فتح موصلی نامی ایک شخص کہتاہے کہ ہم حاجیوں کے قافلہ کے ساتھ مکہ جارہے تھے ،رفع حاجت (بیت الخلائ)کے لئے قافلہ سے دور ہوگیا ،ایک لڑکے کودیکھا کہ وہ مکہ کی جانب جارہاتھا!میں نے دل میں کہا:سبحان اللہ!خشک جنگل و بیابان اور یک و تنہا ایک لڑکا؟!میں قریب گیا اور سلام کیا،اس نے جواب دیا،میں نے کہا:کہاں جارہے ہو؟اس نے کہا:میری منزل میرا پروردگار ہے !میں نے کہا:میرے پیارے تم بچے ہو اور مکلف نہیں ہو.اس نے کہا:اے شیخ مجھ سے چھوٹے کتنے لوگ دنیا سے چلے گئے ہیں۔
میں نے کہا:تمھارا زاد راہ اور سواری کہاں ہے؟اس نے کہا:میرازاد راہ تقویٰ اور میری سواری میرے پیر ہیں اورمیری منزل میرا مولاہے ۔
میں نے کہا:میں تمھارے ساتھ کھانا وغیرہ نہیں دیکھ رہاہوں؟اس نے کہا:کیا یہ مناسب ہے کہ کوئی شخص تم کو اپنے گھر دعوت دے اورتم اپنے ساتھ کھانا لے کر جاؤ؟میں نے کہا:نہیں ،اس نے کہا:جس نے اپنے گھر مجھے بلایا ہے وہ مجھے کھانا وغیرہ دے گا!
میں نے کہا:جلدی کرو تاکہ اپنے قافلہ کے ساتھ ہوجاؤ،اس نے کہا:میرا فریضہ کوشش اورصبر ہے اور پہونچانا اس کی ذمہ داری ہے ،کیا تم نے خداوند عالم کے اس کلام کو سنا ہے :''والّذین جاھدوا فینالنھدینّھم سبلنا و اِنّ اللّٰہ لمع المحسنین''١
اسی اثنا ء میں ایک خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہوئے آیا اور اس سے سلام اور معانقہ کیا،میں نے اس جوان کوقسم دی اور کہااس خدا کے حق کی قسم کہ جس نے ایسی خوبصورتی تمھیں عطا کی ہے،یہ لڑکا کون ہے؟اس نے کہا:کیا تم اسے نہیں پہچانتے ہو؟وہ علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔
اس وقت میں نے اس لڑکے (حضرت امام سجاد ـ)سے کہا:میں تمھارے آباواجداد کے احترام میں قسم دیتاہوں یہ بتاؤ کہ یہ جوان کون ہے؟فرمایا:کیا تم اسے نہیں پہچانتے ہو ؟وہ میرے بھائی خضر ہیں اور روزانہ میری ملاقات کے لئے آتے ہیں ٢۔
حوالہ:
١۔سورۂ عنکبوت ،٦٩۔
٢۔مناقب آل ابی طالب،ج ٣،ص ١٢٨٠؛مدینة المعاجز ،ج ٤ ،ص ٣٧٧۔
source : http://rizvia.net/