اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

اہل بیت (علیہم السلام) کی علمی میراث

جس وقت حضرت امام صادق (ع) سے ”جامعہ“کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جن چیزوں کی لوگوں کو ضرورت ہے وہ اس کتاب میں موجود ہے اور کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو اس کتاب میں موجود نہ ہو ،یہاں تک کہ بدن پر خراش تک کی دیت اس میں بیان ہوئی ہے ۔ 

حضرت علی (علیہ السلام) کی کتاب ، اہل بیت کی احادیث کا سرچشمہ تھی اور یہ کتاب ایک کے بعد دوسرے امام کو میراث میں ملتی تھی اور وہ اس سے احادیث کو نقل کرتے تھے اور اس کے ذریعہ سوال کرنے والوں کو استدلال پیش کرتے تھے ۔

سوال : کیا اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث اور علوم سے کوئی چیز یادگار کے طور پر باقی ہے؟

جواب : امام علی (علیہ السلام) کے پاس ایک مخصوص کتاب تھی جس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے املاء فرمایا تھا اور اہل بیت (علیہم السلام) نے اس کو حفظ کیا تھا اور مختلف جگہوں پر اس سے مختلف موضوعات میں احادیث نقل ہوئی ہیں ۔ شیخ حر عاملی نے اپنی حدیث کی کتاب (وسائل الشیعہ) میں اس کتاب سے فقہی ابواب کے مطابق طہارت سے دیات تک احادیث نقل کی ہیں جن کو اس کتاب میں مراجعہ کیا جاسکتا ہے ۔

جس وقت حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے ”جامعہ“کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : جن چیزوں کی لوگوں کو ضرورت ہے وہ اس کتاب میں موجود ہے اور کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جو اس کتاب میں موجود نہ ہو ،یہاں تک کہ بدن پر خراش تک کی دیت اس میں بیان ہوئی ہے ۔ حضرت علی (علیہ السلام) کی کتاب ، اہل بیت کی احادیث کا سرچشمہ تھی اور یہ کتاب ایک کے بعد دوسرے امام کو میراث میں ملتی تھی اور وہ اس سے احادیث کو نقل کرتے تھے اور اس کے ذریعہ سوال کرنے والوں کو استدلال پیش کرتے تھے ۔

امام باقر (علیہ السلام) نے اپنے ایک صحابی ”حمران بن اعین“ سے ایک بڑے کمرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ائے حمران ! اس کمرہ میں ایک نوشتہ ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ کی ہے اور اس کوپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو املاء کیا ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، خدا کی قسم اگر ہمیں حکومت مل جائے تو ہم اس چیز کی بنیاد پرحکم کریں گے جوخداوند عالم نے نازل کیا ہے ۔

دوم : نہج البلاغہ

شیعہ او راہل سنت کے پاس مشہور ترین اور قدیم ترین کتاب نہج البلاغہ ہے ، جس میں امام علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے خطبے، خطوط اور کلمات قصار ہیں ۔ سید رضی (متوفی ۴۰۶) نے اس کو جمع کیا ہے اور چونکہ آپ کے یہ اقوال مشہور تھے اس لئے ان کی اسناد کوحذف کردیا ہے اورصرف متن کو بیان کیا گیا ہے ،بعض علماء نے سید رضی سے نقل شدہ ان اقوال کو تکمیل کیا ہے اوربہت سے خطبوں اور خطوط کو استخراج کیا ہے، بعض علماء نے ان کتابوں سے نہج البلاغہ کی اسناد اور مستندات کو استخراج کیا ہے جو سید رضی سے پہلے تالیف ہوئی ہیں،نہج البلاغہ کے متعلق کہا گیا ہے :یہ کتاب ” فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق“ ہے ۔

سوم : صحیفہ سجادیہ

یہ کتاب صحیفہ سجادیہ یا زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے ،یہ علوم اہل بیت (علیہم السلام) کے جلوے ہیں جو تاریخ کی پیشانی پر چمک رہے ہیں ۔ اس کی سند تواتر کے ساتھ امام (علیہ السلام) تک پہنچتی ہے ،سند کے علاوہ دوسری بات جو قابل غور ہے وہ اس کے الفاظ کی فصاحت و بلاغت اور اس کے بہترین مضامین ہیں ۔ مختلف طرح سے خدا کی حمد وثنااور اس کی عبودیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ خدا وند عالم سے عفوو کرم طلب کرنے کا عجیب طریقہ بیان ہوا ہے جو اس بات پر بہترین گواہ ہے کہ یہ آپ کا کلام ہے ۔ اس کی متعدد اسناد ہیں جن کو موثق راویوں نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں (۲) ۔

چہارم : رسالة الحقوق

امام سجاد (علیہ السلام) کا ایک رسالہ ہے جو ”رسالة الحقوق“ کے نام سے مشہور ہے ، شیخ صدوق نے معتبر سند کے ساتھ اس کو ”خصال“ میں اور حسن بن شعبہ نے ”تحف العقول“ میں نقل کیا ہے اور حقوق کی اقسام میںیہ سب سے اہم رسالہ ہے ، امام سجاد (علیہ السلام) نے اس میں انسان پر خدا کے حقوق، انسان کے حقوق خود انسان پر، اس کے اعضاء جیسے زبان،کان، آنکھ، پیر اور ہاتھ وغیرہ کے حقوق کو بیان کیا ہے ۔ اس کے بعد اعمال کے حقوق جیسے نماز، روزہ، حج، صدقہ اور قربانی کے حقوق کو بیان کیا ہے یہ تقریبا پچاس حقوق ہیں ۔

