اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

قرآن وسنت میں وحدت کا مقام

١۔وحدت قوموں کی کامیابی کا راز

اس  میں  شک  نہیں ہے کہ قوموں کی کامیابی وکامرانی کا ایک رازان کا آپس میں اتفا ق و اتحاد رہا ہے جس طرح پانی کے قطرات کے متحد ہونے سے بڑے بڑے دریا تشکیل پاتے ہیں اور دریائوں کے مل جانے سے سمندربنتے ہیں اسی طرح انسانوں کے اتحادا ور جمع ہونے سے ایسی صفیں تشکیل پاتی ہیں جن پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر کبھی بھی ان پر چڑھائی کرنے کا تصور تک نہیں کرتا      (( ترھبون بہ عدوّاللّٰہ وعدوّکم ))

ترجمہ تم صف بندی کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمن کو خوفزدہ کرو.( سورہ انفال٦٠    ) 

  قرآن مجید مسلمانوں کو وحدت و اتحاد کے تنہا عامل حبل اللہ سے تمسک کی دعوت اور ہر طرح  کے اختلاف سے بچنے کا حکم دیتا ہے

(( واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرّقوا ))( سورہ آل عمران ١٠٣.)

ترجمہ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میںاختلاف پیدا نہ کرو ۔

  قرآن نے مومنین کو آپس میں بھائی بھائی شمار کیا ہے اور ان سے یہ تقاضا کیاہے کہ ان کے آپس کے روابط وتعلقات دوستانہ اور بھائیوں کے مانند ہونا چا ہئیںا ور پھر چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کی صورت میں بھی صلح کا دستور صادر فرمایا ہے

((انّماالمؤمنون اخوة فاصلحوا بین أخویکم واتّقوااللّہ لعلّکم ترحمون))(  سورہ حجرات ١٠.)

ترجمہ مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے  بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے ۔

 ٢۔اختلاف جاہلیت کی علامت

جنگ بنو مصطلق میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایک انصاری اورمھاجر کے درمیا ن اختلاف ایجاد ہو گیا ،انصاری نے اپنے قبیلہ کو مدد کے لیے پکارا اور مہاجر نے اپنے قبیلہ کو ،جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو فرمایا  ان بری باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اس لیے کہ یہ جاہلیت کاطریقہ ہے جبکہ خدا وند متعال نے مومنین کوایک دوسرے کا بھائی اور ایک گروہ قرار دیا ہے ہرزمان ومکان میں ہر طرح کی فریاد ومدد خواہی فقط اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ ایک گروہ کی خیر خواہی اور دوسرے کو ضرر پہنچانے کی خاطر انجام پائے ۔ اس کے بعد جو بھی جاہلیت کے شعار بلند کرے گا اسے سزادی جائے گی ۔(  سیر ہ نبویہ ٣٣٠٣ غزوہ بنی مصطلق ؛ مجمع البیان ٥٢٩٣؛ رسائل و مقالات ١٤٣١. ) 

٣۔اختلاف بدترین عذاب

خدا وند متعال نے اپنی لاریب کتاب میں اختلاف کو بدترین عذاب شمار کرتے ہوئے فرمای

((  قل ہو القادر علی أن یبعث علیکم عذابا من فوقکم أو من تحت أرجلکم أو یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم بأس بعض)) 

ترجمہکہہ دیجیے کہ وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمھارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرا دے اور ایک کے ذریعہ دوسر ے کوعذاب کا مزہ چکھا دے ۔( سورہ انعام ٦٥.)

 ابن اثیر کہتے ہیں (شیعا )  سے مراد وہی مسلمانوںکے درمیان اختلاف ایجاد کرنا ہے۔

 (النہایہ فی غریب الحدیث ٢٥٢٠. )

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے لوگوں سے رابطہ نہ رکھنے کا حکم فرمایا جوآپس میں اختلاف ایجاد کرتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں

(( انّ الّذین فرّقوا دینہم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء انّما أمرُھم الی اللّہ ثمّ ینبئھم بما کانوا یفعلون))( سورہ انعام ١٦٥.)

ترجمہجن لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف ایجاد کیا اورٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال سے با خبر کرے گا ۔

 خدا وند متعال نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ مشرکوںکے مانند آپس میں اختلاف اور اس پر فخر و مبا حات مت کریں 

 (( ولا تکونوا من المشرکین من الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا  کل حزب بما لدیھم فرحون ))( سورہ روم٣٢.)

ترجمہ  اور خبردار مشرکین میں سے نہ ہو جانا جنھوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہوں میں  بٹ گئے ہیں پھرہر گروہ جو کچھ اس کے پاس ہے اسی پر مست ومگن ہے ۔ 

 ٤۔رسولخدا  ۖکاختلاف اُمت سے پریشان ہونا

امت مسلمہ کے درمیان ہر قسم کا اختلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے پریشانی کا باعث تھا سیوطی اور دیگر مولفین نے نقل کیا ہے کہ شاس بن قیس نامی شخص جو زمانہ جاہلیت کا پرورش یافتہ اور مسلمانوں کے بارے میں حسد و کینہ اس  کے دل میں ٹھا ٹھیں مارتا رہتا تھا اس نے ایک یہودی جوان کوتیار کیا تاکہ اسلام کے دو بڑے قبیلوں اوس وخزرج کے درمیان اختلاف ایجاد کرے ۔ اس یہودی نے دونوں قبیلوںکے افراد کو زمانہ جاہلیت میں ان کے درمیان ہونے والی جنگوں کی یاد دہانی کروا کر ان کے درمیان آتش فتنہ روشن کر دی یہاں تک کہ دونوں قبیلے ننگی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انصار و مہاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ لڑائی کے مقام پر پہنچے اورفرمای

اے مسلمانو!کیا تم نے خدا کوفراموش کر ڈالا اور جاہلیت کے شعاربلندکرنے لگے ہو جبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں ،خداوند متعال نے تمھیں نور اسلام کی طرف ہدایت کرکے مقام عطا کیا ،جاہلیت کے فتنوں کو ختم کرکے تمھیں کفر سے نجات دی اور تمھارے درمیان الفت وبرادری برقرارکی ،کیا تم دوبارہ کفر کی طرف پلٹنا چاہتے ہو ؟

 پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خطاب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ ایک شیطانی سازش ہے اپنے اس عمل پر پشیمان ہوئے ،اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور آنسو بہاتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا کر اظہار محبت کرنے لگے اور پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمراہی میں اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس پلٹ گئے ( تفسیر در المنثور ٢٥٧ ؛ مجمع البیان ٤٣٢؛ فتح القدیر ١٣٦٨؛ تفسیر آلوسی ٤١٤؛ اسد الغابہ  ١١٤٩  .   )

 

 

 


source : http://www.abutalib.in/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تربیت کا اثر
امام کے معصوم ھونے کی کیا ضرورت ھے اور امام کا ...
انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
انبیاء الہی کی حمایت اور ان کی پیروی
امام کي شخصيت اور جذبہ
اسلام میں عورت کا حق وراثت
میلاد النبی ؐ اور ہفتہ وحدت کی اہمیت و افادیت
عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ
لیلۃ الرغائب؛ آرزؤوں کی شب اور دعا و مناجات کی رات
قرآن تمام مشکلوں کا حل

 
user comment