بہ ظا ھر قر آ ن کر یم میں یہ بات صاف طور پر بیان نھیں ھو ئی ھے۔ ھم کہہ سکتے ھیں کہ لفظ ”ناس “ (یعنی لوگ )(جو بعض آیات میں آیا ھے جیسے ”ھدیً لِلنّاسِ “،”کَا فَّةً للنَّا سِ“اور ”بَلَا غٌ للنَّا سِ“بہ ظا ھر انسانو ں کے گروہ سے تعلق رکھتا ھے اور جنو ں کو شا مل نھیں ھے ۔ البتہ سو رئہ ”نا س “ کی آ خری آ یتوں میں یہ احتمال پا یا جا تا ھے کہ ممکن ھے ”ناس “میں جنو ں کو بھی شا مل رکھا گیا ھو۔ قر آن میں ارشاد ھو تا ھے :
<مِنْ شَرِّ الْوَ سْوَا سِ الْخَنَّاس.اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّا سِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنََا سِ>[1]
”اند ر سے وسوسہ کر نے وا لے کے شر سے پنا ہ ما نگتا ھو ں جو لو گو ں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تا ھے ۔وہ (وسو سہ پیدا کر نے والا )جنات میں سے ھو یا انسا نو ں میں سے “
عبا رت ”مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّا سِ “میں حرف ”مِنْ “ منِ بیانیہ ھے ۔ اس عبارت میںدو احتمال پا ئے جا تے ھیں : ایک تو یہ کہ اس میں ”خنّا س “کی وضا حت کی گئی ھے ۔ دو سرے یہ کہ اس ”ناس “ کے ذریعہ ”فی صدور النّا س “ کی وضا حت کی گئی ھو ۔ چنا نچہ دوسری صورت میں آیات کے معنی یہ ھو ں گے ”لو گو ں کے دلو ں میں“ یعنی ”جنا ت اور انسانو ں کے دلوں میں “۔ البتہ حق یہ ھے کہ دو سرا احتمال بہت ضغیف ھے اور لفظ ”ناس “کا ظا ھری طو ر پر انسان سے مخصوص ھو نا نظر انداز نھیں کیا جا سکتا لیکن دو سرے احتمال کو صرف احتمال کی حد تک رد نھیں کیا جا سکتا ۔
بھر حال جن آیات میں لفظ ” ناس “استعمال ھو ا ھے وہ صاف طور پر دلالت کر تی ھیں کہ جنا ت اسلام کی دعو ت میں شا مل نھیں تھے ۔لیکن جن آیات میں لفظ ”عا لمین “استعمال ھو ا ھے ان سے یہ مطلب نکا لا جا سکتا ھے ۔اس لئے کہ ”عا لمین “ھو ش و خرد رکھنے وا لے تما م عا قلو ں کو شا مل ھے اور اس اعتبار سے اس میں جنا ت کی جما عت بھی شا مل ھے ۔
ان آیات کے علا وہ بعض روا یات میں بھی آیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) ”ثقلین “ کی جا نب مبعوث کئے گئے ھیں [2]سوره احقاف کی آیت بھی اسی مفھو م کی تا ئید کرتی ھیں ارشاد ھو تا ھے :
<وَاِذْ صَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَراً مِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْ آنَ۔۔۔>[3]
”اور جب (قوم ) جن سے کچھ افراد آپ کے پاس بھیجے کہ قر آن کو سنیں ۔۔۔“
اس آیت کو اپنا مد عا ثابت کر نے اور اس پر دلیل لا نے کے لئے میں نے اس لئے نھیں پیش کیا کہ معلوم ھے آیت میں اس بات کی کو ئی تصر یح نھیں کی گئی ھے کہ پیغمبر اکر م (ص)نے جنو ں کو اپنا پیغام سنا نے کے لئے دعو ت دی ھو بلکہ ممکن ھے خدا وند عالم نے خود کو ئی سبیل نکا لی ھو کہ جنو ں کا ایک دوسری بات یہ کہ حتی اگر ھم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جن پیغمبر اسلام (ص)کی دعو ت کے مخا طب نھیں تھے اور آپ کی تبلیغ انسا نو ں سے مخصو ص تھی تو گز شتہ مطالب کی بنیاد پر جنو ں کا فر یضہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص)کی آ گا ھی کے بعد اس کو قبو ل کر ے اور اس پر ایمان لا ئے ۔
ظھو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ھو نا
قر آن کر یم کی بعض آیات سے گما ن ھو تا ھے کہ ان آیات کے مطابق پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مبعوث ھو نے کے بعدبھی دو سرے ادیا ن کی قا نونی حیثیت باقی ھے ۔