پنچم : فرایض وسنن میں امام رضا (علیہ السلام) کا رسالہ

محدثین کی روایات کے مطابق مامون نے سہل کو امام رضا (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور کہا : میری خواہش ہے کہ آپ حلال وحرام اور واجبات و مستحبات کے سلسلہ میں ایک جامع کتاب تحریر کریں، کیونکہ آپ لوگوں پر خدا کی حجت ہیں اور علوم و دانش کے سرچشمہ ہیں ۔

امام رضا (علیہ السلام) نے قلم و کاغذ طلب کیا اور فضل سے کہا لکھو:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے لئے خداوند عالم کی شہادت کافی ہے جو کہ بے نیازہے اور اس کا کوئی شریک یا اولاد نہیں ہے ۔

یہ خط اور رسالہ ”تحف العقول“ میں بیان ہوا ہے (۳) ۔

ششم : رسالہ امام ہادی (علیہ السلام)

محدثین نے حضرت امام ہادی علی بن محمد (علیہ السلام) سے اہل جبر و تفویض کے جواب ، عدل کے اثبات اور دو منزلت کے درمیان مفہوم منزلت (جبر و تفویض کے درمیان) کے سلسلہ میں ایک رسالہ روایت کیا ہے ۔ ان محدثین میں سے ایک ابن شعبہ حرانی ہیں (۴) ۔

اس رسالہ کو ائمہ (علیہم السلام) نے تدوین کیا ہے اس کے علاوہ اور دوسرے رسالہ بھی موجود ہیں جن کو ہم اختصار کی وجہ سے یہاں پر بیان نہیں کریں گے لیکن پوری تاریخ میں اہل حدیث نے جو کچھ ان حضرات سے بیان کیا ہے وہ بہت زیادہ ہے ہم ان میں سے بعض کو یہاں پر بیان کریں گے:

ہفتم : چار سو راویوں کی چار سو کتابیں

ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) نے فقہاء و محدثین کے ایک عظیم گروہ کی تربیت کی ہے ،انہوں نے ائمہ (علیہم السلام) سے جو کچھ حاصل کیا اس کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے جو کہ چار سو مصنف کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض کتابیں ابھی بھی اس حالت میں باقی ہیں لیکن اس کا اصلی مواد اور مضامین ، علماء شیعہ کی بعد میں تالیف ہونے والی کتابوں میں منتقل ہوگیا ہے ، جیسے احمد بن محمد بن خالد برقی کی کتاب ”المحاسن “(متوفی ۲۷۴) ۔ محمد بن احمد اشعری قمی کی کتاب ”نوادر الحکمة“ ( ۲۹۳) ۔ احمد بن بزنطی کی ”کتاب الجامع“ (متوفی ۲۲۱) ۔ حسن اور حسین پسران سعید بن حمد اہوازی کی ”کتاب الثلاثین“۔ یہ وہ کتابیں ہیں جو پہلے مرحلہ میں لکھی گئی ہیں ۔ لیکن دوسرے مرحلہ میں جیسے ”الکافی“ کلینی (متوفی ۳۲۹ھ) ، من لایحضرہ الفقیہ ، شیخ صدوق (متوفی ۳۸۱ھ) ، تہذیب و استبصار، شیخ طوسی (متوفی ۴۶۰) ۔ بعد میں جو مجموعہ چھپے ہیں ان میں محمد بن محسن فیض کاشانی کی کتاب ”وافی“ (متوفی ۱۰۹۱) ، حر عاملی کی وسائل الشیعہ (متوفی ۱۱۰۴) ، مرحوم علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار(متوفی ۱۱۱۰) قابل ذکر ہیں ۔

جو بھی ثقلین سے تمسک کرنا چاہتا ہے اس کے پاس قرآن کریم بھی ہے اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی ہے جس کو اہل بیت (علیہم السلام) نے نقل کیا ہے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق اگر اہل بیت ہر طرح کے رجس سے پاک ہیں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم) کی رحلت کے بعد علم کی کان اور قرآن کے کے برابر ہیں (حدیث ثقلین کے مطابق)اور ان کے جو اوصاف وصفات بیان کئے گئے ہیں تو پھر اہل سنت ان کی طرف رجوع کرنے سے کیوں غافل ہیں، اوران کے علوم سے استفادہ کرنے اور کشتی اہل بیت پر سوار ہونے سے پیچھے کیوں ہیں ؟(۵) ۔

1 . مستدرك، حاكم: ج 3، ص 125.

2 . فى رحاب ائمة اهل البيت: ج 3، ص 414.

3 . تحف العقول: ص 306 ـ 311.

4 . همان: ص 338 ـ 352.

5. سيماى عقايد شيعه،ص 237.

 


source : http://www.taghrib.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment