ امام (علیہ السلام) نے جواب دیا: ”ہاں؛وہ لوگ بلکہ ہر وہ شخص جو ان کے عقیدہ پر ہو اور ان کی بات کہے“(۱)
حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انصار
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ روایا ت میں قم والوں اور ان افراد کے جو اہل بیت (علیہم السلام) کا حق لینے کے لئے قیام کریں گے اسماء مذکور ہیں۔
عفان بصری کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا:کیا جانتے ہو کہ قم کو قم کیوں کہتے ہیں ؟تو میں نے کہا : خداوندعالم اس کا رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ،آپ نے کہا: قم کو اس لئے اس نام سے یا د کرتے ہیں کہ اس کے رہنے والے قائم آل محمد کے ارد گرد جمع ہوں گے، اور حضرت کے ساتھ قیام کریں گے، اور اس راہ میں ثبات قدم اور پایداری کا ثبوت پیش کریں گے، اور آپ کی مدد کریں گے“(۲)
صادق آل محمد (علیہ السلام) ایک دوسری روایت میں اس طرح فرماتے ہیں:”قم کی مٹی، مقدس و پاکیزہ ہے، اور قم والے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم برائی کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کواس سے پہلے سزامل جائے ،البتہ یہ اس وقت تک ہے جب اپنے بھائی سے نہ کریں اور اگر ایسا کیا تو، خدا وند عالم ،بد کردارستمگروں کو ان پر مسلط کر دے گا،لیکن قم والے ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار اور ہمارے حق کی دعوت دینے والے ہیں ۔ اس وقت امام علیہ السلا م
(۱)۲و۳ بحار الانوار، ج۶۰، ص۲۱۷
(۲)وہی ،ص۲۱۸
نے آسمان کی جانب سر اٹھا یا اور اس طرح دعا کی : خدا وند! انھیں ہر فتنے سے محفوظ رکھ اور ہر ہلاکت و تباہی سے نجات عطا کر“(۱)
ایران،امام زمانہ کا ملک ہے
جو روایات شہر قم کے بارے میں بیان کی گئی ہیں وہ ایک حد تک ظہور سے قبل اور ظہور کے وقت ایرانیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں،لیکن معصومین( علیہم السلام) کی تقریروں میں تھوڑا غور کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچیں گے کہ انھوں نے، ایرانیوں اور ایران کی طرف خاص توجہ رکھی ہے، اور مختلف مواقع پر دین کی مدد اور ظہور کے لئے مقدمہ چینی کے بارے میں اور بھی تقریریں کی ہیں یہاں پر چند ایسی روایات پر جو ایرانیوں اور ظہور کے سلسلے میںمقدمہ بنانے والوں کی عظمت بیان کرتی ہیں اکتفاء کرتے ہیں :
ایرانیوں کی عظمت
ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا کی خدمت میں فارس، کی بات چلی تو آنحضرت نے کہا:”اہل فارس( ایرانی)بعض ہم اہل بیت سے ہیں“(۲)جس وقت رسول خدا کی خدمت میں غیر عرب(۳) یا موالی (چاہنے والوں)کی بات چلی تو آنحضرت نے فرمایا :خدا کی قسم میں ان پر تم سے زیادہ اعتماد و اطمینان رکھتا ہوں“ (۴ )ممکن ہے یہ چیز اہل فارس سے مخصوص نہ ہو بلکہ عام ہو۔
(۱)وہی ،ص۲۱۶
(۲)وہی ،ص۲۱۸
(۳)ذکر اصفہان ،ص۱۱
(۴)موالی ومولی کا لغت میں مختلف استعمال ہے علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں ۲۲معنی ذکر کیا ہے لیکن حدیث و آیت کی اصطلاح میں پانچ معنی ذکر ہوئے ہیں:ولاء عتق،ولاء اسلام،ولاء حلف،ولاء قبیلہ،ولاء عرب کے مقابل لیکن اس سے مراد غیر عرب ہیں اور غالباً یہی معنی علماء رجال کی مراد ہے
ابن عباس کہتے ہیں جس گھڑی سیاہ پر چم تمہاری سمت بڑھ رہے ہوں فارسوں کا احترام کرواس لئے کہ تمہاری حکومت ان کی بدولت ہے“(۱)
ایک روز اشعث نے حضرت علی!(علیہ السلام) سے اعتراض کرتے ہوئے کہا: اے امیرالموٴ منین یہ (گونگے )کیوں تمہارے ارد گرد آئے ہوئے ہیں اور ہم پر سبقت کرتے ہیں۔ ؟ حضرت غصہ ہوئے اور جواب دیا-:کون مجھے معذور قرار دے گا کہ ایسے قوی ہیکل اور بے خیر کہ ان میں سے ہر ایک لمبے کان لئے اپنے بستر پر لوٹتا ہو، اور فخر و مباحات کرتے ہوئے ایک قوم سے رو گرداں ہو؛تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اُن سے دور ہو جاوٴں ؟کبھی میں ان سے دور نہیں ہوں گا۔(۲) جب تک کہ وہ جاہل کی صف میں شامل نہ ہو جائیں ،اس خدا کی قسم جس نے دانے اُگائے اور مخلوقات کو خلق کیا وہ لوگ ایسے ہیں جو تمہیں دین اسلام کی طرف لوٹانے کے لئے تم سے مبارزہ کریں گے؟ جس طرح تم اسلام لانے کے لئے ان کے درمیان تلوار چلاتے ہو۔“(۳)
ظہور کی راہ ہموار کرنے والے
قابل اہمیت حصہ جو روایات میں ظہور سے پہلے کے واقعات اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار کے بارے میں آیا ہے وہ ایران اور ایرانیوں کے بارے میں مختلف تعبیر کے ساتھ جیسے اہل فارس ۔عجم، اہل خراسان ،اہل قم،اہل طالقان،اہل رے۔وبیان کیا گیا ہے ۔
تمام روایات کی تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملک ایران میں ظہور سے پہلے الٰہی حکومت جو ائمہ( علیہم السلام) کی دفاع کرنے والی اور امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی
(۱)ذکر اصفہان ،ص۱۲؛ملاحظہ ہو:الجامع الصحیح، ج۵، ص۳۸۲
(۲)رموز الاحادیث ،ص۳۳
(۳)مستدرک الوسائل ،ج،۱۳،ص،۲۵۰،حدیث۴
عنایت کا مرکز ہوگی قائم ہوگی، نیز ایرانی ،حضرت کے قیام میں بہت بڑا کردار ادا کریں گے چنانچہ قیام کی بحث میں ذکر کریں گے ،یہاں پر صرف چند روایت پر اکتفاء کرتے ہیں :
رسول خدا فرماتے ہیں :”ایک شخص سر زمین مشرق سے قیام کرے گا، اور حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔“(۱)
نیز فرماتے ہیں :ایسے سیاہ پر چم مشرق کی طرف سے آئیں گے جن کے دل فولادی ہوں گے ،لہٰذا جو بھی ان کی تحریک سے آگاہ ہو ان کی طرف جائے اور بیعت کرے خواہ انھیں برف پر چلنا پڑے“(۲)
امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں ایک ایسی قوم کو دیکھ رہا ہوں جس نے مشرق میں قیام کر دیا ہے، اور حق کے طالب ہیں؛لیکن انھیں حق نہیں دیا جا رہا ہے، دو بارہ طلب کرتے ہیں پھر بھی ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا ہے، ایسی صورت میں تلواریں نیام سے باہر نکالے شانوں پر رکھے ہوئے ہیں، اس وقت دشمن ان کی مرادوں کو پورا کررہا ہے ،لیکن وہ لوگ قبول نہیں کر رہے، اور قیام کئے ہیں، اور حق صاحب حق ہی کو دیں گے، ان کے مقتولین شہید ہیں ،اور اگر ہم نے انھیں درک کر لیا تو میں خودکو اس صاحب امر کے لئے آمادہ کروں گا “(۳)
امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ر ۳۱۳ / اولاد عجم ہیں “(۴)
(۱)الغارات، ج۲۴،ص۴۹۸؛سفینة البحار، ج۸،ص۶۰۹؛ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،ج۲۰، ص۲۸۴
(۲)ابن ماجہ ،سنن ،ج ۲،ص۱۳۶۸؛المعجم الاوسط ،ج۱ ،ص۲۰۰؛مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۸؛کشف الغمہ ،ج۳، ص۲۶۸؛ اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۹۹؛بحار الانوار ،ج۵۱ ،ص۸۷
(۳)عقد الدرر، ص۱۲۹؛شافعی ،بیان، ص۴۹۰؛ینابیع المودة ،ص۴۹۱ ؛کشف الغمہ، ج۳، ص۲۶۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۹۶؛بحار الانوار، ج۵۱، ص۸۴
(۴)نعمانی ،غیبة، ص۳۷۳ ؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۳؛ابن ماجہ، سنن ،ج۲ ،ص۱۳۶۶؛حاکم مستدرک ،ج۴، ص۴۶۴
اگر چہ عجم کا اطلاق غیر عرب پر ہوتا ہے لیکن قطعی طور پر ایرانیوں کو بھی شامل ہے ،اور دیگر روایات پر توجہ کرنے سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی مخصوص فوج کی تعداد زیادہ تر ایرانیوں پر مشتمل ہے۔
رسول خدا فرماتے ہیں : عنقریب تمہارے بعد ایک قو م آئے گی جسے طی الارض کی صلاحیت ہوگی، اور دنیاوی دروازہ ان پر کھلے ہوں گے، نیزان کی خدمت ایرانی مرد اور عورت کریں گی، زمین ان کے قدموں میں سمٹ جائے گی ،اس طرح سے کہ ان میں سے ہرایک شرق و غرب کی فاصلہ کے باوجود ایک گھنٹہ میں مسافت طے کر لے گا، نہ انھوں نے خود کو دنیا سے فروخت کیا ہے، اور نہ ہی وہ دنیادار ہیں“(۱)
حضرت امیر الموٴ منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : طالقان والوں کو مبارک ہو کہ خداوند عالم کا وہاں ایسا خزانہ ہے جو نہ سونے کا ہے اور نہ چاندی کا بلکہ صاحب ایمان لوگ ہیں، جنھوں نے خدا کو حق کے ساتھ پہچانا ہے ،اور وہی لوگ آخر زمانہ میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ر میں سے ہوں گے “(۲)
رسول خدا بھی خراسان کے بارے میں فرماتے ہیں:”خراسان میں خزانے ہیں لیکن نہ وہ چاندی ہے اور نہ سونا ،بلکہ ایسے لوگ ہیں جنھیں خدا و رسول دوست رکھتے ہیں۔(۳)
(۱)فردو س الاخبار ،ج۳، ص۴۴۹
(۲)شافعی ،بیان، ص۱۰۶؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۵۰؛کنزل العمال ،ج۱۴ ،ص۵۹۱؛ینابیع المودة ،ص۴۹۱؛کشف الغمہ ،ج۳ ،ص۲۸۶
(۳)کنزل العمال، ج۱۴، ص۵۹۱
source : ttp://www.mahdawiat.com