گذ شتہ بحثو ں سے یہ وا ضح ھے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نھیں ھے اور ظھو ر اسلام کے بعد اسلام سے با خبر ھو نے وا لے ھر با لغ و عا قل پر اسلام قبو ل کر نا اور مسلما نوں کی صف میں شا مل ھو نا وا جب ھے ۔
اسی طرح قر آن میں ایسی آیات مو جو د ھیں جن میں اھل کتا ب کے بعض گرو ہ کی تعر یف کی گئی ھے ۔
نمو نہ کے طور پر ھم سوره آل ِعمران میں پڑھتے ھیں :
<لَیْسُوٌاسَوَاءً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰا بِ اُمَّةً قَا ئِمَةً یَتْلُوْ نَ اٰیٰا تِ اللهِ آنٰا ءَ اللَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ >[4]
”یہ لوگ بھی سب ایک جیسے نھیں ھیں ۔(بلکہ) اھلِ کتاب میں کچھ لوگ درست کر دا ر بھی ھیں جو راتو ں کو اُ ٹھکر خدا کی آیتیں پڑ ھا کر تے اور سجدے کیا کر تے ھیں “
اس آیت میں بعض اھل کتاب کی تعر یف سے ممکن ھے یہ گمان پیدا ھو کہ دین اسلام کے ساتھ ھی قر آن نے ان کی بھی تا ئید کی ھے اور ان کے دین کی قا نو نی حیثیت کو قبول کیا ھے ۔ لیکن یہ خیال غلط ھے اس لئے کہ اس آیت کا مطلب دو حال سے خا رج نھیں ھے :
پھلا احتمال یہ ھے کہ اس آیت میں ان اھل کتاب کو مد نظر نھیں رکھا گیا ھے کہ جنھو ں نے رسول اسلام (ص)کے دور حیات میں دین اسلام قبو ل کر نے سے انکار کیا تھا ۔ بلکہ اس کلیہ کو بیان کیا ھے کہ اھل کتاب کے در میان بھی (چا ھے ما ضی کی بات ھو یا حا ل کی )اچھے اور برے دو نوں طرح کے افراد رھے ھیں ۔ اور ایسا نھیں ھے کہ تمام یھو دی یا عیسا ئی خدا نا شناس انسان رھے ھو ں ۔ اسی بنا پر کھا جا تا ھے کہ تمام اھل کتاب کی تمام زما نوں میں ایک ھی طرح سے مذ مت نھیں کر نا چا ہئے بلکہ ان میں ایک گروہ خدا کی عبا دت اور آیا ت الٰھی کی تلا وت کر نے والا بھی رھا ھے ۔
دوسرا احتمال یہ ھے کہ مند ر جہ بالا آیت ان لو گو ں کے با رے میں ھو کہ جن تک اس وقت دعو ت اسلام نہ پھو نچی ھو یا جن پر الله کی حجت تمام نہ ھو ئی ھو ۔ لہٰذا جب بھی حجت تمام ھو جا ئے تو اھل کتاب کے اچھے افراد بغیر کسی شک و شبہہ کے اسلام قبول کر لیں گے ۔سوره مبا رکہٴ ما ئدہ میں نصٰا ریٰ کے ایک گروہ کی اس طرح صفت بیا ن کی گئی ھے :
<وَ اِذَا سَمِعُوْا مَا اُنْزِ لَ اِلیٰ الرَّسُوْ لِ تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ۔۔۔>[5]
”اور جب یہ لوگ اس (قرآن)کو سنتے ھیں جو ھما رے رسول پر نا زل کیا گیا ھے تو دیکھو کس طرح حقیقت سے آشنا ھو جا نے کے سبب انکی آنکھو ں سے بیسا ختہ آنسو جا ری ھو جا تے ھیں “
یہ گرو ہ ان ھی لو گو ں کا ھے جو حجت تمام ھو نے سے پھلے اھل عبا دت و دعا تھے :
<اُ مَّةً قَا ئِمَةً یَتْلُوْنَ آیٰا تِ اللهِ >
”جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ھیں “اور جب وہ قر آن سے آشنا ھو جا تے ھیں تو <تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ ۔۔۔>
” ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ھو جا تے ھیں “
اس بنا پر اھل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ھو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رھے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نھیں کھا جا ئے گا ۔
[1]سوره ناس آیت/ ۴۔۶۔
[2]ملا حظہ فر ما ئیے: بحا ر الا نوار جلد ۶۳ صفحہ ۲۹۷ ،حد یث نمبر ۴ ۔ اور جلد ۱۰۲ صفحہ ۱۰۵ حدیث ۱۳) گروہ آئے اور پیغمبر اکرم (ص)کی با تیں غور سے سنے ۔
[3]سوره احقاف آیت/ ۲۹۔
[4]سو رئہ آل عمران آیت/ ۱۱۳۔
[5]سوره ما ئدہ آیت/ ۸۳)
source : http://www.islamshia-w.com